امان زرگر
محفلین
تولو جو ترازو میں ستم اپنے وفا میری.
آ جائے نظر تم کو کرم اپنا سزا میری.
برباد اگر ہوں گے تو ہاتھوں سے جنوں کے ہی .
اغیار سے نسبت ہو نہیں طرز ادا میری.
یوں بھٹکے ہے جاں اپنی منزل کا نشاں پا کر.
کچھ تیرا تغافل ہے کچھ اس میں خطا میری.
احساس زیاں غم کا کرے کچھ تو مداوا بھی.
دکھلائے طلاطم سا پھر موج نوا میری.
گلشن کے تصور میں کٹی عمر رواں یوں ہی.
سوچوں سے نہ بدلی ہے نہ بدلے گی فضا میری.
پنہاں ہے کہیں مجھ میں اک برق تجلی بھی.
روشن ہو جہاں سارا پھیلے جو ضیا میری.
ہے گرچہ جگر سوز بہت تشنہ لبی یوں بھی.
بے فیض ہے مدت سے یہ تسلیم و رضا میری.
آ جائے نظر تم کو کرم اپنا سزا میری.
برباد اگر ہوں گے تو ہاتھوں سے جنوں کے ہی .
اغیار سے نسبت ہو نہیں طرز ادا میری.
یوں بھٹکے ہے جاں اپنی منزل کا نشاں پا کر.
کچھ تیرا تغافل ہے کچھ اس میں خطا میری.
احساس زیاں غم کا کرے کچھ تو مداوا بھی.
دکھلائے طلاطم سا پھر موج نوا میری.
گلشن کے تصور میں کٹی عمر رواں یوں ہی.
سوچوں سے نہ بدلی ہے نہ بدلے گی فضا میری.
پنہاں ہے کہیں مجھ میں اک برق تجلی بھی.
روشن ہو جہاں سارا پھیلے جو ضیا میری.
ہے گرچہ جگر سوز بہت تشنہ لبی یوں بھی.
بے فیض ہے مدت سے یہ تسلیم و رضا میری.
آخری تدوین: