تیز سیاہ کافی
"اس بار تو آپ کو آنا پڑے گا۔ بہت سارے لوگ آ رہے ہیں۔ تین بیچز کی ری یونین ایک ساتھ ہو رہی ہے۔ بہت ہلا گلا رہے گا۔" ڈاکٹر اولماک فون پر بہت پر جوش طریقے سے مجھے قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسٹیو اولماک میرے پرانے رفیقِ کار اور ویئن اسٹیٹ یونیورسٹی المنائی کے سرگرم سیکریٹری ہیں۔ ہر چند سال بعد کوئی نہ کوئی تقریب منعقد کرواتے رہتے ہیں۔ میں اپنی گوشہ نشین طبیعت کے باعث ہر بار منع کر دیتا ہوں۔ لیکن اس بار وہ بہت اصرار کر رہے تھے: "پچیس سالہ ری یونین ہے ۔ بہت سارے لوگ ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں۔ پھر نہ جانے مل بیٹھنے کا کوئی موقع ملے یا نہ ملے۔ آپ اس بار ضرور آئیے۔"
پھر وہ ایک ایک کرکے ری یونین میں آنے والے کئی پرانے دوستوں کے نام گنوانے لگے تو میں سوچ میں پڑ گیا۔ لیکن جب انہوں نے کہا کہ کیلیفورنیا سے ماریا رومیرو بھی آ رہی ہے تو میں نے شرکت کی حامی بھر لی۔
فون رکھ کر میں سوچنے لگا کہ پچیس سال کتنی جلدی گزر گئے۔ کل کی سی بات لگتی ہے کہ میں ماریا رومیرو سے پہلی دفعہ ملا تھا ۔ میں اُن دنوں ڈیٹرائیٹ میڈیکل سینٹر میں ریزیڈنسی کا تیسرا اور آخری سال شروع کر رہا تھا۔ فائنل ایئر ریزیڈنٹ تقریباً پورا ڈاکٹر بن چکا ہوتا ہے اس لیے اپنی ٹیم کے سربراہ کی حیثیت سے نہ صرف مریضوں کے علاج معالجے کا ذمہ دار ہوتا ہے بلکہ جونیئر ریزیڈنٹ اور میڈیکل کالج کے طلبہ کی تعلیم و تربیت کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔ یہ تیسرے سال کے بالکل شروع دنوں کی بات ہے ۔ جولائی کا مہینہ تھا۔ میں ایک روز سہ پہر کے وقت پانچویں منزل کے کاریڈور میں تیز قدموں چلتا ہوا جا رہا تھا تاکہ کیفےٹیریا بند ہونے سے پہلے کھانے کے لیے کچھ لے سکوں۔ اتنے میں پیچھے سے ریزیڈنسی کے پروگرام ڈائریکٹر پروفیسر ایبرائٹ نے مجھے پکارا: " ڈاکٹر زیش!"
ویسے تو ڈاکٹروں کو ان کے سرنیم سے مخاطب کیا جاتا ہے لیکن اسپتال کے کلچر میں ایک خاص بات یہ تھی کہ مشکل اور طویل ناموں والے غیر ملکی ڈاکٹروں کو آسانی کی خاطر اکثر کوئی مختصر سا نام دے دیا جاتا تھا۔ چنانچہ مجھے اپنے پہلے اور آخری نام سے بنے مخفف ڈاکٹر زیش کی عرفیت سے بلایا جاتا تھا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ سفید کوٹ میں ملبوس ایک نوجوان خاتون کے ساتھ کھڑے تھے۔ میں قریب پہنچا تو وہ خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے: "ان سے ملو! یہ ڈاکٹر ماریا رومیرو ہیں۔ یہ ارجنٹینا سے ہیں اور اسی ماہ ریزیڈنسی شروع کر رہی ہیں۔ چند روز پہلے ہی یہاں پہنچی ہیں۔ ذرا قدم جمانے میں ان کی مدد کرو۔"
