الوداعی تقریب تیز سیاہ کافی

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
محبت کرنےوالوں کو الوداع کہنا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔لیکن زندگی کے پرپیچ سفر میں ملنا اور بچھڑنا نا تو ناگزیر باتیں ہیں ۔ سلسلۂ روز و شب نقش گرِ بے ثبات!
محبت کا تقاضا بھی شاید یہی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی مجبوریوں سے سمجھوتا کیا جائے ۔ کچھ عرصے سے میں اپنی چیدہ چیدہ یادداشتیں قلم بند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں (تاکہ آخری عمر میں بھول نہ جاؤں:)) ۔ اردو محفل پر اس وقت ری یونین کا سا سماں ہے تو مجھے ری یونین سے متعلق اپنی ایک تحریر بر محل محسوس ہوتی ہے ۔ اس تحریر کو الوداعی تقریب کے دھاگے میں پوسٹ کرنے کا یہی مقصد ہے ۔
احبابِ کرام ! اگر آپ کے پاس پندرہ بیس منٹ کا وقت اور ذہنی فرصت ہو تو اس تحریر کو پڑھیے گا۔ شاید آپ کو بین السطور اپنی زندگی کی جھلک نظر آئے!
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تیز سیاہ کافی
"اس بار تو آپ کو آنا پڑے گا۔ بہت سارے لوگ آ رہے ہیں۔ تین بیچز کی ری یونین ایک ساتھ ہو رہی ہے۔ بہت ہلا گلا رہے گا۔" ڈاکٹر اولماک فون پر بہت پر جوش طریقے سے مجھے قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسٹیو اولماک میرے پرانے رفیقِ کار اور ویئن اسٹیٹ یونیورسٹی المنائی کے سرگرم سیکریٹری ہیں۔ ہر چند سال بعد کوئی نہ کوئی تقریب منعقد کرواتے رہتے ہیں۔ میں اپنی گوشہ نشین طبیعت کے باعث ہر بار منع کر دیتا ہوں۔ لیکن اس بار وہ بہت اصرار کر رہے تھے: "پچیس سالہ ری یونین ہے ۔ بہت سارے لوگ ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں۔ پھر نہ جانے مل بیٹھنے کا کوئی موقع ملے یا نہ ملے۔ آپ اس بار ضرور آئیے۔"
پھر وہ ایک ایک کرکے ری یونین میں آنے والے کئی پرانے دوستوں کے نام گنوانے لگے تو میں سوچ میں پڑ گیا۔ لیکن جب انہوں نے کہا کہ کیلیفورنیا سے ماریا رومیرو بھی آ رہی ہے تو میں نے شرکت کی حامی بھر لی۔

