ترکاریات

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
شادی کے چند سال بعد کا ذکر ہے ایک دن کھانے کے دوران احساس ہوا کہ دو تین روز سے میز پر سبزیوں کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آ رہا۔ استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ بیگم صاحبہ ڈائٹنگ کر رہی ہیں۔ گھبرا کر عرض کیا کہ آپ کو ڈائٹنگ کی کیا ضرورت؟ آپ تو ٹھیک ٹھاک ہیں۔ کہنے لگیں کہ وزن بڑھ گیا ہے۔میں نے کہا کہ وزن وزن کچھ نہیں، آپ کا وہم ہے۔ جس پر انہوں نے گھورتے ہوئے سپاٹ سے لہجے میں پوچھا "وہم کیا دس پونڈ کا ہوتا ہے؟" اس غیر متوقع سوال کے جواب میں اس عاجز نے اپنی ناقص عقل کے گھوڑے چاروں طرف دوڑائے لیکن وہم کے بارے میں مفصل معلومات یادداشت کے کسی بھی کونے میں کہیں نظر نہ آئیں۔ اگر کچھ ملا تو فقط یہ کہ اس کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ چنانچہ اسی دستیاب معلومات کو بطور جواب پیش کر ڈالا۔ اس معلوماتی جواب کا منہ سے نکلنا تھا کہ گویا ایک زلزلہ سا برپا ہو گیا۔ اس قدر مختصر تاریخی مقولے پر اتنا طویل اور غضب ناک ردِ عمل اس خاکسار کی نظر سے آج تک نہیں گزرا تھا چنانچہ اپنے معلوماتی بیان کو واپس لیتے ہی بنی۔ زلزلہ ذرا تھما تو آفٹر شاکس کے طور پر حکومتِ خانہ کی جانب سے چند ترکاری احکامات جاری ہوئے جن کی رُو سے تا حکمِ نسوانی کچن میں غیر نباتاتی خام مال کا داخلہ ممنوع قرار پایا۔
اگرچہ یہ خاکسار قانون پسند طبیعت کا مالک ہے اور ملکِ ازدواج کی شوہریت اختیار کرنے کے بعد سے تادمِ تقریر وزارتِ امورِ داخلہ کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی تھی لیکن اُبلی ہوئی بے ذائقہ مسلسل سبزیوں کا خیال آتے ہی رگ و پے میں احتجاج کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ چنانچہ احساسات کو قابو میں رکھتے ہوئے نہایت رسان سے کہا۔" آپ سبزیاں شوق سے کھائیے لیکن اس خاکسار کو تو وزن کا کوئی مسئلہ نہیں۔ میرے لیے تو کچھ نارمل کھانا ہونا چاہیے۔"
کہنے لگیں کہ جو میں کھاؤں گی وہی آپ کو بھی کھانا پڑے گا۔ میں نےدبے دبے لہجے میں عرض کیا کہ نکاح نامے میں ایسی کوئی شق مجھے تو یاد نہیں پڑتی۔
طنزیہ لہجے میں بولیں " ہاں ہاں ، آپ کو تو جیسے پورا نکاح نامہ لفظ بہ لفظ رٹا ہوا ہے۔ مہر تک تو ٹھیک سے لکھا نہیں تھا۔ مہرِ مؤجل یا معجل کے خانے میں مہرِ معطل لکھا تھا آپ نے۔ وہ تو شکر ہے قاضی صاحب نے بر وقت درست کر دیا۔"

پھر کہنے لگیں۔ "یہی تو آپ مردوں کا مسئلہ ہے کہ فائن پرنٹ نہیں پڑھتے۔ نکاح نامہ دراصل نباہ نامہ ہوتا ہے۔صاف صاف لکھا ہوا ہے کہ میاں اور بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ دونوں کو مساوی اور متوازی حقوق حاصل ہیں۔"
میں نے کہا : " دو پہیوں والی بات سے انکار نہیں لیکن ایک پہیے میں اگرکسی وجہ سے چال آ جائے تو دوسرے پہیے کو صراطِ مستقیم پر چلنے سے روکنا کہاں کا انصاف ہے؟"
اس پر وہ بھڑک اٹھیں۔ کہنے لگیں کہ "اول تو میں روزانہ دو الگ الگ کھانے نہیں پکا سکتی۔ دوسرے یہ کہ دو کھانے میز پر ہوں گے تو کھائے ہی جائیں گے۔ کوئی کب تک اپنا ہاتھ روک سکتا ہے۔ بس ایک ہی کھانا پکے گا اب۔" پھر ذرا لہجہ نرم کرتے ہوئے بولیں۔" اور اس میں پیسوں کی بھی بچت ہے۔ بجٹ قابو میں رہے گا۔"

اس مختصر سی تشبیب کے بعد انہوں نے سبزیوں کے فوائد کی طرف گریز کرتے ہوئے ایک طویل قصیدہ تحت اللفظ میں شروع کیا۔ درمیان میں اپنی امی اور اُن کی امی حضور کے اقوالِ نمکیں بطور تشبیہ و استعارہ چھڑکتی گئیں۔ پھر اختتامیے میں محاسنِ کلام سے بھرپور چند جملے غیر ترکاری پکوان ہائے لذیذہ اور میرے پسندیدہ ماکولاتِ عزیزہ کے مضرِ صحت نقصانات کے بارے میں بھی ارشاد کیے۔
ان کے دلائل اور زورِ بیان کا اثر تھا کہ رگ و پے میں ابھرنے والی احتجاجی لہر نہ صرف دم توڑ گئی بلکہ میں سبزیوں کے نعمتِ آسمانی ہونے کا قائل ہو گیا اور صحت و تندرستی کے تمام مسائل کی واحد وجہ گوشت نامی شے میں نظر آنے لگی۔ اس گفتگوکے بعد دو روز تک تو یہ خاکسار نعمتِ آسمانی کو سرِ تسلیم خم کیے صبر اور شکر سےداخلِ دہن کرتا رہا لیکن تیسرے روز ابلی ہوئی گاجر اور گوبھی کے تین لقمے بعد ہی سبزیوں پر تازہ تازہ لایا ہوا ایمان بری طرح لڑکھڑا گیا۔ زبان اور دل ہم نوا ہوکر منافقت پر اتر آئے اور دماغ کو بھی مائلِ بغاوت کرلیا ۔فلسفۂ ضرورت کے تحت قائم ہونے والے اس سہ فریقی اتحاد نے اُس وقت تو گاجر گوبھی کی تعریف میں تحسینِ مصلحت آمیز سے کام لے کر کھانے کی میز کو میدانِ جنگ میں تبدیل ہونے سے بچالیا لیکن یہ ماننے سے قطعی انکار کر دیا کہ زمین سے اُگنے والی اِن بے ذائقہ نباتات میں فوائد اور صرف فوائد کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ دل یہ کہتا تھا کہ ان میں ضرور کچھ نہ کچھ ضرر بھی پوشیدہ ہوگا۔ چنانچہ اس اتحادِ ثلاثہ نے فیصلہ یہ کیا کہ عائلی ارشادات اور سسرائیلی روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان دشمنانِ کام و دہن نباتات کے بارے میں خود تفتیش و تحقیق کی جائے۔
القصہ مختصر ، شہر کی مرکزی لائبریری کو چھاننے اور گوگل کو پھٹکنے کے بعد اندازہ ہوا کہ پھلوں اور خصوصاً انگور اور اس سے کشیدہ مائعاتِ نوع بہ نوع کے متعلق تو مادہ پرست مغرب کے مردمانِ مائع پرست نے توزک ہائے رنگ برنگ لکھ مارے ہیں لیکن سبزیوں کے خواص پر کچھ خاص کام نہیں کیا۔البتہ تلاشِ بسیار کے بعد کچھ لٹریچر لاطینی کلبی زبان (dog Latin) میں ضرور ملا اور خوبیِ قسمت سے یونانی حکمت کی کچھ قدیم کتابیں بھی ایک کتب خانے سے دستیاب ہوگئیں۔ اور یوں اس تحقیقی مضمون کی بنیاد پڑی۔

