السلام علیکم
کیا آپ نے یہ خبریں آنکھیں کھول کر پوسٹ کرنے سے قبل پہلے خود پڑھ لیں تھیں؟ کیا انہیں پڑھنے کے باوجود ان میں موجود جھوٹ اور تضادات آپ پر واضح نہیں ہوئے؟
مثلا:
1۔ ایک طرف اردو پوائنٹ کی اس خبر پر آپ آمنا صدقنا کہہ رہے ہیں جہاں دعوی کیا جا رہا ہے کہ عبدالستار ایدھی نے 800 کفنوں کا انتظام کیا، اور پھر 200 کفن مزید منگوائے گئے۔
2۔ مگر آپ ہی کی پوسٹ کردہ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق عبدالستار ایدھی کا بیان موجود ہے کہ انتظامیہ نے ان سے کل 200 کفن منگوائے تھے۔
۔ اور پھر اسی لنکی میں انہی عبدالستار ایدھی صاحب کی گواہی موجود ہے کہ یہ 200 کفن بھی استعمال نہیں ہوئے اور انہوں نے صرف اڑسٹھ لاشوں کو غسل دیا۔
اگر یہ 200 کفن استعمال ہوئے ہوتے تو ایدھی صاحب ضرور سے اس کی گواہی دیتے اور مشرف صاحب پر اسکا الزام لگاتے۔ مگر اسکے برعکس ایدھی صاحب لال مسجد کے اس واقعے کے بعد مشرف صاحب کی بس تعریف و توصیف کرتے ہی کرتے ہیں جسکا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ لوگ جو کفنوں کی تعداد کے بارے میں قیاس آرائیاں کر کے شکوک و شبہات پھیلانا چاہتے ہیں، وہ بالکل بے بنیاد ہیں۔
**************
3۔ اگلا الزام بی بی سی کی سائیٹ سے ہے اور وہ قبرستان میں تدفین کا حال بیان کر رہا ہے اور یہ فوٹو اس نے بنائی ہے۔
اور بی بی سی سائیٹ کے رپورٹر کا واحد منبع ہے گورکن عقیل خان، جو کہتا ہے کہ رات کے اندھیرے میں 170 لاشیں لائیں گی۔ اور تابوتوں میں دو دو لاشیں موجود تھیں۔
۔ گورکن کہتا ہے کہ رات دو بچے کا وقت تھا، تو پھر اس نے کیسے یہ 170 کی تعداد اندھیرے میں گن لی؟
۔ اور پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ گورکن وہاں پر قبریں کھودنے پر مامور تھا یا پھر لاشیں گننے پر؟
یہ 170 لاشوں کی تعداد تو صرف وہی شخص دے سکتا ہے جو سب کام چھوڑ چھاڑ کر بس وہاں لاشیں گننے پر مامور ہو۔
۔ اور اوپر والی تصویر میں تابوت کا سائز دیکھ کربظاہر مجھے مشکل دکھائی دیتا ہے کہ ان تابوتوں میں دو دو لاشیں گھسائی جا سکتی ہیں۔
۔ یہ تمام لاشیں امانتا وہاں دفن کی گئیں جنہیں بعد میں کھول کر انکے ورثاء کے حوالے کیا گیا، تو کیا وہ سب اندھے تھے کہ انہیں یہ ایک ایک تابوت میں یہ دو دو لاشیں نظر نہیں آئیں؟
۔ اور بی بی سی کا نامہ نگار کہہ رہا ہے کہ عقیل خان کے علاوہ بہت سے دیگر گورگن وہاں موجود تھے، اور بے تحاشہ دیگر عینی شاہدین بھی [بشمول خفیہ ادارے والے]۔ چنانچہ وہاں آنے پر اور مشاہدہ کرنے پر کسی پر پابندی نہیں تھی اور سوائے گورکن عقیل خان کے کسی نے یہ 170 لاشیں آتے دیکھیں اور نہ انہیں دفناتے دیکھا اور نہ ایک ایک تابوت میں دو دو لاشیں دیکھیں۔ یہ سب کا سب صرف اور صرف عقیل خان کو نظر آیا اور باقی سب کے سب شاید اس وقت اندھے ہو گئے؟
۔ اور ستر تابوتوں میں دو دو کے حساب سے بھی 170 لاشیں نہیں سما سکتیں۔ اب تو یہ یہ گورکن بتائے کہ یہ بقیہ لاشیں کیسے لائیں گئیں اور انہیں کیسے دفن کیا گیا۔ اور ان بقیہ 100 کے قریب لاشوں کو زمین تو نہیں نگل گئی، تو پھر کہاں ہیں یہ لاشیں؟
