جنگل میں دھنک - منیر نیازی

الف عین

لائبریرین
ایک آدمی

کل دیکھا اک آدمی اٹا سفر کی دھول میں
گم تھا اپنے آپ میں، جیسے خوشبو پھول میںٕ
 

الف عین

لائبریرین
ماضی

یہ کہنہ محل، جس کے رنگیں دریچوں سے لپٹی ہوئی عشقِ پیچاں کی بیلیں
منڈیروں، ستونوں پہ پھیلی ہوئی سبز کائی
سرِ شام چلتے ہوئے سرد جھونکوں میں مسکاریاں بھر رہی ہے
جہاں اب ہوا، اُس کے پائیں چمن کے خزاں دیدہ پیڑوں کی شاخوں
پہ سرگوشیوں کے شگوفے کھلانے سے شرما رہی ہے
یہاں۔۔۔ ایک دن تھا کہ شیریں صداؤں کے جھنڈ
آرزوؤں کے بھٹکے ہوئے قافلوں کے لیے راحتوں کے نشاں تھے
یہاں ہر دریچہ
حسیں، ہمہماتے، وفا کیش چہروں کی آماجگہ تھا
یہ باغ ان گنت خوشبوؤں، چہچہاتے پرندوں،
گھنیرے درختوں کی اک دلنشیں جلوہ گہ تھا
یہ چپ چاپ سنگیں عمارت تب اتنی پُرانی نہیں تھی
مگر آج جس سمت دیکھو
نگاہوں کے کشکول میں
سوٗنے بام و در و سقف
سوکھے درختوں سے جھڑ کر گرے زرد پتّوں، چٹختی ہوئی ٹہنیوں کے سوا کچھ نہیں ہے!!
 

الف عین

لائبریرین
توٗ

وہاں، جس جگہ پر صدا سو گئی ہے
ہر اک سمت اونچے درختوں کے جھنڈ
ان گنت سانس روکے ہوئے چُپ کھڑے ہیں
جہاں ابر آلود شام اُڑتے لمحوں کو روکے ابد بن گئی ہے
وہاں، عشقِ پیچاں کی بیلوں میں لپٹا ہوا اک مکاں ہو!
اگر میں کبھی راہ چلتے ہوئے اس مکاں کے دریچوں کے نیچے سے گزروں
تو اپنی نگاہوں میں اک آنے والے مسافر کی
دھُندلی تمنّا لیے توٗ کھڑی ہو!!
 

الف عین

لائبریرین
قفسِ رنگ

بہت دن ہوئے
میں نے اک بادلوں سے بھری صبح کو
خوابگہ کے دریچے سے جھانکا
تو پائیں چمن کا ہر اک پھول
حیرت زدہ لڑکیوں کی لجائی ہوئی آنکھ کی طرح
میری طرف تک رہا تھا!!

مجھے بھول کر
اپنے بستے گھروندوں میں ہنستی ہوئی لڑکیو!
مجھ کو اس بادلوں سے بھری صبح کے
گہری حیرت میں گُم، شرم آلود پھولوں کی مانند
تمھیں دیکھ کر کانپ اُٹھنے کی
وہ اوّلیں ساعتیں یاد ہیں
 

الف عین

لائبریرین
سائے


کسی سائے کا نقش گہرا نہیں ہے
ہر اک سایہ اک آنکھ ہے
جس میں عشرت کدوں، نا رسا خواہشوں،
ان کہی دل نشیں داستانوں کا ملبہ لگا ہے
مگر آنکھ کا سحر
پلکوں کی چلمن کی ہلکی سی جنبش ہے
اور کچھ نہیں ہے
کسی آنکھ کا سحر دائم نہیں ہے

ہر اک سایہ
چلتی ہوا کا پر اسرار جھونکا ہے
جو دوُر کی بات سے
دل کو بے چین کر کے چلا جائے گا
ہر کوئی جانتا ہے
ہواؤں کی باتیں کبھی دور تک رہنے والی نہیں ہیں
کسی آنکھ کا سحر دائم نہیں ہے
کسی سائے کا نقش گہرا نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
ایسی کئی شامیں