ویسے تو یہ تحریر میں نے خالص گھریلو اغراض و مقاصد کے تحت لکھی تھی تاکہ سبزی خوری کے نتائج و عواقب سے بیگم صاحبہ کو آگاہ کیا جاسکے لیکن سبزیوں کے دور رس مضر اثرات معلوم ہونے کے بعد اس مضمون کو رفاہِ عامہ کے لیے شائع نہ کرنا بنی نوعِ آدم کے ساتھ نا انصافی ہوتی۔ چنانچہ میں ذیل میں اپنی تحقیقِ عمیق کا نچوڑ اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔

خواص ہائے نباتاتِ خوردنی المعروف بہ سبزی جات

سلاد: یہ ہرے پتے شروع میں جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال ہوتے تھے لیکن ازمنہ وسطیٰ میں شدید قحط کے باعث انسانی خوراک میں در آئے اور کسی غلط فہمی کی بنا پر ابھی تک انسانوں کے زیرِ استعمال ہیں۔ مشہور اطالوی سائنسدان پروفیسر ویگا ٹارچرینی (Vega Torturini)نے انیسویں صدی میں متعدد سائنسی تجربات کی مدد سے سلاد کے مضر اثرات کو ثابت کیا ہے۔ ایک تجربے کے دوران پندرہ صحت مند افراد کو ہسپتال میں داخل کرکے تین ہفتے تک کھانے میں صرف سلاد دیا گیا۔ پانچویں دن سے کئی لوگوں میں ڈپریشن کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ مزید تین روز بعد اکثریت کے رویے میں تشدد پسندی ظاہر ہونے لگی یہاں تک کہ ان کی پلیٹوں سےچھری کانٹے غائب کرنا پڑے۔ تیرہویں دن یہ تجربہ اُس وقت مجبوراً روکنا پڑا جب پندرہ کے پندرہ افراد نے مل کر کھانا لانے والے ملازمین پر حملہ کر دیا اور تین سلاد زدگان نے ایک فربہ ملازم کے بازؤں پر دانت مارنے کی کوشش کی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سلاد کے استعمال سے وزن کم ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات کسی حد تک درست ہو لیکن سلاد کے مجموعی نقصانات کو دیکھتے ہوئے ایک معمولی سے فائدے کی خاطر اس کا استعمال درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم شدید مجبوری کے تحت اگر ہفتے میں ایک دو بار ذرا سی مقدار میں کھا لیا جائے تو امید ہے کہ زیادہ نقصان کا باعث نہ ہوگا۔
ٹنڈے: جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ گنج پیدا کرتے ہیں۔ یہ ترکاری نما چیز مردوں کے حق میں سمِ قاتل سے کم نہیں ۔
پالک: اسے دراصل لے پالک کہنا چاہیے کہ اسے بھی انسانوں نے قحط کے دنوں میں بطور خوراک ایڈاپٹ کیا تھا۔ اس بے ڈھب سبز پتے کی بابت ماہرین میں اختلاف پایا جاتا ہے اور اس اختلاف کی بنیادی وجہ مشہور تاریخی شخصیت بابائے دی سالار کے واقعات ہیں۔ روایات کے مطابق بابائے دی سالار آئے دن پالک کھا کر زیتونہ نامی ایک منحنی سی خاتون کو دشمنوں سے بچایا کرتے تھے۔ مؤرخین کی ایک جماعت نے ان کی طاقت اور شجاعت کا سہرا پالک کے سر باندھا ہے لیکن کچھ ماہرینِ نباتات اس کا اصل سبب تمباکو بھرے پائپ کو ٹھہراتے ہیں۔ یہ علمی اختلاف اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پالک کے متواتر استعمال سے جسم بے ڈھب اور کارٹون جیسا ہوجاتا ہے۔
بھنڈی: سال میں اگر دو تین بار سے زیادہ کھائی جائے تو آنتوں اور طبیعت میں چپچپاہٹ پیدا کر تی ہے۔ زیادہ استعمال سے آدمی چپکو بن جاتاہے جس کے باعث گھریلو الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں۔
آلو: یہ ترکاری نسبتاً کم ضرر رساں ہے۔ دو تین انچ لمبی چوکور قاشیں تراش کر فرائی کرنے سے اس کا دف مرجاتا ہے۔ نمک اور کیچپ کے ساتھ نافع اور فرحت بخش ہوتا ہے۔بعض ماہرینِ نے اسے چپس کی شکل میں استعمال کرنے کے بھی یہی فوائد گنوائے ہیں ۔ حکماءنے یہ بھی لکھا ہے کہ گوشت کے ساتھ پکانے سے اس کے مضر اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔ مشہور سائنسدان ڈاکٹر وائٹ اسٹارچ کا کہنا ہے کہ آلو کو دراصل ایک نباتاتی کیپسول سمجھنا چاہیے کہ جس میں قدرت نے دیگر تمام سبزیوں کے وٹامن اور معدنیات سربمہر رکھ دیے ہیں۔
شلجم: دراصل ایک جڑی بوٹی ہے جسے غلطی سے سبزیوں میں شمار کر لیا گیا۔ اس بوٹی کا استعمال حکمت کی دواؤں میں تو قابل قبول ہے لیکن اسے بطور خوراک کھانا سائنسی اعتبار سے کسی طرح بھی مناسب نہیں۔
گاجر: زیرِ زمین اُگنے والی خفیہ نباتات کی یہ قسم اگرچہ مضر ہے لیکن اسے کدّو کش کرنے کے بعد دودھ ، شکر اور گھی میں دیر تک پکا کر ایک مرکب بنالیا جائے اور اس پر ماوے کا اضافہ کردیا جائے تو ماہرین کی متفقہ رائے میں اس کے تمام نقصانات ختم ہوجاتے ہیں۔ سردیوں میں اس مرکب کا روزانہ استعمال مردانہ وجاہت میں اضافہ اور طبیعت میں شگفتگی پیدا کرتا ہے۔
بینگن: رنگ سیاہ کرتا ہے۔ کثرتِ استعمال سے کہیں پہ نگاہیں ، کہیں پہ نشانہ یعنی بھینگا پن بھی لاحق ہو سکتا ہے۔
کرم کلہ: اختلاج ، تبخیرِ معدہ ، سستی ، کاہلی ، بیزاری
مولی: تبخیرِ ، نفخ اور اہلِ خانہ میں فاصلہ پیدا کرتی ہے۔
مٹر: سر گھومنا، چکر آنا ، دماغ چلنا۔ صاحبِ دُور اللغات نے مٹر گشت کے ذیل میں لکھا ہے کہ ابتداً یہ محاورہ آدمی کا دماغ گھومنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن تصریفِ ایام کے باعث اب سالم آدمی کے لیے بولا جاتا ہے۔
چقندر: چغد پن ، نسیان ، کاہلی، بیزاری
توری: بادی ، سوزشِ معدہ ، ضعفِ جگر
کریلا: کینسر
گوبھی:اختلاج ، تشنج ، ضعفِ سماعت ، سنی ان سنی