فون رکھ کر میں سوچنے لگا کہ پچیس سال کتنی جلدی گزر گئے۔ کل کی سی بات لگتی ہے کہ میں ماریا رومیرو سے پہلی دفعہ ملا تھا ۔ میں اُن دنوں ڈیٹرائیٹ میڈیکل سینٹر میں ریزیڈنسی کا تیسرا اور آخری سال شروع کر رہا تھا۔ فائنل ایئر ریزیڈنٹ تقریباً پورا ڈاکٹر بن چکا ہوتا ہے اس لیے اپنی ٹیم کے سربراہ کی حیثیت سے نہ صرف مریضوں کے علاج معالجے کا ذمہ دار ہوتا ہے بلکہ جونیئر ریزیڈنٹ اور میڈیکل کالج کے طلبہ کی تعلیم و تربیت کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔ یہ تیسرے سال کے بالکل شروع دنوں کی بات ہے ۔ جولائی کا مہینہ تھا۔ میں ایک روز سہ پہر کے وقت پانچویں منزل کے کاریڈور میں تیز قدموں چلتا ہوا جا رہا تھا تاکہ کیفےٹیریا بند ہونے سے پہلے کھانے کے لیے کچھ لے سکوں۔ اتنے میں پیچھے سے ریزیڈنسی کے پروگرام ڈائریکٹر پروفیسر ایبرائٹ نے مجھے پکارا: " ڈاکٹر زیش!"
ویسے تو ڈاکٹروں کو ان کے سرنیم سے مخاطب کیا جاتا ہے لیکن اسپتال کے کلچر میں ایک خاص بات یہ تھی کہ مشکل اور طویل ناموں والے غیر ملکی ڈاکٹروں کو آسانی کی خاطر اکثر کوئی مختصر سا نام دے دیا جاتا تھا۔ چنانچہ مجھے اپنے پہلے اور آخری نام سے بنے مخفف ڈاکٹر زیش کی عرفیت سے بلایا جاتا تھا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ سفید کوٹ میں ملبوس ایک نوجوان خاتون کے ساتھ کھڑے تھے۔ میں قریب پہنچا تو وہ خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے: "ان سے ملو! یہ ڈاکٹر ماریا رومیرو ہیں۔ یہ ارجنٹینا سے ہیں اور اسی ماہ ریزیڈنسی شروع کر رہی ہیں۔ چند روز پہلے ہی یہاں پہنچی ہیں۔ ذرا قدم جمانے میں ان کی مدد کرو۔"
اور پھر ماریا کی طرف مڑ کر بولے: " یہ ڈاکٹر زیش ہیں ، گرین ٹیم کے لیڈر۔ یہ اپنے جونیئرز کی بہت مدد کرتے ہیں اور آپ کو ہر ممکن رہنمائی فراہم کریں گے۔"
میں ماریا کی طرف متوجہ ہوا تو وہ سادہ سے نقوش اور سیاہ بالوں والی درمیانے قد کی نسبتاًدبلی پتلی خاتون تھیں ۔ میری ہم عمر یا مجھ سے دو تین سال چھوٹی لگ رہی تھیں۔ بائیں ہاتھ میں ایک بیگ تھاما ہوا تھا۔ ہاتھ ملانے اور رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد میں نے ماریا اور پروفیسر ایبرائٹ دونوں کو چند الفاظ میں ہر ممکنہ مدد کی یقین دہانی کرائی۔ ڈاکٹر ایبرائٹ تو اس نووارد خاتون اور ان کے مختصر تعارف سے پیدا ہونے والی خالی جگہوں کو پُر کرنے کی ذمہ داری میرے کاندھوں پر ڈال کر ایک طرف کو چل دیے لیکن میں مشکل میں پڑ گیا۔ کیفے ٹیریا بند ہونے میں چند ہی منٹ باقی تھے۔ اگر ماریا سے بات چیت شروع کرتا تو شام تک بھوکا رہنا پڑتا۔ چنانچہ مزید کوئی بات کیے بغیر میں نے ان سے پوچھا کہ آیا انہوں نے لنچ کر لیا ہے یا نہیں۔ وہ ایک لمحے کے لیے متذبذب ہوئیں اور پھر بولیں : "نہیں۔ صبح سے کاغذی کارروائی کے سلسلے میں مختلف دفتروں کے چکر کاٹ رہی ہوں ، ابھی تک لنچ کرنے کا وقت نہیں ملا ہے۔"
میں نے کہا : " تو پھر جلدی چلیے۔ میں پہلے آپ کو لنچ کرواتا ہوں۔ باقی باتیں اس کے بعد ہوں گی۔ کیفے ٹیریا دوسری منزل پر ہے ، بس بند ہونے والا ہے۔"
بھاگم بھاگ کیفے ٹیریا پہنچے تو دیکھا کہ کاؤنٹر بند ہو چکا تھا اور کچن کا عملہ اپنی بساط لپیٹ رہا تھا۔ بھوک سے میرا برا حال تھا۔ کوئی اور موقع ہوتا تو میں وینڈنگ مشین سے کچھ لے کر ہی کھا لیتا لیکن اتفاق سے اس وقت جیب میں صرف دو ڈالر تھے۔ دو ڈالر اس زمانے میں چپس کے دو بیگ خریدنے کے لیے تو کافی تھے لیکن میں یہ سوچ کر شرمندہ ہو رہا تھا کہ پانچ منٹ پہلے میں نے جن خاتون کی ہر ممکنہ مدد کا وعدہ کیا تھا انہیں معقول سے لنچ کے بجائے آلو کے سوکھے چپس کا ایک مختصر سا بیگ تھما دینا کیسا برا لگے گا۔ میں ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ ماریا بولیں: " میں چل چل کر تھک گئی ہوں۔ کیوں نہ یہیں بیٹھ کر بات کر لی جائے۔"
ہم دونوں ایک میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے اپنا بیگ سامنے میز پر رکھ دیا اور بولیں: "مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے آپ کو رکنا پڑا اور آپ کا لنچ مارا گیا۔" میں نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا : "یہ تو معمول کا واقعہ ہے۔ جلد ہی آپ کے ساتھ بھی پیش آنے لگے گا۔ ابھی سے تیار ہو جائیے۔ ریزیڈنسی پروگرام میں خوش آمدید!"
یہ سن کر وہ ہنس پڑیں : " ڈاکٹر ایبرائٹ تو آپ کی تعریفیں کر رہے تھے کہ آپ جونیئرز کی بہت مدد کرتے ہیں لیکن آپ تو الٹا مجھے ڈرا رہے ہیں۔"
میں نے کہا: " ڈاکٹر ایبرائٹ ویسے تو اچھے انسان ہیں لیکن ان میں مبالغہ آرائی کی بری عادت ہے۔" وہ پھر ہنس پڑیں۔ ایک منٹ کچھ سوچنے کے بعد انہوں نے اپنا بیگ کھولا اور اس میں سے ایک پی نٹ بٹر سینڈوچ ، ایک سیب اور ایک کیلا برآمد کیا۔ سینڈوچ درمیان میں سے ترچھا کٹا ہوا تھا۔ سینڈوچ کا نصف حصہ اور سیب میری طرف بڑھاتے ہوئے بولیں: " ڈاکٹر زیش، پلیز آپ یہ لے لیجیے ۔ میں صبح ساتھ لیتی آئی تھی کہ نجانے دفتری کاموں سے کب تک فراغت ملے۔"
میرے انکار کرنے کے باوجود وہ مصر رہیں اور مجھے وہ سینڈوچ اور سیب لینا ہی پڑا ۔ میں اٹھ کر وینڈنگ مشین سے سوڈے کی دو بوتلیں نکال لایا۔ یوں کیفے ٹیریا کی اس میز پر ماریا رومیرو سے میری پہلی تفصیلی گفتگو شروع ہوئی۔ معلوم ہوا کہ بیونس آئرس کے مضافات سے ہیں۔ تازہ تازہ میڈیکل کالج ختم کرکے چند روز پہلے ہی امریکا پہنچی ہیں۔ پروگرام کوآرڈینٹر نے اسپتال سے چند میل دور ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ کا بندوبست کر دیا ہے۔ میں نے بھی مختصراً اپنا تعارف کروایا۔ اسپتال ، ڈیٹرائیٹ شہر اور روز مرہ ضروریات زندگی کے بارے میں کچھ مفید مشوروں اور ذاتی تجربات سے آگاہ کیا۔ سیل فون ان دنوں سستے اور عام ہونا شروع ہوگئے تھے اور اتفاق سے میں نے چند ماہ قبل ہی اپنا پہلا فون خریدا تھا ،اپنا فون نمبر اور پیجر نمبر انہیں دیا اور تاکید کی کہ جب بھی کسی مدد کی ضرورت ہو بلا تکلف بتا دیں۔ اس کے بعد میں اپنے وارڈ اور وہ اپنے اگلے دفتری کام کی طرف روانہ ہو گئیں۔
اس واقعے کے دو تین روز بعد ایک سہ پہر جب میں تیس گھنٹے کی ڈیوٹی ختم کرکے اپنی کھٹارا میں اسپتال کی پارکنگ سے نکل کر باہر آیا تو دیکھا کہ وہ سڑک کنارے اپنا بیگ اٹھائے بس کا انتظار کر رہی ہیں۔ میرا دایاں پیر بے ساختہ بریک کو دباتا چلا گیا۔ ٹائروں نے کچھ شور مچایا اور گاڑی بس اسٹاپ سے کچھ آگے جا کر رک گئی۔ گاڑی کو ریورس کرکے پیچھے لایا اور شیشہ نیچے کیا تو مجھے دیکھ کر ان کے چہرے پر حیرت اور خوشی کے تاثرات نمایاں ہونے لگے ۔
"ہیلو!" میں نے کہا ۔ "اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔"
وہ کئی بار شکریہ ادا کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ میں ان دنوں اکیلا تھا اور اسپتال سے چند میل دور ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا۔ ایک پرانی کار جو دو سال پہلے ریزیڈنسی شروع کرنے کے بعد اسپتال ہی کے ایک ملازم سے خریدی تھی میری ضرورت کو بخوبی پورا کر رہی تھی۔ ان سے پتہ پوچھا تو معلوم ہوا کہ میری رہائش سے بہت زیادہ دور نہیں ۔ اسپتال سے ان کے اپارٹمنٹ تک بیس پچیس منٹ کا راستہ مختصر سی گفتگو میں کٹ گیا ۔ پتہ چلا کہ کاغذی کارروائی تقریباً مکمل ہو چکی ہے اور وہ تین دن بعد ریزیڈنسی شروع کر دیں گی۔ میں نے انہیں مبارکباد دی اور کہا ۔"آئندہ تین دنوں میں آپ جتنا سو سکتی ہیں سو لیں۔ اس لیے کہ نیند اور فرسٹ ایئر باہم متضاد چیزیں ہیں۔" یہ سن کر وہ ذرا مسکرائیں اور بولیں: " آپ پھر مجھے ڈرا رہے ہیں۔ میں ڈاکٹر ایبرائٹ سے شکایت کر دوں گی۔" میں نے جواباً کہا کہ فرسٹ ایئر میں شکایت کرنے کی نہ تو فرصت ملتی ہے اور نہ ہی اجازت تو اس پر وہ کھلکھلا اٹھیں۔ اپارٹمنٹ کمپلیکس کے باہر وہ شکریہ ادا کرتے ہوئے گاڑی سے اتریں اور ہاتھ ہلا کر داخلی دروازے کی جانب چل دیں۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی راہ لیتا وہ یکایک پلٹیں اور واپس گاڑی تک چلی آئیں۔ میں نے شیشہ نیچے کیا تو دیکھا کہ ان کے چہرے پر کچھ تذبذب اور شرمندگی کے سے آثار تھے۔
میں نے پوچھا: "سب خیریت؟"
وہ کچھ کسمسائیں اور دبے دبے سے لہجے میں بتایا کہ بس کے اوقات اسپتال کے اوقاتِ کار سے بہت مختلف ہیں اور انہیں آنے جانے میں بہت مشکل ہو رہی ہے۔ ڈر ہے کہ تین دن بعد جب ریزیڈنسی شروع کریں گی تو روز صبح اسپتال پہنچنے میں دیر نہ ہو جائے۔ پھر بہت سادگی اور بے چارگی کے انداز میں مجھ سے پوچھا کہ آیا میں انہیں کچھ روز تک صبح و شام اسپتال لانے لیجانے میں مدد دے سکتا ہوں۔ یہ بھی کہا کہ جیسے ہی تنخواہ ملنا شروع ہو گی وہ پہلی فرصت میں اپنی کار کا بندوبست کر لیں گی۔
کچھ تو اپنی عادت اور کچھ اس وجہ سے کہ میں نے ابھی تین دن پہلے ہی انہیں اور پروفیسر ایبرائٹ کو اپنی مدد کا یقین دلایا تھا مجھے انکار کی ہمت نہ ہو سکی ، ان کی درخواست قبول کرتے ہی بنی۔ ویسے بھی ان کی بلڈنگ ایک طرح سے میرے راستے میں ہی پڑتی تھی۔ طے یہ ہوا کہ وہ ہر صبح ایک مقررہ وقت پر اپنی بلڈنگ کے دروازے کے باہر میرا انتظار کریں گی۔ جبکہ واپسی کا وقت روزانہ اسپتال میں پیجر کے ذریعے طے ہوا کرے گا۔ اور دونوں کا شیڈول اگر مختلف ہوا تو وہ بس استعمال کریں گی۔
اس طرح ماریا سے میری دو دفعہ روزانہ ملاقات کا آغاز ہوا ۔ میں ہر صبح ان کی بلڈنگ کے باہر سے انہیں اسپتال تک رائڈ دیتا اور شام کو اسی بلڈنگ کے باہر چھوڑ دیا کرتا ۔ سار ا راستہ ریزیڈنسی ، اسپتال اور مریضوں کے متعلق گفتگو ہوتی رہتی۔ چند روز بعد ہی ان کی سادہ مزاجی اور خوش دلی مجھ پر نمایاں ہونے لگی۔ مجھے بات بے بات لطیفے اور پھلجھڑیاں چھوڑنے کا شوق تھا اور انہیں ہنسنے کا ۔ وہ بے ساختہ اور اندر سے ہنستی تھیں۔ ناممکن تھا کہ ان کی ہنسی کا ساتھ ہنسی یا مسکراہٹ سے نہ دیا جائے۔ وہ روزانہ گاڑی سے اترتے وقت میری مدد کا شکریہ بہت خلوص سے ادا کرتیں اور میں ہمیشہ مصنوعی سنجیدگی سے جواب دیتا کہ ڈاکٹر ایبرائٹ کو اس کا تاوان ادا کرنا پڑے گا ۔ اس پر وہ کھلکھلا اٹھتیں۔ اس معمول کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ وہ اسپتال میں مجھے پیج کرکے اکٹھے لنچ کرنے کے لیے پوچھنے لگیں۔ چنانچہ ہفتے میں دو تین بار ان سے لنچ پر بھی بات چیت ہونے لگی۔ ایک دن مجھے پہنچنے میں دیر ہو ئی تو دیکھا کہ انہوں نے میرے لیے فِش سینڈوچ اور کوک پہلے ہی سے لے کر رکھا ہوا تھا۔ وہ چند ہی روز میں جان گئی تھیں کہ میں لنچ میں فش سینڈوچ کے علاوہ اور کچھ نہیں کھاتا۔
آہستہ آہستہ ان سے گفتگو تکلفات کے دائرے سے باہر نکلنے لگی۔ ہم دونوں ہی کا تعلق تیسری دنیا کے ممالک سے تھا اور دونوں ہی بہتر مستقبل کے خواب لیے ایک نئی سرزمین میں وارد ہوئے تھے۔ سو ہمارے حالات اور مسائل میں بہت ساری باتیں مشترک تھیں۔ وہ بہت سادہ عادات کی مالک ، تکلفات اور تصنع سے مبرا تھیں ۔ مجھے ان کی شخصیت کے یہ پہلو اپنے مزاج کے قریب لگے۔ امریکا آنے والے اکثر نوجوان غیر ملکی ڈاکٹر عموماً ایک ہی کشتی کے سوار ہوا کرتے تھے۔ بے سروسامانی کا عالم ، اسپتال کی شب و روز مصروفیات ، غریب الوطنی کا احساس ، نئی زمین اور نئے نظام کے چیلنج ۔۔۔ یہ سب مشترکہ عناصر ایک دوسرے کے درمیان سے تکلفات اور حجابات کو کم کر نے کا باعث بن جاتے تھے۔ ان دنوں ریزیڈنٹس کو ہر سات دن بعد آدھے اور ہر دس دن بعد پورے دن کی چھٹی ملا کرتی تھی۔ میں چھٹی کے دن عموماً اپنی نیند پوری کرتا یا پھر گروسری شاپنگ ، لانڈری اور دیگر ضروریات وغیرہ نبٹایا کرتا تھا ۔ میں نے ایک دن اخلاقاً انہیں شاپنگ کے سلسلے میں مدد کی پیشکش کی تو وہ فوراً تیار ہو گئیں ۔ اور یوں ہفتے دس دن میں انہیں وال مارٹ لانے لیجانے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ میں اپنی کار کو کھٹارا کہا کرتا تھا۔ ماریا اسے ہسپانوی لہجے میں کتارا کہتی تھیں۔ میرا ہمدردانہ اور مخلص رویہ دیکھ کر شاید ان کی ہمت بڑھی اور وہ مجھ سے دیگر ضروریات کے لیے بھی کھٹارا ادھار مانگنے لگیں ۔ " کیا آج مجھے کچھ دیر کے لیے کتارا اور اس کا ڈرائیور ادھار مل سکتا ہے؟" وہ مسکراتے اور کچھ جھجکتے ہوئے مجھ سے پوچھتیں تو میں مصنوعی بڑبڑاہٹ سے اپنا پرانا جواب دہرا دیتا کہ ڈاکٹر ایبرائٹ کو بالآخر اس کا پورا پورا تاوان دینا پڑے گا۔ جس پر وہ حسبِ سابق کھل اٹھتیں۔
ایک دن ان کو بینک اور سوشل سیکورٹی کے دفتر سے کاغذی کارروائی مکمل کروانے کے بعد واپس لا رہا تھا تو راستے میں ایک ڈائنر (چھوٹا اور نسبتاً سستا ریستوران) نظر آیا۔ دونوں نے ابھی تک لنچ نہیں کیا تھا ۔ چنانچہ فیصلہ کیا کہ وہاں بیٹھ کر کچھ کھا لیا جائے ۔باہر سے عام سا نظر آنے والا ڈائنر اندر سے بہت صاف ستھرا اور پرسکون نکلا۔ فرنیچر اور در و دیوار کی سجاوٹ سے خوش ذوقی نمایاں تھی۔ ہر طرف سمندر اور لائٹ ہاؤس کی بہت ساری تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ اس دن بہت ماریا سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں ۔عادتیں ، پسند ناپسند اور روزمرہ مشاغل پر باہمی تبادلۂ خیال ہوا۔ معلوم ہوا کہ ماریا کو سمندر اور اس سے متعلق چیزیں بہت پسند ہیں۔ تیراکی کی ماہر ہیں۔ میں نے بھی اپنے بارے میں بتایا۔ باتوں سے باتیں نکلتی چلی گئیں تو پاکستان اور ارجنٹینا کی معاشرت و ثقافت کا آپس میں تعارف ہوا۔ ہم دونوں کو وہ ڈائنر پسند آیا۔ فیصلہ کیا کہ مہینے میں ایک آدھ بار یہاں کھانے کے لیے آیا جائے گا۔
دو تین ہفتے بعد میں نے محسوس کیا کہ اب ان کے سوالات آہستہ آہستہ طب اور اسپتالی معاملات کے بجائے زیادہ تر میری ذات اور پاکستان کے بارے میں ہونے لگے ہیں۔ ایک دن جب میں نے بتایا کہ مجھے مٹی کے مٹکوں اور صراحیوں کا ٹھنڈا پانی یاد آتا ہے تو وہ حیران ہوئیں اور کہا کہ مٹی کے برتن ارجنٹینا میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ بے تکلفی بڑھی تو انہوں نے مجھے چند ہسپانوی اور میں نے انہیں چند اردو الفاظ سکھا دیے۔ چنانچہ کبھی کبھی جب وہ انگریزی میں ہاؤ آر یو کے بجائے اردو میں کہتیں کہ" اپ کا کیا حل ہے؟" تو میں ہنس کر جواب دیتا کہ میرا کوئی حل نہیں ہے۔
ماریا کو اسپتال لانے لیجانے کے اس سلسلے کو چلتے ہوئے تقریباً سات آٹھ ہفتے گزر گئے۔ وہ ستمبر کی ایک صبح تھی جب میں انہیں لینے پہنچا تو وہ گیٹ کے باہر کھڑی کچھ مختلف سی نظر آئیں۔ خلافِ معمول اچھے ڈیزائن کا میچنگ کا لباس پہنے ہوئے تھیں۔ بال بھی سلیقے سے بنے ہوئے تھے۔ کار میں داخل ہوئیں تو پہلی دفعہ کھٹارا کی فضا پرفیوم کی ہلکی سی خوشبو سے معطر ہو اٹھی۔ مجھے گڈ مارننگ کہا تو میں نے پوچھا: " معاف کیجیے ، آپ کون ہیں اور ماریا رومیرو کہاں ہیں؟" لمحے بھر کے لیے ہلکی سی شرماہٹ کا ایک رنگ ان کے چہرے سے گزر گیا۔ پھر وہ ہنس کر بولیں: " وہ ارجنٹینا چلی گئی ہے۔ اب اس کی جگہ آپ روزانہ مجھے رائڈ دیا کریں گے۔" میں بھی مسکرا دیا۔ ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کو عام ہدایت تھی کہ وہ کام پر کوئی پرفیوم لگا کر نہ آئیں تاکہ ان کے مریض کسی ممکنہ الرجی سے محفوظ رہیں۔ ذہن میں خیال آیا کہ مجھے یہ بات ماریا کو بتا دینا چاہیے لیکن نجانے کیوں میں ہمت نہ کر سکا۔ سوچا کہ جلد یا بدیر کوئی اور ان کو یہ بات بتا دے گا۔
اس کے بعد ان کا یہ نیا رنگ و روپ روزانہ کا معمول سا بن گیا۔ اب سوچتا ہوں کہ زندگی کا وہ مرحلہ بھی عجیب تھا ۔ اپنی زمین سے اکھڑے ہوئے ایک بے برگ وبار شجر کی طرح نئی مٹی میں جڑیں جمانے کی کوششوں میں مصروف میں ہمہ وقت اندر اور باہر کے تمام موسموں سے لڑ رہا تھا۔ دل و دماغ پر ہر وقت اپنے شعبے میں آگے بڑھنے اور کامیاب ہونے کی ایک دھن سوار رہتی تھی ۔ آنکھوں کے آگے خوابوں کا ایک کلائیڈو اسکوپ تھا کہ جس میں مستقبل کے رنگ برنگ منظروں کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا تھا ۔ دائیں بائیں کیا ہو رہا تھا، میری آنکھیں اور احساسات اس سے بے خبر تھے۔ میں ماریا میں ان تبدیلیوں کا اُس وقت کوئی مطلب نہیں نکال سکا۔
***
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کو ہر پندرھواڑے ایک وظیفہ ملا کرتا تھا کہ جس سے اپارٹمنٹ کا کرایہ اور بنیادی ضروریات نہ صرف پوری ہو جاتی تھیں بلکہ کچھ بچت بھی ممکن تھی۔ چار پانچ ماہ گزرنے کے بعد بھی مجھے ماریا میں کار خریدنے کے کچھ آثار نظر نہیں آئے ۔ ایک دن وال مارٹ سے باہر نکلتے ہوئے لابی میں لگے "پرانی کار برائے فروخت "کے اشتہارات پر نظر پڑی ۔ میں نے ان کی توجہ ایک اشتہار کی طرف دلائی تو کچھ خاموش سی ہو گئیں اور ان کے چہرے پر یکایک شرمندگی اتر آئی۔ میں نے مزید استفسار مناسب نہ سمجھا۔ راستے بھر زیادہ گفتگو نہیں ہوئی۔ میں جب پارکنگ لاٹ میں گاڑی سے سامان نکالنے میں مدد دینے لگا تو وہ وہیں کھڑی ہو کر باتیں کرنے لگیں ۔ پہلے تو مجھ سے معذرت کی اور دھیرے سے کہا کہ گاڑی خریدنے کے لیے ابھی ان کے پاس معقول پیسے جمع نہیں ہو سکے ہیں۔ پھر بتایا کہ تنخواہ میں سے اب تک جو پیسے بچائے تھے وہ انہوں نے اپنی ماں کو ارجنٹینا بھجوا دیے ہیں۔ میرے چہرے پر حیرت کے آثار دیکھے تو بولیں: " میری دلی خواہش تھی کہ امریکا میں اپنی پہلی کمائی سے اپنی ماں کو کوئی تحفہ دوں۔" یہ سن کر میرا دل یکایک ان کے لیے احترام اور خوشی کے ایک عجیب احساس سے بھر گیا۔ میں نے ان کے اس عمل کو سراہا اور ماں باپ کی عزت اور اہمیت کے بارے میں چند الفاظ کہے تو وہ کچھ سنجیدہ سی ہو گئیں۔ پھر آہستہ آہستہ اپنے بارے میں بتانا شروع کیا کہ وہ چھوٹی ہی سی تھیں تو ان کے ماں باپ میں علیحدگی ہو گئی ۔ ان کی ماں نے دوبارہ شادی نہیں کی اور دن رات محنت کرکے انہیں اور ان کے دو بڑے بھائیوں کو پالا پوسا اور تعلیم دلوائی۔ بھائی تو پڑھنے لکھنے میں پھسڈی نکلے اور ہائی اسکول کے بعد روزی کمانے میں لگ گئے لیکن وہ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گئیں۔ ماں ابھی تک ایک بیکری میں جز وقتی کام کرتی ہے۔ ماریا کی باتیں سن کر نجانے کیوں مجھے دکھ محسوس ہوا۔ دل میں ترحم کے جذبات ابھر آئے۔ پھر کچھ سوچ کر میں نے کہا کہ میرے پاس چند ہزار ڈالر بینک میں پڑے ہیں اگر وہ چاہیں تو مجھ سے قرض لے کر کار خرید سکتی ہیں اور تھوڑا تھوڑا کرکے رقم لوٹا سکتی ہیں۔ یہ سن کر ماریا کے چہرے پر یک لخت حیرت آمیز خوشی کا ایک تاثر چمک اٹھا۔ "واقعی؟" انہوں نے تعجب سے کہا ۔ " کیوں نہیں !" میں نے کہا۔ " پیسے تو ویسے بھی بیکار پڑے ہیں۔ آپ کے کام آ جائیں تو بہت اچھا ہے۔"
ان کی خوشی دیدنی تھی۔ چہرہ جیسے دمک اٹھا ہو۔ وہ بے ساختہ میری طرف بڑھیں اور مجھے گلے لگانے کی کوشش کی۔ میں اس غیر متوقع حرکت کے لیے تیار نہ تھا چنانچہ اپنے ہاتھوں سے انہیں روکتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹ گیا ۔ وہ کچھ خفیف سی ہوئیں تو میں نے مسکراتے ہوئے شرارتاً بتایا : " گلے ملنے کی رسم ہم لوگ سال میں ایک بار صرف عید کے تہوار پر ادا کرتے ہیں اور اس میں بھی صنفِ مخالف سے پرہیز کیا جاتا ہے اِلّا یہ کہ تعلقات اور حالات سازگار ہوں۔" وہ میری شوخی کو سمجھ گئیں اور دو تین بار بہت گرم جوشی سے شکریہ ادا کیا :" آپ واقعی بہت مدد گار ہیں۔ میں کل ہی سے کوئی کار ڈھونڈنا شروع کرتی ہوں۔"
چند روز بعد انہوں نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک کار منتخب کر لی۔ ایک شام میں اسپتال سے فارغ ہو کر انہیں سیکنڈ ہینڈ کار ڈیلر شپ تک لے گیا۔ وہ ارجنٹینا سے لائسنس ساتھ لائی تھیں۔ مختصر سی ٹیسٹ ڈرائیو اور اس کے بعد کاغذی کارروائی میں زیادہ دیر نہیں لگی ۔میں نے ان کی گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھنے میں مدد اور مبارکباد دی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر کئی بار شکریہ ادا کرتی رہیں۔ اور کہا کہ وہ کتارا کو مس کریں گی۔
میں نے کہا۔ " کھٹارا بھی ہر صبح و شام آپ کی کمی محسوس کرے گی۔" میری طرف شرارتی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولیں:" مجھے تو یقین نہیں ہے۔"
میں نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ میں اپنی کھٹارا کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ پھر حسبِ عادت کھلکھلا دیں۔ ہاتھ ہلا کر" کل ملیں گے" کہا اور شیشہ نیچے کرتے ہوئے ایکسیلیٹر پر پاؤں رکھ دیا۔