۔ اور اس گورکن عقیل خان کے واحد بیان کے مقابلے میں وہاں پر بہت سے دیگر گورکن موجود ہیں، بہت سے پولیس اہلکار موجود ہیں، وہ سب کے سب بولنے کے لیے آج آزاد ہیں، مگر ان میں سے آج تک کسی ایک نے بھی آ کر یہ عقیل خان کے الزامات کی تصدیق نہیں کی۔
۔ اور اس سوال کے ساتھ میں آپ لوگوں کی عقلوں کو چیلنج کر رہی ہوں:
یہ بتائیں کہ جب فوج 1500 طالبات اور مزید کئی سو طالبعلموں کو لال مسجد میں ہی گاڑ سکتی تھی تو پھر اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ ان 100 لاشوں کو قبرستان بھیجتی؟
۔
اور اس جھوٹ کا پول کھولنے کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ مشرف صاحب جا چکے، اور چوہدری صاحب کی عدالت آزاد ہے، تو پھر کیوں ایسی بے حسی اور بے غیرتی طاری ہے کہ جا کر عدالت سے رجوع نہیں کیا جاتا کہ ان قبروں سے یہ بقیہ 100 لاشیں نکالی جائیں، انکو غسل دیا جائے اور انکی نماز جنازہ ادا کی جائے۔ اور اس بات کو یقینی کیوں نہیں بنایا جاتا کہ بالفرض محال اگر ایک ایک تابوت میں اگر موجود دو دو لاشوں میں ایک لاش طالبہ کی اور ایک کسی غیر محرم کی ہے تو انہیں علیحدہ کیوں نہیں کیا جاتا؟
اور عقیل خان کو اب کیوں نہیں عدالت میں لایا جاتا اور اسکا بیان نوٹ کیا جاتا؟ اور کیوں عدالت کے زور پر ان دیگر بیسیوں گورکنوں کو بلایا جاتا اور انکو اپنے بیانات درج کروانے کی ہدایت کی جاتی؟ اور گورکن تو ایک طرف، عدالت تو ان سب کے سب سادہ کپڑوں میں موجود اہلکاروں کو عدالت میں بلا کر بیان درج کروانے کا حکم دے سکتی ہے۔ ۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر پھر بھی کچھ نہیں ہوتا۔ کیوں؟
چنانچہ اس معاملے میں آپ لوگوں کے پاس سوائے عقیل خان کے اس بیان کے علاوہ اور کوئی ثبوت نہیں، اور اخبارات کو ایسے جھوٹے بیان ہر کوئی انتہا پسند دے سکتا ہے۔ عقیل خان نے تو اخبار کو چھوٹا جھوٹ بولا، اس عقیل خان سے کہیں بڑے جھوٹ تو شاہد مسعود، عرفان صدیقی، مسعود خان، حامد میر وغیرہ نے بولے اور پوری پوری جھوٹی غمزدہ داستانیں بیان کیں کہ کیسے ان ہزار سے زائد طالبات قتل ہوئیں۔
******************
اگلا الزام بی بی سی نے محمد اشفاق نامی شخص کا بیان کیا ہے کہ جو دعوی کر رہا ہے کہ ان لاشوں کو غسل نہیں دیا گیا بلکہ فائر برگیڈ سے پانی کا چھڑکاؤ کر دیا گیا ہے۔
اسکے جھوٹ کا پول کھولنے کے لیے عبد الستار ایدھی صاحب کا بیان کافی ہے کہ انہوں نے بذات خود ارسٹھ لاشوں کو غسل دیا۔
****************
اگلا الزام بی بی سی نے یہ لگایا ہے کہ فوج کے ترجمان نے اموات کی تعداد 75 بتلائی ہے جبکہ قبرستان میں قبریں 73 ہیں۔
تو انہی کے مطابق اس وقت آپریشن جاری تھا اور مکمل طور پر ختم نہیں ہوا تھا، اور انہوں نے ہی لکھا ہے کہ غازی کی لاش کی تدفین نہیں کی گئی بلکہ لاش پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال میں ہی موجود تھی۔
****************
پھر بی بی سی لکھتا ہے:
یہ ام حسان جو کہ اس فتنے کی اصل جڑوں میں سے تھیں۔ کیا یہ فرار ہوتے ہوئے اپنی 1500 طالبات کو پیچھے چھوڑ آئیں؟
