ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
شادی کے چند سال بعد کا ذکر ہے ایک دن کھانے کے دوران احساس ہوا کہ دو تین روز سے میز پر سبزیوں کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آ رہا۔ استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ بیگم صاحبہ ڈائٹنگ کر رہی ہیں۔ گھبرا کر عرض کیا کہ آپ کو ڈائٹنگ کی کیا ضرورت؟ آپ تو ٹھیک ٹھاک ہیں۔ کہنے لگیں کہ وزن بڑھ گیا ہے۔میں نے کہا کہ وزن وزن کچھ نہیں، آپ کا وہم ہے۔ جس پر انہوں نے گھورتے ہوئے سپاٹ سے لہجے میں پوچھا "وہم کیا دس پونڈ کا ہوتا ہے؟" اس غیر متوقع سوال کے جواب میں اس عاجز نے اپنی ناقص عقل کے گھوڑے چاروں طرف دوڑائے لیکن وہم کے بارے میں مفصل معلومات یادداشت کے کسی بھی کونے میں کہیں نظر نہ آئیں۔ اگر کچھ ملا تو فقط یہ کہ اس کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ چنانچہ اسی دستیاب معلومات کو بطور جواب پیش کر ڈالا۔ اس معلوماتی جواب کا منہ سے نکلنا تھا کہ گویا ایک زلزلہ سا برپا ہو گیا۔ اس قدر مختصر تاریخی مقولے پر اتنا طویل اور غضب ناک ردِ عمل اس خاکسار کی نظر سے آج تک نہیں گزرا تھا چنانچہ اپنے معلوماتی بیان کو واپس لیتے ہی بنی۔ زلزلہ ذرا تھما تو آفٹر شاکس کے طور پر حکومتِ خانہ کی جانب سے چند ترکاری احکامات جاری ہوئے جن کی رُو سے تا حکمِ نسوانی کچن میں غیر نباتاتی خام مال کا داخلہ ممنوع قرار پایا۔
اگرچہ یہ خاکسار قانون پسند طبیعت کا مالک ہے اور ملکِ ازدواج کی شوہریت اختیار کرنے کے بعد سے تادمِ تقریر وزارتِ امورِ داخلہ کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی تھی لیکن اُبلی ہوئی بے ذائقہ مسلسل سبزیوں کا خیال آتے ہی رگ و پے میں احتجاج کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ چنانچہ احساسات کو قابو میں رکھتے ہوئے نہایت رسان سے کہا۔" آپ سبزیاں شوق سے کھائیے لیکن اس خاکسار کو تو وزن کا کوئی مسئلہ نہیں۔ میرے لیے تو کچھ نارمل کھانا ہونا چاہیے۔"
کہنے لگیں کہ جو میں کھاؤں گی وہی آپ کو بھی کھانا پڑے گا۔ میں نےدبے دبے لہجے میں عرض کیا کہ نکاح نامے میں ایسی کوئی شق مجھے تو یاد نہیں پڑتی۔
طنزیہ لہجے میں بولیں " ہاں ہاں ، آپ کو تو جیسے پورا نکاح نامہ لفظ بہ لفظ رٹا ہوا ہے۔ مہر تک تو ٹھیک سے لکھا نہیں تھا۔ مہرِ مؤجل یا معجل کے خانے میں مہرِ معطل لکھا تھا آپ نے۔ وہ تو شکر ہے قاضی صاحب نے بر وقت درست کر دیا۔"
پھر کہنے لگیں۔ "یہی تو آپ مردوں کا مسئلہ ہے کہ فائن پرنٹ نہیں پڑھتے۔ نکاح نامہ دراصل نباہ نامہ ہوتا ہے۔صاف صاف لکھا ہوا ہے کہ میاں اور بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ دونوں کو مساوی اور متوازی حقوق حاصل ہیں۔"
