ٹائپنگ مکمل " بہت نزدیک آتے جا رہے ہو"-عدیم ہاشمی۔۔ ۔ منتخب کلام

قیصرانی

لائبریرین
ازل سے جو سروں پر ہے، ہمیشہ وہ سماں کیوں ہو
نئے ہیں ہم زمیں پر تو پرانا آسماں کیوں ہو

ہرا سورج کبھی نکلے، ستارے سرخ ہو جائیں
وہی پیلے سے انگارے، وہی نیلا دھواں کیوں ہو

شمالآ اور جنوبآ بھی ستارے چل تو سکتے ہیں
سدا مغرب کی جانب ہی رواں یہ کارواں کیوں ہو

دوپٹہ جیسے پھیلا ہو کسی بیوہ سی بڑھیا کا
زمیں کے سر پہ دن کا زرد سایہ سائباں کیوں ہو

کبھی اڑتی ہو
ئی یہ دھول بیٹھے بھی ستاروں کی
ہمیشہ سر پہ ساکت سا غبارِکہکشاں کیو ں ہو

مجھے یہ چاند پاگل کیوں لگے کوئی ستاروں میں
ہمیشہ پتھروں کا ہی ستاروں پر گماں کیوں ہو

کبھی نقطے ستاروں کی لکیروں میں بدل جائیں
سدا یہ رات کی چادر مثالِ پرنیاں کیوں ہو

اگر بنیاد چاہت ہو عدیم اس آفرینش کی
خطر کیوں ہو، حذر کیوں ہو، شرر کیوں ہو، دھواں کیوں ہو
کاسموس :)
 

شیزان

لائبریرین
حضورِ یار چلے جب بھی ،سر جھکا کے چلے
یہی لگا ہے کہ ہم سامنے خدا کے چلے

ہم اس لئے تو دیئے سے دیا جلا کے چلے
ہمیں خبر تھی کہ ہم سامنے ہوا کے چلے

یہ پُل صراط نہیں، یہ ہے پُل محبت کا
بڑے بڑے ہیں جو اِس پُل پہ ڈگمگا کے چلے

چمن تو خیر، چٹانوں میں پھول کھل جائیں
وہ ایک پل بھی ذرا سا جو مسکرا کے چلے

جہاں میں پھیل گئی ہیں ہتھیلیاں تیری
ہر ایک ہاتھ پہ جادو تری حنا کے چلے

جہاں کسی کا بھی جادو نہ چل سکا کوئی
فسون و سحر وہاں بھی تری ادا کے چلے

عدیمؔ ایسا کوئی ہمسفر جو تجھ سا ہو
قدم قدم سے ، نظر سے نظر مِلا کے چلے

کرن کرن تڑپ اٹھی خود اپنی حدت سے
جب آفتاب کو ہم آئینہ دِکھا کے چلے

پیمبری کا زمانہ تو یہ نہیں ہے عدیمؔ
یہ کون ہے جو دکھوں میں بھی مسکرا کے چلے

عدیمؔ رات کی جانب چلو جو چلنا ہے
"چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے"
 

شیزان

لائبریرین
میں بہہ رہا تھا کسی بحرِ بےخبر کی طرح
وہ رقص کرتا ہوا آ گیا بھنور کی طرح

ہر اک لکیر ہے ہاتھوں پہ رہگزر کی طرح
یونہی تو عمر نہیں کٹ رہی سفر کی طرح

یونہی تو لوگ نہیں ڈوبتے ہیں مٹی میں
زمیں جو گھوم رہی ہے کسی بھنور کی طرح


شب ِ جدائی اگر تو ہے عمر میں شامل
تو پھر گزر بھی کسی عمرِ مختصر کی طرح


یہ اس کی یاد کے آنسو ہیں، جان لیتا ہوں
پلک پلک چمک اٹھتی ہے جب گہر کی طرح

کئی دنوں سے چمکتا ہے آسمان بہت
بھڑک اٹھے نہ کہیں یہ کسی شرر کی طرح

وہ روئے یا وہ ہنسے، اک چمک سی رہتی ہے
کبھی گہر کی طرح اور کبھی سحر کی طرح

وہ آئے تو کبھی آمد چھپی نہیں ا س کی
وہ پھیلتا ہے بھرے شہر میں خبر کی طرح

عدیمؔ آب و ہوا بھی عجیب جادو ہے
کبھی شجر کی طرح ہے کبھی ثمر کی طرح

بچھڑ کے وہ تو نہ رویا ، جو میں نے ہار دیا
وہ ہار ٹوٹ کے بکھرا ہے چشمِ تر کی طرح

صفات اس میں تضادات سے مرصع ہیں
گداز شب کی طرح ہے، چمک سحر کی طرح

عدیمؔ اس نے لکھا خط حنائی ہاتھوں سے
ہر ایک لفظ بھڑکنے لگا شرر کی طرح
 

شیزان

لائبریرین
سرخئ وصل پسِ دیدہ تر پانی میں
کہاں دیکھے تھے عدیم اتنے شرر پانی میں

تری یادیں پسِ بادیدۂ تر پانی میں
کون کہتا ہے کہ بنتے نہیں گھر پانی میں

ڈوبتے یوں ہی نہیں دیدۂ تر پانی میں
یہی آنسو ہیں جو بنتے ہیں گہر پانی میں

پوچھ آہوں سے، ہواؤں میں تپش کیسی ہے
آنسوؤں نے تو کیا سارا سفر پانی میں

کیا خبر تھی تری آنکھوں میں بھی دل ڈوبے گا
میں تو سمجھا تھا کہ پڑتے ہیں بھنور پانی میں

کشتئ دل نے کیا رقص بڑی دیر کے بعد
دیر کے بعد ہی ناچے ہیں بھنور پانی میں

اشک پلکوں پہ جو ٹھہرے ہیں تو حیرت کیسی؟
ساحلی لوگ بنا لیتے ہیں گھر پانی میں

آب دیدہ سی ملاقات ہوئی ہے تجھ سے
عکس آیا ہے ترا مجھ کو نظر پانی میں


لمس تالاب میں ہاتھوں کا قیامت نکلا
آگ سے بڑھ کے ہوا اس کا اثر پانی میں

دل کے دریا میں لگایا تھا تمنا کا شجر
گر کے بہتا ہی رہا سارا ثمر پانی میں

فرق اتنا سا ہے اس شخص میں اور مجھ میں عدیمؔ
وہ کنارے پہ اُدھر، میں ہوں اِدھر پانی میں
 

شیزان

لائبریرین
اس نے دل پھینکا خریداروں کے بیچ
پھر کوئی محشر تھا بازاروں کے بیچ

تُو نے دیکھی ہے پرستش حسن کی؟
آ کبھی اپنے پرستاروں کے بیچ

سر ہی ٹکرا کے گزر جاتے ہو کیوں
گھر بھی کچھ ہوتے ہیں دیواروں کے بیچ

تُو کہاں اس ریگزارِ دہر میں
پھول تو کھلتے ہیں گلزاروں کے بیچ

یہ سماں تُو نے بِتایا تھا کہاں
آ پلٹ جائیں انہی غاروں کے بیچ

کوئی سکہ بیچ میں گرتا نہیں
چاند وہ کشکول ہے تاروں کے بیچ

وہ کبوتر گنبدوں پر یاد ہیں
وہ پتنگ ان دونوں میناروں کے بیچ

فاختائیں بھی ، ابابیلیں بھی ہیں
کچھ نہیں موجود منقاروں کے بیچ

رات بھر آتی ہے آہوں کی صدا
کس کو چنوایا ہے دیواروں کے بیچ

یوں اسے دیکھا غنیموں میں عدیمؔ
جیسے کوئی پھول تلواروں کے بیچ
 

شیزان

لائبریرین
پھر بھی بیٹھی ہے خزاں باغ کی دیوار کے ساتھ
جبکہ پتاّ بھی نہیں ہے کوئی اشجار کے ساتھ

کچھ تعلق تو نہیں تھا مرا بیمار کے ساتھ
پھر بھی دل ڈوب گیا شام کے آثار کے ساتھ

کس نے چمکایا ہے سورج مری دیوار کے ساتھ
صبح ہوتی ہے مری تو ، ترے دیدار کے ساتھ

ایک ہے میری انا ، ایک انا کس کی ہے
کس نے دیوار بنا دی مری دیوار کے ساتھ

تم بڑے لوگ ہو ، سیدھے ہی گزر جاتے ہو
ورنی کچھ تنگ سی گلیاں بھی ہیں بازار کے ساتھ

مستقل درد کا سودا ہے، ذرا نرمی سے
کچھ رعایت بھی تو کرتے ہیں خریدار کے ساتھ

مرے اشکوں پہ تجھے اتنا تعجب کیوں ہے
تُو نے چشمے نہیں دیکھے کبھی کہسار کے ساتھ؟

اب تو میں صرف " تعلق" کے عوض بیٹھا ہوں
اب تو " سایہ" بھی نہیں ہے تری دیوار کے ساتھ