ایک غلط فہمی کا ازالہ: عام لوگوں کا یہ خیال کہ سبزیوں کو ابال کر کھایا جائے تو مضرِ صحت نہیں رہتیں تحقیق کی رو سے سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ ابلی هوئی سبزیوں پر تحقیق كے دوران یه حیران كن حقیقت بھی سامنے آئی کہ ان کے اثرات عورتوں اور مردوں پر مختلف ہوتے ہیں ۔ شعبۂ غذائی امور کے زیرِ نگرانی جامعہ رومانیہ میں کی گئی ایک اسٹڈی کے دوران طلبا کو کھانے میں صرف اُبلی ہوئی سبزیاں دی گئیں تو دو ہفتے بعد انہوں نے پڑھائی اور طالبات میں دلچسپی لینا چھوڑ دی۔ اس سائنسی تجربے سے مردوں پر ابلی ہوئی سبزیوں کے شدید نقصانات بخوبی واضح ہوتے ہیں۔

نتیجہ: اگرچہ اب مختلف قسم کی مفید غذا ؤں کی عام دستیابی کی بنا پر مذکورہ بالا نباتاتِ خوردنی سے حتی الامکان پرہیز ضروری ہے لیکن صدیوں سے چلی آتی ثقافتی اور مطبخی روایات کے باعث انہیں بالکل ہی کچن بدرنہیں کیا جاسکتا۔ محققین کا کہنا ہے کہ مناسب مرچ مصالوں ، گھی ، گوشت اور یو ٹیوب کی مدد سے ان نباتات کے نقصان دہ خواص کو کم کیا جا سکتا ہے ۔تاہم احتیاط پھر بھی ضروری ہے اور ہفتے عشرے میں ایک آدھ دفعہ سے زیادہ استعمال نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
قارئینِ کرام ! یوں تو اس تحقیقی مضمون کا اصل مقام سائنس کا زمرہ ہے اور اسے میچو کاکا کی متوازی دنیاؤں اور دیگر خلائی تحقیقات کے برابر میں شائع ہونا چاہیے تھا لیکن سائنسی زمرے کی ٹریفک کو دیکھتے ہوئے مجھے مجبوراً یہ زمرہ منتخب کرنا پڑا کہ محفلین کی آمد و رفت اس طرف کو زیادہ ہے۔ (سائنسی زمرے سے کسی محفلین کا آخری گزر تقریباً ساڑھے تین مہینے پہلے ہوا تھا۔ اور وہ نو وارد محفلین وہاں سے باہر نکلنے کا راستہ پوچھتے ہوئےبھی پائے گئے تھے۔ آخری خبریں آنے تک اس سائنس گزیدہ بھولے بھٹکے معصوم نے ابھی تک دوبارہ لاگ ان نہیں کیا ہے۔ ) محترم ابن سعید سے گزارش ہے کہ اگر وہ چاہیں تو مروجہ قوانینِ زمرہ بندی کے تحت اس کی زمرہ بدلی کرسکتے ہیں۔
 
ترکاری احکامات جاری ہوئے جن کی رُو سے تا حکمِ نسوانی
لیکن ایک پہیے میں اگرکسی وجہ سے چال آ جائے تو دوسرے پہیے کو صراطِ مستقیم پر چلنے سے روکنا کہاں کا انصاف ہے
قطعی انکار کر دیا کہ زمین سے اُگنے والی اِن بے ذائقہ نباتات میں فوائد اور صرف فوائد کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ دل یہ کہتا تھا کہ ان میں ضرور کچھ نہ کچھ ضرر بھی پوشیدہ ہوگا۔
لیکن سلاد کے مجموعی نقصانات کو دیکھتے ہوئے ایک معمولی سے فائدے کی خاطر اس کا استعمال درست قرار نہیں دیا جاسکتا
آدمی چپکو بن جاتاہے جس کے باعث گھریلو الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں
ڈاکٹر وائٹ اسٹارچ کا کہنا ہے کہ آلو کو دراصل ایک نباتاتی کیپسول سمجھنا چاہیے
بینگن: رنگ سیاہ کرتا ہے۔ کثرتِ استعمال سے کہیں پہ نگاہیں ، کہیں پہ نشانہ یعنی بھینگا پن بھی لاحق ہو سکتا ہے۔
کرم کلہ: اختلاج ، تبخیرِ معدہ ، سستی ، کاہلی ، بیزاری
جامعہ رومانیہ میں کی گئی ایک اسٹڈی کے دوران طلبا کو کھانے میں صرف اُبلی ہوئی سبزیاں دی گئیں تو دو ہفتے بعد انہوں نے پڑھائی اور طالبات میں دلچسپی لینا چھوڑ دی
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
ایک عرصے بعد اتنا ہنسی ہوں کہ بس اور سچ پوچھیں تو میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ آپ کی ہم عصر اور ہم محفل ہوں۔ اس سے زیادہ زور قلم نہ مانگئیے گا ورنہ کاہلی ، بیزاری، تبخیر معدہ ۔۔۔۔ :LOL:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
ایک عرصے بعد اتنا ہنسی ہوں کہ بس اور سچ پوچھیں تو میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ آپ کی ہم عصر اور ہم محفل ہوں۔ اس سے زیادہ زور قلم نہ مانگئیے گا ورنہ کاہلی ، بیزاری، تبخیر معدہ ۔۔۔۔ :LOL:
چلیے محنت وصول ہوئی ۔ اللہ آپ کوہمیشہ ہنستا مسکراتا رکھے ۔
بہت نوازش ، بہت شکریہ!
 

سعادت

تکنیکی معاون
آلو: یہ ترکاری نسبتاً کم ضرر رساں ہے۔ دو تین انچ لمبی چوکور قاشیں تراش کر فرائی کرنے سے اس کا دف مرجاتا ہے۔ نمک اور کیچپ کے ساتھ نافع اور فرحت بخش ہوتا ہے۔بعض ماہرینِ نے اسے چپس کی شکل میں استعمال کرنے کے بھی یہی فوائد گنوائے ہیں ۔ حکماءنے یہ بھی لکھا ہے کہ گوشت کے ساتھ پکانے سے اس کے مضر اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔ مشہور سائنسدان ڈاکٹر وائٹ اسٹارچ کا کہنا ہے کہ آلو کو دراصل ایک نباتاتی کیپسول سمجھنا چاہیے کہ جس میں قدرت نے دیگر تمام سبزیوں کے وٹامن اور معدنیات سربمہر رکھ دیے ہیں۔
گاجر: زیرِ زمین اُگنے والی خفیہ نباتات کی یہ قسم اگرچہ مضر ہے لیکن اسے کدّو کش کرنے کے بعد دودھ ، شکر اور گھی میں دیر تک پکا کر ایک مرکب بنالیا جائے اور اس پر ماوے کا اضافہ کردیا جائے تو ماہرین کی متفقہ رائے میں اس کے تمام نقصانات ختم ہوجاتے ہیں۔ سردیوں میں اس مرکب کا روزانہ استعمال مردانہ وجاہت میں اضافہ اور طبیعت میں شگفتگی پیدا کرتا ہے۔
ظہیر بھائی،

