جہاں میں ڈھونڈنے والے کو کیا نہیں ملتا - عشرت لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(خواجہ محمد الرئوف عشرت لکھنوی)

جہاں میں ڈھونڈنے والے کو کیا نہیں ملتا
مگر ہمیں دلِ بے مُدعا نہیں ملتا

کہاں ہیں وقتِ مصیبت قرار و صبر و شکیب
رفیق کوئی مزاج آشنا نہیں ملتا

بنا رہے ہیں وہ دل میں ہمارے گھر اپنا
کہ اس سے بڑھ کے مکاں دوسرا نہیں ملتا

غرور زندگی مستعار بے جا ہے
کسی کو مرہم زخم قضا نہیں ملتا

فراغ و صحبت احباب و یار و عہد شباب
کہاں گئے کہ کسی کا پتا نہیں ملتا

بشر کو عاقبت کار کا خیال رہے
بغیر نیک عمل کے خدا نہیں ملتا

ہجوم غم سے مرے دل میں کیا خوشی آئے
یہ بھیڑ ہے کہ کہیں راستا نہیں ملتا

تمام کوچہءجاناں کی خاک چھان آئے
کہیں غریب دل مبتلا نہیں ملتا

ہوا ہے، سرد زمانے سے دل یہ اے عشرت
خوشی میں غم میں کسی میں مزا نہیں ملتا
 
Top