نیرنگ خیال

لائبریرین
جو نہ ظالم کا ہاتھ روکے، نہ مظلوم کی مدد کرے، وہ ظالم کا مددگار ہے اور اس کا حساب ظالم کے ساتھ ہی ہونا چاہیے. کسی تیسری درجہ بندی کی ضرورت نہیں ہے.
بہت اچھی تحریر ہے
جناااب

حادثات کے بعد مردوں کی جیبیں خالی کرنے والے اور عورتوں کے زیور اتارنے والے بهی انسان ہی ہوتے ہیں اور انهیں اپنی ذاتی گاڑیوں میں ہسپتالوں میں پہنچانے والے بهی۔

کسی بهی قسم کے واقعہ پر انسان یا انسانوں کے گروہ کا ردعمل دوسروں سے مختلف ہوسکتا ہے اور واقعہ مزکورہ میں بهی ایسا ہی ہوا ہے۔ یہ عمومی انسانی رویہ ہی ہے۔
البتہ دکھ والی بات ضرور ہے۔
ایک بار پھر جنااااب۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بغیرِ ظلم توقّع مدار از ظالم
کہ نخلِ شعلہ اگر بار می دہد شرر است

شیخ حسین شہرت شیرازی

ظالم سے ظلم کے علاوہ کسی اور چیز کی توقع مت رکھ کیونکہ شعلوں کا درخت اگر پھل بھی دے گا تو وہ شرارہ ہی ہوگا۔
شکریہ وارث بھائی۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
مظلوم مرتا مر جائے۔ لیکن اس ویڈیو بنانے والے کے ہاتھ نہیں کانپتے۔ دوران ویڈیو کیمرہ کی ہلکی سی لرزش بھی نظر نہیں آتی۔ وہ کبھی مظلوم کی داد رسی کی کوشش نہیں کرتا۔ کوشش تو ایک طرف پوری ویڈیو میں اس کی طرف سے شاید ہی کوئی لفظ بھی اس کے خلاف نکلتا ہو۔ مزید مشاہدہ یہ بھی ہے کہ یہ ویڈیوز چھپ کر نہیں بنائی جاتیں۔ کیوں کہ زیادہ تر ایسی ویڈیوز میں کیمرے کا زاویہ ایک نہیں ہوتا۔ ہر زوایے سے گھوم پھر مظلوموں کی آہ و بکا ریکارڈ کی جاتی ہے۔ تاکہ وہ پتھر دل جو فیس بک، یوٹیوب یا ایسے دیگر چینلز پر اس ویڈیو کو دیکھیں۔ ان کے دل پگھل جائیں۔ اور وہ بھی عملی طور پر لعن طعن کرکے ایک صحت مندذہن رکھنے کا ثبوت دے سکیں۔ کیا "خود نمائی" اور "لائکس" کے چکر میں ہم انسانیت کی بنیادی اقدار بھی بھلا بیٹھے ہیں۔

بہت حسّاس ہونا بھی علامت بے حسی کی ہے
ترے برباد ہونے میں ہر اک سازش اسی کی ہے

تمہاری حق نوائی پر ہر اک انگلی اٹھاتا تھا
قیامت اب ہے کیوں برپا جو حالت خامشی کی ہے