**************
بی بی سی نے اگلا اعتراض یہ کیا ہے کہ کشمیر میں 50 طالبات کا پتا نہیں لگایا جا سکا ہے۔
تو یہ الزام غلط طریقے سے پیش کر کے غلط فہمی پیدا کی جا رہی ہے۔
۔ ان تمام طالبات نے اسلام آباد میں حکومت کے سامنے گرفتاری پیش کی تھی اور پھر ان سے کاغذات پر انکے کوائف درج کروا کر سائن کروا کر کے انہیں انکے ورثاء کے حوالے کر دیا گیا۔
پھر حکومت نے مزید انکے تحفظ کی خاطر یہ اعداد و شمار علاقائی حکومت کو بھیجے تاکہ وہ یقینی بنائیں کہ یہ طالبات اپنے اپنے گھروں تک پہنچ چکی ہیں۔
اس پر کشمیر حکومت کہہ رہی ہے کہ ابھی تک وہ ان کاغذات پر سائن کرنے والی 50 طالبات تک ابھی تک نہیں پہنچ پائے ہیں کیونکہ یا تو ان کے پتے غلط درج ہیں یا پھر نامکمل پتے ہیں۔ اس لیے کشمیر حکومت نے وزارت داخلہ سے پھر سے انکے پتے طلب کیے تھے، اور ہو سکتا ہے کہ ابتک ان پچاس طالبات کا سراغ بھی لگا لیا گیا ہو۔
چنانچہ ان طالبات کا مرنے والوں سے تعلق نہیں، بلکہ باہر آ کر کاغذات پر سائن کرنے والوں سے تعلق ہے اور صرف یہ یقینی بنایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھروں تک پہنچی ہیں یا نہیں۔
اگر آپ پھر بھی الزام لگاتے ہیں کہ حکومت نے ان طالبات کو خود قتل کروا دیا ہے اور اب خود انکی تلاش کروا رہی ہے، تو کیوں نہیں آپ عدالت میں جاتے اور حکومت کو مجبور کرتے کہ وہ ان 50 طالبات کے سائن شدہ کاغذات پیش کرے؟ خود ہی پتا چل جائے گا کہ بی بی سی جھوٹ بول رہا ہے یا سچ، یا پھر اسکی معلومات ناقص اور ادھوری ہیں۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ الزامات لگانے میں تو آپ شیر ہیں، مگر جب عدالت جانے کی بات آتی ہے تاکہ ان الزامات کی بہت آسانی کے ساتھ تصدیق ہو سکے، تو آپ کی ساری ہوا نکل جاتی ہے، اور وہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ جسے معذرت کہ ساتھ میں بے حمیتی اور بے غیرتی سے ہی تعبیر کر سکتی ہوں کہ نہ اپنی ان 1500 دفن شدہ طالبات کو غسل دیتے ہیں، نہ انکی نماز جنازہ ادا کرتے ہیں اور نہ ان کی لاشوں کو نا محرم دہشتگردوں کے لاشوں سے الگ کرتے ہیں۔
*********************
میں نے پہلے تفصیلی لنک پیش کیا تھا کہ حکومت کے پاس جامعہ حفصہ کی طالبات کے بارے میں انرولمنٹ رجسٹر موجود تھا۔ بی بی سی ان طالبات کی تعداد کے بارے میں لکھتا ہے:
ویسے کہا تو جاتا ہے کہ جھوٹ بولنے کے لیے بھی عقل چاہیے ہوتی ہے۔ اور یہ چیز عقل میں مشکل سے آنی چاہیے کہ ان سترہ سو طالبات میں سے پندرہ سو کو حکومت نے قتل کروا کر مسجد میں ہی گاڑ دیا ہے۔ افسوس کہ ملا حضرات کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور وہ برین واشنگ کے ایسے ماہر ہیں کہ انسان خود کش حملوں تک تیار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان 1500 طالبات کے قتل کا شوشہ چھوڑنا اور اس کو عوام کے ذہنوں میں ذہن نشین کروانا ملا حضرات کے لیے مشکل ثابت نہیں ہوا۔اس سلسلے میں انہیں عرفان صدیقی اور حامد میر جیسے رائیٹ ونگ میڈیا کے لوگوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