تولو جو ترازو میں ستم اپنے وفا میری

امان زرگر

محفلین
تولو جو ترازو میں ستم اپنے وفا میری.
آ جائے نظر تم کو کرم اپنا سزا میری.
برباد اگر ہوں گے تو ہاتھوں سے جنوں کے ہی .
اغیار سے نسبت ہو نہیں طرز ادا میری.
یوں بھٹکے ہے جاں اپنی منزل کا نشاں پا کر.
کچھ تیرا تغافل ہے کچھ اس میں خطا میری.
احساس زیاں غم کا کرے کچھ تو مداوا بھی.
دکھلائے طلاطم سا پھر موج نوا میری.
گلشن کے تصور میں کٹی عمر رواں یوں ہی.
سوچوں سے نہ بدلی ہے نہ بدلے گی فضا میری.
پنہاں ہے کہیں مجھ میں اک برق تجلی بھی.
روشن ہو جہاں سارا پھیلے جو ضیا میری.
ہے گرچہ جگر سوز بہت تشنہ لبی یوں بھی.
بے فیض ہے مدت سے یہ تسلیم و رضا میری.
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
کو ن سی بحر میں ہیں اشعار ؟
لگتا ہے آپ نے دو بحریں جمع کردیں ہیں ۔
جبکہ کچھ مصرعوں میں وزن درست نہیں ۔
 
کو ن سی بحر میں ہیں اشعار ؟
لگتا ہے آپ نے دو بحریں جمع کردیں ہیں ۔
جبکہ کچھ مصرعوں میں وزن درست نہیں ۔
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن
(ہزج مثمن اخرب مکفوف سالم)
تسکینِ اوسط کے ذریعے معروف بحر
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
(ہزج مثمن اخرب )
حاصل کی جا سکتی ہے۔ طوسی نے ہر بحر میں تسکینِ اوسط کو جائز تو قرار دیا ہے مگر درحقیقت طبعِ سلیم ہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ کہاں اس کا استعمال اچھا ہے اور کہاں نہیں۔

برباد اگر ہوں گے تو اپنے جنوں کے ہاتھوں.

اس مصرعے میں جنوں کو دو حرفی باندھا گیا ہے جو غلط ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن
(ہزج مثمن اخرب مکفوف سالم)
تسکینِ اوسط کے ذریعے معروف بحر
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
(ہزج مثمن اخرب )
حاصل کی جا سکتی ہے۔ طوسی نے ہر بحر میں تسکینِ اوسط کو جائز تو قرار دیا ہے مگر درحقیقت طبعِ سلیم ہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ کہاں اس کا استعمال اچھا ہے اور کہاں نہیں۔

برباد اگر ہوں گے تو اپنے جنوں کے ہاتھوں.

اس مصرعے میں جنوں کو دو حرفی باندھا گیا ہے جو غلط ہے۔
رہنمائی کے لئے شکر گزار ہوں. سر الف عین کا دست شفقت ہمارے سروں پہ سلامت رہے، ان کی ذات اور ارشادات اس حوالے سے رہنمائے کامل کی صفت سے متصف،
 
آخری تدوین:
باقی اشعار پر بھی تنقیدی نگاہ ڈال دیں تو احسان ہو گا. محمد ریحان قریشی
باقی اشعار اوزان کے اعتبار سے درست ہیں۔ معنوی تنقید کے قابل فی الحال خود کو نہیں پاتا۔ اس کے لیے آپ کو سر الف عین کا انتظار کرنا ہوگا۔ راحیل فاروق صاحب تو یہاں کا راستہ شاید دوبارہ چھوڑ گئے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اچھی غزل ہے
پہلے تو یہ کہوں گا کہ یہ موبائل کی بورڈ والا وقفہ ، انگریزی کا فل سٹاپ، اردو میں استعمال نہیں کیا جا سکتا، اور مصرعوں کے آخر میں تو وقفے کی قطعی ضرورت نہیں۔

تولو جو ترازو میں ستم اپنے وفا میری.
آ جائے نظر تم کو کرم اپنا سزا میری.
÷÷ تسکین اوسط والا عروض تو میرے بھی سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔ میں تو اپبی طبع کو راہنما مان کر غزل دیکھتا ہوں۔ مطلع سے ہی بحر متعین ہوتی ہے۔ جو یہاں مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن ہوتا ہے۔ اور اس لحاظ سے اگر عروضی مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن کی اجازت دے بھی دیں تو میری طبع نازک کو نا گوار گزرتا ہے۔اس لیے بہتر ہو کہ سارے مصرعے
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن میں ہی کر دیے جائیں، اگر نہ ہوں تو۔

