جنگل میں دھنک - منیر نیازی

الف عین

لائبریرین
مذہبی کہانیوں کا درخت

درخت مستی میں جھومتا ہے
اسے نہ ھیڑو اسے نہ چھیڑو
اسے بس اپنے اکیلے پن میں
اُداس رہنے دو، جھومنے دو
ہمیشہ اک جیسے رات دن کے
اُجاڑ مدفن میں گھومنے دو

کبھی نہ اس کے قریب جانا
کہ اس کا پھل موت ہے ہمیشہ
اسے بس اپنے اکیلے پن میں
اُداس رہنے دو،جھومنے دو
ہمیشہ اک جیسے رات دن کے
اُجاڑ مدفن میں گھومنے دو
 

الف عین

لائبریرین
وجود کی حقیقت

جلتا ہے بدن سارا، بھڑکا ہےب لہو میرا
لبریز ہے شعلوں کی سُرخی سے سبو تیرا

اک سانپ مرے تن سے لپٹا ہے محبّت سے
مجبور ہے لیکن وہ زہریلی طبیعت سے

پھنکار کے ہونتوں پر دستا ہے وہ جب مجھ کو
لگتا ہے عجب اس کی آنکھوں کا غضب مجھ کو
اور زہر دکھاتا ہے اک خوابِ طرب مجھ کو

آتی ہے سزا بن کے یاد اپنی حقیقت کی
خواہش کے جہنّم میں اک چیخ مسرّت کی
 

عمر سیف

محفلین
جنگل میں دھنک۔ غزلیات

ڈوبا نڈھال سورج، تاروں کا باغ چمکا
پیڑوں کی چوٹیوں پر مہ کا چراغ چمکا

گزرے دنوں کی لَو سے میرا دماغ چمکا
گم گشتہ عشرتوں کی رہ کا سراغ چمکا

جاگی ہر اِک گلی میں عطرِ حنا کی خوشبو
اِس نکہتِ رواں میں ہر دل کا داغ چمکا

بہنے لگی ہے دنی اِک سُرخ رنگ مَے کی
اِک شوخ کے لبوں کا لعلیں ایاغ چمکا
 

عمر سیف

محفلین
وقت سے کہیو ذرا کم کم چلے
کون یاد آیا ہے آنسو تھم چلے

دم بخود کیوں ہے خزاں کی سلطنت
کوئی جھونکا، کوئی موجِ غم چلے

چار سُو باجیں پلوں کی پائلیں
اس طرح رقاصہِ عالم چلے

دیر کیا ہے آنے والے موسمو
دن گزرتے جا رہے ہیں، ہم چلے

کس کو فکرِ گُنبدِ قصرِ حباب
آبجو پیہم چلے، پیہم چلے
 

عمر سیف

محفلین
شام آئی ہے شراب تیز پینا چاہیے
ہو چُکی ہے دیر اب زخموں کو سینا چاہیے

مر گئے تو پھر کہاں ہے حُسنِ رازِ زندگی
زخمِ دل گہرا بہت ہے پھر بھی جینا چاہیے

آج وہ کس دھج سے سیرِ گُلستاں میں محو ہے
چُھپ کے اُس کے ہاتھ سے وہ پھول چھینا چاہیے

اَبر ہو چھایا ہوا اور باغ ہو مہکا ہوا
گود میں گُلفام ہو اور پاس مینا چاہیے

جابجا میلے لگے ہیں لال ہونٹوں کے منیر
تیرگی میں دیکھنے کو چشمِ بینا چاہیے
 

عمر سیف

محفلین
بادِ بہارِ غم میں وہ آرام بھی نہ تھا
وہ شوخ آج شام لبِ بام بھی نہ تھا

دردِ فراق ہی میں کٹی ساری زندگی
گرچہ ترا وصال بڑا کام بھی نہ تھا

رستے میں ایک بھولی ہوئی شکل دیکھ کر
آواز دی تو لب پہ کوئی نام بھی نہ تھا

کیوں دشتِ غم میں خاک اُڑاتا رہا منیر
میں جو قتیلِ حسرتِ ناکام بھی نہ تھا
 

عمر سیف

محفلین
جب بھی گھر کی چھت پر جائیں ناز دکھانے آ جاتے ہیں
کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو چلانے آ جاتے ہیں

دن بھر جو سورج کے ڈر سے گلیوں میں چُھپ رہتے ہیں
شام آتے ہی آنکھوں میں وہ رنگ پرانے آ جاتے ہیں

جن لوگوں نے اُن کی طلب میں صحراؤں کی دھول اُڑائی
اب ہو حسیں اُن کی قبروں پر پھول چڑھانے آ جاتے ہیں

کون سا وہ جادو ہے جس سے غم کی اندھیری، سرد گھپا میں
لاکھ نسائی سانس دلوں کے روگ مٹانے آ جاتے ہیں

زے کے ریشمیں رومالوں کو کس کس کی نظروں سے چُھپائیں
کیسے ہیں وہ لوگ جنھیں یہ راز چُھپانے آ جاتے ہیں

ہم بھی منیر ان دُنیا داری کرکے وقت گزاریں گے
ہوتے ہوتے جینے کے بھی لاکھ بہانے آ جاتے ہیں
 

عمر سیف

محفلین
اپنا تو یہ کام ہے بھائی، دل کا خُون بہاتے رہنا
جاگ جاگ کر ان راتوں میں شعر کی آگ جلاتے رہنا

اپنے گھر سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا

رات کے دشت میں پھول کِھلے ہیں، بھولی بسری یادوں کے
غم کی تیز شراب سے ان کے تیکھے نقش مٹاتے رہنا

خوشبو کی دیوار کے پیچھے کیسے کیسے رنگ جمے ہیں
جب تک دن کا سورج آئے، اس کی کھوج لگاتے رہنا

تم بھی منیر اب اِن گلیوں سے اپنے آپ کو دُور ہی رکھنا
اچھا ہے جھوٹے لوگوں سے اپنا آپ بچاتے رہنا
 

عمر سیف

محفلین
گھپ اندھیرے میں چُھپے سُونے بنوں کی اور سے
گیت برکھا کے سنو رنگوں میں ڈوبے مور سے

شام ہوتے ہی دلوں کی بےکلی بڑھنے لگی
ڈر رہی ہیں گوریاں چلتی ہوا کے زور سے

رات کے سنسان گنبد میں رچہ ہے راس سی
پہرے داروں کی صداؤں کے طلسمی شور سے

لاکھ پلکوں کو جھکاؤ، لاکھ گھونگٹ میں چھپو
سامنا ہو کر رہے گا دل کے موہن چور سے

بھاگ کر جائیں کہاں اس دیس سے اب اے منیر
دل بندھا ہے پریم کی سُندر، سجیلی ڈور سے
 

عمر سیف

محفلین
“ اپنے گھر کو واپس جاؤ “رو رو کر سمجھاتا ہے
جہاں بھی جاؤں میرا سایہ پیچھے پیچھے آتا ہے

اس کو بھی تو جا کر دیکھو، اس کا حال بھی مجھ سا ہے
چُپ چپ رہ کر دکھ سہنے سے تو انساں مرجاتا ہے

مجھ سے محبت بھی ہے اس کو، لیکن یہ دستور ہے اس کا
غیر سے ملتا ہے ہنس ہنس کے، مجھ سے وہ شرماتا ہے

کتنے یار ہیں پھر بھی منیر اس آبادی میں اکیلا ہے
اپنے ہی غم کے نشے میں اپنا جی بہلاتا ہے
 

