تولو جو ترازو میں ستم اپنے وفا میری

امان زرگر

محفلین
ان دونوں بحروں کو ایک غزل یا نظم میں جمع کرنا درست ہے مگر یہ قاری کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنتا ہے۔
اس لیے سر الف عین کی رائے یہ تھی کہ آپ تمام اشعار کو پہلی بحر مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن کے مطابق کر دیں۔
ویسے یہ بحر عام مستعمل نہیں ہے میں نے کوئی غزل ابھی تک اس بحر میں نہیں دیکھی۔
دوسری طرف مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن عام مستعمل بحر ہے۔
بہرصورت ان دونوں کو ایک غزل میں جمع کرنے سے اجتناب ہی کرنا چاہیے لیکن انھیں جمع کرنا عروضی طور پر بالکل درست ہے۔

سر کچھ اشعار کو مفعول مفاعیلن مفاعیل مفاعیلن
سے
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن میں لانے میں مجھے بہت مشکل درپیش ہے
 

الف عین

لائبریرین
معروف بحر تو محض مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ہے، جیسے
غالب۔ لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور
مفعول مفاعیلن مفاعیل مفاعیلن
تو کوئی بحر نہیں۔ ہاں، آخر میں فعولن کی جگہ آدھا رکن اضافہ کر کے مفاعیلن کیا جا سکتا ہے، اگرچہ مستعمل بحر وہ بھی نہیں۔
 

امان زرگر

محفلین
تولو جو ترازو میں ستم اپنے وفا میری.
آ جائے نظر تم کو کرم اپنا سزا میری.
برباد اگر ہوں گے تو ہاتھوں سے جنوں کے ہی .
اغیار سے نسبت ہو نہیں طرز ادا میری.
یوں بھٹکے ہے جاں اپنی منزل کا نشاں پا کر.
کچھ تیرا تغافل ہے کچھ اس میں خطا میری.
احساس زیاں غم کا کرے کچھ تو مداوا بھی.
دکھلائے طلاطم سا پھر موج نوا میری.
گلشن کے تصور میں کٹی عمر رواں یوں ہی.
سوچوں سے نہ بدلی ہے نہ بدلے گی فضا میری.
پنہاں ہے کہیں مجھ میں اک برق تجلی بھی.
روشن ہو جہاں سارا پھیلے جو ضیا میری.
ہے گرچہ جگر سوز بہت تشنہ لبی یوں بھی.
بے فیض ہے مدت سے یہ تسلیم و رضا میری.
اپنی کم علمی، کم ذخیرہ الفاظ اور عروض سے متعلق کم فہمی آڑے آ رہی ہے کہ کوشش کے باوجود اساتذہ کا حکم بجا لانے میں ناکام رہا ہوں۔میں محفلین اور اساتذہ سے ملتمس ہوں کہ وہ اس غزل کو مناسب بحر میں لانے میں میری مدد کریں۔
۔
۔
تولو جو ترازو میں، ستم اپنے، وفا میری
آ جائے نظر تم کو، کرم اپنا ،سزا میری
برباد اگر ہوں گے تو، اربابِ جنوں سے ہی
اغیار سے نسبت ہو، نہیں طرزِ ادا میری
یوں بھٹکے ہے جاں اپنی، منزل کا نشاں پا کر
کچھ تیرا تغافل ہے، کچھ اس میں، خطا میری
احساسِ زیاں، خوابِ گراں غم، سے جگا دے تو
دکھلائے طلاطم سا، کہ پھر موجِ نوا میری
گلشن کے تصور میں، کٹی عمرِ رواں یوں ہی
سوچوں سے نہ بدلی ہے نہ بدلے گی، فضا میری
اک برقِ تجلی بھی پنہاں ہے، کہیں مجھ میں
سارا جہاں روشن ہو، پھیلے جو ضیا میری
اے شوخ! جگر سوز بہت تشنہ لبی ہے، یاں
بے فیض ہے مدت سے، یہ تسلیم و رضا میری
 
آخری تدوین:
Top