برباد اگر ہوں گے تو اپنے جنوں کے ہاتھوں.
اغیار سے نسبت ہو نہیں طرز ادا میری.
÷÷پہلا مصرع غلط ہے، ریحان کہہ چکے ہیں۔

یوں بھٹکے ہے جاں اپنی منزل کا نشاں پا کر.
کچھ تیرا تغافل ہے کچھ اپنی خطا میری.
۔۔یہاں دونوں مصرعے دوسری بحر میں ہو گئے ہیں۔ ’اپنی خطا میری‘ کا بیانیہ بھی غلط ہے۔

احساس زیاں کچھ تو کر غم کا مداوا بھی.
دکھلائے طلاطم سا پھر موج نوا میری.
۔۔ارکان بدلنے کی ضرورت کے علاوہ شعر دو لخت محسوس ہو رہا ہے۔

گلشن کے تصور میں کٹی عمر رواں یوں ہی.
سوچوں سے نہ بدلی ہے نہ بدلے گی فضا میری.
۔۔بحر درست شعر بھی ٹھیک ہی ہے۔

پنہاں ہے کہیں مجھ میں اک برق تجلی بھی.
روشن ہو جہاں سارا پھیلے جو ضیا میری.
۔۔ارکان بدلیں۔ شعر خوب ہے۔

ہے گرچہ جگر سوز بہت تشنہ لبی یوں بھی.
بے فیض ہے مدت سے تسلیم و رضا میری.
÷÷ دوسرا مصرع، بحر بدلیں۔ یہ شعر بھی مجھے دو لخت محسوس ہو رہا ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
ماشاء اللہ اچھی غزل ہے
پہلے تو یہ کہوں گا کہ یہ موبائل کی بورڈ والا وقفہ ، انگریزی کا فل سٹاپ، اردو میں استعمال نہیں کیا جا سکتا، اور مصرعوں کے آخر میں تو وقفے کی قطعی ضرورت نہیں۔

تولو جو ترازو میں ستم اپنے وفا میری.
آ جائے نظر تم کو کرم اپنا سزا میری.
÷÷ تسکین اوسط والا عروض تو میرے بھی سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔ میں تو اپبی طبع کو راہنما مان کر غزل دیکھتا ہوں۔ مطلع سے ہی بحر متعین ہوتی ہے۔ جو یہاں مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن ہوتا ہے۔ اور اس لحاظ سے اگر عروضی مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن کی اجازت دے بھی دیں تو میری طبع نازک کو نا گوار گزرتا ہے۔اس لیے بہتر ہو کہ سارے مصرعے
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن میں ہی کر دیے جائیں، اگر نہ ہوں تو۔

برباد اگر ہوں گے تو اپنے جنوں کے ہاتھوں.
اغیار سے نسبت ہو نہیں طرز ادا میری.
÷÷پہلا مصرع غلط ہے، ریحان کہہ چکے ہیں۔

یوں بھٹکے ہے جاں اپنی منزل کا نشاں پا کر.
کچھ تیرا تغافل ہے کچھ اپنی خطا میری.
۔۔یہاں دونوں مصرعے دوسری بحر میں ہو گئے ہیں۔ ’اپنی خطا میری‘ کا بیانیہ بھی غلط ہے۔

احساس زیاں کچھ تو کر غم کا مداوا بھی.
دکھلائے طلاطم سا پھر موج نوا میری.
۔۔ارکان بدلنے کی ضرورت کے علاوہ شعر دو لخت محسوس ہو رہا ہے۔

گلشن کے تصور میں کٹی عمر رواں یوں ہی.
سوچوں سے نہ بدلی ہے نہ بدلے گی فضا میری.
۔۔بحر درست شعر بھی ٹھیک ہی ہے۔

پنہاں ہے کہیں مجھ میں اک برق تجلی بھی.
روشن ہو جہاں سارا پھیلے جو ضیا میری.
۔۔ارکان بدلیں۔ شعر خوب ہے۔

ہے گرچہ جگر سوز بہت تشنہ لبی یوں بھی.
بے فیض ہے مدت سے تسلیم و رضا میری.
÷÷ دوسرا مصرع، بحر بدلیں۔ یہ شعر بھی مجھے دو لخت محسوس ہو رہا ہے۔

سر شکر گزار ہوں. کچھ تدوین کر دی ہے مزید اشعار کے حوالے سے احباب اور آپ کی مدد کا طالب ہوں
 

