تیری قربتیں بھی سراب ہیں ، یہ بھلا ہوا جو ملیں نہیں
تیری دوریاں بھی عذاب ہیں میری دشتِ جاں سے ٹلیں نہیں
کسی آگ نے وہ دھواں دیا ، مجھے دیکھنے بھی کہاں دیا
وہ مسافتوں کا جہاں دیا ، کہیں راستہ ہے کہیں نہیں
مجھے زندگی وہ دیا لگے ، کہ ابھی بجھے جو ہوا لگے
کبھی کیا لگے ، کبھی کیا لگے ، کسی زاوئیے پہ یقیں نہیں
کہ شکستہ پا میں رکوں کہاں، یہ ہے فاصلوں کا نیا جہاں
ہے اگر زمیں نہیں آسماں ، ہے جو آسماں تو زمیں نہیں
پس چشمِ نم وہ ضرور ہے، میرا دل جفاؤں سے چور ہے
میری منزلوں کا قصور ہے، تیرے راستوں سے ملیں نہیں