میں نے کہا : " دو پہیوں والی بات سے انکار نہیں لیکن ایک پہیے میں اگرکسی وجہ سے چال آ جائے تو دوسرے پہیے کو صراطِ مستقیم پر چلنے سے روکنا کہاں کا انصاف ہے؟"
اس پر وہ بھڑک اٹھیں۔ کہنے لگیں کہ "اول تو میں روزانہ دو الگ الگ کھانے نہیں پکا سکتی۔ دوسرے یہ کہ دو کھانے میز پر ہوں گے تو کھائے ہی جائیں گے۔ کوئی کب تک اپنا ہاتھ روک سکتا ہے۔ بس ایک ہی کھانا پکے گا اب۔" پھر ذرا لہجہ نرم کرتے ہوئے بولیں۔" اور اس میں پیسوں کی بھی بچت ہے۔ بجٹ قابو میں رہے گا۔"
اس مختصر سی تشبیب کے بعد انہوں نے سبزیوں کے فوائد کی طرف گریز کرتے ہوئے ایک طویل قصیدہ تحت اللفظ میں شروع کیا۔ درمیان میں اپنی امی اور اُن کی امی حضور کے اقوالِ نمکیں بطور تشبیہ و استعارہ چھڑکتی گئیں۔ پھر اختتامیے میں محاسنِ کلام سے بھرپور چند جملے غیر ترکاری پکوان ہائے لذیذہ اور میرے پسندیدہ ماکولاتِ عزیزہ کے مضرِ صحت نقصانات کے بارے میں بھی ارشاد کیے۔
ان کے دلائل اور زورِ بیان کا اثر تھا کہ رگ و پے میں ابھرنے والی احتجاجی لہر نہ صرف دم توڑ گئی بلکہ میں سبزیوں کے نعمتِ آسمانی ہونے کا قائل ہو گیا اور صحت و تندرستی کے تمام مسائل کی واحد وجہ گوشت نامی شے میں نظر آنے لگی۔ اس گفتگوکے بعد دو روز تک تو یہ خاکسار نعمتِ آسمانی کو سرِ تسلیم خم کیے صبر اور شکر سےداخلِ دہن کرتا رہا لیکن تیسرے روز ابلی ہوئی گاجر اور گوبھی کے تین لقمے بعد ہی سبزیوں پر تازہ تازہ لایا ہوا ایمان بری طرح لڑکھڑا گیا۔ زبان اور دل ہم نوا ہوکر منافقت پر اتر آئے اور دماغ کو بھی مائلِ بغاوت کرلیا ۔فلسفۂ ضرورت کے تحت قائم ہونے والے اس سہ فریقی اتحاد نے اُس وقت تو گاجر گوبھی کی تعریف میں تحسینِ مصلحت آمیز سے کام لے کر کھانے کی میز کو میدانِ جنگ میں تبدیل ہونے سے بچالیا لیکن یہ ماننے سے قطعی انکار کر دیا کہ زمین سے اُگنے والی اِن بے ذائقہ نباتات میں فوائد اور صرف فوائد کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ دل یہ کہتا تھا کہ ان میں ضرور کچھ نہ کچھ ضرر بھی پوشیدہ ہوگا۔ چنانچہ اس اتحادِ ثلاثہ نے فیصلہ یہ کیا کہ عائلی ارشادات اور سسرائیلی روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان دشمنانِ کام و دہن نباتات کے بارے میں خود تفتیش و تحقیق کی جائے۔
القصہ مختصر ، شہر کی مرکزی لائبریری کو چھاننے اور گوگل کو پھٹکنے کے بعد اندازہ ہوا کہ پھلوں اور خصوصاً انگور اور اس سے کشیدہ مائعاتِ نوع بہ نوع کے متعلق تو مادہ پرست مغرب کے مردمانِ مائع پرست نے توزک ہائے رنگ برنگ لکھ مارے ہیں لیکن سبزیوں کے خواص پر کچھ خاص کام نہیں کیا۔البتہ تلاشِ بسیار کے بعد کچھ لٹریچر لاطینی کلبی زبان (dog Latin) میں ضرور ملا اور خوبیِ قسمت سے یونانی حکمت کی کچھ قدیم کتابیں بھی ایک کتب خانے سے دستیاب ہوگئیں۔ اور یوں اس تحقیقی مضمون کی بنیاد پڑی۔
ویسے تو یہ تحریر میں نے خالص گھریلو اغراض و مقاصد کے تحت لکھی تھی تاکہ سبزی خوری کے نتائج و عواقب سے بیگم صاحبہ کو آگاہ کیا جاسکے لیکن سبزیوں کے دور رس مضر اثرات معلوم ہونے کے بعد اس مضمون کو رفاہِ عامہ کے لیے شائع نہ کرنا بنی نوعِ آدم کے ساتھ نا انصافی ہوتی۔ چنانچہ میں ذیل میں اپنی تحقیقِ عمیق کا نچوڑ اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔
سلاد: یہ ہرے پتے شروع میں جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال ہوتے تھے لیکن ازمنہ وسطیٰ میں شدید قحط کے باعث انسانی خوراک میں در آئے اور کسی غلط فہمی کی بنا پر ابھی تک انسانوں کے زیرِ استعمال ہیں۔ مشہور اطالوی سائنسدان پروفیسر ویگا ٹارچرینی (Vega Torturini)نے انیسویں صدی میں متعدد سائنسی تجربات کی مدد سے سلاد کے مضر اثرات کو ثابت کیا ہے۔ ایک تجربے کے دوران پندرہ صحت مند افراد کو ہسپتال میں داخل کرکے تین ہفتے تک کھانے میں صرف سلاد دیا گیا۔ پانچویں دن سے کئی لوگوں میں ڈپریشن کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ مزید تین روز بعد اکثریت کے رویے میں تشدد پسندی ظاہر ہونے لگی یہاں تک کہ ان کی پلیٹوں سےچھری کانٹے غائب کرنا پڑے۔ تیرہویں دن یہ تجربہ اُس وقت مجبوراً روکنا پڑا جب پندرہ کے پندرہ افراد نے مل کر کھانا لانے والے ملازمین پر حملہ کر دیا اور تین سلاد زدگان نے ایک فربہ ملازم کے بازؤں پر دانت مارنے کی کوشش کی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سلاد کے استعمال سے وزن کم ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات کسی حد تک درست ہو لیکن سلاد کے مجموعی نقصانات کو دیکھتے ہوئے ایک معمولی سے فائدے کی خاطر اس کا استعمال درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم شدید مجبوری کے تحت اگر ہفتے میں ایک دو بار ذرا سی مقدار میں کھا لیا جائے تو امید ہے کہ زیادہ نقصان کا باعث نہ ہوگا۔
ٹنڈے: جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ گنج پیدا کرتے ہیں۔ یہ ترکاری نما چیز مردوں کے حق میں سمِ قاتل سے کم نہیں ۔
پالک: اسے دراصل لے پالک کہنا چاہیے کہ اسے بھی انسانوں نے قحط کے دنوں میں بطور خوراک ایڈاپٹ کیا تھا۔ اس بے ڈھب سبز پتے کی بابت ماہرین میں اختلاف پایا جاتا ہے اور اس اختلاف کی بنیادی وجہ مشہور تاریخی شخصیت بابائے دی سالار کے واقعات ہیں۔ روایات کے مطابق بابائے دی سالار آئے دن پالک کھا کر زیتونہ نامی ایک منحنی سی خاتون کو دشمنوں سے بچایا کرتے تھے۔ مؤرخین کی ایک جماعت نے ان کی طاقت اور شجاعت کا سہرا پالک کے سر باندھا ہے لیکن کچھ ماہرینِ نباتات اس کا اصل سبب تمباکو بھرے پائپ کو ٹھہراتے ہیں۔ یہ علمی اختلاف اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پالک کے متواتر استعمال سے جسم بے ڈھب اور کارٹون جیسا ہوجاتا ہے۔
بھنڈی: سال میں اگر دو تین بار سے زیادہ کھائی جائے تو آنتوں اور طبیعت میں چپچپاہٹ پیدا کر تی ہے۔ زیادہ استعمال سے آدمی چپکو بن جاتاہے جس کے باعث گھریلو الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں۔
آلو: یہ ترکاری نسبتاً کم ضرر رساں ہے۔ دو تین انچ لمبی چوکور قاشیں تراش کر فرائی کرنے سے اس کا دف مرجاتا ہے۔ نمک اور کیچپ کے ساتھ نافع اور فرحت بخش ہوتا ہے۔بعض ماہرینِ نے اسے چپس کی شکل میں استعمال کرنے کے بھی یہی فوائد گنوائے ہیں ۔ حکماءنے یہ بھی لکھا ہے کہ گوشت کے ساتھ پکانے سے اس کے مضر اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔ مشہور سائنسدان ڈاکٹر وائٹ اسٹارچ کا کہنا ہے کہ آلو کو دراصل ایک نباتاتی کیپسول سمجھنا چاہیے کہ جس میں قدرت نے دیگر تمام سبزیوں کے وٹامن اور معدنیات سربمہر رکھ دیے ہیں۔
شلجم: دراصل ایک جڑی بوٹی ہے جسے غلطی سے سبزیوں میں شمار کر لیا گیا۔ اس بوٹی کا استعمال حکمت کی دواؤں میں تو قابل قبول ہے لیکن اسے بطور خوراک کھانا سائنسی اعتبار سے کسی طرح بھی مناسب نہیں۔
گاجر: زیرِ زمین اُگنے والی خفیہ نباتات کی یہ قسم اگرچہ مضر ہے لیکن اسے کدّو کش کرنے کے بعد دودھ ، شکر اور گھی میں دیر تک پکا کر ایک مرکب بنالیا جائے اور اس پر ماوے کا اضافہ کردیا جائے تو ماہرین کی متفقہ رائے میں اس کے تمام نقصانات ختم ہوجاتے ہیں۔ سردیوں میں اس مرکب کا روزانہ استعمال مردانہ وجاہت میں اضافہ اور طبیعت میں شگفتگی پیدا کرتا ہے۔
بینگن: رنگ سیاہ کرتا ہے۔ کثرتِ استعمال سے کہیں پہ نگاہیں ، کہیں پہ نشانہ یعنی بھینگا پن بھی لاحق ہو سکتا ہے۔
کرم کلہ: اختلاج ، تبخیرِ معدہ ، سستی ، کاہلی ، بیزاری
مولی: تبخیرِ ، نفخ اور اہلِ خانہ میں فاصلہ پیدا کرتی ہے۔
مٹر: سر گھومنا، چکر آنا ، دماغ چلنا۔ صاحبِ دُور اللغات نے مٹر گشت کے ذیل میں لکھا ہے کہ ابتداً یہ محاورہ آدمی کا دماغ گھومنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن تصریفِ ایام کے باعث اب سالم آدمی کے لیے بولا جاتا ہے۔
چقندر: چغد پن ، نسیان ، کاہلی، بیزاری
توری: بادی ، سوزشِ معدہ ، ضعفِ جگر
کریلا: کینسر
گوبھی:اختلاج ، تشنج ، ضعفِ سماعت ، سنی ان سنی
ایک غلط فہمی کا ازالہ: عام لوگوں کا یہ خیال کہ سبزیوں کو ابال کر کھایا جائے تو مضرِ صحت نہیں رہتیں تحقیق کی رو سے سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ ابلی هوئی سبزیوں پر تحقیق كے دوران یه حیران كن حقیقت بھی سامنے آئی کہ ان کے اثرات عورتوں اور مردوں پر مختلف ہوتے ہیں ۔ شعبۂ غذائی امور کے زیرِ نگرانی جامعہ رومانیہ میں کی گئی ایک اسٹڈی کے دوران طلبا کو کھانے میں صرف اُبلی ہوئی سبزیاں دی گئیں تو دو ہفتے بعد انہوں نے پڑھائی اور طالبات میں دلچسپی لینا چھوڑ دی۔ اس سائنسی تجربے سے مردوں پر ابلی ہوئی سبزیوں کے شدید نقصانات بخوبی واضح ہوتے ہیں۔
نتیجہ: اگرچہ اب مختلف قسم کی مفید غذا ؤں کی عام دستیابی کی بنا پر مذکورہ بالا نباتاتِ خوردنی سے حتی الامکان پرہیز ضروری ہے لیکن صدیوں سے چلی آتی ثقافتی اور مطبخی روایات کے باعث انہیں بالکل ہی کچن بدرنہیں کیا جاسکتا۔ محققین کا کہنا ہے کہ مناسب مرچ مصالوں ، گھی ، گوشت اور یو ٹیوب کی مدد سے ان نباتات کے نقصان دہ خواص کو کم کیا جا سکتا ہے ۔تاہم احتیاط پھر بھی ضروری ہے اور ہفتے عشرے میں ایک آدھ دفعہ سے زیادہ استعمال نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اگرچہ یہ خاکسار قانون پسند طبیعت کا مالک ہے اور ملکِ ازدواج کی شوہریت اختیار کرنے کے بعد سے تادمِ تقریر وزارتِ امورِ داخلہ کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی تھی لیکن اُبلی ہوئی بے ذائقہ مسلسل سبزیوں کا خیال آتے ہی رگ و پے میں احتجاج کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ چنانچہ احساسات کو قابو میں رکھتے ہوئے نہایت رسان سے کہا۔" آپ سبزیاں شوق سے کھائیے لیکن اس خاکسار کو تو وزن کا کوئی مسئلہ نہیں۔ میرے لیے تو کچھ نارمل کھانا ہونا چاہیے۔"
کہنے لگیں کہ جو میں کھاؤں گی وہی آپ کو بھی کھانا پڑے گا۔ میں نےدبے دبے لہجے میں عرض کیا کہ نکاح نامے میں ایسی کوئی شق مجھے تو یاد نہیں پڑتی۔
طنزیہ لہجے میں بولیں " ہاں ہاں ، آپ کو تو جیسے پورا نکاح نامہ لفظ بہ لفظ رٹا ہوا ہے۔ مہر تک تو ٹھیک سے لکھا نہیں تھا۔ مہرِ مؤجل یا معجل کے خانے میں مہرِ معطل لکھا تھا آپ نے۔ وہ تو شکر ہے قاضی صاحب نے بر وقت درست کر دیا۔"
پھر کہنے لگیں۔ "یہی تو آپ مردوں کا مسئلہ ہے کہ فائن پرنٹ نہیں پڑھتے۔ نکاح نامہ دراصل نباہ نامہ ہوتا ہے۔صاف صاف لکھا ہوا ہے کہ میاں اور بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ دونوں کو مساوی اور متوازی حقوق حاصل ہیں۔"
میں نے کہا : " دو پہیوں والی بات سے انکار نہیں لیکن ایک پہیے میں اگرکسی وجہ سے چال آ جائے تو دوسرے پہیے کو صراطِ مستقیم پر چلنے سے روکنا کہاں کا انصاف ہے؟"
اس پر وہ بھڑک اٹھیں۔ کہنے لگیں کہ "اول تو میں روزانہ دو الگ الگ کھانے نہیں پکا سکتی۔ دوسرے یہ کہ دو کھانے میز پر ہوں گے تو کھائے ہی جائیں گے۔ کوئی کب تک اپنا ہاتھ روک سکتا ہے۔ بس ایک ہی کھانا پکے گا اب۔" پھر ذرا لہجہ نرم کرتے ہوئے بولیں۔" اور اس میں پیسوں کی بھی بچت ہے۔ بجٹ قابو میں رہے گا۔"
اس مختصر سی تشبیب کے بعد انہوں نے سبزیوں کے فوائد کی طرف گریز کرتے ہوئے ایک طویل قصیدہ تحت اللفظ میں شروع کیا۔ درمیان میں اپنی امی اور اُن کی امی حضور کے اقوالِ نمکیں بطور تشبیہ و استعارہ چھڑکتی گئیں۔ پھر اختتامیے میں محاسنِ کلام سے بھرپور چند جملے غیر ترکاری پکوان ہائے لذیذہ اور میرے پسندیدہ ماکولاتِ عزیزہ کے مضرِ صحت نقصانات کے بارے میں بھی ارشاد کیے۔