اور پھر ماریا کی طرف مڑ کر بولے: " یہ ڈاکٹر زیش ہیں ، گرین ٹیم کے لیڈر۔ یہ اپنے جونیئرز کی بہت مدد کرتے ہیں اور آپ کو ہر ممکن رہنمائی فراہم کریں گے۔"
میں ماریا کی طرف متوجہ ہوا تو وہ سادہ سے نقوش اور سیاہ بالوں والی درمیانے قد کی نسبتاًدبلی پتلی خاتون تھیں ۔ میری ہم عمر یا مجھ سے دو تین سال چھوٹی لگ رہی تھیں۔ بائیں ہاتھ میں ایک بیگ تھاما ہوا تھا۔ ہاتھ ملانے اور رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد میں نے ماریا اور پروفیسر ایبرائٹ دونوں کو چند الفاظ میں ہر ممکنہ مدد کی یقین دہانی کرائی۔ ڈاکٹر ایبرائٹ تو اس نووارد خاتون اور ان کے مختصر تعارف سے پیدا ہونے والی خالی جگہوں کو پُر کرنے کی ذمہ داری میرے کاندھوں پر ڈال کر ایک طرف کو چل دیے لیکن میں مشکل میں پڑ گیا۔ کیفے ٹیریا بند ہونے میں چند ہی منٹ باقی تھے۔ اگر ماریا سے بات چیت شروع کرتا تو شام تک بھوکا رہنا پڑتا۔ چنانچہ مزید کوئی بات کیے بغیر میں نے ان سے پوچھا کہ آیا انہوں نے لنچ کر لیا ہے یا نہیں۔ وہ ایک لمحے کے لیے متذبذب ہوئیں اور پھر بولیں : "نہیں۔ صبح سے کاغذی کارروائی کے سلسلے میں مختلف دفتروں کے چکر کاٹ رہی ہوں ، ابھی تک لنچ کرنے کا وقت نہیں ملا ہے۔"
میں نے کہا : " تو پھر جلدی چلیے۔ میں پہلے آپ کو لنچ کرواتا ہوں۔ باقی باتیں اس کے بعد ہوں گی۔ کیفے ٹیریا دوسری منزل پر ہے ، بس بند ہونے والا ہے۔"
بھاگم بھاگ کیفے ٹیریا پہنچے تو دیکھا کہ کاؤنٹر بند ہو چکا تھا اور کچن کا عملہ اپنی بساط لپیٹ رہا تھا۔ بھوک سے میرا برا حال تھا۔ کوئی اور موقع ہوتا تو میں وینڈنگ مشین سے کچھ لے کر ہی کھا لیتا لیکن اتفاق سے اس وقت جیب میں صرف دو ڈالر تھے۔ دو ڈالر اس زمانے میں چپس کے دو بیگ خریدنے کے لیے تو کافی تھے لیکن میں یہ سوچ کر شرمندہ ہو رہا تھا کہ پانچ منٹ پہلے میں نے جن خاتون کی ہر ممکنہ مدد کا وعدہ کیا تھا انہیں معقول سے لنچ کے بجائے آلو کے سوکھے چپس کا ایک مختصر سا بیگ تھما دینا کیسا برا لگے گا۔ میں ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ ماریا بولیں: " میں چل چل کر تھک گئی ہوں۔ کیوں نہ یہیں بیٹھ کر بات کر لی جائے۔"
ہم دونوں ایک میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے اپنا بیگ سامنے میز پر رکھ دیا اور بولیں: "مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے آپ کو رکنا پڑا اور آپ کا لنچ مارا گیا۔" میں نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا : "یہ تو معمول کا واقعہ ہے۔ جلد ہی آپ کے ساتھ بھی پیش آنے لگے گا۔ ابھی سے تیار ہو جائیے۔ ریزیڈنسی پروگرام میں خوش آمدید!"