اِس خاکسار کا باورچی‌خانے کے اسرار و رموز سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، اور ترکاریات کے موضوع پر میری لاعلمی کے بارے میں جتنا کم کہا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ البتہ، آلو اور گاجر کے بارے میں آپ کی تحقیق کے نتائج نہ صرف میرے دل کی آواز کے ترجمان نکلے، بلکہ یک‌گونہ اطمینان کے موجب بھی ہوئے کہ اِن دونوں سبزیوں کے بارے میں میرے الہام کو اب آپ کی سائنسی اور تحقیقی سند حاصل ہو گئی ہے۔ خصوصاً کدّوکش کی گئی گاجر، دودھ، شکر، اور گھی کے مرکب کے بارے میں آپ کی سائنسی تجویز نہ صرف داد و تحسین کی مستحق ہے، بلکہ اِس قابل بھی ہے کہ اِسے موسمِ سرما میں ہر باورچی‌خانے کی دیوار پر جلی حروف میں لکھوا کر آویزاں کیا جائے۔

شکرگزار،
تلے ہوئے آلوؤں اور شیریں مرکبِ گاجر کا پرستار و طلب‌گار،
سعادت
 

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ ۔ ظہیر بھائی خوب مزیدار ۔
مشتے از خروارے تشبیب، گریز ،مہر معطل، کیا الماس جڑے ہیں ۔سمندفکر کی پیٹھ زخمی ہو گئی خوب تازیانے لگائے ہیں
۔جیسے ۔ w11۔ پر چمک پٹی کا تازہ کام ہوا ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
شادی کے چند سال بعد کا ذکر ہے
ہر شادی شدہ کا یہ کہنا کہ چند سال بعد کا ذکر ہے۔۔۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلے چند سال اسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔۔۔۔ مجھے خوشی ہے۔۔۔ اگر آپ اگلے سال سے ذکر شروع کر دیتے تو یقینا میں آپ کے کسی دوسری دنیا کے آدمی ہونے کا الزام لگا دیتا۔
زلزلہ ذرا تھما تو آفٹر شاکس کے طور پر حکومتِ خانہ کی جانب سے چند ترکاری احکامات جاری ہوئے جن کی رُو سے تا حکمِ نسوانی کچن میں غیر نباتاتی خام مال کا داخلہ ممنوع قرار پایا۔
حالانکہ اس کو تھمنا نہیں کہتے۔۔۔ میں حیران ہوں آپ ایسا گھاگ شوہر بھی اس کو تھمنے سے تشبیہ دے گیا۔۔۔
اگرچہ یہ خاکسار قانون پسند طبیعت کا مالک ہے اور ملکِ ازدواج کی شوہریت اختیار کرنے کے بعد سے تادمِ تقریر وزارتِ امورِ داخلہ کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی تھی
ہر شخص کو یہی لگتا ہے کہ وہ دنیا کا آخری زن مرید ہے۔۔۔ لیکن کسی اگلے موڑ پر مجھ ایسے سے ملاقات پر اس کو پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے بارے میں سراسر خوش فہمی کا شکار تھا۔۔۔۔ ہوہوہوہوہوہوہو

" اور اس میں پیسوں کی بھی بچت ہے۔ بجٹ قابو میں رہے گا۔"
سبحان اللہ۔۔۔۔ جب کوئی واعظ جمعے کے دوران ایسی بات کرتا ہے۔۔۔ تو پھر کہتا ہے۔۔۔ سب آکھو سبحان اللہ۔۔ ذرا زور نال۔۔۔۔

ان کے دلائل اور زورِ بیان کا اثر تھا کہ رگ و پے میں ابھرنے والی احتجاجی لہر نہ صرف دم توڑ گئی بلکہ میں سبزیوں کے نعمتِ آسمانی ہونے کا قائل ہو گیا اور صحت و تندرستی کے تمام مسائل کی واحد وجہ گوشت نامی شے میں نظر آنے لگی۔ اس گفتگوکے بعد دو روز تک تو یہ خاکسار نعمتِ آسمانی کو سرِ تسلیم خم کیے صبر اور شکر سےداخلِ دہن کرتا رہا لیکن تیسرے روز ابلی ہوئی گاجر اور گوبھی کے تین لقمے بعد ہی سبزیوں پر تازہ تازہ لایا ہوا ایمان بری طرح لڑکھڑا گیا۔
سبزیوں کا نعمت آسمانی ہونا تو ثابت ہے۔۔۔ تاہم میرا آج تک یہی ایمان ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے لیے اتاری گئی تھیں، اور ان کو ہی کھانا زیب دیتا ہے۔

القصہ مختصر ، شہر کی مرکزی لائبریری کو چھاننے اور گوگل کو پھٹکنے کے بعد اندازہ ہوا کہ پھلوں اور خصوصاً انگور اور اس سے کشیدہ مائعاتِ نوع بہ نوع کے متعلق تو مادہ پرست مغرب کے مردمانِ مائع پرست نے توزک ہائے رنگ برنگ لکھ مارے ہیں لیکن سبزیوں کے خواص پر کچھ خاص کام نہیں کیا۔البتہ تلاشِ بسیار کے بعد کچھ لٹریچر لاطینی کلبی زبان (dog Latin) میں ضرور ملا اور خوبیِ قسمت سے یونانی حکمت کی کچھ قدیم کتابیں بھی ایک کتب خانے سے دستیاب ہوگئیں۔ اور یوں اس تحقیقی مضمون کی بنیاد پڑی۔
ہوہوہہووہہوہوہووو۔۔۔ دیکھ ظہیر دختر رز کو نہ منہ لگا۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

سلاد: یہ ہرے پتے شروع میں جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال ہوتے تھے لیکن ازمنہ وسطیٰ میں شدید قحط کے باعث انسانی خوراک میں در آئے اور کسی غلط فہمی کی بنا پر ابھی تک انسانوں کے زیرِ استعمال ہیں۔ مشہور اطالوی سائنسدان پروفیسر ویگا ٹارچرینی (Vega Torturini)نے انیسویں صدی میں متعدد سائنسی تجربات کی مدد سے سلاد کے مضر اثرات کو ثابت کیا ہے۔ ایک تجربے کے دوران پندرہ صحت مند افراد کو ہسپتال میں داخل کرکے تین ہفتے تک کھانے میں صرف سلاد دیا گیا۔ پانچویں دن سے کئی لوگوں میں ڈپریشن کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے۔ مزید تین روز بعد اکثریت کے رویے میں تشدد پسندی ظاہر ہونے لگی یہاں تک کہ ان کی پلیٹوں سےچھری کانٹے غائب کرنا پڑے۔ تیرہویں دن یہ تجربہ اُس وقت مجبوراً روکنا پڑا جب پندرہ کے پندرہ افراد نے مل کر کھانا لانے والے ملازمین پر حملہ کر دیا اور تین سلاد زدگان نے ایک فربہ ملازم کے بازؤں پر دانت مارنے کی کوشش کی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سلاد کے استعمال سے وزن کم ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات کسی حد تک درست ہو لیکن سلاد کے مجموعی نقصانات کو دیکھتے ہوئے ایک معمولی سے فائدے کی خاطر اس کا استعمال درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم شدید مجبوری کے تحت اگر ہفتے میں ایک دو بار ذرا سی مقدار میں کھا لیا جائے تو امید ہے کہ زیادہ نقصان کا باعث نہ ہوگا۔
بخدا جب ہمارے گھر گائے بھینسیں ہوتی تھیں، تو ہمارے اور ان کے کھانے میں فرق صرف کھرلی اور پلیٹ کا رہ جاتا تھا۔۔۔۔ کیسے کیسے منااظر یاد کروا دیے۔۔۔ ایک سبزی کی دکان پر کھڑے میں نے پوچھا کہ کالی توری کیسے کلو ہے۔۔۔ اس نے جو قیمت بتائی ۔۔۔ میں نے جوابا کہا۔۔۔ وہ بھی دور تھا۔۔۔ جب بھینسوں کی کھرلی ان سے بھری ہوتی تھی۔۔۔۔ جوابا سبزی والا کہتا۔۔۔ باو جی! اس وقت بندے یہ نہیں کھاتے تھے۔۔۔ اللہ اللہ