بے حسی، انتشار اور خودغرضی بڑھ گئی ہے اور بڑھتی جارہی ہے۔ انسانیت کی تذلیل کا مشاہدہ آئے روز ہم کررہے ہیں۔ انسانیت کی تذلیل ایسی بڑھی کہ اب یہ سمجھنا مشکل ہوگیا کہ ایک انسان کی عزت و اکرام کیا ہوتا ہے۔ ؀
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
کسی انسان پر تشدد کی اجازت ہر گز نہیں دی جا سکتی اور اسکے خلاف آواز اُٹھانا اشد ضروری ہے ۔اے کاش ہم اس بے حسی کی دن بدن بڑھتی فضا کے خلاف اپنی آواز بلند سے بلند تر کرسکیں۔۔۔۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
چند دن پہلے کی بات ہے شہر سے باہر جاتی سڑک پر ایک کار سے کتا ٹکر گیا۔کار والا بغیررکے نکلتا چلا گیا۔ کتا شدید زخمی حالت میں سڑک پر کراہ رہا تھا۔ ہم جائے حادثہ سے کچھ فاصلے پر تھے۔ قبل اس کے ہم کتے تک پہنچتے۔ دو لڑکے موٹر سائیکل پر اس کے پاس رکے۔ جیب سے موبائل نکالا اور مرتے کتے کی ویڈیو بنانے لگے۔ ایک آدھے منٹ کی ویڈیو بنانے کے بعد وہ دونوں موٹر سائیکل پر بیٹھے اور یہ جا وہ جا۔ ہم کتے کے پاس پہنچے تو وہ مر چکا تھا۔ میں نے اور میرے دو ست نے کتے کو گھسیٹ کر ایک طرف کیا۔ دو چھوٹی چھوٹی لکڑیوں کی مدد سے ایک گڑھا کھودا۔ اس میں کتے کو دفنا کر ہم دونوں پاس کے کھال پر بیٹھ کر ہاتھ پاؤں دھونے لگے۔ بات کچھ ایسی خاص نہ تھی کہ ذہن سے چپک جاتی۔

اس واقعے کے ایک یا دو دن بعد ایک واقف کار سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں معاشرے میں بڑھتی بےحسی بھی زیرِ موضوع آگئی۔ ان کا فرمانا تھا کہ لوگ اب ظالم ہوگئے ہیں۔ ان کے اندر انسانیت نام کو نہیں رہی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جیب سے موبائل نکالا۔ اور واٹس ایپ پر مجھے ایک مرتے کتے کی ویڈیو دکھانے لگے۔ کتا تکلیف سے آوازیں نکال رہا تھا۔ اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ ہل سکتا۔ رفتہ رفتہ اس کی آوازیں مدہم ہوتی چلی گئیں۔ یہ ویڈیو ایک منٹ کی بھی نہ تھی۔

"دیکھا آپ نے جنااااب!" انہوں نے مجھے سوچ میں گم پا کر کہا۔" کیسے وہ ظالم کار والا اس کو ٹکر مار کر نکلتا بنا۔ اس نے رکنے کی بھی زحمت نہیں کی۔"

"آپ کو کس نے بتایا کہ اس کو کار نے ٹکر ماری ہے؟" اگرچہ میں اس سوال کا جواب جانتا تھا لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں میں نے پوچھ لیا۔

"میرے چھوٹے بھائی نے مجھے بتایا ہے۔ یہ ویڈیو اسی نے بنائی ہے۔" انہوں نے فخریہ انداز میں جواب دیا۔

"کار والے نے جان بوجھ کر ٹکر نہیں ماری تھی۔ کتے اکثر سڑک پر گاڑیوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ میں نے اسلام آباد میں خنزیروں کو بھی گاڑیوں سے ٹکرا کر مرتے دیکھا ہے۔ لیکن میری نظر میں زیادہ بےحس وہ لڑکے تھے جو وہاں مرتے کتے کی ویڈیو بناتے رہے۔ اور مرنے کے بعد اس کی لاش کو سڑک کے ایک طرف بھی نہ کیا اور اپنی راہ لیتے بنے۔ " میں نے اپنی سوچ ان کے سامنے بیان کرنے کی حماقت کردی۔

اوہ جاؤ بھئی! انہوں نے انتہائی ترش لہجے میں کہا۔ لیکن اس کے آگے وہ کچھ بول نہیں پائے چند ثانیے بعد اٹھ کر چل دیے۔ مجھے خدا حافظ کہنے کی زحمت بھی نہیں کی۔