یہ سن کر وہ ہنس پڑیں : " ڈاکٹر ایبرائٹ تو آپ کی تعریفیں کر رہے تھے کہ آپ جونیئرز کی بہت مدد کرتے ہیں لیکن آپ تو الٹا مجھے ڈرا رہے ہیں۔"
میں نے کہا: " ڈاکٹر ایبرائٹ ویسے تو اچھے انسان ہیں لیکن ان میں مبالغہ آرائی کی بری عادت ہے۔" وہ پھر ہنس پڑیں۔ ایک منٹ کچھ سوچنے کے بعد انہوں نے اپنا بیگ کھولا اور اس میں سے ایک پی نٹ بٹر سینڈوچ ، ایک سیب اور ایک کیلا برآمد کیا۔ سینڈوچ درمیان میں سے ترچھا کٹا ہوا تھا۔ سینڈوچ کا نصف حصہ اور سیب میری طرف بڑھاتے ہوئے بولیں: " ڈاکٹر زیش، پلیز آپ یہ لے لیجیے ۔ میں صبح ساتھ لیتی آئی تھی کہ نجانے دفتری کاموں سے کب تک فراغت ملے۔"
میرے انکار کرنے کے باوجود وہ مصر رہیں اور مجھے وہ سینڈوچ اور سیب لینا ہی پڑا ۔ میں اٹھ کر وینڈنگ مشین سے سوڈے کی دو بوتلیں نکال لایا۔ یوں کیفے ٹیریا کی اس میز پر ماریا رومیرو سے میری پہلی تفصیلی گفتگو شروع ہوئی۔ معلوم ہوا کہ بیونس آئرس کے مضافات سے ہیں۔ تازہ تازہ میڈیکل کالج ختم کرکے چند روز پہلے ہی امریکا پہنچی ہیں۔ پروگرام کوآرڈینٹر نے اسپتال سے چند میل دور ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ کا بندوبست کر دیا ہے۔ میں نے بھی مختصراً اپنا تعارف کروایا۔ اسپتال ، ڈیٹرائیٹ شہر اور روز مرہ ضروریات زندگی کے بارے میں کچھ مفید مشوروں اور ذاتی تجربات سے آگاہ کیا۔ سیل فون ان دنوں سستے اور عام ہونا شروع ہوگئے تھے اور اتفاق سے میں نے چند ماہ قبل ہی اپنا پہلا فون خریدا تھا ،اپنا فون نمبر اور پیجر نمبر انہیں دیا اور تاکید کی کہ جب بھی کسی مدد کی ضرورت ہو بلا تکلف بتا دیں۔ اس کے بعد میں اپنے وارڈ اور وہ اپنے اگلے دفتری کام کی طرف روانہ ہو گئیں۔
اس واقعے کے دو تین روز بعد ایک سہ پہر جب میں تیس گھنٹے کی ڈیوٹی ختم کرکے اپنی کھٹارا میں اسپتال کی پارکنگ سے نکل کر باہر آیا تو دیکھا کہ وہ سڑک کنارے اپنا بیگ اٹھائے بس کا انتظار کر رہی ہیں۔ میرا دایاں پیر بے ساختہ بریک کو دباتا چلا گیا۔ ٹائروں نے کچھ شور مچایا اور گاڑی بس اسٹاپ سے کچھ آگے جا کر رک گئی۔ گاڑی کو ریورس کرکے پیچھے لایا اور شیشہ نیچے کیا تو مجھے دیکھ کر ان کے چہرے پر حیرت اور خوشی کے تاثرات نمایاں ہونے لگے ۔
"ہیلو!" میں نے کہا ۔ "اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔"
وہ کئی بار شکریہ ادا کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ میں ان دنوں اکیلا تھا اور اسپتال سے چند میل دور ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا۔ ایک پرانی کار جو دو سال پہلے ریزیڈنسی شروع کرنے کے بعد اسپتال ہی کے ایک ملازم سے خریدی تھی میری ضرورت کو بخوبی پورا کر رہی تھی۔ ان سے پتہ پوچھا تو معلوم ہوا کہ میری رہائش سے بہت زیادہ دور نہیں ۔ اسپتال سے ان کے اپارٹمنٹ تک بیس پچیس منٹ کا راستہ مختصر سی گفتگو میں کٹ گیا ۔ پتہ چلا کہ کاغذی کارروائی تقریباً مکمل ہو چکی ہے اور وہ تین دن بعد ریزیڈنسی شروع کر دیں گی۔ میں نے انہیں مبارکباد دی اور کہا ۔"آئندہ تین دنوں میں آپ جتنا سو سکتی ہیں سو لیں۔ اس لیے کہ نیند اور فرسٹ ایئر باہم متضاد چیزیں ہیں۔" یہ سن کر وہ ذرا مسکرائیں اور بولیں: " آپ پھر مجھے ڈرا رہے ہیں۔ میں ڈاکٹر ایبرائٹ سے شکایت کر دوں گی۔" میں نے جواباً کہا کہ فرسٹ ایئر میں شکایت کرنے کی نہ تو فرصت ملتی ہے اور نہ ہی اجازت تو اس پر وہ کھلکھلا اٹھیں۔ اپارٹمنٹ کمپلیکس کے باہر وہ شکریہ ادا کرتے ہوئے گاڑی سے اتریں اور ہاتھ ہلا کر داخلی دروازے کی جانب چل دیں۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی راہ لیتا وہ یکایک پلٹیں اور واپس گاڑی تک چلی آئیں۔ میں نے شیشہ نیچے کیا تو دیکھا کہ ان کے چہرے پر کچھ تذبذب اور شرمندگی کے سے آثار تھے۔
میں نے پوچھا: "سب خیریت؟"
وہ کچھ کسمسائیں اور دبے دبے سے لہجے میں بتایا کہ بس کے اوقات اسپتال کے اوقاتِ کار سے بہت مختلف ہیں اور انہیں آنے جانے میں بہت مشکل ہو رہی ہے۔ ڈر ہے کہ تین دن بعد جب ریزیڈنسی شروع کریں گی تو روز صبح اسپتال پہنچنے میں دیر نہ ہو جائے۔ پھر بہت سادگی اور بے چارگی کے انداز میں مجھ سے پوچھا کہ آیا میں انہیں کچھ روز تک صبح و شام اسپتال لانے لیجانے میں مدد دے سکتا ہوں۔ یہ بھی کہا کہ جیسے ہی تنخواہ ملنا شروع ہو گی وہ پہلی فرصت میں اپنی کار کا بندوبست کر لیں گی۔
کچھ تو اپنی عادت اور کچھ اس وجہ سے کہ میں نے ابھی تین دن پہلے ہی انہیں اور پروفیسر ایبرائٹ کو اپنی مدد کا یقین دلایا تھا مجھے انکار کی ہمت نہ ہو سکی ، ان کی درخواست قبول کرتے ہی بنی۔ ویسے بھی ان کی بلڈنگ ایک طرح سے میرے راستے میں ہی پڑتی تھی۔ طے یہ ہوا کہ وہ ہر صبح ایک مقررہ وقت پر اپنی بلڈنگ کے دروازے کے باہر میرا انتظار کریں گی۔ جبکہ واپسی کا وقت روزانہ اسپتال میں پیجر کے ذریعے طے ہوا کرے گا۔ اور دونوں کا شیڈول اگر مختلف ہوا تو وہ بس استعمال کریں گی۔
اس طرح ماریا سے میری دو دفعہ روزانہ ملاقات کا آغاز ہوا ۔ میں ہر صبح ان کی بلڈنگ کے باہر سے انہیں اسپتال تک رائڈ دیتا اور شام کو اسی بلڈنگ کے باہر چھوڑ دیا کرتا ۔ سار ا راستہ ریزیڈنسی ، اسپتال اور مریضوں کے متعلق گفتگو ہوتی رہتی۔ چند روز بعد ہی ان کی سادہ مزاجی اور خوش دلی مجھ پر نمایاں ہونے لگی۔ مجھے بات بے بات لطیفے اور پھلجھڑیاں چھوڑنے کا شوق تھا اور انہیں ہنسنے کا ۔ وہ بے ساختہ اور اندر سے ہنستی تھیں۔ ناممکن تھا کہ ان کی ہنسی کا ساتھ ہنسی یا مسکراہٹ سے نہ دیا جائے۔ وہ روزانہ گاڑی سے اترتے وقت میری مدد کا شکریہ بہت خلوص سے ادا کرتیں اور میں ہمیشہ مصنوعی سنجیدگی سے جواب دیتا کہ ڈاکٹر ایبرائٹ کو اس کا تاوان ادا کرنا پڑے گا ۔ اس پر وہ کھلکھلا اٹھتیں۔ اس معمول کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ وہ اسپتال میں مجھے پیج کرکے اکٹھے لنچ کرنے کے لیے پوچھنے لگیں۔ چنانچہ ہفتے میں دو تین بار ان سے لنچ پر بھی بات چیت ہونے لگی۔ ایک دن مجھے پہنچنے میں دیر ہو ئی تو دیکھا کہ انہوں نے میرے لیے فِش سینڈوچ اور کوک پہلے ہی سے لے کر رکھا ہوا تھا۔ وہ چند ہی روز میں جان گئی تھیں کہ میں لنچ میں فش سینڈوچ کے علاوہ اور کچھ نہیں کھاتا۔