میرے شہکار کو اس پیار سے تکنے والے
کوئی فنکار کا رشتہ بھی شہکار کے ساتھ

میں نے پہچان لیا دور سے، گھر تیرا ہے
پھول لپٹے ہوئے دیکھے جہاں دیوار کے ساتھ

لفظ نشتر کی طرح دل میں اتر جاتے ہیں
خط محبت کا بھی لکھتا ہے وہ تلوار کے ساتھ

کوئی فنکار کی تنہائی کی جانب نہ گیا
لوگ جا جا کے لپٹتے رہے شہکار کے ساتھ
 

شیزان

لائبریرین
شب و روز خوشۂ اشک سے مری کشتِ چشم بھری رہی
یہ عجیب کھیت کی فصل تھی، جو ہری ہوئی تو ہری رہی

کئی رود و چشمہ وصل تھے، جنہیں خشک ہجر نے کر دیا
فقط اک صراحئ چشم تھی ، جو بھری رہی تو بھری رہی

وہ جو ایک شامِ جدائی تھی، وہی عمر بھر کی کمائی تھی
نہ وہ ڈر رہا شبِ تار کا ، نہ وہ خواہشِ سحری رہی

جو جہان تھا وہ مہان تھا، کوئی تیر کوئی کمان تھا
یہ مجھی کو خوفِ خدا رہا، مری زندگی ہی ڈری رہی

یہ جہانِ خاک ہے اس جگہ سبھی خاکسار و غبار ہیں
نہ کسی کا تخت رہا یہاں، نہ کسی کی تاج ورَی رہی

کھلی آنکھ مشتِ غبار پر سرِ ریگزار پڑا تھا میں
نہ وہ خوفِ لاف و گزاف تھا، نہ وہ قاف تھا نہ پری رہی

کسی کنجِ حرص میں چور تھا شبِ وصل نقب لگا گیا
نہ سپردگی رہی حسن کی، نہ جنون کی بےخبری رہی

مرے دل کی درز سے چھن پڑی جو کرن تھی تیرے وصال کی
میں نے لاکھ راز نہاں کیا، مرے دل میں پھر بھی جھری رہی

کسی بحرِ درد کی لہر میں کہاں ڈوبتے ،کہاں تیرتے
وہ جو کشتئ چشم تھی، وہ تو آنسوؤں سے بھری رہی

کبھی نا درست کے سامنے مرا سر عدیمؔ جھکا نہیں
میں وہ دیدہ ور، مری آنکھ میں یہی ایک دیدہ وری رہی
 

شیزان

لائبریرین
سارے جہان کو عدیمؔ واقفِ حال کر دیا
تحفہ ذرا سا تھا مگر اس نے اچھال کر دیا

اُس کی نظر کو داد دو، جس نے یہ حال کر دیا
میرا کمال کچھ نہیں، اُس نے کمال کر دیا

ایک نگاہ کا اثر ،ظرف بہ ظرف مختلف
اِس کو نڈھال کر دیاِ، اُس کو نہال کر دیا

آگ کی شہ پہ رات بھر نور بہت بنے دئے
صبح کی ایک پھونک نے سب کو سفال کر دیا

یہ تو ہوا ہتھیلیاں گنبدِ سرخ بن گئیں
ہاتھوں کی اوٹ نے مگر رکھا سنبھال کر " دِیا"

شمع بھی تھی، چراغ بھی، دونوں ہوا سے بجھ گئے
میں نے جلا لیا مگر دل کا نکال کر "دِیا"

موت سے ایک پل اِ دھر پھر سے حیات مل گئی
اس نے تعلقات کو پھر سے بحال کر دیا

اوک بنا بنا کے ہم دستِ دعا کو تھک گئے
جو بھی ہمیں دیا گیا، کاسے میں ڈال کر دیا

کوئی تو اس کی قدر کر، کوئی تو اس کو اجر دے
اس نے عدیمؔ تجھ کو دل کتِنوں کو ٹال کر دیا

بات سخن میں چل پڑی، اس نے عدیم ؔ مان لی
میں نے فراق کاٹ کر، اس کو و صال کر دیا
 
Top