کچھ روز بعد ایک دوپہر کو ان کا پیج آیا۔ رابطہ کیا تو بولیں کہ ان کی بلڈنگ سے ایک آدمی اپنا فرنیچر اونے پونے بیچ کر جا رہا ہے اور کل شام انہوں نے اس سے ایک صوفہ بہت سستا خرید لیا ہے۔ مجھ سے پوچھا: " کیا آپ آج شام وہ صوفہ میرے اپارٹمنٹ تک لانے میں مدد کر دیں گے؟ میں پانچ بج تک کام سے فارغ ہو جاؤں گی۔" میں نے عادتاً ہاں کہہ دیا ۔ شام کو ہم دونوں اپنی اپنی گاڑیوں میں ان کی بلڈنگ تک پہنچے۔ بیس گھنٹے کی شفٹ کے بعد میں کچھ تھکا ہوا تھا۔ سیڑھیوں کے راستے بھاری صوفے کو چوتھی منزل سے دوسری منزل تک لانا ہم دونوں کے لیے اچھا خاصا مشقت طلب ثابت ہوا۔ صوفے کو اپارٹمنٹ کے اندر لا کر رکھتے ہی وہ اس پر ڈھیر ہو گئیں۔ ان کے ماتھے پر پسینہ چمک رہا تھا۔ میں بھی برابر میں بیٹھ کر سانس بحال کرنے لگا۔ چند منٹ بعد وہ اٹھیں اور یہ کہہ کر اندر بیڈ روم میں چلی گئیں کہ آپ ذرا سانس لیں، میں اسپتال کے یہ کپڑے تبدیل کرکے آتی ہوں۔ میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔ وہ ایک درمیانے سا‏ئز کا کمرہ تھا جس میں اس صوفے کے علاوہ فرنیچر نام کی اور کوئی چیز نہیں تھی ۔ ایک دیوار پر دھوپ سے روشن ریتیلے ساحل کا بڑا سا پوسٹر لگا ہوا تھا۔ کمرے کے دائیں طرف بیڈ روم اور سامنے کی طرف ایک کاؤنٹر تھا جس کے پاس ایک اونچا سا پلاسٹک کا اسٹول رکھا ہوا تھا۔ کاؤنٹر کے پیچھے کچن نظر آ رہا تھا۔ مجھے دو سال پہلے اپنی بے سر و سامانی کا وقت یاد آگیا جب ریزیڈنسی شروع کرنے کے بعد کئی ماہ تک میں بھی اسی طرح کے خالی اپارٹمنٹ میں نیچے قالین پر چادر بچھا کر سویا کرتا تھا۔ اُن دنوں کا خیال آتے ہی خودبخود ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ سی طاری ہو گئی۔ میں ابھی انہی تصورات میں غرق تھا کہ ماریا کی آواز نے چونکا دیا ۔ وہ جلدی سے کپڑے بدل کر بیڈ روم سے باہر نکل آئی تھیں۔ میں چند لمحے تک تو انہیں دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ گھٹنوں سے بہت اونچا نیکر اور کشادہ ڈھیلے گریبان کی بغیر آستینوں والی مختصر سی قمیض پہنے ہوئے تھیں۔ یہ غیر متوقع منظر دیکھ کر بے اختیار دماغ میں "چلمن سے لگے بیٹھے ہیں" والے شعر کا مصرعِ ثانی گونج اٹھا۔ میں نے فوراً پلکیں جھپکا کر اپنا زاویۂ نظر درست کیا تو وہ مسکراتے ہوئے کچن کی طرف چل دیں۔ میں مصرعِ ثانی کی اس مجسم تشریح کی آمد سے نبٹنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ انہوں نے فرج سے بیئر کی ایک ٹھنڈی بوتل نکال کر ترت اس کا ڈھکنا کھولا اور اپنے منہ سے لگا لی۔ پھر فوراً ہی دوسرے ہاتھ سے ایک دوسری بوتل میری طرف بڑھائی۔ میں نے بدقت تمام مصرعِ ثانی کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کرتے ہوئے عرض کیا کہ یہ گناہگار بیک وقت دو نشہ آور چیزوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہیں یہ بات سمجھنے میں ایک منٹ لگا ۔ ایک شرمیلی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر پھیل گئی۔ میں نے اپنے درجۂ حرارت کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ اس وقت کوئی بھی ٹھنڈا مشروب طبیعت کے لیے ویسے بھی مناسب نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ٹھنڈا گرم ہو جائے۔ چنانچہ ان سے کہا کہ کچھ گرم شے پلوا دیجیے تاکہ بدن میں چستی آ جائے اور تھکن کم ہو جائے۔ اس پر انہوں نے تائید میں سر ہلاتے ہوئے بوتل واپس فرج میں رکھ دی اور کچن کی الماری سے کافی کشید کرنے کا ایک آلہ برآمد کیا۔ اس خاص آلۂ کافی کشید سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ پوچھا تو معلوم ہوا کہ اسے فرنچ پریس کہتے ہیں۔ انہوں نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ہی دیر میں کافی تیار کرکے ایک کپ میں انڈیلی اور لا کر میرے ہاتھ میں تھما دی۔ کافی کی خوشبو فضا کو معطر کر رہی تھی۔ اگرچہ میں سیاہ کافی کبھی نہیں پیتا تھا اور چاہتا تھا کہ حسبِ عادت دودھ اور شکر شامل کیا جائے لیکن مصرعِ ثانی کو ذہن بدر کرنے کی جنگ ابھی تک لا شعور میں جاری تھی ۔ دماغ اندر ہی اندر دفاعی اقدامات کے طور پر خیالات پر پہرے لگانے میں مصروف تھا ۔ چنانچہ کسی مبہم سے اندیشے کے تحت دودھ کے لفظ نے زبان پر آنے سے صاف انکار کر دیا۔ سو دودھ شکر مانگے بغیر ہی طوعاً و کرہاً اس سیاہ گرم سیال کو یونہی منہ سے لگانا پڑا ۔ پہلا گرما گرم گھونٹ بھرتے ہی چودہ طبق روشن سے ہوگئے۔ میرے منہ کا بگڑا ہوا سا تاثر دیکھ کر وہ بولیں:" کیا ہوا؟ کافی اچھی نہیں؟ یہ میں ارجنٹینا سے لائی تھی۔"
میں نے کہا:" کافی تو یقیناً اچھی ہے لیکن پاکستانی زبان کی چونکہ اس سے پہلی ملاقات ہے اس لیے بین الاقوامی تعلقات استوار ہونے میں کچھ عرصہ لگے گا۔ " وہ زور سے ہنس پڑیں۔ مجھے دوسرا گھونٹ لینے میں تامل ہوا تو وہ سنجیدہ ہو گئیں اور معذرت کی کہ فرج میں دودھ ختم ہو گیا ہے۔ میں نے شکر مانگی تو فوراً اٹھ کر لے آئیں اور اپنے ہاتھ سے کافی میں ملا کر کپ دوبارہ میری طرف بڑھا دیا۔ وہ صوفے پر بالکل ہی قریب آ گئیں۔ ایک موجِ عطر بیز ہر طرف پھیلتی محسوس ہوئی۔ ان کی آنکھیں گلابی ہونے لگی تھیں ۔ مسکراتے ہوئے بولیں: " دوبارہ کوشش کیجیے۔ دنیا میں امن کے لیے بین الاقوامی تعلقات کا قائم ہونا بہت ضروری ہے۔"
اس مرتبہ کافی واقعی مزیدار تھی۔

