ہمیں آپ کی بات سے اتفاق ہے۔
تاہم اس بابت ہم یہی کہنا چاہیں گے کہ جس فینامینا کا آپ نے ذکر کیا ہے، میں اس کو کیٹیگرائزیشن نہیں مانتا۔
اس کو استحصال کہہ کیں، ٹیگنگ کہہ کیں یا ڈسکریمینیشن/تعصب کہہ لیں۔ بقول شاعر
تم اس کا رکھ لو کوئی اور نام موزوں سا
اب یہ دیکھنا ہو گا کہ ڈسکریمینیشن یا ٹیگنگ کب سامنے آتی ہے۔ ہماری نظر میں جب دلیل ختم یا کمزور ہو جائے تو پھر ڈسکریمینیشن یا تعصب کو سامنے لایا جاتا ہے۔
مثال یوں جانیں کہ جب میرے پاس دلیل نہیں ہو گی تو میں کہنا شروع کر دوں کہ یہ سندھی ہوتے ہی ایسے ہیں، یہ تو عورتوں کا شیوہ ہے، کر دی نا پٹھانوں والی بات۔
یہ وہ ڈسکریمینیشن ہے جو خدا نے بھی نہ کی یا کرائی، اور یہاں انسانوں نے شروع کر دی۔
اور جینڈر کی ٹیگنگ ہو یا ذات پات، علاقے کا تعصب۔ ان سب کا مقصد (ہر لیول پہ) استحصال کے سوا کچھ نہیں۔ ہر قوم، ملک یا معاشرے کا بالادست طبقہ ایسے استحصالات کے لئے tools استعمال کرتا ہے، جن میں سرِ فہرست مذہب ہے۔ (یہی ہمارا مذہب کے غلط استعمل یا غلط تشریح سے اختلاف کی وجہ ہے، کیونکہ میں ایسی کسی تفریق پہ یقین نہیں رکھتا، نہ مرد و زن اور نہ ریسزم).
پھر ایک حالیہ مثال یاد آ رہی ہے۔
کوئی بارہ سال قبل
سعودی عرب کے مفتی صاحب نے فتوہ نما کچھ بیان جاری کیا کہ خواتین کو ڈرائیونگ اس لئے نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس سے ان کو جسمانی نقصان وغیرہ ہو سکتا ہے (تفصیل
لنک سے دیکھ لیں)۔ اور چند سال بعد ایم بی ایس آئے اور مملکت کو نئی جہت پہ چلانا مقصود تھا (جو کہ احسن اقدام ہے) تو چشمِ فلک حیران ہے کہ چھ سات سالوں میں خواتین کی ایسی ایوولوشن ہو گئی کہ ان کو ڈرائیونگ سے ہونے والا جسمانی نقصان سرے سےختم ہی ہو گیا۔
اس پہ ڈارون تو کیا، لیمارک بھی حیران کن کی ریٹنگ دیتے کہ اس سپیڈ سے تو ریوولوشن نہیں بنتا، جس سے انہوں نے ایوولوشن بنا دیا۔
اس سب الم غلم سے یہ عرض کرنا مقصود تھا کہ کیٹیگرائزیشن کا اس سب گھسی پٹی چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیٹیگرائزیشن تو علوم و سائنس و فنون کا جزوِ لازم ہے کہ دنیا کی کوئی چیز میتھمیٹکل ماڈلنگ کے بغیر ترقی نہیں پا سکتی، حتیٰ کہ شاعری، موسیقی اور مصوری بھی، اور کیٹیگرائزیشن کے بغیر کیا میتھ تو کیا ماڈلنگ۔