کاشفی

محفلین
غزل
(اعجاز صدیقی)
جو گھر بھی ہے، ہم صورتِ مقتل ہے، ذرا چل
کھٹکائیں شہیدوں کے دریچوں کو، ہوا چل

اک دوڑ میں ہر منظر ہستی ہے چلا چل
چلنے کی سکت جتنی ہے، اس سے بھی سِوا چل

ہو مصلحت آمیز کہ نا مصلحت آمیز
جیسا بھی ہو، ہر رنگ تعلق کو نبھا چل

رُکنا ہے، تو اک بھیٹر کو ہمراہ لگا لے
چلنا ہے، تو بے ہم سفر و راہ نما چل

بے معنیء الفاظ بھی الفاظ کا فن ہے!
سمجھے کہ نہ سمجھے کوئی انبار لگا چل!

تعزیرِ تعلق میں بھی ہے لطفِ تعلق
کچھ اور نہیں ہے، تو مرا دل بھی دُکھا چل!

ناخواندگیاں الٹیں گی تاریخ کے اوراق
نام اپنا کسی صفحہء سادہ پہ لکھا چل!!

جذبوں کے در و بام پہ طاری ہے خموشی
ناداریء احساس کی زنجیر ہلا، چل

سوئی ہوئی لگتی ہیں سبھی جاگتی آنکھیں!
اوڑھے ہوئے تو بھی کوئی خوابوں کی رِدا چل!!
 
Top