اکثر سوشل میڈیا چینلز جیسے فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل پلس وغیرہ پر میں نے دیکھا ہے کہ لوگ "دیکھیں اصل چہرہ"، "یہ ہیں ہمارے معاشرے کے مکروہ چہرے "، "انسانیت کے نام پر دھبہ" یا ان سے ملتے جلتے عنوانات کے ساتھ ویڈیوز شئیر کرتے ہیں۔ ان ویڈیوز میں عموماً بااثر افراد اپنے ملازمین یا دست نگر لوگوں پر ظلم و تشدد کرتے پائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ویڈیو بنانے والے میں اتنا دم تو ہے کہ وہ اس کو یوٹیوب، فیس بک و دیگر چینلز پر اپلوڈ کر سکتا ہے۔ لیکن ویڈیو بنانے کے دوران وہ کبھی بھی کسی معاملے میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ چاہے کتنے ہی ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں۔ مظلوم مرتا مر جائے۔ لیکن اس ویڈیو بنانے والے کے ہاتھ نہیں کانپتے۔ دوران ویڈیو کیمرہ کی ہلکی سی لرزش بھی نظر نہیں آتی۔ وہ کبھی مظلوم کی داد رسی کی کوشش نہیں کرتا۔ کوشش تو ایک طرف پوری ویڈیو میں اس کی طرف سے شاید ہی کوئی لفظ بھی اس کے خلاف نکلتا ہو۔ مزید مشاہدہ یہ بھی ہے کہ یہ ویڈیوز چھپ کر نہیں بنائی جاتیں۔ کیوں کہ زیادہ تر ایسی ویڈیوز میں کیمرے کا زاویہ ایک نہیں ہوتا۔ ہر زوایے سے گھوم پھر مظلوموں کی آہ و بکا ریکارڈ کی جاتی ہے۔ تاکہ وہ پتھر دل جو فیس بک، یوٹیوب یا ایسے دیگر چینلز پر اس ویڈیو کو دیکھیں۔ ان کے دل پگھل جائیں۔ اور وہ بھی عملی طور پر لعن طعن کرکے ایک صحت مندذہن رکھنے کا ثبوت دے سکیں۔ کیا "خود نمائی" اور "لائکس" کے چکر میں ہم انسانیت کی بنیادی اقدار بھی بھلا بیٹھے ہیں۔

بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر آگ کا درخت ہوتا تو شعلہ اس کا پھل ہوتا ۔ "ظلم کی توفیق ہے ہر ظالم کی وراثت" کے مصداق ہر ظالم ظلم میں تو مصروف ہے۔ لیکن یہ جو بالکل ایک نئی طرز کی نسل دریافت ہوئی ہے۔ یہ کن میں شمار ہوتی ہے۔ یہ جو ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کر کے درد سمیٹتے ہیں۔ یہ کس کے طرفدار ہیں۔ ظالم کے یا مظلوم کے؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ اب یہاں پر ایک تیسری درجہ بندی کی بھی ضرورت ہے۔
آہ!!!
بے حسی کی انتہا ہے اور مزید یہ کہ ایسی ویڈیوز پر لائکس اور شیئر ایسے لوگوں کی تسکین کا سبب بنتی ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے
ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے

راحیل فاروق کا تقریباً جامع تبصرہ سب باتوں کا احاطہ کرلیتا ہے ۔ نین بھائی ، میرے سوشل میڈیا سے دور رہنے کی وجہ یہی باتیں ہیں ۔ مجھے اپنی ذہنی صحت پیاری ہے اور جائز و ناجائز کی قوتِ تمیز عزیز ہے ۔ بے حس ہونا منظور نہیں ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
چند دن پہلے کی بات ہے شہر سے باہر جاتی سڑک پر ایک کار سے کتا ٹکر گیا۔کار والا بغیررکے نکلتا چلا گیا۔ کتا شدید زخمی حالت میں سڑک پر کراہ رہا تھا۔ ہم جائے حادثہ سے کچھ فاصلے پر تھے۔ قبل اس کے ہم کتے تک پہنچتے۔ دو لڑکے موٹر سائیکل پر اس کے پاس رکے۔ جیب سے موبائل نکالا اور مرتے کتے کی ویڈیو بنانے لگے۔ ایک آدھے منٹ کی ویڈیو بنانے کے بعد وہ دونوں موٹر سائیکل پر بیٹھے اور یہ جا وہ جا۔ ہم کتے کے پاس پہنچے تو وہ مر چکا تھا۔ میں نے اور میرے دو ست نے کتے کو گھسیٹ کر ایک طرف کیا۔ دو چھوٹی چھوٹی لکڑیوں کی مدد سے ایک گڑھا کھودا۔ اس میں کتے کو دفنا کر ہم دونوں پاس کے کھال پر بیٹھ کر ہاتھ پاؤں دھونے لگے۔ بات کچھ ایسی خاص نہ تھی کہ ذہن سے چپک جاتی۔

اس واقعے کے ایک یا دو دن بعد ایک واقف کار سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں معاشرے میں بڑھتی بےحسی بھی زیرِ موضوع آگئی۔ ان کا فرمانا تھا کہ لوگ اب ظالم ہوگئے ہیں۔ ان کے اندر انسانیت نام کو نہیں رہی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے جیب سے موبائل نکالا۔ اور واٹس ایپ پر مجھے ایک مرتے کتے کی ویڈیو دکھانے لگے۔ کتا تکلیف سے آوازیں نکال رہا تھا۔ اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ ہل سکتا۔ رفتہ رفتہ اس کی آوازیں مدہم ہوتی چلی گئیں۔ یہ ویڈیو ایک منٹ کی بھی نہ تھی۔

"دیکھا آپ نے جنااااب!" انہوں نے مجھے سوچ میں گم پا کر کہا۔" کیسے وہ ظالم کار والا اس کو ٹکر مار کر نکلتا بنا۔ اس نے رکنے کی بھی زحمت نہیں کی۔"

"آپ کو کس نے بتایا کہ اس کو کار نے ٹکر ماری ہے؟" اگرچہ میں اس سوال کا جواب جانتا تھا لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں میں نے پوچھ لیا۔

"میرے چھوٹے بھائی نے مجھے بتایا ہے۔ یہ ویڈیو اسی نے بنائی ہے۔" انہوں نے فخریہ انداز میں جواب دیا۔

"کار والے نے جان بوجھ کر ٹکر نہیں ماری تھی۔ کتے اکثر سڑک پر گاڑیوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ میں نے اسلام آباد میں خنزیروں کو بھی گاڑیوں سے ٹکرا کر مرتے دیکھا ہے۔ لیکن میری نظر میں زیادہ بےحس وہ لڑکے تھے جو وہاں مرتے کتے کی ویڈیو بناتے رہے۔ اور مرنے کے بعد اس کی لاش کو سڑک کے ایک طرف بھی نہ کیا اور اپنی راہ لیتے بنے۔ " میں نے اپنی سوچ ان کے سامنے بیان کرنے کی حماقت کردی۔

اوہ جاؤ بھئی! انہوں نے انتہائی ترش لہجے میں کہا۔ لیکن اس کے آگے وہ کچھ بول نہیں پائے چند ثانیے بعد اٹھ کر چل دیے۔ مجھے خدا حافظ کہنے کی زحمت بھی نہیں کی۔