آہستہ آہستہ ان سے گفتگو تکلفات کے دائرے سے باہر نکلنے لگی۔ ہم دونوں ہی کا تعلق تیسری دنیا کے ممالک سے تھا اور دونوں ہی بہتر مستقبل کے خواب لیے ایک نئی سرزمین میں وارد ہوئے تھے۔ سو ہمارے حالات اور مسائل میں بہت ساری باتیں مشترک تھیں۔ وہ بہت سادہ عادات کی مالک ، تکلفات اور تصنع سے مبرا تھیں ۔ مجھے ان کی شخصیت کے یہ پہلو اپنے مزاج کے قریب لگے۔ امریکا آنے والے اکثر نوجوان غیر ملکی ڈاکٹر عموماً ایک ہی کشتی کے سوار ہوا کرتے تھے۔ بے سروسامانی کا عالم ، اسپتال کی شب و روز مصروفیات ، غریب الوطنی کا احساس ، نئی زمین اور نئے نظام کے چیلنج ۔۔۔ یہ سب مشترکہ عناصر ایک دوسرے کے درمیان سے تکلفات اور حجابات کو کم کر نے کا باعث بن جاتے تھے۔ ان دنوں ریزیڈنٹس کو ہر سات دن بعد آدھے اور ہر دس دن بعد پورے دن کی چھٹی ملا کرتی تھی۔ میں چھٹی کے دن عموماً اپنی نیند پوری کرتا یا پھر گروسری شاپنگ ، لانڈری اور دیگر ضروریات وغیرہ نبٹایا کرتا تھا ۔ میں نے ایک دن اخلاقاً انہیں شاپنگ کے سلسلے میں مدد کی پیشکش کی تو وہ فوراً تیار ہو گئیں ۔ اور یوں ہفتے دس دن میں انہیں وال مارٹ لانے لیجانے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ میں اپنی کار کو کھٹارا کہا کرتا تھا۔ ماریا اسے ہسپانوی لہجے میں کتارا کہتی تھیں۔ میرا ہمدردانہ اور مخلص رویہ دیکھ کر شاید ان کی ہمت بڑھی اور وہ مجھ سے دیگر ضروریات کے لیے بھی کھٹارا ادھار مانگنے لگیں ۔ " کیا آج مجھے کچھ دیر کے لیے کتارا اور اس کا ڈرائیور ادھار مل سکتا ہے؟" وہ مسکراتے اور کچھ جھجکتے ہوئے مجھ سے پوچھتیں تو میں مصنوعی بڑبڑاہٹ سے اپنا پرانا جواب دہرا دیتا کہ ڈاکٹر ایبرائٹ کو بالآخر اس کا پورا پورا تاوان دینا پڑے گا۔ جس پر وہ حسبِ سابق کھل اٹھتیں۔
ایک دن ان کو بینک اور سوشل سیکورٹی کے دفتر سے کاغذی کارروائی مکمل کروانے کے بعد واپس لا رہا تھا تو راستے میں ایک ڈائنر (چھوٹا اور نسبتاً سستا ریستوران) نظر آیا۔ دونوں نے ابھی تک لنچ نہیں کیا تھا ۔ چنانچہ فیصلہ کیا کہ وہاں بیٹھ کر کچھ کھا لیا جائے ۔باہر سے عام سا نظر آنے والا ڈائنر اندر سے بہت صاف ستھرا اور پرسکون نکلا۔ فرنیچر اور در و دیوار کی سجاوٹ سے خوش ذوقی نمایاں تھی۔ ہر طرف سمندر اور لائٹ ہاؤس کی بہت ساری تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ اس دن بہت ماریا سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں ۔عادتیں ، پسند ناپسند اور روزمرہ مشاغل پر باہمی تبادلۂ خیال ہوا۔ معلوم ہوا کہ ماریا کو سمندر اور اس سے متعلق چیزیں بہت پسند ہیں۔ تیراکی کی ماہر ہیں۔ میں نے بھی اپنے بارے میں بتایا۔ باتوں سے باتیں نکلتی چلی گئیں تو پاکستان اور ارجنٹینا کی معاشرت و ثقافت کا آپس میں تعارف ہوا۔ ہم دونوں کو وہ ڈائنر پسند آیا۔ فیصلہ کیا کہ مہینے میں ایک آدھ بار یہاں کھانے کے لیے آیا جائے گا۔