٭٭٭٭٭
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
وہ میری ریزیڈنسی کا آخری اور مصروف ترین سال تھا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدلتے گئے۔ میں بورڈ کے امتحان کی تیاری کے ساتھ ساتھ نوکری ڈھونڈنے کی ان تھک کوششوں میں الجھ گیا۔ ماریا بھی مصروف تر ہوتی گئیں ۔ان سے اسپتال میں کبھی لنچ پر ملاقات ہو جاتی یا پھر مہینے دو مہینے میں ایک آدھ بار ڈائنر پر کھانے کا پروگرام بن جاتا۔ وہ جنوری کی چھٹیوں میں اپنی ماں سے ملنے ارجنٹینا گئیں تو ایئر پورٹ تک چھوڑنے اور دو ہفتے بعد واپس لانے کی ذمہ داری مجھے اور کھٹارا کو سونپی ۔واپس آئیں تو اپنی پوری ٹیم کے لیے چھوٹے چھوٹے تحائف لے کر آئی تھیں۔ ایک دن مجھے بھی پیج کرکے بلایا۔ میں لنچ بریک میں ملا تو اپنے بیگ سے ایک ڈبہ نکالا۔ اس میں رنگین نقش و نگار سے مزین سرخ مٹی کے ننھے منے مٹکے اور برتن تھے ۔ سا‏ئز میں آدھے انچ سے بھی ذرا کم۔ فنکارانہ مہارت کا بہت دلچسپ اور دیدہ زیب نمونہ تھے۔ مجھے دیتے ہوئے بولیں: " امید ہے کہ یہ پاکستان کے مٹکوں کی کمی کو ذرا سا کم کر دیں گے۔" میں نے ایک مٹکے کو آنکھ کے بالکل قریب لا کر اس کا معائنہ کرتے ہوئے کہا : اس مٹکے کو نل کے نیچے رکھ کر پانی بھرنا تو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔" انہوں نے مسکرا کر اپنے سفید کوٹ کی جیب سے ایک چھوٹی سی سرنج نکالی اور میری طرف بڑھاتے ہوئے بولیں کہ پانی بھرنے کے لیے اسے استعمال کیجیے ۔ ان کی اس بات پر ایک زور دار قہقہہ پڑا۔ چند روز بعد عید پر پاکستان سے میرے لیے کپڑے آئے تو میں نے شلوار قمیض کا ایک سوٹ منگوا کر انہیں دیا۔ ان کی مسرت قابلِ دید تھی۔

آخری سال کے شب و روز بہت مصروف ہوتے ہیں۔ اسپتال میں ان تھک کام ، ہفتے میں تین چار لیکچر اور پھر کتابوں سے مغز ماری۔ بقیہ سال کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا۔ بالآخر گریجویشن کا دن آ پہنچا۔ سارا دن مختلف تقریبات کی نذر ہوا۔ شام کو ایک مہنگے ہوٹل میں روایتی عشائیہ اور الوداعی تقریب تھی۔ ریزیڈنسی پروگرام کا اسٹاف ، اساتذہ اور ریزیڈنٹ سبھی شریک تھے۔ سب لوگ بن سنور کر آئے تھے۔ ماریا شلوار قمیض پہن کر آئی تھیں اور دیگر خواتین سے مسکرا مسکرا کر اپنی اس جدت پر تعریفی کلمات وصول کر رہی تھیں۔ گریجویشن تقریب کی ایک پرانی رسم تھی کہ تمام جونیئر ڈاکٹر مل کر گریجویٹ ہونے والے ڈاکٹروں کو ایک نیم مزاحیہ سا خطاب اور چھوٹا سا یادگاری تحفہ دیا کرتے تھے۔ میرے لیے "Zash -the- Untouchable"کے خطاب کا اعلان کیا گیا تو حسبِ دستور پورا ہال تالیوں اور ہنسی کے شور سے گونج اٹھا ۔ ماریا کی طرف دیکھا تو وہ چہرے پر ایک سازشی اور شرارت بھری مسکراہٹ سجائے تالیاں بجا رہی تھیں۔ میں نے اسٹیج پر آ کر شکریے کے ساتھ اپنا خطاب ، اسکیچ بک اور پین کا تحفہ وصول کیا اور کہا کہ مجھے معلوم ہے اس سازش کے پیچھے کون سا غیر ملکی ہاتھ کارفرما ہے۔ اس پر تمام جونیئر ریزیڈنٹ ماریا کو دیکھ کر زور زور سے تالیاں پیٹنے لگے۔ انہی قہقہوں اور جملے بازیوں کے درمیان تقریب آہستہ آہستہ اپنے اختتام کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ پرسنل کمپیوٹر ان دنوں آہستہ آہستہ عام ہونا شروع گئے تھے لیکن میں نے ابھی تک اپنا پہلا کمپیوٹر نہیں خریدا تھا ۔ ہاٹ میل البتہ ان دنوں نیا نیا شروع ہوا تھا اور اکثر لوگوں نے اسپتال کے کمپیوٹر پر ایمیل اکاؤنٹ بنا لیے تھے۔ رخصت ہوتے وقت فون نمبروں اور ایمیل کے پتوں کا تبادلہ ہوا۔ خدا حافظ ہوئے۔ الوداعی مصافحے اور بغل گیری کے مناظر یادوں میں محفوظ ہونے لگے۔ کئی لوگ اپنے کیمرے لائے تھے ۔ فلیش لائٹ کے جھماکوں سے ہال مزید منور ہونے لگا۔ رخصت ہوتے وقت ماریا میرے ساتھ پارکنگ لاٹ تک آئیں۔ ہم دونوں کھٹارا کے پاس پہنچ کر کھڑے ہو گئے۔ وہ بولیں کہ ایک سال کتنی جلدی گزر گیا۔ ابھی کل کی سی بات لگتی ہے کہ آپ مجھے کھٹارا میں رائڈ دیا کرتے تھے۔ میں نے کہا ہاں ، وقت واقعی پر لگا کر اڑتا ہے۔ میں خدا حافظ کہہ کر کار میں بیٹھنے لگا تو انہوں نے اپنے بیگ سے خوبصورت رنگ برنگی کاغذ میں ملفوف ایک چھوٹا سا پیکٹ نکالا اور مسکراتے ہوئے میری طرف بڑھا دیا۔ حسبِ رسم و رواج میں نے ان کے سامنے ہی کاغذ ہٹا کر پیکٹ کھولا تو اندر ایک ڈبہ تھا جس پر مارکر سے "! for -a- true -gentleman " لکھا ہوا تھا۔ ڈبے میں بالکل اسی طرح کا فرنچ پریس تھا جو اُس دن ان کے کچن میں دیکھا تھا۔ میں نے کہا کہ اس تکلف کی کیا ضرورت تھی تو مسکراتے ہوئے بولیں: "یہ مجھے یاد رکھنے میں تمہاری مدد کرے گا۔" میں بھی مسکرا دیا۔ میں نے "گڈ بائے ماریا" کہا تو بولیں: " اب نجانے زندگی میں کب اور کہاں ملاقات ہو گی۔ اور ہو گی بھی یا نہیں ، کسے معلوم!" وہ چند لمحوں تک چپ رہیں پھر میری طرف دیکھتے ہوئے ذرا بجھے ہوئے سے لہجے میں پوچھا: "مجھے معلوم ہے کہ آج عید نہیں ہے لیکن کیا میں رخصت کے اس سمے تمہیں ایک بار گلے لگا سکتی ہوں؟" نجانے کیوں میں اس بار انکار نہیں کر سکا۔
میں جب اپنی کار میں پارکنگ لاٹ سے نکل رہا تھا تو وہ آخر تک وہیں کھڑی ہاتھ ہلا ہلا کر مجھے الوداع کہتی رہیں۔ ڈیٹرائیٹ کی سڑکوں پر ڈھلتی شام کا ملگجا آہستہ آہستہ رات کی چادر اوڑھنے لگا تھا۔ دل میں ایک بے نام سی کیفیت پھیلنے لگی تھی ۔ ریزیڈنسی کے اختتام پر جہاں کامیابی کا ایک احساس دل میں موج زن تھا وہیں ایک نامعلوم سا احساسِ زیاں بھی مجھے اداس کیے جا رہا تھا۔ دو روز بعد مجھے اس شہر سے سامان لپیٹ کر ایک اور ہجرت کے لیے نکلنا تھا ۔ کئی سو میل دور ایک نئی ریاست کے ایک چھوٹے سے شہر میں میری پہلی ملازمت میرا انتظار کر رہی تھی۔ برسوں کی محنت اور ان تھک جدوجہد ثمر بار ہونے والی تھی۔ ترقی اور خوشحال مستقبل کے خواب اپنی تعبیر سے قریب ہونے لگے تھے۔ دماغ تو آگے کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن دل شاید کسی تبدیلی کے لیے رضامند نہیں تھا۔ اُس رات مجھے نیند نہیں آئی۔ پچھلے تین سالوں میں بیتے واقعات ایک فلم کی طرح تصور میں جھمکتے جھلکتے رہے ۔
گریجویشن کے دو روز بعد میں وسکانسن چلا آیا ۔ چند ماہ تک تو ماریا اور چند قریبی دوستوں سے ایمیل اور کبھی کبھار سیل فون پر رابطہ رہا لیکن پھر جیسا کہ ہوتا ہے گزرتے وقت اور بڑھتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ رابطے کمزور ہوتے چلے گئے۔ دو سال بعد ماریا بھی گریجویٹ ہو کر کیلیفورنیا چلی گئیں اور وہاں پریکٹس شروع کر دی۔ سال چھ ماہے کبھی ان سے ایمیل کا تبادلہ ہو جاتا تھا۔ پھر میری شادی ہو گئی۔ مصروفیات اور ترجیحات مزید تبدیل ہوتی چلی گئیں۔ چند سالوں بعد ایک دن ان کا فون آیا تو بہت خوش تھیں۔ کہنے لگیں کہ ماں ان کے پاس امریکا آ گئی ہیں۔ میں نے مبارکباد دی ۔ اس کے بعد کئی سالوں تک ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔ پھر ایمیل پر ان کا دعوت نامہ موصول ہوا کہ وہ شادی کر رہی ہیں۔ میرے لیے مصروفیات کی بنا پر جانا ممکن نہیں تھا چنانچہ مبارکباد کا کارڈ بھیج کر معذرت کر لی۔ زندگی کتنی بے حس ہے! مجبوریوں اور آسانیوں کی قیمت کس کس طرح وصول کرتی ہے !
٭٭٭٭٭٭​
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ری یونین ڈیٹرائیٹ کے ایک بڑے کلب میں تھی۔ ہال بھرا ہوا تھا۔ ہر طرف سوٹ بوٹ اور قیمتی لباسوں میں ملبوس کئی پرانے دوست اور رفقائے کار نظر آئے۔ کچھ کو پہچاننے میں مشکل ہوئی اور کچھ بالکل اس طرح نظر آئے جیسے اکثر ملاقات ہوتی رہی ہو۔ ہر ڈھلتے چہرے میں اپنا چہرہ نظر آیا ۔ پچیس سال پرانی یادیں تازہ ہونے لگیں۔ سب لوگ اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ اپنی اپنی میزوں کے ارد گرد ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے۔ میں بھی کچھ پرانے رفقا سے سلام دعا کے بعد ایک طرف کو بیٹھ کر ہال میں نظریں دوڑانے لگا۔ اچانک پیچھے سے کسی نے میرے کاندھے پر ہلکے سے تھپتھپایا اور کہا: " کیا آپ کسی کو ڈھونڈ رہے ہیں؟ " مڑ کر دیکھا تو ماریا کھڑی مسکرا رہی تھیں۔ " آہا! ماریا!" کہتے ہوئے میں کرسی سے کھڑا ہو گیا۔
"ہاں۔ ڈھونڈ رہا تھا لیکن اب نہیں۔" میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ ہنس پڑیں اور "کیسے ہیں آپ ، زیش؟" کہتے ہوئے دایاں ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ وہ بالکل اپنی آخری تصویر کی طرح لگ رہی تھیں۔ بال البتہ اب مزید مختصر ہو کر شانوں سے اوپر ہوگئے تھے۔ ری یونین میں آنے سے پہلے میں نے اپنے بالوں کی سفیدی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ دیکھا تو ان کے بالوں میں بھی چاندی چمک رہی تھی۔ ہاتھ میں چھوٹا سا پرس نما بیگ تھا اور چہرے پر وہی ازلی مسکراہٹ۔ میں نے ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے "ڈیٹرائیٹ میں دوبارہ خوش آمدید" کہا تو وہ پھر خوش دلی سے ہنس پڑیں ۔ میں نے ان کے لیے کرسی گھسیٹ کر پیچھے کی تو وہ بیٹھ گئیں۔ رسمی پرسشِ حال کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔ پچھلے پچیس سالوں میں گزرنے والی زندگی کے خلاصے بیان ہونے لگے۔ میں نے پوچھا "شوہر کیسے ہیں؟" تو بتایا کہ شادی ناکام رہی۔ اپنے ایک ہم وطن سے شادی کی تھی۔ زیادہ دیر نہیں نبھ سکی۔ شوہر شراب اور جوئے میں پڑ گیا۔ کچھ عرصے تک تو وہ برداشت کرتی رہیں لیکن مسائل بڑھتے گئے اور بالآخر طلاق تک نوبت پہنچی۔ اس تلخ تجربے کے بعد انہوں نے دوبارہ شادی نہیں کی۔ ان کے بچے نہیں تھے۔ دس سال پہلے ماں کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔ اب اکیلی ہی رہتی ہیں۔ کیلیفورنیا میں پارٹ ٹائم پریکٹس کرتی ہیں اور بقیہ وقت رفاہی کاموں میں صرف کرتی ہیں۔ ایک بلی پالی ہوئی ہے جو سفر حضر میں ساتھ رہتی ہے. اسے ہوٹل کے کمرے میں چھوڑ کر ری یونین کے لیے آئی تھیں۔
بہت دیر تک پرانے دنوں کی باتیں ہوتی رہیں۔ کہنے لگیں کہ میں نے اب تک آپ کا دیا ہوا پاکستانی ڈریس اپنی پرانی چیزوں کے ساتھ سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ جب کبھی پرانے دن یاد آتے ہیں تو وہ پرانی یادگاریں نکال کر دیکھتی ہوں۔ پھر ہنستے ہوئے کہا : " میں وہ کپڑے اس ری یونین میں پہن کر آنا چاہتی تھی لیکن اب وہ مجھے بہت تنگ ہو چکے ہیں۔"
پھر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں: " لیکن آپ تو ابھی تک اسی طرح پتلے دبلے ہیں۔" مجھے مسکرانا پڑا۔ انہوں نے پوچھا : "کیا وہ ننھے منے سے مٹی کے برتن یاد ہیں آپ کو؟"
" ہاں کیوں نہیں ۔"میں نے بتایا کہ شادی کے بعد بھی ایک عرصے تک وہ برتن میری کتابوں کی شیلف میں سجے رہے۔ جب بیوی کو پتہ چلا کہ یہ کسی جونیئر ڈاکٹر کا ارجنٹینا سے لایا ہوا تحفہ ہے تو پھر اس نے ان برتنوں کو کبھی پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا۔ میرا پہلا بیٹا تین چار سال کا ہوا تو وہ برتن کہیں غائب ہوگئے۔ جب میں نے شیلف پر ان کی غیر موجودگی نوٹ کی اور پوچھا تو بتایا کہ بچے نے کہیں ادھر ادھر کر دیے ہیں۔ میں سمجھ گیا۔ میں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ چار سالہ بچے کا ہاتھ پانچ فٹ اونچے شیلف تک کیسے پہنچا۔
" بیچاری بیویاں!" وہ سن کر بولیں ۔ پھر ہنستے ہنستے کہنے لگیں۔ "ہم عورتیں دوسری عورتوں سے بہت جیلس ہوتی ہیں۔" جواباً مجھے بھی ہنسنا پڑا ۔ میں نے سیل فون پر اپنے بیوی بچوں کی تصاویر انہیں دکھائیں ۔ جواباً انہوں نے اپنی بلی سنڈریلا کی تصویروں کی بہت شوق اور محبت سے نمائش کی۔ ڈنر کے لئے بوفے کی طرف گئے تو متعدد اقسام کے رنگ برنگ کھانوں کے علاوہ متعدد اقسام کے سینڈوچ بھی سجے ہوئے تھے۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا لیا جائے انہوں نے ٹیونا سینڈوچ کا ایک تکونا نصف اپنی پلیٹ میں رکھا اور دوسرا نصف اٹھا کر میری پلیٹ پر رکھ دیا۔ میں چونک کر مڑا تو ان کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ تھی۔ انہوں نے استفہامیہ نظروں سے مجھے اس طرح دیکھا جیسے مجھ سے کسی بات کی توقع ہو۔ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا " ہاں ، مجھے یاد ہے!" ان کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ چہرے پر جیسے اطمینان کا رنگ پھیل گیا ہو۔ کھانے کے بعد چائے کافی کا دور چلا۔ میں نے ایک کپ اپنے لیے بھرا اور دوسرا انہیں دیتے ہوئے کہا۔ "یاد ہے وہ دن جب آپ نے مجھے سیاہ کافی سے متعارف کروایا تھا ؟"
مسکرا کر بولیں: "اور آپ نے مجھے ایک پارسا سے!"
" مجھے آپ کی مدد کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ، سو پارسائی میرا فرض تھا۔" میں نے جواباً کہا تو گردن ہلاتے ہوئے شرارت بھرے لہجے میں بولیں: " لیکن آپ اُس روز بالکل بھی مددگار ثابت نہیں ہوئے۔"
جب میں نے برجستہ کہا کہ پروفیسر ایبرائٹ نے صرف بیرونِ خانہ مدد کی ذمہ داریاں سونپی تھیں۔ اندرونِ خانہ معاملات میرے دائرۂ کار سے باہر تھے۔ تو اس پر وہ زور سے ہنس پڑیں۔ ان کی اس ہنسی میں مجھے اسی ترنم کی گونج سنائی دی جو پچیس سال پہلے کانوں میں جلترنگ بجاتا تھا۔ وہ بولیں: "آپ ابھی تک ویسے ہی ہیں۔ ذرا نہیں بدلے۔" پھر کچھ لمحے خاموش رہیں اور دھیمے سے لہجے میں بولیں: " آج بھی کبھی کبھی بہت یاد آتے ہیں مجھے وہ دن!"۔ میں چپ رہا۔ کیا کہتا۔
ری یونین کے اختتام پر شرکا کے درمیان پھر وہی خدا حافظ کی الوداعی رسومات دہرائی جانے لگیں۔ اس بار سیل فون کیمرے اپنی جگمگاہٹ دکھا رہے تھے۔ میں نے سوچا کیا فائدہ تصویریں لینے کا۔ بعد میں یہ یادیں اور تنگ کرتی رہیں گی۔ لیکن ماریا نے بیگ سے اپنا سیل فون نکال لیا اور بولیں: " اب نجانے پھر کب ملاقات ہو گی۔ ہو گی بھی یا نہیں ؟ کسے معلوم!" یہ کہہ کر وہ میرے برابر کھڑی ہوئیں اور ہاتھ بڑھا کر ایک سیلفی لے لی۔ میں انہیں پارکنگ لاٹ میں ان کی کار تک چھوڑنے آیا۔ کار میں بیٹھنے سے پہلے وہ بولیں: " یاد ہے وہ آپ کی کتارا!"۔ میں نے کہا غربت کے دنوں کی اس ساتھی کو کیسے بھول سکتا ہوں۔ بولیں "ہاں ۔ واقعی بے سرو سامانی کے وہ دن بہت اچھے تھے!" ان کی آواز میں کرب کی ایک لہر سی محسوس ہوئی۔ میں نے کہا ماریا اپنا خیال رکھنا۔ کہنے لگیں: " فکر مت کیجیے۔ سنڈریلا میرے ساتھ ہے۔ وہ مجھے بہلائے رکھتی ہے۔" پھر انہوں نے کار کا شیشہ اوپر کرتے ہوئےایکسیلیٹر پر پاؤں رکھ دیا۔ میں ان کے پارکنگ لاٹ سے باہر نکلنے تک وہیں کھڑا ہاتھ ہلا ہلا کر الوداع کہتا رہا۔ ڈیٹرائیٹ کی سڑکوں پر ڈھلتی شام کا ملگجا آہستہ آہستہ رات کی چادر اوڑھنے لگا تھا۔ دل میں ایک بے نام سی کیفیت پھیلنے لگی تھی ۔اگلی صبح گھر واپس جانے کے لیے میری فلائٹ تھی۔ اُس رات مجھے نیند نہیں آئی۔ پچیس سال پہلے کے واقعات ایک فلم کی طرح تصور کے پردے پر جھلکتے رہے۔ زندگی کیسا عجیب سفر ہے ! کیسے کیسے موڑ آتے ہیں اس میں۔ کتنے لوگ راستے میں ملتے ہیں اور بچھڑ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ دور جا کر بھی پاس رہتے ہیں۔ جیسے کبھی بچھڑے ہی نہ ہوں ،جیسے ہر سفر میں ساتھ ساتھ چلتے رہے ہوں۔ چپ چاپ ، قدم بہ قدم ، اپنے ہی سائے کی طرح !
کیسا عجیب سفر ہے زندگی!
٭٭٭٭٭٭٭٭​