ٹنڈے: جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ گنج پیدا کرتے ہیں۔ یہ ترکاری نما چیز مردوں کے حق میں سمِ قاتل سے کم نہیں ۔
ٹنڈے ایسی نامراد سبزی ہے۔۔۔۔ کہ اگر گوشت میں ڈال دے تو گوشت برباد کر دیتےہیں۔۔۔ ایسی مردودانہ تاثیر شاید ہی کسی اور سبزی میں ہو۔

پالک: اسے دراصل لے پالک کہنا چاہیے کہ اسے بھی انسانوں نے قحط کے دنوں میں بطور خوراک ایڈاپٹ کیا تھا۔ اس بے ڈھب سبز پتے کی بابت ماہرین میں اختلاف پایا جاتا ہے اور اس اختلاف کی بنیادی وجہ مشہور تاریخی شخصیت بابائے دی سالار کے واقعات ہیں۔ روایات کے مطابق بابائے دی سالار آئے دن پالک کھا کر زیتونہ نامی ایک منحنی سی خاتون کو دشمنوں سے بچایا کرتے تھے۔ مؤرخین کی ایک جماعت نے ان کی طاقت اور شجاعت کا سہرا پالک کے سر باندھا ہے لیکن کچھ ماہرینِ نباتات اس کا اصل سبب تمباکو بھرے پائپ کو ٹھہراتے ہیں۔ یہ علمی اختلاف اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پالک کے متواتر استعمال سے جسم بے ڈھب اور کارٹون جیسا ہوجاتا ہے۔
ہوہوہوہوہوہوہو۔۔۔۔۔۔ پالک لاتے۔۔۔۔ کاٹتے۔۔۔ اور اس کے بعد کھاتے تک۔۔۔۔ مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں گھر والے صرف اشارتا کام والے بیل نہیں سمجھتے۔۔۔۔ بلکہ۔۔۔۔۔

بھنڈی: سال میں اگر دو تین بار سے زیادہ کھائی جائے تو آنتوں اور طبیعت میں چپچپاہٹ پیدا کر تی ہے۔ زیادہ استعمال سے آدمی چپکو بن جاتاہے جس کے باعث گھریلو الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں۔
دادا مرحوم فرماتے تھے بھنڈی جہنمیوں کی خوراک ہے۔ اللہ نے اس کے سر میخ ٹھونک رکھی ہے۔
آلو: یہ ترکاری نسبتاً کم ضرر رساں ہے۔ دو تین انچ لمبی چوکور قاشیں تراش کر فرائی کرنے سے اس کا دف مرجاتا ہے۔ نمک اور کیچپ کے ساتھ نافع اور فرحت بخش ہوتا ہے۔بعض ماہرینِ نے اسے چپس کی شکل میں استعمال کرنے کے بھی یہی فوائد گنوائے ہیں ۔ حکماءنے یہ بھی لکھا ہے کہ گوشت کے ساتھ پکانے سے اس کے مضر اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔ مشہور سائنسدان ڈاکٹر وائٹ اسٹارچ کا کہنا ہے کہ آلو کو دراصل ایک نباتاتی کیپسول سمجھنا چاہیے کہ جس میں قدرت نے دیگر تمام سبزیوں کے وٹامن اور معدنیات سربمہر رکھ دیے ہیں۔
آلو کے نقصانات سب سے کم ہیں۔۔۔ اور آپ نے جو ان کا زہر مارنے کے ٹوٹکے لکھے ہیں۔۔۔۔ میں نے بھی ان کو آزمودہ پایا ہے۔

شلجم: دراصل ایک جڑی بوٹی ہے جسے غلطی سے سبزیوں میں شمار کر لیا گیا۔ اس بوٹی کا استعمال حکمت کی دواؤں میں تو قابل قبول ہے لیکن اسے بطور خوراک کھانا سائنسی اعتبار سے کسی طرح بھی مناسب نہیں۔
جس لڑکی کا صرف رنگ گورا ہوتا اور نین نقش تیکھے نہ ہوتے۔۔۔ تو یار دوست اس کو شلجم کہا کرتے تھے۔۔۔۔ یہ شلجم کی واحد ایک قابل ذکر مثال میرے ذہن میں ہے۔۔۔ وگرنہ یہ ایسی چیز ہے کہ مجھے کنگ فو پانڈا میں بھی نہ بھائی۔۔۔۔

گاجر: زیرِ زمین اُگنے والی خفیہ نباتات کی یہ قسم اگرچہ مضر ہے لیکن اسے کدّو کش کرنے کے بعد دودھ ، شکر اور گھی میں دیر تک پکا کر ایک مرکب بنالیا جائے اور اس پر ماوے کا اضافہ کردیا جائے تو ماہرین کی متفقہ رائے میں اس کے تمام نقصانات ختم ہوجاتے ہیں۔ سردیوں میں اس مرکب کا روزانہ استعمال مردانہ وجاہت میں اضافہ اور طبیعت میں شگفتگی پیدا کرتا ہے۔
سبحان اللہ۔۔۔ کیا گاجر کا اس سے عمدہ و اعلی استعمال نہ تو ممکن تھا۔۔۔ اور نہ ہوگا۔۔۔ بے شک یہ کسی مرد حق کا دریافت شدہ ٹوٹکا ہے۔۔

بینگن: رنگ سیاہ کرتا ہے۔ کثرتِ استعمال سے کہیں پہ نگاہیں ، کہیں پہ نشانہ یعنی بھینگا پن بھی لاحق ہو سکتا ہے۔
ابا حضور فرماتے ہیں۔۔۔ یہ بے گُن ہے۔۔۔ بینگن نہیں۔۔۔۔
کرم کلہ: اختلاج ، تبخیرِ معدہ ، سستی ، کاہلی ، بیزاری
یہاں میں انتہائی ضروری اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ کوچہ آلکساں کے اراکین کا اس سبزی کے کھانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔۔ کوچے میں ایسی سبزی لانے والے کے لیے سخت سزائیں ہیں۔ اور اس میں امیر و غریب یعنی زیادہ سست و کم سست کی تخصیص نہیں ہے۔
مولی: تبخیرِ ، نفخ اور اہلِ خانہ میں فاصلہ پیدا کرتی ہے۔
پنجابی کی مثال۔۔۔ تینوں لیوے مولیٰ ۔۔۔ اصل میں پہلے تینوں کھانی پئے مولی ہوتی تھی۔۔۔۔ جو زمانے کے ساتھ بدل کر فریاد بہ بارگاہ خداوندی میں ڈھل گئی۔۔۔

