جنگل میں دھنک - منیر نیازی

الف عین

لائبریرین
جادو گھر

کسیہ مکاں میں کوئی مکیں ہے
جو سۃرخ پھولوں سے بھی حسیں ہے
وہ جس کی ہر بات دل نشیں ہے

کبھی کوئی اس مکاں میں جائے
اور اس حسینہ کو دیکھ پائے
تو دل میں اک درد لے کے آئے

بھرے جہاں میں عجب سماں ہے
جدھر بھی دیکھو وہی مکاں ہے
وہی مکاں۔۔ جو حریمِ جاں ہے
 

الف عین

لائبریرین
ساکت زندگی

چِق سے لگی دو آنکھیں اور دیواروں کی خاموشی
چھوٹی اینٹ کے فرش پہ نیلے ریشم کا رومال
ایک اندھیرے کمرے میں اک مرد عورت کی سرگوشی

نیم کھلے دروازے کی محراب سے کافی نیچے
لکڑی کی دہلیز پہ سوکھا اور بوسیدہ ہار
اُس سے پرے کچھ رنگ برنگے پھولوں کے باغیچے
گزر رہا ہوں ایک گلی سے اپنی آنکھیں میچے
 

الف عین

لائبریرین
نگار خانہ

کسی کی شربتی نظر
کوئی مہکتا پیرہن
دمکتی سرخ چوڑیاں
چمکتا ریشمی بدن
کئی جھکے جھکے شجر
ہرے بنوں میں گھومتی
کوئی اداس رہگزر
حنا کے رنگ میں بسے
کسی نگر کے بام و در
رہیں گے یاد عمر بھر
 

الف عین

لائبریرین
طلسمِ خیال


ادھ کھُلے رنگیں نقابوں میں چمکتی بجلیاں
ہر بنِ مو سے امڈتی نکہتوں کی ندّیاں
رہروانِ نیم شب کی جستجو میں چار سوٗ
راستوں میں پھر رہی ہیں شب کی جادوگرنیاں

شام کے مسحور کُن رنگوں میں ڈوبی مورتیں
دیدۂ بے خواب کی وسعت میں پنہاں ہو گئیں
عشق کے نشّے میں چوٗرانجان پیاری لڑکیاں
نیند کی ٹھنڈی ہوا میں مست ہو کر سو گئیں
 

الف عین

لائبریرین
خزانے کا سانپ

ہلاکت خیز ہے الفت، مری ہر سانس خونی ہے
اسی باعث یہ محفل دل کی قبروں سے بھی سُونی ہے
اُسے زہریلی خوشبو ؤں کے رنگیں ہار دیتا ہوں
میں جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
بھوتوں کی بستی

پیلے منہ اور وحشی آنکھیں
گلے میں زہری ناگ
لب پر سرخ لہو کے دھبّے
سر پر جلتی آگ

دل ہے ان بھوتوں کا یا کوئی
بے آباد مکان
چھوٹی چھوٹی خواہشوں کا
اک لمبا قبرستان
 

الف عین

لائبریرین
چڑیلیں

گہری چاندنی راتوں میں یا گرمیوں کی دو پہروں میں
سونے تنہا رستوں میں یا بہت پترانے شہروں میں
نئی نئی شکلوں میں آ کر لوگوں کو پھسلاتی ہیں
پھر اپنے گھر میں لے جا کر ان سب کو کھا جاتی ہیں
اسی طرح وہ گرم لہو کی پیاس بجھاتی رہتی ہیں
ویرانوں میں موت کا رنگیں جال بچھاتی رہتی ہیں
جسم کی خوشبو کے پیچھے دن رات بھٹکتی رہتی ہیں
لال آنکھوں سے رہگیروں کا رستہ تکتی رہتی ہیں
 

الف عین

لائبریرین
سپیرا

میں ہوں ایک عجیب سپیرا
ناگ پالنا کام ہے میرا
پیلے پیلے، کالے کالے
رنگ برنگے دھبّوں والے
شعلوں سی پھنکاروں والے
زہریلی مہکاروں والے
ان کی آنکھیں تیز نشیلی
گہری جھیلوں ایسی نیلی
نئے لہو سے لال زبانیں
جیسے موت کی رنگیں تانیں
مخمل کے رومالوں جیسے
سُرخ گلابی گالوں جیسے
مجھ کو تکتے رہتے ہیں یہ
مجھ کو ڈستے رہتے ہیں یہ
مجھ پر ہنستے رہتے ہیں یہ
 

الف عین

لائبریرین
میں اور شہر


سڑکوں پہ بے شمار گلِ خوں پڑے ہوئے
پیڑوں کی ڈالیوں سے تماشے جھڑے ہوئے
کوٹھوں کی ممٹیوں پہ حسیں بت کھڑے ہوئے

سنسان ہیں مکان کہیں در کھلا نہیں
کمرے سجے ہوئے ہیں مگر راستا نہیں
ویراں ہے پورا شہر کوئی دیکھتا نہیں
آواز دے رہا ہوں کوئی بولتا نہیں
 