دو تین ہفتے بعد میں نے محسوس کیا کہ اب ان کے سوالات آہستہ آہستہ طب اور اسپتالی معاملات کے بجائے زیادہ تر میری ذات اور پاکستان کے بارے میں ہونے لگے ہیں۔ ایک دن جب میں نے بتایا کہ مجھے مٹی کے مٹکوں اور صراحیوں کا ٹھنڈا پانی یاد آتا ہے تو وہ حیران ہوئیں اور کہا کہ مٹی کے برتن ارجنٹینا میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ بے تکلفی بڑھی تو انہوں نے مجھے چند ہسپانوی اور میں نے انہیں چند اردو الفاظ سکھا دیے۔ چنانچہ کبھی کبھی جب وہ انگریزی میں ہاؤ آر یو کے بجائے اردو میں کہتیں کہ" اپ کا کیا حل ہے؟" تو میں ہنس کر جواب دیتا کہ میرا کوئی حل نہیں ہے۔
ماریا کو اسپتال لانے لیجانے کے اس سلسلے کو چلتے ہوئے تقریباً سات آٹھ ہفتے گزر گئے۔ وہ ستمبر کی ایک صبح تھی جب میں انہیں لینے پہنچا تو وہ گیٹ کے باہر کھڑی کچھ مختلف سی نظر آئیں۔ خلافِ معمول اچھے ڈیزائن کا میچنگ کا لباس پہنے ہوئے تھیں۔ بال بھی سلیقے سے بنے ہوئے تھے۔ کار میں داخل ہوئیں تو پہلی دفعہ کھٹارا کی فضا پرفیوم کی ہلکی سی خوشبو سے معطر ہو اٹھی۔ مجھے گڈ مارننگ کہا تو میں نے پوچھا: " معاف کیجیے ، آپ کون ہیں اور ماریا رومیرو کہاں ہیں؟" لمحے بھر کے لیے ہلکی سی شرماہٹ کا ایک رنگ ان کے چہرے سے گزر گیا۔ پھر وہ ہنس کر بولیں: " وہ ارجنٹینا چلی گئی ہے۔ اب اس کی جگہ آپ روزانہ مجھے رائڈ دیا کریں گے۔" میں بھی مسکرا دیا۔ ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کو عام ہدایت تھی کہ وہ کام پر کوئی پرفیوم لگا کر نہ آئیں تاکہ ان کے مریض کسی ممکنہ الرجی سے محفوظ رہیں۔ ذہن میں خیال آیا کہ مجھے یہ بات ماریا کو بتا دینا چاہیے لیکن نجانے کیوں میں ہمت نہ کر سکا۔ سوچا کہ جلد یا بدیر کوئی اور ان کو یہ بات بتا دے گا۔
اس کے بعد ان کا یہ نیا رنگ و روپ روزانہ کا معمول سا بن گیا۔ اب سوچتا ہوں کہ زندگی کا وہ مرحلہ بھی عجیب تھا ۔ اپنی زمین سے اکھڑے ہوئے ایک بے برگ وبار شجر کی طرح نئی مٹی میں جڑیں جمانے کی کوششوں میں مصروف میں ہمہ وقت اندر اور باہر کے تمام موسموں سے لڑ رہا تھا۔ دل و دماغ پر ہر وقت اپنے شعبے میں آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے کی ایک دھن سوار رہتی تھی ۔ آنکھوں کے آگے خوابوں کا ایک کلائیڈو اسکوپ تھا کہ جس میں مستقبل کے رنگ برنگ منظروں کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا تھا ۔ دائیں بائیں کیا ہو رہا تھا، میری آنکھیں اور احساسات اس سے بے خبر تھے۔ میں ماریا میں ان تبدیلیوں کا اُس وقت کوئی مطلب نہیں نکال سکا۔
***