تازہ غزل : اٹھاؤں کیسے میں بارِ گرانِ سجدہء شوق

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

اٹھاؤں کیسے میں بارِ گرانِ سجدہء شوق
کہاں زمین ، کہاں آسمانِ سجدہء شوق

نبردِ عشقِ بلا کش کہاں ہوئی ہے تمام
ابھی تو دور ہے سر سے امانِ سجدہء شوق

زمانے بھر کو مسلسل فرازِ نیزہ سے
سنا رہا ہے کوئی داستانِ سجدہء شوق

حقیقت اس کی مری حسرتِ نیاز سے پوچھ
زمانے بھر کو ہے جس پر گمانِ سجدہء شوق

وہ سنگِ در تو کجا ، اُس کی رہگزر دیکھو
قدم قدم پہ سجے ہیں نشانِ سجدہء شوق

مزا تو تب ہے کہ کھوجائیں آستان و جبیں
بس ایک تو رہے باقی میانِ سجدہء شوق

وہ روحِ بندگی جس کی تلاش میں ہے جبیں
ہے ماورائے زمین و زمان ِ سجدہء شوق

خدائے منبر و محراب ! یہ دعا ہے مری
کہ لامکاں میں عطا ہو مکانِ سجدہء شوق

ظہیر کیجے وضو آبِ انفعال سے آپ
ہوئی ہے خلوتِ جاں میں اذانِ سجدہء شوق

۔۔۔۔ اکتوبر ۲۰۱۵ ۔۔۔۔۔۔​
 
کیا کہنے۔
مزا تو تب ہے کہ کھوجائیں آستان و جبیں
بس ایک تو رہے باقی میانِ سجدہء شوق

وہ روحِ بندگی جس کی تلاش میں ہے جبیں
ہے ماورائے زمین و زمان ِ سجدہء شوق

خدائے منبر و محراب ! یہ دعا ہے مری
کہ لامکاں میں عطا ہو مکانِ سجدہء شوق
آمین
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ واہ کیا ہی خوبصورت غزل ہے اور ایسی مشکل ردیف کو اتنی سہولت سے نبھایا ہے تمام اشعار میں کہ کہیں کرکرا پن محسوس نہیں ہوتا بلکہ قاری اس کی روانی اور سلاست میں بہتا چلا جاتا ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ واہ کیا ہی خوبصورت غزل ہے اور ایسی مشکل ردیف کو اتنی سہولت سے نبھایا ہے تمام اشعار میں کہ کہیں کرکرا پن محسوس نہیں ہوتا بلکہ قاری اس کی روانی اور سلاست میں بہتا چلا جاتا ہے۔
حضور یہ آپ کی خوش نظری ہے ! دل بڑھادیا آپ کے تبصرے نے ۔ بہت ممنون ہوں ۔ خدا آپ کو سلامت رکھے!
 
Top