رات گئے اس وقت میں اپنی اسٹڈی کے ایک گوشے میں بیٹھا یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو مجھے تیز سیاہ کافی کی ایک مانوس مہک کمرے کی فضا میں ہر سو پھیلتی محسوس ہو رہی ہے۔ اگرچہ ہر طرف گہری خاموشی طاری ہے لیکن تصور میں کسی مترنم ہنسی کا ایک جلترنگ سا بج اٹھا ہے ۔ میرے ہونٹوں پر خود بخود ایک مسکان پھیلنے لگی ہے جیسے کسی نے پھولوں کے رنگ کی ، خوشبو جیسی کوئی لطیف سی بات کہہ دی ہو! جیسے سارا ماحول کسی کے ساتھ مسکرانے لگا ہو ۔ لیکن یہ الگ بات کہ آنکھیں اور قلم کچھ آبدیدہ سے ہو چلے ہیں۔
یادش بخیر !
شب بخیر!
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت پسندآئی تحریر زندگی کی سادگی اور شگفتگی سے مملو۔مگر تاریخ تصنیف کے اتفاق کی حکمت سے خالی۔
عاطف بھائی ، تاریخ ہٹانا رہ گیا تھا۔ تدوین کردی ہے۔ نشاندہی کا شکریہ!
ویسے یہاں اس تاریخ کا بھی ایک اچھا سااور مثبت پس منظر ہے لیکن اس دھاگے کے موضوعی احاطے سے باہر ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جذبات کی لطافت ۔۔۔ ذکر ماضی کی چاشنی، بیان کی سادگی اور اپنے ہی بہاؤ میں ساتھ بہا کر لے جاتی ایسی تحریر۔۔۔ کتنی ہی مدت کے بعد پڑھی ہے۔۔۔ اب تو کثافت سے تحاریرآلودہ ہیں۔۔۔۔ محمداحمد بھائی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔۔۔
اب تو اظہار محبت سے آلودہ ہے فضا
کیا زمانہ تھا کہ بستی تھی محبت دل میں