عمر سیف

محفلین
جو دیکھے تھے جادو ترے ہات کے
ہیں چرچے ابھی تک اسی بات کے

گھٹا دیکھ کر خوش ہوئی لڑکیاں
چھتوں پر کھلے پھول برسات کے

مجھ درد دل کا وہاں لے گیا
جہاں دَر کھلے تھے طلسمات کے

ہوا جب چلے پھڑپھڑا کر اُڑے
پرندے پُرانے محّلات کے

نہ تُو ہے کہیں اور نہ میں ہوں کہیں
یہ سب سلسلے ہیں خیالات کے

منیر آ رہی ہے گھڑی وصل کی
زمانے گئے ہجر کی رات کے
 

عمر سیف

محفلین
پھول تھے، بادل بھی تھا اور وہ حسیں صورت بھی تھی
دل میں لیکن اور ہی اِک شکل کی حسرت بھی تھی

جو ہوا بھی گھر بنائے کاش کوئی دیکھتا
دشت میں رہتے تھے پر تعمیر کی عادت بھی تھی

کہہ گیا میں سامنے اس کے جو دل کا مدعا
کچھ تو موسم بھی عجب تھا، کچھ مری ہمت بھی تھی

اجنبی شہروں میں رہتے عمر ساری کٹ گئی
گو ذرا سے فاصلے پر گھر کی ہر راحت بھی تھی

کیا قیامت ہے منیر اب بھی یاد آتے نہیں
وہ پرانے آشنا، جن سے ہمیں اُلفت بھی تھی
 

عمر سیف

محفلین
تجھ سے بچھڑ کر کیا ہوں میں، اب باہر آ کر دیکھ
ہمت ہے تو میری حالت آنکھ ملا کر دیکھ

شام ہے گہری تیز ہوا ہے، سر پہ کھڑی ہے رات
رستہ گئے مسافر کا اب دِیا جلا کر دیکھ

دروازے کے پاس آ آ کر واپس مُڑتی چاپ
کون ہے اُس سُنسان گلی میں، پاس بُلا کر دیکھ

شاید کوئی دیکھنے والا ہوجائے حیران
کمرے کی دیواروں پر کوئی نقش بنا کر دیکھ

تُو بھی منیر اب بھرے جہاں میں مل کر رہنا سیکھ
باہر سے تو دیکھ لیا اب اندر جا کر دیکھ
 

عمر سیف

محفلین
پِی لی تو کچھ پتا نہ چلا وہ سُرور تھا
وہ اس کا سایہ تھا کہ وہی رشکِ حور تھا

کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں گیا
مجھے سے بچھڑ کے وہ بھی بہت غم سے چُور تھا

رویا تھا کون کون مجھے کچھ خبر نہیں
میں اس گھڑی وطن سے کئی میل دور تھا

شامِ فراق آئی تو دل ڈوبنے لگا
ہم کو بھی اپنے آپ پہ کتنا غرور تھا

چہرہ تھا یا صدا تھی کسی بھولی یاد کی
آنکھیں تھی اس کی یارو کہ دریائےِ نور تھا

نکلا جو چاند، آئی مہک تیز سے منیر
میرے سوا بھی باغ میں کوئی ضرور تھا
 

عمر سیف

محفلین
عجب رنگ رنگیں قباؤں میں تھے
دل و جان جیسے بلاؤں میں تھے

طلسمات ہونٹوں پہ، آنکھوں میں غم
نئے زیورات اُن کے پاؤں میں تھے

مہک تھی ترے پیرہن کی کہیں
گُلستاں سے شب کی ہواؤں میں تھے

ذرا پی کے دیکھا تو چاروں طرف
مکاں و مکیں سب خلاؤں میں تھے

یہ شعلے جو سڑکوں پہ پھرتے ہیں اب
پہاڑوں کی کالی گھپاؤں میں تھے

اگر روک لیتے تو جاتا نہ وہ
مگر ہم بھی اپنی ہواؤں میں تھے

کلر باکس جیسا کھلا تھا منیر
کچھ ایسے ہی منظر فضاؤں میں تھے
 

عمر سیف

محفلین
اپنی ہی تیغِ ادا سے آپ گھائل ہوگیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہوگیا

وہ ہوا تھی شام ہی سے رستے خالی ہوگئے
وہ گھٹا برسی کے سارا شہر جل تھل ہوگیا

میں اکیلا اور سفر کی شام رنگوں میں ڈھلی
پھر یہ منظر میری آنکھوں سے بھی اوجھل ہوگیا

اب کہاں ہوگا وہ ہوگا بھی تو ویسا کہاں
سوچ کر یہ بات جی کچھ اور بوجھل ہوگیا

حُسن کی دہشت عجت تھی وصل کی شب میں منیر
ہاتھ جیسے انتہائے شوق سے شل ہوگیا
 

عمر سیف

محفلین
بادل برس رہا تھا جب ہو مہماں ہوا
کل شام وہ مجھ پہ عجب مہرباں ہوا

شاخِ گُلِ انار کُھلی بھی تو سنگ میں
وہ دل ترا ہوا یا لبِ خونفشاں ہوا

مرغ سحر کی تیز صدا پچھلی رات کو
ایسی تھی جیسے کوئی سفر پر رواں ہوا

ٹھنڈی ہوا چلی تو جلیں مشعلیں ھزار
جو غم نظر میں چمکا تھا اب کہکشاں ہوا

مَے بھی حریفِ دردِ تمنّا نہیں ہوئی
اپنے ہی غم کے نشے سے میں سرگراں ہوا

زردی تھی رُخ پہ ایسی کہ میں ڈر گیا منیر
کیا عطر تھا کہ صرف قبائےِ خزاں ہوا
 

عمر سیف

محفلین
بیٹھ جاتا ہے وہ جب محفل میں آ کے سامنے
میں ہی بس ہوتا ہوں اُس کی ہر ادا کے سامنے

تیز تھی اتنی کے سارا شہر سُونا کر گئی!
دیر تک بیٹھا رہا میں اُس ہوا کے سامنے

رات اِک اُجڑے مکاں پر جا کے جب آواز دی
گونج اُٹھے بام و دَر میری صدا کے سامنے

وہ رنگیلا ہاتھ میرے دل پہ اور اُس کی مہک
شمعِ دل بُجھ سی گئی رنگِ حنا کے سامنے

میں تو اس کو دیکھتے ہی جیسے پتھر ہوگیا
بات تک منہ سے نہ نکلی، بےوفا کے سامنے

یاد بھی ہیں اے منیر اُس شام کی تنہائیاں
ایک میداں، اکِ درخت اور تُو خُدا کے سامنے
 

عمر سیف

محفلین
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
تُو نے مجھ کو کھو دیا، میں نے تجھے کھویا نہیں

نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں

ہر طرف دیوار و دَر اور ان میں آنکھوں کے ہجوم
کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لبِ گویا نہیں

جُرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں

جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھّر ہوگیا، لیکن کبھی رویا نہیں
 

عمر سیف

محفلین
شبِ مہتاب نے شہ نشیں پہ عجیب گُل سا کھلا دیا
مجھے یوں لگا کسی ہاتھ نے مرے دل پہ تیر چلا دیا

کوئی ایسی بات ضرور تھی شبَ وعدہ جو نہ آ سکا
کوئی اپنا وہم تھا درمیاں یا گھٹا نے اس کو ڈرا دیا

یہی آن تھی میری زندگی، لگی آگ دل میں تو اُف نہ کی
جو جہاں میں کوئی نہ کر سکا وہ کمال کر کے دیکھا دیا

یہ جو لال رنگ پتنگ کا سرِ آسماں ہے اُڑا ہوا
یہ چراغ دستِ حنا کا ہے جو ہوا میں اُس کو جلا دیا

مرے پاس ایسا طلسم ہے، جو کئی زمانوں کا اسم ہے
اُسے جب بھی سوچا بُلا لیا، اُسے جو بھی چاہا بنا دیا
 
Top