ان کے دلائل اور زورِ بیان کا اثر تھا کہ رگ و پے میں ابھرنے والی احتجاجی لہر نہ صرف دم توڑ گئی بلکہ میں سبزیوں کے نعمتِ آسمانی ہونے کا قائل ہو گیا اور صحت و تندرستی کے تمام مسائل کی واحد وجہ گوشت نامی شے میں نظر آنے لگی۔ اس گفتگوکے بعد دو روز تک تو یہ خاکسار نعمتِ آسمانی کو سرِ تسلیم خم کیے صبر اور شکر سےداخلِ دہن کرتا رہا لیکن تیسرے روز ابلی ہوئی گاجر اور گوبھی کے تین لقمے بعد ہی سبزیوں پر تازہ تازہ لایا ہوا ایمان بری طرح لڑکھڑا گیا۔ زبان اور دل ہم نوا ہوکر منافقت پر اتر آئے اور دماغ کو بھی مائلِ بغاوت کرلیا ۔فلسفۂ ضرورت کے تحت قائم ہونے والے اس سہ فریقی اتحاد نے اُس وقت تو گاجر گوبھی کی تعریف میں تحسینِ مصلحت آمیز سے کام لے کر کھانے کی میز کو میدانِ جنگ میں تبدیل ہونے سے بچالیا لیکن یہ ماننے سے قطعی انکار کر دیا کہ زمین سے اُگنے والی اِن بے ذائقہ نباتات میں فوائد اور صرف فوائد کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ دل یہ کہتا تھا کہ ان میں ضرور کچھ نہ کچھ ضرر بھی پوشیدہ ہوگا۔ چنانچہ اس اتحادِ ثلاثہ نے فیصلہ یہ کیا کہ عائلی ارشادات اور سسرائیلی روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان دشمنانِ کام و دہن نباتات کے بارے میں خود تفتیش و تحقیق کی جائے۔
القصہ مختصر ، شہر کی مرکزی لائبریری کو چھاننے اور گوگل کو پھٹکنے کے بعد اندازہ ہوا کہ پھلوں اور خصوصاً انگور اور اس سے کشیدہ مائعاتِ نوع بہ نوع کے متعلق تو مادہ پرست مغرب کے مردمانِ مائع پرست نے توزک ہائے رنگ برنگ لکھ مارے ہیں لیکن سبزیوں کے خواص پر کچھ خاص کام نہیں کیا۔البتہ تلاشِ بسیار کے بعد کچھ لٹریچر لاطینی کلبی زبان (dog Latin) میں ضرور ملا اور خوبیِ قسمت سے یونانی حکمت کی کچھ قدیم کتابیں بھی ایک کتب خانے سے دستیاب ہوگئیں۔ اور یوں اس تحقیقی مضمون کی بنیاد پڑی۔
ویسے تو یہ تحریر میں نے خالص گھریلو اغراض و مقاصد کے تحت لکھی تھی تاکہ سبزی خوری کے نتائج و عواقب سے بیگم صاحبہ کو آگاہ کیا جاسکے لیکن سبزیوں کے دور رس مضر اثرات معلوم ہونے کے بعد اس مضمون کو رفاہِ عامہ کے لیے شائع نہ کرنا بنی نوعِ آدم کے ساتھ نا انصافی ہوتی۔ چنانچہ میں ذیل میں اپنی تحقیقِ عمیق کا نچوڑ اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔
خواص ہائے نباتاتِ خوردنی المعروف بہ سبزی جات