تحریر ایسی رواں دواں ہے کہ پڑھتے رہیے۔۔۔

ایک چھوٹا سا تنبیہی مشورہ۔۔۔۔ اگر آپ کا ارادہ ایسی اور یادااشتیں تحریر کرنے کا ہے، تو اپنی سوانح عمری گھر والوں سے دور رکھیں۔

احبابِ کرام ! اگر آپ کے پاس پندرہ بیس منٹ کا وقت اور ذہنی فرصت ہو تو اس تحریر کو پڑھیے گا۔ شاید آپ کو بین السطور اپنی زندگی کی جھلک نظر آئے!
نہ تو شکل، نہ آواز، اور نہ ہی ایسی سہولیات ہم کو زندگی بھر میسر رہی ہیں، سو چاہ کر بھی اپنی زندگی کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی۔ بخدا ۔۔۔۔ اپنی پارسائی کا بیان ہی اصل مقصد ہے۔۔۔۔ باقی آپ نے جو سیاہ کافی کے نام پر کسی حسینہ و مہ جبینہ کا دل توڑا ہے۔۔۔۔ اس کی معافی نہیں ملنے والی۔

لیکن جب انہوں نے کہا کہ کیلیفورنیا سے ماریا رومیرو بھی آ رہی ہے تو میں نے شرکت کی حامی بھر لی۔
وہ گورے ایک جملہ بولتے ہیں۔۔۔ مین آر سمپل۔۔۔۔۔ خیر۔۔۔۔ آپ یہ بھی لکھ دیتے کہ پتا چلا ماریا آ رہی ہے۔۔۔ اور آگے شرکت کا اعتراف نہ لکھتے تو بھی ہم سجھ جاتے۔۔ ظاہر ہے کون عمر کے پچیس برس بھی ان لونڈوں سے ملنا چاہے گا، جن سے تعلیم کے چار سال نہ ملا۔۔۔ ہوہوہوہوہو
کچھ تو اپنی عادت اور کچھ اس وجہ سے کہ میں نے ابھی تین دن پہلے ہی انہیں اور پروفیسر ایبرائٹ کو اپنی مدد کا یقین دلایا تھا مجھے انکار کی ہمت نہ ہو سکی ، ان کی درخواست قبول کرتے ہی بنی۔ ویسے بھی ان کی بلڈنگ ایک طرح سے میرے راستے میں ہی پڑتی تھی۔ طے یہ ہوا کہ وہ ہر صبح ایک مقررہ وقت پر اپنی بلڈنگ کے دروازے کے باہر میرا انتظار کریں گی۔ جبکہ واپسی کا وقت روزانہ اسپتال میں پیجر کے ذریعے طے ہوا کرے گا۔ اور دونوں کا شیڈول اگر مختلف ہوا تو وہ بس استعمال کریں گی۔
دیکھوں جو آسماں سے
تو اتنی بڑی زمین
اتنی بڑی زمیں میں
چھوٹا سا اک شہر

وہ چند ہی روز میں جان گئی تھیں کہ میں لنچ میں فش سینڈوچ کے علاوہ اور کچھ نہیں کھاتا۔
وہ جان گئے تھے کہ جان سے گئے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ سب باتیں لنچ کی رہنے دو۔۔۔ اس میڈیکل کی دنیا میں۔۔۔ اک کیفے ادھ کھلا رہنے دو۔۔۔۔

ہم دونوں ہی کا تعلق تیسری دنیا کے ممالک سے تھا اور دونوں ہی بہتر مستقبل کے خواب لیے ایک نئی سرزمین میں وارد ہوئے تھے۔ سو ہمارے حالات اور مسائل میں بہت ساری باتیں مشترک تھیں۔ وہ بہت سادہ عادات کی مالک ، تکلفات اور تصنع سے مبرا تھیں ۔ مجھے ان کی شخصیت کے یہ پہلو اپنے مزاج کے قریب لگے۔
یہاں آپ نے مجھے جذباتی کر دیا۔۔۔۔۔۔ نئے شہروں میں جانا۔۔۔ کتنا مشکل ہوتا ہے۔۔۔ ہائے احساس محرومی کہ کوئی ماریا بھی نہ تھی۔۔۔۔ اصل دکھ مجھے اب ہوا ہے۔

۔ خلافِ معمول اچھے ڈیزائن کا میچنگ کا لباس پہنے ہوئے تھیں۔ بال بھی سلیقے سے بنے ہوئے تھے۔ کار میں داخل ہوئیں تو پہلی دفعہ کھٹارا کی فضا پرفیوم کی ہلکی سی خوشبو سے معطر ہو اٹھی۔ مجھے گڈ مارننگ کہا تو میں نے پوچھا: " معاف کیجیے ، آپ کون ہیں اور ماریا رومیرو کہاں ہیں؟" لمحے بھر کے لیے ہلکی سی شرماہٹ کا ایک رنگ ان کے چہرے سے گزر گیا۔
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھے نظر انداز نہیں کر سکتے

یہ شعر نہ سنایا آپ نے۔۔۔۔

۔ پھر کچھ سوچ کر میں نے کہا کہ میرے پاس چند ہزار ڈالر بینک میں پڑے ہیں
لگتا ہے ہم کو دیر ہوگئی آتے آتے۔۔۔۔ ہوہوہوہوہوہو

ان کی خوشی دیدنی تھی۔ چہرہ جیسے دمک اٹھا ہو۔ وہ بے ساختہ میری طرف بڑھیں اور مجھے گلے لگانے کی کوشش کی۔ میں اس غیر متوقع حرکت کے لیے تیار نہ تھا چنانچہ اپنے ہاتھوں سے انہیں روکتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹ گیا ۔ وہ کچھ خفیف سی ہوئیں تو میں نے مسکراتے ہوئے شرارتاً بتایا : " گلے ملنے کی رسم ہم لوگ سال میں ایک بار صرف عید کے تہوار پر ادا کرتے ہیں اور اس میں بھی صنفِ مخالف سے پرہیز کیا جاتا ہے اِلّا یہ کہ تعلقات اور حالات سازگار ہوں۔"
احمد بھائی دوبارہ یاد آگئے مجھے۔۔۔ وہ کہتے ہیں۔۔۔
حیف بدصورتی رویوں کی
ہائے دل تھا مرا جمال پسند

وصل کو ہجر ناگہانی موت
ہجر کو موسم وصال پسند
خوشی ہے ہی وہی جو اظہار خود کرے۔۔۔ آپ ایسا بے درد بھی نہ ہو زمانے میں۔۔۔

یہ غیر متوقع منظر دیکھ کر بے اختیار دماغ میں "چلمن سے لگے بیٹھے ہیں" والے شعر کا مصرعِ ثانی گونج اٹھا۔ میں نے فوراً پلکیں جھپکا کر اپنا زاویۂ نظر درست کیا تو وہ مسکراتے ہوئے کچن کی طرف چل دیں۔
کیا کیا زاویے نظر کے ہیں۔۔۔۔ شاعر ہو اور موضوع سخن پر توجہ نہ دے۔۔۔۔
مسکراتے ہوئے بولیں: " دوبارہ کوشش کیجیے۔ دنیا میں امن کے لیے بین الاقوامی تعلقات کا قائم ہونا بہت ضروری ہے۔"
موصوفہ بھی شاعرہ نکلی۔۔۔