ابھی سرد بوجھل ہوا جی اٹھے گی
ابھی ناریل کے درختوں پہ، ساحل پہ
چھا جائے گا اک نشیلا اندھیرا
معطّر لبوں، مدھ بھری دھیمی باتوں
کے انبوہ ہر سمت آوارہ ہوں گے
ابھی آرزوؤں کے بے حرف کتبے
اُبھر آئیں گے

بے گل و برگ یادوں کی اجڑی ہوئی بستیوں سے
یہیں تیرگی میں،
مَیں چپ چاپ گزرے زمانوں کی قبروں کو گنتا رہوں گا
بہت دور۔۔۔ ظلمت کے قاصد ستارے چمکتے رہیں گے
 

الف عین

لائبریرین
ہزار داستان

جدھر بھی دیکھیں
مہکتے ہونٹوں کے سرخ گلشن کھِلے ہوئے ہیں
جہاں بھی جائیں
حیا کے نشّے سے چوٗر آنکھیں
دلوں میں گہری اداسیوں کو اُتارتی ہیں
ہزار گوشے ہیں
جن سے پاگل بنانے والی
سیاہ زلفوں کی مست خوشبو اُمڈ رہی ہے
مگر وہ اک ایسا پیارا چہرہ
جو ایک رُت کے اداس جھونکے
کے ساتھ آ کر
چلا گیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ہوا کا گیت

مرا راستہ روکنے کی نہ کوشش کرو
میں ہوا ہوں
مری کھوج میں جنگلوںم گلستنانوں، پہاڑوں، پرانے مکانوں
میں جاؤ گے تو ایک جانکاہ دُکھ کے سوا
اور کچھ بھی نہیں مل سکے گا
سیہ کالی راتوں میں
ہلکی سی آہٹ پہ اٹھ کر
سلگتی نگاہوں سے چاروں طرف تکنے والو
کوئی تم میں ایسا بھی ہے؟
جو رواں ندّیوں، راہ چلتی صداؤں کو بانہوں کے گھیرے میں لے کر دکھا دے
چلے جانے والوں کو اک بار واپس بُلا کر دکھا دے
 

الف عین

لائبریرین
کوششِ رائگاں

ابھی چاند نکلا نہیں
وہ ذرا دیر میں اِن درختوں کے پیچھے سے ابھرے گا
اور آسماں کے بڑے دشت کو
پار کرنے کی اک اور کوشش کرے گا
 

الف عین

لائبریرین
فریب

شام ہونے کو ہے
شام ہوتے ہی سُکھ سے بھری اک صدا
جنگلوں سے گزرتی ہوئی آئے گی
دشتِ غُربت کی ٹھنڈی ہوا
اپنے پیاروں سے دور
اجنبی راستوں پر بھٹکتے دلوں کو سُلا جائے گی
 

الف عین

لائبریرین
نارسائی

مرا دل محبت کا بھوکا
بلند، اونچے پیڑوں کے جنگل
میں چلتے ہوئے رہرووں سے یہ کہتا ہے:
’مجھ کو اُٹھا لو۔۔۔
مجھے اپنے ساتھ اُن المناک رستوں میں لے کر چلو
جن میں ہر آرزو شام کی راگنی بن گئی ہے
جہاں ہر صدا بھیگے سایوں کی خاموش محراب میں چھُپ گئی ہے
حسیں رہروو!
میں تمھارے اکیلے گھروں میں
تمھاری حزیں چاہتوں کے غم افروز گیتوں پہ رویا کروں گا‘

مرا دل محبّت کا بھوکا
اسی طرح صدیوں سے چاہت کا کشکول لے کر
گھنے جنگلوں کے حسیں رہرووں سے کہے جا رہا ہے:
"نجھے ساتھ لے کر چلو۔۔
اجنبی راستوں پر بھٹکتے ہوئے اجنبی دوستو!‘
 

الف عین

لائبریرین
خوشبو کے رنگ

خوشبو کے اس جھونکے میں
کچھ اونچے سرد مکانوں کی
اک لمبی چور گلی ہے
اُس میں اک آواز کا جادو
رنگ جمانے آیا
ریشمی کپروں کا انگارہ
آگ لگانے آیا
بھولی ہوئی شکلوں کا بادل
نیر بہانے آیا
 

الف عین

لائبریرین
گلِ صد رنگ

کبھی چمکتے ہوئے چاند کی طرح روشن
کبھی طویل شبِ ہجر کی طرح غمگیں
شعاعِ لعلِ حنا کی طرح مہکتی ہوئیں
کبھی سیاہیٕ کوہٕ ندا میں پردہ نشیں

سنبھل کے دیکھ طلسمات ان نگاہوں کا
دلِ تباہ کی رنگیں پناہ گاہوں گا
 

الف عین

لائبریرین
گوہرِ مراد

شاموں کی بڑھتی تیرگی میں
برکھا کے سونے جنگل میں
کبھی چاند کی مٹتی روشنی میں
رنگوں کی بہتی نہروں میں
ان اونچی اونچی کھڑکیوں والے
اجڑے اجڑے شہروں میں
کن جانے والے لوگوں کی
یادوں کے دئے جلاتے ہو؟
کن بھولی بِسری شکلوں کو
گلیوں میں ڈھونڈھنے جاتے ہو؟
 

الف عین

لائبریرین
موسمِ بہار کی دوپہر

ہلکی ہلکی گرم ہوا میں ہلکی ہلکی گرد
ویراں مسجد کے پیچھے تھوہر کی سبز قطار
اس کے عقب میں لال اور نیلے پھولوں کے انبار
اونچے اونچے پیڑ ہیں جیسے لمبے لمبے مرد

یا سنسان قلعے کی خاکی، اُجڑی سی دیوار
جس کے نیچے چھپے ہوئے کچھ دشمن کے سردار
ہاتھ میں پکڑے جگمگ کرتے سورج کی تلوار
چور آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں رنگوں کا تہوار
 

الف عین

لائبریرین
زندگی

شام کو سورج خود اپنے ہی لہو کی دھاریوں میں ڈوب کر
دیکھتا ہے بجھتی آنکھوں سے سوادِ شہر کے سونے کھنڈر
اس کو لے جائے گی پل بھر میں فنا کے گھاٹ پر
رات کے بحرِ سیہ کی موج ہے گرمِ سفر

دیکھتی آنکھوں سے اُفق کے سرد ساحل پر اندھیرا چھائے گا
ڈوبتا سورج ابھی بھولے دنوں کی داستاں بن جائے گا

سرسراتے ریشمی سایوں سے بھر جائے گی ہر اک رہگزر
نازنیں آنکھوں کی صورت ٹمٹمائیں گے خیالوں کے نگر
تہز سانسوں کی پہک اُڑتی پھرے گی رات بھر
توٗ بھی خوش ہو، میرے دل!، نوحہ گرٕ شام و سحر!!
 

الف عین

لائبریرین
زندگی

شام کو سورج خود اپنے ہی لہو کی دھاریوں میں ڈوب کر
دیکھتا ہے بجھتی آنکھوں سے سوادِ شہر کے سونے کھنڈر
اس کو لے جائے گی پل بھر میں فنا کے گھاٹ پر
رات کے بحرِ سیہ کی موج ہے گرمِ سفر

دیکھتی آنکھوں سے اُفق کے سرد ساحل پر اندھیرا چھائے گا
ڈوبتا سورج ابھی بھولے دنوں کی داستاں بن جائے گا

سرسراتے ریشمی سایوں سے بھر جائے گی ہر اک رہگزر
نازنیں آنکھوں کی صورت ٹمٹمائیں گے خیالوں کے نگر
تہز سانسوں کی پہک اُڑتی پھرے گی رات بھر
توٗ بھی خوش ہو، میرے دل!، نوحہ گرٕ شام و سحر!!
 

الف عین

لائبریرین
پُر اسرار چیزیں

جب بھی تارا گرے گا اس پر
اُس کا دل تو کانپے گا
نئی نئی خواہش کا چیتا
بڑے زور سے ہانپے گا
 

الف عین

لائبریرین
ایک پتّے سے خطاب


اتنا اونچا اُڑ رے پتّے
جتنے اونچے تارے ہیں
جو دھرتی کو دور سے تکتی
آنکھ کو کتنے پیارے ہیں
 
Top