اکثر سوشل میڈیا چینلز جیسے فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل پلس وغیرہ پر میں نے دیکھا ہے کہ لوگ "دیکھیں اصل چہرہ"، "یہ ہیں ہمارے معاشرے کے مکروہ چہرے "، "انسانیت کے نام پر دھبہ" یا ان سے ملتے جلتے عنوانات کے ساتھ ویڈیوز شئیر کرتے ہیں۔ ان ویڈیوز میں عموماً بااثر افراد اپنے ملازمین یا دست نگر لوگوں پر ظلم و تشدد کرتے پائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ویڈیو بنانے والے میں اتنا دم تو ہے کہ وہ اس کو یوٹیوب، فیس بک و دیگر چینلز پر اپلوڈ کر سکتا ہے۔ لیکن ویڈیو بنانے کے دوران وہ کبھی بھی کسی معاملے میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ چاہے کتنے ہی ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں۔ مظلوم مرتا مر جائے۔ لیکن اس ویڈیو بنانے والے کے ہاتھ نہیں کانپتے۔ دوران ویڈیو کیمرہ کی ہلکی سی لرزش بھی نظر نہیں آتی۔ وہ کبھی مظلوم کی داد رسی کی کوشش نہیں کرتا۔ کوشش تو ایک طرف پوری ویڈیو میں اس کی طرف سے شاید ہی کوئی لفظ بھی اس کے خلاف نکلتا ہو۔ مزید مشاہدہ یہ بھی ہے کہ یہ ویڈیوز چھپ کر نہیں بنائی جاتیں۔ کیوں کہ زیادہ تر ایسی ویڈیوز میں کیمرے کا زاویہ ایک نہیں ہوتا۔ ہر زوایے سے گھوم پھر مظلوموں کی آہ و بکا ریکارڈ کی جاتی ہے۔ تاکہ وہ پتھر دل جو فیس بک، یوٹیوب یا ایسے دیگر چینلز پر اس ویڈیو کو دیکھیں۔ ان کے دل پگھل جائیں۔ اور وہ بھی عملی طور پر لعن طعن کرکے ایک صحت مندذہن رکھنے کا ثبوت دے سکیں۔ کیا "خود نمائی" اور "لائکس" کے چکر میں ہم انسانیت کی بنیادی اقدار بھی بھلا بیٹھے ہیں۔

بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر آگ کا درخت ہوتا تو شعلہ اس کا پھل ہوتا ۔ "ظلم کی توفیق ہے ہر ظالم کی وراثت" کے مصداق ہر ظالم ظلم میں تو مصروف ہے۔ لیکن یہ جو بالکل ایک نئی طرز کی نسل دریافت ہوئی ہے۔ یہ کن میں شمار ہوتی ہے۔ یہ جو ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کر کے درد سمیٹتے ہیں۔ یہ کس کے طرفدار ہیں۔ ظالم کے یا مظلوم کے؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ اب یہاں پر ایک تیسری درجہ بندی کی بھی ضرورت ہے۔
آپ نے ایک بے حس معاشرے میں ہونے والے آئے دن کے عجب واقعات کی گجب تشہیری کہانیوں کو بہت موثر انداز سے بیان کیا ہے۔ آپ کی کہانی پڑھ کر کیون کارٹر کی لی گئی تصویر یاد آگئی جس میں انہوں نے ایک مرتی ہوئی سوڈانی بچی اور گدھ کو دکھایا تھا اور ڈپریشن کے بعد خودکشی کر لی تھی کہ انہوں نے صرف تصویر کیوں لی بچی کو بچانے کی کوشش کیوں نہ کی۔ ایسے بھی ضمیر کے قیدی ہوتے ہیں !! مگر ہمارے ملک میں تو ایک خاتون سرعام کہتی ہیں کہ ان کے پاس حاضر سروس افسران کی ویڈیوز ہیں ان کے شوہر، بھائیوں اور والد صاحب کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ۔ ملک و قوم کا سرمایہ تو اب ویڈیوز ہی ہیں ۔ ۔ پورا ملک ہی آڈیوز اور ویڈیوز پر چل رہا ہے ۔ انجام بھی سامنے دھرا ہے ۔ اخلاقیات کا جنازہ خاصی دھوم سے نکل رہا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت حسّاس ہونا بھی علامت بے حسی کی ہے
ترے برباد ہونے میں ہر اک سازش اسی کی ہے