سلاد: یہ ہرے پتے شروع میں جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال ہوتے تھے لیکن ازمنہ وسطیٰ میں شدید قحط کے باعث انسانی خوراک میں در آئے اور کسی غلط فہمی کی بنا پر ابھی تک انسانوں کے زیرِ استعمال ہیں۔ مشہور اطالوی سائنسدان پروفیسر ویگا ٹارچرینی (Vega Torturini)نے انیسویں صدی میں متعدد سائنسی تجربات کی مدد سے سلاد کے مضر اثرات کو ثابت کیا ہے۔ ایک تجربے کے دوران پندرہ صحت مند افراد کو ہسپتال میں داخل کرکے تین ہفتے تک کھانے میں صرف سلاد دیا گیا۔ پانچویں دن سے کئی لوگوں میں ڈپریشن کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ مزید تین روز بعد اکثریت کے رویے میں تشدد پسندی ظاہر ہونے لگی یہاں تک کہ ان کی پلیٹوں سےچھری کانٹے غائب کرنا پڑے۔ تیرہویں دن یہ تجربہ اُس وقت مجبوراً روکنا پڑا جب پندرہ کے پندرہ افراد نے مل کر کھانا لانے والے ملازمین پر حملہ کر دیا اور تین سلاد زدگان نے ایک فربہ ملازم کے بازؤں پر دانت مارنے کی کوشش کی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سلاد کے استعمال سے وزن کم ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات کسی حد تک درست ہو لیکن سلاد کے مجموعی نقصانات کو دیکھتے ہوئے ایک معمولی سے فائدے کی خاطر اس کا استعمال درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم شدید مجبوری کے تحت اگر ہفتے میں ایک دو بار ذرا سی مقدار میں کھا لیا جائے تو امید ہے کہ زیادہ نقصان کا باعث نہ ہوگا۔
ٹنڈے: جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ گنج پیدا کرتے ہیں۔ یہ ترکاری نما چیز مردوں کے حق میں سمِ قاتل سے کم نہیں ۔
پالک: اسے دراصل لے پالک کہنا چاہیے کہ اسے بھی انسانوں نے قحط کے دنوں میں بطور خوراک ایڈاپٹ کیا تھا۔ اس بے ڈھب سبز پتے کی بابت ماہرین میں اختلاف پایا جاتا ہے اور اس اختلاف کی بنیادی وجہ مشہور تاریخی شخصیت بابائے دی سالار کے واقعات ہیں۔ روایات کے مطابق بابائے دی سالار آئے دن پالک کھا کر زیتونہ نامی ایک منحنی سی خاتون کو دشمنوں سے بچایا کرتے تھے۔ مؤرخین کی ایک جماعت نے ان کی طاقت اور شجاعت کا سہرا پالک کے سر باندھا ہے لیکن کچھ ماہرینِ نباتات اس کا اصل سبب تمباکو بھرے پائپ کو ٹھہراتے ہیں۔ یہ علمی اختلاف اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پالک کے متواتر استعمال سے جسم بے ڈھب اور کارٹون جیسا ہوجاتا ہے۔
بھنڈی: سال میں اگر دو تین بار سے زیادہ کھائی جائے تو آنتوں اور طبیعت میں چپچپاہٹ پیدا کر تی ہے۔ زیادہ استعمال سے آدمی چپکو بن جاتاہے جس کے باعث گھریلو الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں۔
آلو: یہ ترکاری نسبتاً کم ضرر رساں ہے۔ دو تین انچ لمبی چوکور قاشیں تراش کر فرائی کرنے سے اس کا دف مرجاتا ہے۔ نمک اور کیچپ کے ساتھ نافع اور فرحت بخش ہوتا ہے۔بعض ماہرینِ نے اسے چپس کی شکل میں استعمال کرنے کے بھی یہی فوائد گنوائے ہیں ۔ حکماءنے یہ بھی لکھا ہے کہ گوشت کے ساتھ پکانے سے اس کے مضر اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔ مشہور سائنسدان ڈاکٹر وائٹ اسٹارچ کا کہنا ہے کہ آلو کو دراصل ایک نباتاتی کیپسول سمجھنا چاہیے کہ جس میں قدرت نے دیگر تمام سبزیوں کے وٹامن اور معدنیات سربمہر رکھ دیے ہیں۔