مٹر: سر گھومنا، چکر آنا ، دماغ چلنا۔ صاحبِ دُور اللغات نے مٹر گشت کے ذیل میں لکھا ہے کہ ابتداً یہ محاورہ آدمی کا دماغ گھومنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن تصریفِ ایام کے باعث اب سالم آدمی کے لیے بولا جاتا ہے۔
مٹر کے نقصانات بہت کم ہیں۔۔۔ لیکن اس کا ہرا پن ۔۔۔ ساون کے اندھے ۔۔۔۔ سے ثابت ہوتا ہے۔۔۔ شنید ہے کہ ساون کا اندھا اصل میں مٹروں کا اندھا تھا۔۔۔۔ محض اتفاق کہ اس دن بارش بھی ہو رہی تھی۔

چقندر: چغد پن ، نسیان ، کاہلی، بیزاری
ایک بار پھر اعلان کروں گا کہ کوچے کے اراکین کا چقندر سے کچھ لینا دینا نہیں۔۔۔۔ کوچے کے اراکین تو سراپا قند ہیں۔۔۔۔

توری: بادی ، سوزشِ معدہ ، ضعفِ جگر
اس کی کہانی یہ رہی۔۔۔ کہ رات میں ڈیڑھ بجے کے قریب گھر آیا۔۔۔۔ کپڑے وغیرہ بدل رہا تھا۔۔۔کہ بیگم نے واش کا دروازہ کھٹکا کر پوچھا۔۔۔ آپ نے کھانا کھانا ہے۔۔۔۔ توری پکائی ہے۔۔۔ بہت مزے کی بنی ہے۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ رات بہت ہوگئی ہے۔۔۔ سو جاؤ۔۔۔۔ اب کھانا نہیں کھاؤں گا۔۔۔ کس منہ سے بتاتا کہ ایک کافر قسم کا پزا کھا کر آ رہا ہوں۔

سبحان اللہ۔۔۔۔ ایسا محسوس ہوا کہ کریلے کا اصل نام لکھ دیا ہے۔۔۔ کینسر۔۔۔ جو کہ سبزیوں میں قلمی نام کریلے سے جانا جاتا ہے۔۔۔

گوبھی:اختلاج ، تشنج ، ضعفِ سماعت ، سنی ان سنی
یہ انگریزی لفظ گو بمعنی جانا۔۔۔ اور بھی ۔۔۔ یعنی جا بھی۔۔۔۔ سے اس کو نام معرض وجود میں آیا۔۔۔۔ شنید ہے کہ اس کا جب موسم آتا تھا۔۔۔ تو تمام اہل اسلام کو اس کے دو مہینے سال برابر لگتے تھے۔۔۔۔ یہ بھی سنا گیا ہے کہ آئن سٹائن کا نظریہ اضافت بھی گوبھی کے سیزن میں ہی لکھا گیا۔۔۔۔ دروغ بہ گردن ترکاری۔۔۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ: عام لوگوں کا یہ خیال کہ سبزیوں کو ابال کر کھایا جائے تو مضرِ صحت نہیں رہتیں تحقیق کی رو سے سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ ابلی هوئی سبزیوں پر تحقیق كے دوران یه حیران كن حقیقت بھی سامنے آئی کہ ان کے اثرات عورتوں اور مردوں پر مختلف ہوتے ہیں ۔ شعبۂ غذائی امور کے زیرِ نگرانی جامعہ رومانیہ میں کی گئی ایک اسٹڈی کے دوران طلبا کو کھانے میں صرف اُبلی ہوئی سبزیاں دی گئیں تو دو ہفتے بعد انہوں نے پڑھائی اور طالبات میں دلچسپی لینا چھوڑ دی۔ اس سائنسی تجربے سے مردوں پر ابلی ہوئی سبزیوں کے شدید نقصانات بخوبی واضح ہوتے ہیں۔
اور میں ایک عمر تک ان دونوں میں عدم دلچسپی کو ملازمت اور پڑھائی اکھٹی کرنے کا سبب سمجھتا رہا۔۔۔۔ بخدا یہی وجہ رہی ہوگی۔۔۔۔ اب سمجھ آ رہی۔۔۔

نتیجہ: اگرچہ اب مختلف قسم کی مفید غذا ؤں کی عام دستیابی کی بنا پر مذکورہ بالا نباتاتِ خوردنی سے حتی الامکان پرہیز ضروری ہے لیکن صدیوں سے چلی آتی ثقافتی اور مطبخی روایات کے باعث انہیں بالکل ہی کچن بدرنہیں کیا جاسکتا۔ محققین کا کہنا ہے کہ مناسب مرچ مصالوں ، گھی ، گوشت اور یو ٹیوب کی مدد سے ان نباتات کے نقصان دہ خواص کو کم کیا جا سکتا ہے ۔تاہم احتیاط پھر بھی ضروری ہے اور ہفتے عشرے میں ایک آدھ دفعہ سے زیادہ استعمال نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
انسان خطا کا پتلا ہے۔۔۔۔ تاہم اس میں سب سے سخت جو پہلو ہے۔۔۔ وہ یہ کہ سبزی کھاؤ۔۔۔ اور پھر خوش ہو کر بھی کھاؤ۔۔۔ یہ خواہش میری سمجھ سے بالکل بالاتر ہے۔۔۔ بھئی کھا تو رہے ہیں۔۔۔ اب کیا کریں۔۔۔
خیر ۔۔۔۔ اپنی اپنی حفاظت ضرور کریں۔۔۔

ظہیر بھائی! آپ کا از حد شکریہ۔۔۔۔ ایسا دلچسپ مضمون آپ نے نکالا۔۔۔ مزا آگیا۔۔۔۔ اب سوچ رہا ہوں کہ ان سبزیوں پر جو آپ کی تحقیق ہے۔ اس کا پرنٹ لیکر رسوئی کے دروائے پر چسپاں کر دوں۔۔۔ دیکھی جائے گی۔۔۔ وہ کیا مشہور شعر ہے۔۔۔
نہ سہی پسند حکمت یہ شعار اہل دل ہے
کبھی سر بھی دے دیا ہے بہ صلاح دوست داراں

نہ سہی پسند ترکاری، یہ شعار اہل ہند ہے
کبھی برا بھی کہہ دیا ہے، ان ترکاریوں کو یارا
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اِس خاکسار کا باورچی‌خانے کے اسرار و رموز سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، اور ترکاریات کے موضوع پر میری لاعلمی کے بارے میں جتنا کم کہا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ البتہ، آلو اور گاجر کے بارے میں آپ کی تحقیق کے نتائج نہ صرف میرے دل کی آواز کے ترجمان نکلے، بلکہ یک‌گونہ اطمینان کے موجب بھی ہوئے کہ اِن دونوں سبزیوں کے بارے میں میرے الہام کو اب آپ کی سائنسی اور تحقیقی سند حاصل ہو گئی ہے۔
اس مسئلے کی اصل وجہ وہ بُعد ہے جو اہلِ باورچی خانہ اور علمائے ترکاریات کے درمیان پایا جاتا ہے ۔ اس فاصلے کو کم کرنا ہی اس تحقیقی مضمون کا مقصد ہے۔ امید ہے کہ اب اہلِ مطبخ اس سائنسی تحقیق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پلیٹ سے پیٹ تک کے عمل کو ہمارے لیے آسان اور دلپسند بنادیں گے ۔
اے بسا آرزو کہ ۔۔۔۔۔ :)
آپ کی سائنسی تجویز نہ صرف داد و تحسین کی مستحق ہے، بلکہ اِس قابل بھی ہے کہ اِسے موسمِ سرما میں ہر باورچی‌خانے کی دیوار پر جلی حروف میں لکھوا کر آویزاں کیا جائے۔
یہ آپ اپنی ذمہ داری پر کیجیے ۔ میں اس ضمن میں پیشگی صرف اتنا کہوں گا کہ : یار بھینس تو میر ی بھی مر گئی تھی۔
:D
تلے ہوئے آلوؤں اور شیریں مرکبِ گاجر کا پرستار و طلب‌گار،
دیکھنا تقریر کی لذت کہ ۔۔۔۔۔۔۔ !
سعادت بھائی ، کبھی میرے خرابے کی طرف آنا ہو تو اول الذکر میرے ذمے رہا ، آخرالذکر آپ لیتے آئیے گا۔ زبردست پارٹی رہے گی۔ :)

سعادت بھائی ، آپ کی توجہ اور محبت کا بہت شکریہ! اللہ کریم خوش رکھے ، شاد و آباد رہیں !
اگر دوبارہ مسکرانے کا جی چاہے تو پچھلے دنوں یہیں پوسٹ کیا ہوا ایک اور شکر پارہ بعنوان" ایک صبح کا ذکر ہے۔۔۔" دیکھیے گا ۔
آپ کی طرف سے دوسری وڈیو یا آڈیو کا انتظار ہی رہا ۔ آپ صداکاری جاری رکھیے گا ۔ اچھی آواز اور اچھے تلفظ میں ادب پاروں کو پڑھنا اور نشر کرنا اردو کی ضرورت ہے اور بڑی خدمت ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ، کیا ہی اعلی پائے کی شگفتہ اور مزاحیہ تحریر ہے! کیا ہی تر اور کاری الفاظ و تراکیب تراشے ہیں!​
بہت شکریہ ، نوازش ،عرفان بھائی !
تر اور کاری ۔۔۔۔۔ہا ہا ہاہا ۔۔۔۔۔۔ بہت خوب !
اُس نے پہلےتر کہا پھر کا کہا پھرری کہا
اس طرح ظالم نےترکاری کے ٹکڑے کردیئے

چلیے ، ترکاری ٹکڑے ٹکڑے ہوئی ۔ مقصد پورا ہوا۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت بہت شکریہ ، عاطف بھائی ۔ بہت نوازش! مقصد یہی تھا کہ کچھ مسکانیں محفل میں پھیلائی جائیں ۔

۔جیسے ۔ w11۔ پر چمک پٹی کا تازہ کام ہوا ہے۔
W11 سے تشبیہ دینا اعزاز سے کم نہیں ۔ تب سے میں فراٹے بھر رہا ہوں۔ :D
نے ہاتھ وہیل پر ہے ، نہ پا ہے بریک پر
 
استادِمحترم جناب ظہیراحمدظہیر صاحب! تحریر کا ہر جملہ اور ہر ترکیب شگفتہ، بے مثال اور لاجواب۔ واقعی موتی پرودیے ہیں آپ نے۔ویسے تو اچھا مزاح ہر دور میں مقبول رہا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں موجودہ دورمیں ایسی تحریروں کی لوگوں کو زیادہ ضرورت ہے۔نفسیاتی معالج کی دوائیوں کی بجائےروزانہ یا ہفتے میں ایک بار ایسی تحریروں کو پڑھنا طبیعت اور ارد گرد کی فضا کو خوشگوار بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔اصل مضمون سیر ہے تو آپ کے تبصرہ جات سوا سیر! مزا آیا ۔

ہر شادی شدہ کا یہ کہنا کہ چند سال بعد کا ذکر ہے۔۔۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلے چند سال اسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے
ایک کثیفہ جو بہت عرصے سے بھول گیا تھا آپ کی اس بات پر یاد آگیا ۔ چھوٹی بحر میں عرض کیا ہے:
ایک آدمی نےنجومی کو ہاتھ دکھا کر مستقبل کا حال پوچھا تو نجومی بولا: تمہارےاگلے پانچ چھ سال بہت مشکل اور پریشانی میں گزریں گے۔ آدمی ذرا سا فکرمند ہوا لیکن پھر پُر امید لہجے میں پوچھا : پھر ُاس کے بعد ؟
نجومی بولا : اس کے بعد تم عادی ہوجاؤ گے۔
سبحان اللہ۔۔۔۔ جب کوئی واعظ جمعے کے دوران ایسی بات کرتا ہے۔۔۔ تو پھر کہتا ہے۔۔۔ سب آکھو سبحان اللہ۔۔ ذرا زور نال۔۔۔۔
:D:D:D
بخدا جب ہمارے گھر گائے بھینسیں ہوتی تھیں، تو ہمارے اور ان کے کھانے میں فرق صرف کھرلی اور پلیٹ کا رہ جاتا تھا۔۔۔۔ کیسے کیسے منااظر یاد کروا دیے۔۔۔ ایک سبزی کی دکان پر کھڑے میں نے پوچھا کہ کالی توری کیسے کلو ہے۔۔۔ اس نے جو قیمت بتائی ۔۔۔ میں نے جوابا کہا۔۔۔ وہ بھی دور تھا۔۔۔ جب بھینسوں کی کھرلی ان سے بھری ہوتی تھی۔۔۔۔ جوابا سبزی والا کہتا۔۔۔ باو جی! اس وقت بندے یہ نہیں کھاتے تھے۔۔۔ اللہ اللہ
ترکاری فروش کا یہ اقبالی بیان ثبوت ہے اور ہماری ترکاری تحقیق پر دال ہے۔ طالبانِ حق اسے نوٹ فرمائیں ۔