الف عین

لائبریرین
گلیوں میں ایک دن

یوں تو کواڑ کھولنے آئی تھی کتنے زور سے
سارا مکان بھر گیا اس کی صدا کے شور سے
غصّے سے چہرہ سرخ تھا، آنکھیں غضب بنی ہوئی
جوشِ جہاں شکست سے پوری طرح تنی ہوئی
دیکھا جو مجھ کو سامنے تو مسکرا کے رہ گئی
سرخی وہ اشتعال کی حباب بن کے بہہ گئی
 

الف عین

لائبریرین
خالی مکان میں ایک رات

بادل سا جیسے اُڑتا ہو ایسی صدا سنی
آواز دے کے چھپ گیا اک سایہ سا کوئی
جب لالٹین بجھ گئی کوئی ہوا نہ تھی
سردی تھی کچھ عجیب سی، ٹھنڈے مزار سی
بیمار سی مہک تھی کسی خشک ہار کی
پھوٹی کرن کہیں سے نگاہوں کے زہر کی
باہر گلی میں چُپ تھی کسی اُجڑے شہر کی
 

الف عین

لائبریرین
آدھی رات کا شہر

شہر سارا سو چکا ہو اُس گھڑی دیکھو اسے
نیند میں گُم ہو چکا ہو، اُس گھڑی دیکھو اسے
اونچی اونچی کھڑکیوں میں دھیمی دھیمی روشنی
چور بن کر چھپ گئی ہے ہر مکاں میں تیرگی
حسن وحشی ہو چلا ہو اُس گھڑی دیکھو اسے
سانپ زہری ہو چلا ہو اُس گھڑی دیکھو اسے
 

الف عین

لائبریرین
ایک خوش باش لڑکی


کبھی چور آنکھوں سے دیکھ لیا
کبھی بے دھیانی کا زہر دیا
کبھی ہونٹوں سے سرگوشی کی
کبھی چال چلی خاموشی کی
جب جانے لگے تو روک لیا
جب بڑھنے لگے تو ٹوک دیا
اور جب بھی کوئی سوال کیا
اُس نے ہنس کر ہی ٹال دیا
 

الف عین

لائبریرین
ذرّوں کا ملاپ


جب نین بھی ہوئے نشیلے
کچھ بول بھی ہوئے سریلے
اور ہونٹ بہت زہریلے

اُن سے کہا نہ گیا
ہم سے رہا نہ گیا
بجلی لرز گئی
بدلی برس گئی
 

الف عین

لائبریرین
وعدہ خلافی


آنا تھا اُس کو پر نہیں آئی
یہ بھی عجب ہی بات ہوئی
اسی سوچ میں شام ڈھلی
اوردھیرے دھیرے رات ہوئی
جانے اب وہ کہاں پہ ہوگی
عنبر کی مہکار لیے
بیٹھے رہ گئے ہم تو یوں ہی
پھولوں کے کچھ ہار لیے
 

الف عین

لائبریرین
ع۔ا کے لیے

آنکھیں کھول کے سّن ری گوری
میں ہوں وہ آواز
دن کا سورج ڈوب گیا تو
بنے گی گہرا راز
جتنا وقت ملے گا تجھ کو
اُس کو کام میں لا
مجھ کو کھو دینے سے پہلے
میرے سامنے آ
رو رو کر پھر ہاتھ ملے گی
جب دن بیت گیا
 

الف عین

لائبریرین
جُدائی


مُڑ کر دیکھا تو انجُم تھی

حیراں آنکھوں والی انجم
بڑی بڑی آنکھوں کو کھولے
مجھ کو ایسے دیکھ رہی تھی
جاتی رُت کا پھول ہوں جیسے
یا آوارہ جھونکا
جو بنتا ہے درد دلوں کا
یا آنسو آنکھوں کا
 

الف عین

لائبریرین
خود کلامی

مر بھی جاؤں تو مت رونا
اپنا ساتھ نہ چھوٹے گا
تہرہ میری چاہ کا بندھن
موت سے بھی نہیں ٹوٹے گا
میں بادل کا بھیس بدل کر
تجھ سے ملنے آؤں گا
تیرے گھر کی سونی چھت پر
غم کے پھول اگاؤں گا
جب تو اکیلی بیٹھی ہوگی
تجھ کو خوب رلاؤں گا
 

الف عین

لائبریرین
وطن میں واپسی

کل وہ ملی جو بچپن میں مرے بھائی سے کھیلا کرتی تھی
جانے تب کیا بات تھی اُس میں مجھ سے بہت ہی ڈرتی تھی
پھر کیا ہوا؟ وہ کہاں گئی؟ اب کون یہ باتیں جانتا ہے
کب اتنی دوری سے کوئی شکلوں کوپہچانتا ہے
لیکن اب جو ملی ہے مجھ سے ایسا کبھی نہ دیکھا تھا
اُس کو اتنی چاہ تھی میری، میں نے کبھی نہ سوچا تھا
نام بھی اس نے بچے کا میرے ہی نام پہ رکھّا تھا
پھر کہیں اس سے بچھڑ نہ جاؤں، ایسے مجھ کو تکتی تھی
کوئی گہری بات تھی جی میں جسے وہ کہہ بھی نہ سکتی تھی
ایسی چُپ اور پاگل آنکھیں دمک رہی تھیں شدّت سے
میں تو سچ مچ ڈرنے لگا تھا اس خاموش محبّت سے
 
Top