تمہاری حق نوائی پر ہر اک انگلی اٹھاتا تھا
قیامت اب ہے کیوں برپا جو حالت خامشی کی ہے

بے حسی، انتشار اور خودغرضی بڑھ گئی ہے اور بڑھتی جارہی ہے۔ انسانیت کی تذلیل کا مشاہدہ آئے روز ہم کررہے ہیں۔ انسانیت کی تذلیل ایسی بڑھی کہ اب یہ سمجھنا مشکل ہوگیا کہ ایک انسان کی عزت و اکرام کیا ہوتا ہے۔ ؀
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
کسی انسان پر تشدد کی اجازت ہر گز نہیں دی جا سکتی اور اسکے خلاف آواز اُٹھانا اشد ضروری ہے ۔اے کاش ہم اس بے حسی کی دن بدن بڑھتی فضا کے خلاف اپنی آواز بلند سے بلند تر کرسکیں۔۔۔۔
بالکل درست کہا آپ نے آپا۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے
ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے

راحیل فاروق کا تقریباً جامع تبصرہ سب باتوں کا احاطہ کرلیتا ہے ۔ نین بھائی ، میرے سوشل میڈیا سے دور رہنے کی وجہ یہی باتیں ہیں ۔ مجھے اپنی ذہنی صحت پیاری ہے اور جائز و ناجائز کی قوتِ تمیز عزیز ہے ۔ بے حس ہونا منظور نہیں ۔
میں تو ویسے ہی قریب ہر قسم سے میڈیا سے دور رہتا ہوں ظہیر بھائی۔۔۔۔ اکتاہٹ ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ نے ایک بے حس معاشرے میں ہونے والے آئے دن کے عجب واقعات کی گجب تشہیری کہانیوں کو بہت موثر انداز سے بیان کیا ہے۔ آپ کی کہانی پڑھ کر کیون کارٹر کی لی گئی تصویر یاد آگئی جس میں انہوں نے ایک مرتی ہوئی سوڈانی بچی اور گدھ کو دکھایا تھا اور ڈپریشن کے بعد خودکشی کر لی تھی کہ انہوں نے صرف تصویر کیوں لی بچی کو بچانے کی کوشش کیوں نہ کی۔ ایسے بھی ضمیر کے قیدی ہوتے ہیں !! مگر ہمارے ملک میں تو ایک خاتون سرعام کہتی ہیں کہ ان کے پاس حاضر سروس افسران کی ویڈیوز ہیں ان کے شوہر، بھائیوں اور والد صاحب کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ۔ ملک و قوم کا سرمایہ تو اب ویڈیوز ہی ہیں ۔ ۔ پورا ملک ہی آڈیوز اور ویڈیوز پر چل رہا ہے ۔ انجام بھی سامنے دھرا ہے ۔ اخلاقیات کا جنازہ خاصی دھوم سے نکل رہا ہے۔
بالکل صابرہ۔۔۔ آپ کی تمام باتیں ہی صواب و راستی پر مبنی ہیں۔ جزاک اللہ
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
پروفیسر عنایت علی خان صاحب نے ارشاد فرمایا تھا
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

اب تو لوگ ٹھہر جاتے ہیں۔ مگر کس لیے؟، محض تماشا دیکھنے کے لیے۔ اب بات سانحہ سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔ افسوس!

معاشرے کے ایک بدصورت پہلو سے پردہ اٹھانے پر اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کریں نیرنگ خیال بھائی۔
سلامت رہیئے۔آمین۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
پروفیسر عنایت علی خان صاحب نے ارشاد فرمایا تھا
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

اب تو لوگ ٹھہر جاتے ہیں۔ مگر کس لیے؟، محض تماشا دیکھنے کے لیے۔ اب بات سانحہ سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔ افسوس!

معاشرے کے ایک بدصورت پہلو سے پردہ اٹھانے پر اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کریں نیرنگ خیال بھائی۔
سلامت رہیئے۔آمین۔
آمین
 
Top