یعنی ۔۔۔۔ یقین کریں۔۔۔ کہ آپ کی پارسائی پر رتی برابر یقین نہیں آیا۔۔۔لیکن بہرحال مانے بغیر چارہ نہیں۔۔ کہانی آپ کی ہے۔۔۔ اگر آپ ہیرو کو یہاں سے سیدھا مسجد بھی لے جاتے تو ہم نے کیا کہنا تھا۔۔۔۔

مجھے معلوم ہے کہ آج عید نہیں ہے لیکن کیا میں رخصت کے اس سمے تمہیں ایک بار گلے لگا سکتی ہوں؟" نجانے کیوں میں اس بار انکار نہیں کر سکا۔
یوں تو میں سخت لونڈا ہوں، لیکن یہاں میں بھی پگھل گیا۔۔۔ ایسا دل میں سوچا ہوگا آپ نے۔۔۔

میرا پہلا بیٹا تین چار سال کا ہوا تو وہ برتن کہیں غائب ہوگئے۔ جب میں نے شیلف پر ان کی غیر موجودگی نوٹ کی اور پوچھا تو بتایا کہ بچے نے کہیں ادھر ادھر کر دیے ہیں۔
بڑے شرارتی بچے ہوتے ہیں۔۔۔ ابے کی کوئی عشقیہ یاد گھر میں نہیں ٹکنے دیتے۔۔۔۔۔

" مجھے آپ کی مدد کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ، سو پارسائی میرا فرض تھا۔" میں نے جواباً کہا تو گردن ہلاتے ہوئے شرارت بھرے لہجے میں بولیں: " لیکن آپ اُس روز بالکل بھی مددگار ثابت نہیں ہوئے۔"
یعنی اس نے یہ بھی کہا کہ
تو اگر سن نہیں پایا تو مجھے غور سے دیکھ
بات ایسی ہے کہ دہرائی نہیں جائے گی

اور ادھر آپ کہ۔۔۔۔
ہزار خواب تھے آنکھوں میں لالہ زاروں کے
ملی سڑک پہ تو باد صبا سے کچھ نہ کہا

رات گئے اس وقت میں اپنی اسٹڈی کے ایک گوشے میں بیٹھا یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو مجھے تیز سیاہ کافی کی ایک مانوس مہک کمرے کی فضا میں ہر سو پھیلتی محسوس ہو رہی ہے۔ اگرچہ ہر طرف گہری خاموشی طاری ہے لیکن تصور میں کسی مترنم ہنسی کا ایک جلترنگ سا بج اٹھا ہے ۔ میرے ہونٹوں پر خود بخود ایک مسکان پھیلنے لگی ہے جیسے کسی نے پھولوں کے رنگ کی ، خوشبو جیسی کوئی لطیف سی بات کہہ دی ہو! جیسے سارا ماحول کسی کے ساتھ مسکرانے لگا ہو ۔ لیکن یہ الگ بات کہ آنکھیں اور قلم کچھ آبدیدہ سے ہو چلے ہیں۔
یادش بخیر !
شب بخیر!
واہ۔۔۔۔
کسی کی یاد نے کانٹے خیال میں بوئے
حصار خار میں مہکے مگر گلاب عجیب

کیسی ہی خوبصورت تحریر سے نوازا ہے آپ نے۔۔۔ ۔ جذبات کی برجستگی، سادگی اور خوبصورتی سے مملو۔۔۔ پہروں بھیگتے رہیے۔۔۔۔ آپ کا ایسی دلفریب تحریر شریک کرنے پر جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے۔۔۔ بہت محبت آپ کے لیے ظہیر بھائی۔۔۔۔ آپ کی شب بخیر پر رئیس فروغ کے میرے دو پسندیدہ اشعار۔۔۔۔
اپنے ہی ایک روپ سے تازہ سخن کے درمیاں
میں کسی بات پر ہنسا، پھر مجھے نیند آگئی

تو کہیں آس پاس تھا، وہ ترا التباس تھا
میں اسے دیکھتا رہا، پھر مجھے نیند آگئی
 

سیما علی

لائبریرین
بہت بہترین پڑھتے ہوئے جب انسان کھو جائے تو یہی تحریر کا اصل حسن ہے
بیٹی ہمارے پاس کھڑی پوری بات کہہ گئیں اور ہم نے ایک لفظ نہ سنا ۔آخری جملہ سنا آخر کتنے دن اور یہ ۔۔۔۔۔ محفل کی زندگی ہے کب جان چھوٹے گی اس سے ۔۔۔
ظہیر بھائی بہت عمدہ ایک ایک سطر میں آپ نظر آئے ۔ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ باطنی خوبصورتی پوری آب و تاب سے نظر آئی اکثر لکھنے والے جب اپنی تعریف کرتے ہیں تو خود ستائش گراں گزرتی ہے لیکن آپ اسمِ بامسمیٰ ہیں
سلامت رہیے خوش رہیے ۔
بھابھی کا برتن ہٹانا پسند آیا یہ تو انکا حق ہے ۔۔۔🤓
 

سیما علی

لائبریرین
ہماری مجبوری کہ ہمارا فون صرف پسندیدہ کی ریٹنگ دے سکتا ہے ورنہ ہر سطر زبردست زبردست زبردست زبردست ہے ۔۔۔🥇🥇🥇🥇🥇
 

سیما علی

لائبریرین
یعنی ۔۔۔۔ یقین کریں۔۔۔ کہ آپ کی پارسائی پر رتی برابر یقین نہیں آیا۔۔۔لیکن بہرحال مانے بغیر چارہ نہیں۔۔ کہانی آپ کی ہے۔۔۔ اگر آپ ہیرو کو یہاں سے سیدھا مسجد بھی لے جاتے تو ہم نے کیا کہنا تھا۔۔۔
ظہیرؔ اک رشتۂ وحشت لیے پھرتا ہے مجنوں کو
وگرنہ کوئی اپنے آپ صحرا میں نہیں رہتا
 
یہ ایک بہترین تحریر ہے جس کا انداز بیاں سادہ اور دلچسپ ہے اور جس سبجیکٹ پر لکھی گئی ہے وہ حقیقت کے قریب تر ہے۔ مجھے ہمیشہ خود نوشت سے چھلکنے والی زندگی کی جھلک بہت فیسینیٹ کرتی ہے اور وہ تمام عناصر زندگی کے اس تراشے میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ امید ہے بقیہ تراشے بھی ہم سے شئیر کرتے رہیں گے۔ اس تحریر کا حاصل مطالعہ اگر ایک سطر میں بیان کروں تو یہ ٹھہرا:
زندگی کیسا عجیب سفر ہے ! کیسے کیسے موڑ آتے ہیں اس میں۔ کتنے لوگ راستے میں ملتے ہیں اور بچھڑ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ دور جا کر بھی پاس رہتے ہیں۔ جیسے کبھی بچھڑے ہی نہ ہوں ،جیسے ہر سفر میں ساتھ ساتھ چلتے رہے ہوں۔ چپ چاپ ، قدم بہ قدم ، اپنے ہی سائے کی طرح !
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بہت خوبصورت ، زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کراتی، آئینے کی مانند تحریر جس میں اپنی ہی شبیہہ نظر آنے لگتی ہے۔
واقعی زندگی ایک حیرت انگیز مگر پیچیدہ سفر ہے، جو جذبات اور حقیقتوں سے بھرپور ہے۔

اس سفر میں کچھ لوگ عارضی ہوتے ہوئے بھی دل میں ہمیشہ کے لیے بس جاتے ہیں، جبکہ کچھ ہمیشہ ساتھ رہ کر بھی اجنبی محسوس ہوتے ہیں۔
وقت، فاصلے اور حالات رشتوں کو بدل دیتے ہیں، مگر کچھ یادیں دل میں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔
زندگی خواب بھی دیتی ہے اور حقیقتوں کے کٹھن سبق بھی۔
یہ سفر ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر ساتھ مستقل نہیں ہوتا، اور ہر جدائی ہمیشہ کی نہیں ہوتی۔
زندگی ساتھ، دھوکہ، سبق اور سکون سب کچھ دیتی ہے —
اور ہم؟ ہم بس سیکھتے جاتے ہیں، اور خاموشی سے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔

افففف اللہ ۔۔۔ اس سے زیادہ دیر ہم سنجیدہ نہیں رہ سکتے۔ :biggrin:
 

باباجی

محفلین
واہ ۔۔ کیا سادگی ہے ، کیا روانی ہے
خوبصورت ترین احساسات کا بر وقت اور برمحل اعتراف
خاموشی کی زبان دو دلوں کے درمیان کیسے بولی جاتی ہے
اس وقت کی داستان جب گھر کچے اور لوگ سچے ہوتے تھے
 

عدنان عمر

محفلین
خوب صورت تحریر، دلنشین اندازِ بیان۔
سچ پوچھیں تو مجھے لگا کہ ڈاکٹر شیر شاہ سید کا لکھا کوئی افسانہ پڑھ رہا ہوں۔
ظہیر بھائی، امید ہے کہ آپ یونہی اپنی یادداشتوں کو قلم بند کرتے اور ہمیں شریکِ سفر کرتےرہیں گے۔
 

فہیم

لائبریرین
بہت عرصے بعد کوئی اتنی لمبی تحریر اسکرین پر پڑھی۔
آپ نے خوب لکھا ظہیربھائی۔ بظاہر آپ کی تحریر بہت سادہ اور عام سی ہے لیکن اس میں موجود احساس کو ہم نے پوری طرح محسوس کیا اور یہی چیز اس کو خاص بناتی ہے۔
آپ نے کسی بھی جگہ یہ ذکر نہیں کیا کہ کونسا واقعہ کس وقت کا ہے۔ لیکن اگر صرف 25 سالہ ری یونین کی تاریخ کا ذکر ہی ہوجاتا تو کافی تھا:)
 
Top