سبحان اللہ۔۔۔ کیا گاجر کا اس سے عمدہ و اعلی استعمال نہ تو ممکن تھا۔۔۔ اور نہ ہوگا۔۔۔ بے شک یہ کسی مرد حق کا دریافت شدہ ٹوٹکا ہے۔
حق ہا ۔۔۔۔ درایں چہ شک ۔۔۔۔۔۔ بیشک ایسی کامل اوربے عیب کیمیائی ترکیبیں کسی حادثے کا نتیجہ نہیں ہوسکتیں ۔
یہاں میں انتہائی ضروری اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ کوچہ آلکساں کے اراکین کا اس سبزی کے کھانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔۔ کوچے میں ایسی سبزی لانے والے کے لیے سخت سزائیں ہیں۔ اور اس میں امیر و غریب یعنی زیادہ سست و کم سست کی تخصیص نہیں ہے۔
یہاں ہم بھی ایک وضاحتی اعلان فرمانا چاہیں گے کہ ۔۔۔۔ کوچے کے کامل ترین اور قدیم ترین باسی چونکہ اکثر vegetative- state میں ہوتے ہیں اس لیے اس سبزی کا تعلق کوچۂ آلکساں سے کہیں نہ کہیں ضرور بنتا ہے۔چنانچہ اس کی تفتیش کروائی جاوے گی کہ کوچے میں کرم کلہ امپورٹ کی کیا صورتحال ہے۔
۔ اب سوچ رہا ہوں کہ ان سبزیوں پر جو آپ کی تحقیق ہے۔ اس کا پرنٹ لیکر رسوئی کے دروائے پر چسپاں کر دوں۔۔۔ دیکھی جائے گی۔۔۔
اس بارے میں آپ کو بھی وہی مشورہ دوں گا جو اوپر سعادت بھائی کو دیا ہے۔ ۔۔۔
خوش فہمی سے باز آئیے اور اپنی اپنی بھینسوں کی حفاظت کیجیے۔ :):):)

بہت شکریہ ، نین بھائی کہ آپ نے اتنی توجہ سے دیکھا اور سیر حاصل تبصرے کے لیے وقت نکالا۔ یہ تبصرہ جات سطر بہ سطر جمع کریں تو بجائے خود ایک الگ مضمون کا سامان بن جاتا ہے ۔
آپ کی محبت کا مقروض ہوں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔اصل مضمون سیر ہے تو آپ کے تبصرہ جات سوا سیر! مزا آیا ۔
سر بہ سر محبت ہے آپ کی۔۔۔

ایک کثیفہ جو بہت عرصے سے بھول گیا تھا آپ کی اس بات پر یاد آگیا ۔ چھوٹی بحر میں عرض کیا ہے:
ایک آدمی نےنجومی کو ہاتھ دکھا کر مستقبل کا حال پوچھا تو نجومی بولا: تمہارےاگلے پانچ چھ سال بہت مشکل اور پریشانی میں گزریں گے۔ آدمی ذرا سا فکرمند ہوا لیکن پھر پُر امید لہجے میں پوچھا : پھر ُاس کے بعد ؟
نجومی بولا : اس کے بعد تم عادی ہوجاؤ گے۔
انشاء یہ تو کیا لکھوا لایا ہے۔۔۔۔ دکھ ہی دکھ تیرے حصے میں آیا ہے۔۔۔

یہاں ہم بھی ایک وضاحتی اعلان فرمانا چاہیں گے کہ ۔۔۔۔ کوچے کے کامل ترین اور قدیم ترین باسی چونکہ اکثر vegetative- state میں ہوتے ہیں اس لیے اس سبزی کا تعلق کوچۂ آلکساں سے کہیں نہ کہیں ضرور بنتا ہے۔چنانچہ اس کی تفتیش کروائی جاوے گی کہ کوچے میں کرم کلہ امپورٹ کی کیا صورتحال ہے۔
یہ محض الزام ہے۔۔۔۔ کوچے کے باسی اس بیان پر ہرگز تازہ ہونے کی کوشش نہ کریں۔

اس بارے میں آپ کو بھی وہی مشورہ دوں گا جو اوپر سعادت بھائی کو دیا ہے۔ ۔۔۔
خوش فہمی سے باز آئیے اور اپنی اپنی بھینسوں کی حفاظت کیجیے۔ :):):)
ایک بزرگ جو بہت صاحب کرامت تھے۔۔۔ اپنی بیوی کی نظر میں بہت ہی نکمے اور نٹھلے تھے۔۔۔۔۔ انہوں نے بیوی کو متاثر کرنے کے لیے ایک دن اپنے گھر کے اوپر پرواز کی۔۔۔۔ بیوی نے دیکھ لیا۔ جب گھر آئے تو بیوی نے کہا ۔۔۔۔ کہ آج ایک بزرگ محو پرواز تھے۔۔۔ انہوں نے کہا۔۔ نیک بختے اوہ میں ای سی۔۔۔۔ تو بیوی نے کہا۔۔۔ میں بھی کہوں ۔۔۔ ٹیڑھا ٹیڑھا کیوں اڑ رہا ہے۔۔۔

بہت شکریہ ، نین بھائی کہ آپ نے اتنی توجہ سے دیکھا اور سیر حاصل تبصرے کے لیے وقت نکالا۔ یہ تبصرہ جات سطر بہ سطر جمع کریں تو بجائے خود ایک الگ مضمون کا سامان بن جاتا ہے ۔
آپ کی محبت کا مقروض ہوں۔
آپ کا جتنا شکریہ کروں کم ہے۔۔۔آپ کی تحاریر ذہن کو فرحت بخشتی ہیں۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا
 

جاسمن

لائبریرین
بلاشبہ نئی نئی اچھوتی اور مزیدار تراکیب ، منظر کشی اور عام سی باتوں کو خاص بنا دینے میں کمال حاصل ہے ظہیر بھائی کو۔
بات سے بات نکالنا اور ایسی نکالنا کہ بے ساختہ واہ واہ بلند ہو جائے۔
بہت مزیدار تحریر۔
 

سعادت

تکنیکی معاون
یہ آپ اپنی ذمہ داری پر کیجیے ۔ میں اس ضمن میں پیشگی صرف اتنا کہوں گا کہ : یار بھینس تو میر ی بھی مر گئی تھی۔
:D
ہاہاہا!

واقعی، یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی رہنمائی کا بےحد شکریہ! :D

دیکھنا تقریر کی لذت کہ ۔۔۔۔۔۔۔ !
سعادت بھائی ، کبھی میرے خرابے کی طرف آنا ہو تو اول الذکر میرے ذمے رہا ، آخرالذکر آپ لیتے آئیے گا۔ زبردست پارٹی رہے گی۔ :)
طے ہو گیا، ظہیر بھائی! آپ کا بھی اسلام‌آباد میں کوئی چکر لگے تو یہی پارٹی یہاں بھی!

سعادت بھائی ، آپ کی توجہ اور محبت کا بہت شکریہ! اللہ کریم خوش رکھے ، شاد و آباد رہیں !
اگر دوبارہ مسکرانے کا جی چاہے تو پچھلے دنوں یہیں پوسٹ کیا ہوا ایک اور شکر پارہ بعنوان" ایک صبح کا ذکر ہے۔۔۔" دیکھیے گا ۔
آپ کی طرف سے دوسری وڈیو یا آڈیو کا انتظار ہی رہا ۔ آپ صداکاری جاری رکھیے گا ۔ اچھی آواز اور اچھے تلفظ میں ادب پاروں کو پڑھنا اور نشر کرنا اردو کی ضرورت ہے اور بڑی خدمت ہے۔
آپ اِس قدر حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں، میرا ڈھیروں خون بڑھ جاتا ہے۔ کب سے کوشش کر رہا ہوں کہ ریکارڈنگ کے لیے کچھ وقت مل سکے، لیکن کوئی نہ کوئی مصروفیت آڑے آ جاتی ہے۔ ویسے اگر آپ کی اجازت ہو تو ”ایک صبح کا ذکر ہے۔ ۔ ۔ ۔“ بھی صداکاری کے لیے موزوں ترین ہے۔ :)
 
Top