کاشفی

محفلین
غزل
(ساغر نظامی)
جلوہء ماہتاب نے لُوٹا
تیرے اندازِ خواب نے لُوٹا

روئے سیمیں نقاب نے لُوٹا
ملحدانہ کتاب نے لُوٹا

عشقِ خانہ خراب نے مارا
حُسنِ رنگیں نقاب نے لُوٹا

بے حجابی کے سب شکار ہوئے
ہم کو تیرے حجاب نے لُوٹا

عافیت تیرے احتراز میں تھی
عَدمِ اجتناب نے لُوٹا

زہد اُن پر لُٹا دیا ساغر
جو بچا وہ شراب نے لُوٹا
 

کاشفی

محفلین
تعارفِ شاعر (از: مُصورِ فطرت سیدی و مولائی حضرات خواجہ حسن نظامی دہلوی)
یوسف زئی افغان۔ صمد یار خان نام۔ ساغر تخلص، 1935ء میں عمر 30 سال۔ علی گڑھ کی پیدائش۔ سیماب صاحب اکبر آبادی کے شاگرد۔ میانہ قد، گندمی نمکین رنگ۔ آنکھیں رسیلی۔ روشن اور قدرت کے غیبی جام سے مخمور۔ چہرہ کتابی، آواز ہر قسم کے قدیم و جدید باجوں کو شرمانے والی نہایت سُریلی، بلند اور سامعہ نواز۔
نو سال کی عمر سے شعر کہنے کا ذوق ہوا۔ بارہ تیرہ سال کی عمر میں شعر کہنے لگے۔ اٹھارہ برس کی عمر میں میرے ہاتھ پر میرے مکان علی منزل میں مرید ہوئے اور اسی وقت سے ساغر نظامی نام مشہور ہوا۔
ہندوستان کا کوئی شہر اور کوئی آبادی ایسی نہیں جہاں کے ادبی ذوق رکھنے والوں نے ان کا کلام ان کی زبان سے نہ سُنا ہو۔ اور یہ تماشہ نہ دیکھا ہو کہ بزمِ غزل خوانی میں ساغر کے سوا کسی دوسرے شاعر کے پڑھنے کی دوبارہ آرزو کی گئی ہو۔ بڑے بڑے تاریخی مشاعروں اور ادبی جلسوں میں ان کے اشعار اسی طرح ہر موافق و مخالف پر قبضہ کرلیتے ہیں جس طرح ہر ہٹلر نے جرمنی قوم کے سیاسی دماغوں پر یکایک نمودار ہو کر قبضہ کرلیا۔ ساغر کی موجودہ صورت بھی ہر ہٹلر کی تصویر سے بہت مشابہ ہے۔
ساغر کے کلام میں شاعری ہوتی ہے۔ فلسفہ ہوتا ہے۔ تصوف ہوتا ہے۔ اور روزمرّہ کی زندگی کے نظارے ہوتے ہیں۔ ان کے اشعار میں پُرشوکت الفاظ اور پُرکیف بندشیں اور جدّت آمیز پیرایہء بیان ہوتا ہے۔ ان کا کلام شاعری کے سب ہتھیاروں سے مسلّح معلوم ہوتا ہے۔ اسی لئے میں ان کو شاعری کا ہٹلر کہتا ہوں۔
 

طارق شاہ

محفلین
عافیت تیرے احتراز میں تھی
عَدمِ اجتناب نے لُوٹا


زبردست جناب کیا کہنے
تشکّر پیش کرنے پر
بہت خوش رہیں :)
 
Top