امان زرگر

محفلین
ماشاء اللہ اچھی غزل ہے
پہلے تو یہ کہوں گا کہ یہ موبائل کی بورڈ والا وقفہ ، انگریزی کا فل سٹاپ، اردو میں استعمال نہیں کیا جا سکتا، اور مصرعوں کے آخر میں تو وقفے کی قطعی ضرورت نہیں۔

تولو جو ترازو میں ستم اپنے وفا میری.
آ جائے نظر تم کو کرم اپنا سزا میری.
÷÷ تسکین اوسط والا عروض تو میرے بھی سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔ میں تو اپبی طبع کو راہنما مان کر غزل دیکھتا ہوں۔ مطلع سے ہی بحر متعین ہوتی ہے۔ جو یہاں مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن ہوتا ہے۔ اور اس لحاظ سے اگر عروضی مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن کی اجازت دے بھی دیں تو میری طبع نازک کو نا گوار گزرتا ہے۔اس لیے بہتر ہو کہ سارے مصرعے
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن میں ہی کر دیے جائیں، اگر نہ ہوں تو۔

برباد اگر ہوں گے تو اپنے جنوں کے ہاتھوں.
اغیار سے نسبت ہو نہیں طرز ادا میری.
÷÷پہلا مصرع غلط ہے، ریحان کہہ چکے ہیں۔

یوں بھٹکے ہے جاں اپنی منزل کا نشاں پا کر.
کچھ تیرا تغافل ہے کچھ اپنی خطا میری.
۔۔یہاں دونوں مصرعے دوسری بحر میں ہو گئے ہیں۔ ’اپنی خطا میری‘ کا بیانیہ بھی غلط ہے۔

احساس زیاں کچھ تو کر غم کا مداوا بھی.
دکھلائے طلاطم سا پھر موج نوا میری.
۔۔ارکان بدلنے کی ضرورت کے علاوہ شعر دو لخت محسوس ہو رہا ہے۔

گلشن کے تصور میں کٹی عمر رواں یوں ہی.
سوچوں سے نہ بدلی ہے نہ بدلے گی فضا میری.
۔۔بحر درست شعر بھی ٹھیک ہی ہے۔

پنہاں ہے کہیں مجھ میں اک برق تجلی بھی.
روشن ہو جہاں سارا پھیلے جو ضیا میری.
۔۔ارکان بدلیں۔ شعر خوب ہے۔

ہے گرچہ جگر سوز بہت تشنہ لبی یوں بھی.
بے فیض ہے مدت سے تسلیم و رضا میری.
÷÷ دوسرا مصرع، بحر بدلیں۔ یہ شعر بھی مجھے دو لخت محسوس ہو رہا ہے۔

.
برباد اگر ہوں گے تو ارباب جنوں سے ہی.
اغیار سے نسبت ہو نہیں طرز ادا میری.
.
محمد ریحان قریشی
 

الف عین

لائبریرین
پہلے تو یہ کہوں کہ لا المیٰ محترمہ ہیں۔ سر نہیں!!!
نئے اشعار کی تقطیع پھر سے کرو۔ وہی غلطی ہو گئی ہے۔ کہین مفعول مفاعیلن دو بار، کہیں مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن
 

امان زرگر

محفلین
میں کم علم دو بحروں کے درمیان الجھ سا گیا ہوں کوئی بھائی مدد کر دے تو رہن احسان رہوں گا
پہلے تو یہ کہوں کہ لا المیٰ محترمہ ہیں۔ سر نہیں!!!
نئے اشعار کی تقطیع پھر سے کرو۔ وہی غلطی ہو گئی ہے۔ کہین مفعول مفاعیلن دو بار، کہیں مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن
 
میں کم علم دو بہروں کے درمیان الجھ سا گیا ہوں کوئی بھائی مدد کر دے تو رہن احسان رہوں گا
ان دونوں بحروں کو ایک غزل یا نظم میں جمع کرنا درست ہے مگر یہ قاری کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنتا ہے۔
اس لیے سر الف عین کی رائے یہ تھی کہ آپ تمام اشعار کو پہلی بحر مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن کے مطابق کر دیں۔
ویسے یہ بحر عام مستعمل نہیں ہے میں نے کوئی غزل ابھی تک اس بحر میں نہیں دیکھی۔
دوسری طرف مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن عام مستعمل بحر ہے۔
بہرصورت ان دونوں کو ایک غزل میں جمع کرنے سے اجتناب ہی کرنا چاہیے لیکن انھیں جمع کرنا عروضی طور پر بالکل درست ہے۔
 
Top