شلجم: دراصل ایک جڑی بوٹی ہے جسے غلطی سے سبزیوں میں شمار کر لیا گیا۔ اس بوٹی کا استعمال حکمت کی دواؤں میں تو قابل قبول ہے لیکن اسے بطور خوراک کھانا سائنسی اعتبار سے کسی طرح بھی مناسب نہیں۔
گاجر: زیرِ زمین اُگنے والی خفیہ نباتات کی یہ قسم اگرچہ مضر ہے لیکن اسے کدّو کش کرنے کے بعد دودھ ، شکر اور گھی میں دیر تک پکا کر ایک مرکب بنالیا جائے اور اس پر ماوے کا اضافہ کردیا جائے تو ماہرین کی متفقہ رائے میں اس کے تمام نقصانات ختم ہوجاتے ہیں۔ سردیوں میں اس مرکب کا روزانہ استعمال مردانہ وجاہت میں اضافہ اور طبیعت میں شگفتگی پیدا کرتا ہے۔
بینگن: رنگ سیاہ کرتا ہے۔ کثرتِ استعمال سے کہیں پہ نگاہیں ، کہیں پہ نشانہ یعنی بھینگا پن بھی لاحق ہو سکتا ہے۔
کرم کلہ: اختلاج ، تبخیرِ معدہ ، سستی ، کاہلی ، بیزاری
مولی: تبخیرِ ، نفخ اور اہلِ خانہ میں فاصلہ پیدا کرتی ہے۔
مٹر: سر گھومنا، چکر آنا ، دماغ چلنا۔ صاحبِ دُور اللغات نے مٹر گشت کے ذیل میں لکھا ہے کہ ابتداً یہ محاورہ آدمی کا دماغ گھومنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن تصریفِ ایام کے باعث اب سالم آدمی کے لیے بولا جاتا ہے۔
چقندر: چغد پن ، نسیان ، کاہلی، بیزاری
توری: بادی ، سوزشِ معدہ ، ضعفِ جگر
کریلا: کینسر
گوبھی:اختلاج ، تشنج ، ضعفِ سماعت ، سنی ان سنی
ایک غلط فہمی کا ازالہ: عام لوگوں کا یہ خیال کہ سبزیوں کو ابال کر کھایا جائے تو مضرِ صحت نہیں رہتیں تحقیق کی رو سے سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ ابلی هوئی سبزیوں پر تحقیق كے دوران یه حیران كن حقیقت بھی سامنے آئی کہ ان کے اثرات عورتوں اور مردوں پر مختلف ہوتے ہیں ۔ شعبۂ غذائی امور کے زیرِ نگرانی جامعہ رومانیہ میں کی گئی ایک اسٹڈی کے دوران طلبا کو کھانے میں صرف اُبلی ہوئی سبزیاں دی گئیں تو دو ہفتے بعد انہوں نے پڑھائی اور طالبات میں دلچسپی لینا چھوڑ دی۔ اس سائنسی تجربے سے مردوں پر ابلی ہوئی سبزیوں کے شدید نقصانات بخوبی واضح ہوتے ہیں۔
نتیجہ: اگرچہ اب مختلف قسم کی مفید غذا ؤں کی عام دستیابی کی بنا پر مذکورہ بالا نباتاتِ خوردنی سے حتی الامکان پرہیز ضروری ہے لیکن صدیوں سے چلی آتی ثقافتی اور مطبخی روایات کے باعث انہیں بالکل ہی کچن بدرنہیں کیا جاسکتا۔ محققین کا کہنا ہے کہ مناسب مرچ مصالوں ، گھی ، گوشت اور یو ٹیوب کی مدد سے ان نباتات کے نقصان دہ خواص کو کم کیا جا سکتا ہے ۔تاہم احتیاط پھر بھی ضروری ہے اور ہفتے عشرے میں ایک آدھ دفعہ سے زیادہ استعمال نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
آخری تدوین: