ٹائپنگ مکمل " بہت نزدیک آتے جا رہے ہو"-عدیم ہاشمی۔۔ ۔ منتخب کلام

شیزان

لائبریرین
تعلقات میں یہ ایک سانِحہ بھی ہے
محبتیں بھی ہیں اور درمیاں اَنا بھی ہے
یہ ٹھیک، تجھ کو شکایت بھی ہے، گلہ بھی ہے
تُو یہ بتا کہ تجھے میں نے کچھ کہا بھی ہے
کوئی بھی پُل ہو ، وہ دو ساحلوں پہ بنتا ہے
گر ایک دل ہے تِرا، ایک دل مِرا بھی ہے
یہ تیری بات ہے، آیت نہیں ، حدیث نہیں
کوئی تِرا تو کوئی میرا فیصلہ بھی ہے
پیالہ بھر تو لیا ہے جُدائی کا تُو نے
مجھے بتا کہ کبھی زہر یہ پیا بھی ہے؟
تعلقات کو اُتنا رکھا ہے، جتنے ہیں
قریب بھی ہے، مُناسب سا فاصلہ بھی ہے
ہوس کو چھانے دیا کم عدیم چاہت پر
کبھی کبھی یہ مگر واقعہ ہوا بھی ہے
 

شیزان

لائبریرین
یہ جہاں ہے ایک عالم، ایک عالم اور ہے
اِک شبِ غم کاٹ لی ہے، اِک شبِ غم اور ہے
تم فقط دوزخ چشیدہ ہو نہیں سمجھو گے تم
اور ہے نارِ حسد، نارِ جہنم اور ہے
ایک سیپی آسماں تو دو صدف آنکھیں بھی ہیں
ہے گہربار اور شبنم آنکھ پُرنم اور ہے
اور ہیں موتی، گِرا کر پھر اُٹھا سکتے ہو تم
باغ میں وقت ِسحر پھولوں پہ شبنم اور ہے
بال کھولے اُس نے ، جیسے بحرِ اسود کھل گیا
ایک خم کی لہر سے نکلوں تو اِک خم اور ہے
بحر کا طوفاں الگ ہے، برہمی اُس کی الگ
لہر کا خم اور اُس کی زلف کا خم اور ہے
کچھ دریچے پر بھی بارش کی بہت بوندیں پڑیں
آج تیری یاد میں کچھ آنکھ بھی نم اور ہے
کچھ چھپا رکھا ہے چہرہ اُس نے بالوں میں عدیم
کچھ دیئے کی لَو ذرا سی آج مدھم اور ہے
آج اُس کی سمت دیکھا ہی نہیں جاتا عدیم
آج کیفیت الگ ہے، آج عالم اور ہے
 

شیزان

لائبریرین
سوئی رہی ہے ساری خُدائی تمام شب
دیتا رہا ہے کوئی دُہائی تمام شب
جس کے لیے عدیم سجائی تمام شب
اُس نے تو شکل بھی نہ دکھائی تمام شب
شاید پہل اُسی کی طرف سے ہو بات کی
اِس انتظار میں ہی گنوائی تمام شب
پلکوں پہ میں نے جشن چراغاں کئے رکھا
میں نے تمھاری یاد منائی تمام شب
دھوئیں تری جدائی کے خط کی سیاہیاں
تحریر آنسُوؤں سے مٹائی تمام شب
اِک اِک ستارہ سامنے میرے جڑا گیا
لگتا تھا جیسے میں نے بنائی تمام شب
تاروں کا رات سارے فلک پر ہجوم تھا
وہ چاند تھا کہ دیکھنے آئی تمام شب
چادر سیاہ ، اُس پہ ستارے بھی، چاند بھی
اُس نے تو اپنے سر پہ سجائی تمام شب
تاروں کے جسم صبح کی چادر سے ڈھانپ کر
میں نے سحر کے وقت سُلائی تمام شب
 

شیزان

لائبریرین
جو دکھائی مجھے دیتا ہے سماں ہے کہ نہیں
دشتِ آسیب بتا کوئی یہاں ہے کہ نہیں
ہیں ترے دونوں جہاں، تیرا جہاں ہے کہ نہیں
تُو یہاں ہے کہ نہیں اور وہاں ہے کہ نہیں
لوگ بھیجے ہیں کئی خاک کے رستے سے جہاں
وہ جہاں ہے کہ نہیں ، کوئی وہاں ہے کہ نہیں
جنگ کے بعد مرے شہر میں کیا گزری ہے
مرے پیاروں کا کوئی نام و نشاں ہے کہ نہیں
وقت نے گھر کی طرف لوٹ کے جانے نہ دیا
جانے اب گھر کا کوئی نام و نشاں ہے کہ نہیں
مری بستی سے تم آئے ہو کئی برسوں سے
وہ جو چشمہ تھا وہاں، اب وہ رواں ہے کہ نہیں
اب کہو، اب تو تمہیں نصف صدی گزری ہے
زندگی اصل میں اِک کارِ زیاں ہے کہ نہیں
اِک طرف جیسے تلاطم میں پرِ کاہ کوئی
زندگی ایک طرف بارِ گراں ہے کہ نہیں
کہیں دھوکہ تو نہیں جو بھی نظر آتا ہے
دشتِ حیرت یہ بتا کوئی یہاں ہے کہ نہیں
آنکھ موندے ہوئے چلتے ہی چلے جاتے ہو
راستے میں کوئی منزل کا نشاں ہے کہ نہیں
آگ بھڑکی ہو تو پھر بھید کہاں چُھپتا ہے
دیکھ لو دور سے جنگل میں دُھواں ہے کہ نہیں
مرے دل پر تو کئی تیر کی تصویریں ہیں
ترے دل پر بھی محبت کا نشاں ہے کہ نہیں
 

شیزان

لائبریرین
حقیقتیں بتانے والے کیا ہوئے
وہ آئینہ دکھانے والے کیا ہوئے

یہ کفش بوس کس طرف سے آ گئے
وہ دھجیاں اُڑانے والے کیا ہوئے

یہ گھر جلانے والے کون لوگ ہیں
وہ مشعلیں جلانے والے کیا ہوئے

یہ قیمتیں لگانے والے آ گئے
وہ قیمتیں بنانے والے کیا ہوئے

یہ راستہُ بھلانے والے کون ہیں
وہ راستہ دکھانے والے کیا ہوئے

یہ حوصلہ شکن کہاں سے آ گئے
وہ ہمتیں بندھانے والے کیا ہوئے

یہ لوگ یا بجھے ہوئے چراغ ہیں
وہ لوگ جگمگانے والے کیا ہوئے

دیئے بجھا دیئے گئے ہیں کس لئے؟
وہ تشنگی بجھانے والے کیا ہوئے

کڑی گھڑی کہاں سے آ گئی عدیم

کڑی گھڑی نبھانے والے کیا ہوئے
 

شیزان

لائبریرین
کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا
مجھے گھر کاغذی پھولوں سے مہکانا نہیں آتا

میں جو کچھ ہوں، وہی کچھ ہوں، جو ظاہر ہے وہ باطن ہے
مجھے جھوٹے در و دیوار چمکانا نہیں آتا

میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب
مجھے دُنیا کی پستی میں اُتر جانا نہیں اتا

زرو مال و جواہر لے بھی اور ٹھکرا بھی سکتا ہوں
کوئی دل پیش کرتا ہو تو ٹھکرانا نہیں آتا

بہت کمزوریاں ہیں مجھ میں اک یہ بھی ہے کمزوری
ضرورت میں بھی مجھ کو ہاتھ پھیلانا نہیں آتا

پرندہ جانبِ دانہ ہمیشہ اڑ کے آتا ہے
پرندے کی طرف اڑ کر کبھی دانہ نہیں آتا

اگر صحرا میں ہیں ، تو آپ خود آئے ہیں صحرا میں
کسی کے گھر تو چل کر کوئی ویرانہ نہیں آتا

یہ رخش ِ وقت ہے اس پر چلے ہو تو ذرا سن لو
اسے جانا تو آتا ہے، پلٹ آنا نہیں آتا

ہوا ہے جو سدا، اس کو نصیبوں کا لکھا سمجھا
عدیم اپنے کیے پر مجھ کو پچھتانا نہیں آتا
 

شیزان

لائبریرین
دھڑکنے کی صدا تھوڑی سی تو رہنے دو سینوں میں
کوئی تو فرق رہ جائے دلوں میں اور مشینوں میں

کہاں ہیں درد کے گوہر سمندر کے دفینوں میں
یہ موتی چاہئیں تو ڈھونڈ آنکھوں کے خزینوں میں

یہ آنسو ہیں کہ دریا کشتیوں سے پھوٹ نکلے ہیں
یہ کس نے رکھ دیئے طوفان آنکھوں کے سفینوں میں

تپش ہے آنسوؤں کی وہ کہ آنکھیں ہیں چٹخنے کو
یہ لگتا ہے کسی نے آگ رکھ دی آبگینوں میں

کفِ ملبوس سے آنسو تو مجھ کو پونچھ لینے دو
عدیم اب سانپ تو ہوتے ہیں اکثر آستینوں میں
 

شیزان

لائبریرین
چمک آئے کہاں سے پیار کی لوگوں کے سینوں میں
وہ آب و تاب ہی باقی نہیں دل کے نگینوں میں

قرینہ کیا ہوا شامل محبت کے قرینوں میں
عجب اک شور سا برپا ہے ساری مہہ جبینوں میں

کسی ایسی گھڑی دل میں ہوئی مہتاب کی خواہش
ہزاروں چاند اتر آئے حسینوں کی جبینوں میں

وہ جب سے ناز اٹھائے احترامآ ناز کے تم نے
تمہارا ذکر ہی رہتا ہے ساری نازنینوں میں

خبر آئی کہ اب کلیوں کو کھلنے کی اجازت ہے
عجب پنہاں سی ہلچل مچ گئی پردہ نشینوں میں

ہوا اعلان کنعانِ سخن کا یوسف آتا ہے
سجی شہزادیاں ساری غزل کی شہ نشینوں میں

عدیم آؤ تو ڈھونڈیں ،کس کا تم نے خواب دیکھا ہے
کوئی تو مہہ جبیں ہوگی جہاں کی مہ جبینوں میں

 

شیزان

لائبریرین
ابھی میں سوچتا پھرتا تھا کچھ لفظوں کے بارے میں
وہ سب کچھ کہہ گیا مجھ کو اشارے ہی اشارے میں

کسی کے ساتھ اس کو دیکھ کر جتنا جلا ہے دل
جلن اتنی کہاں ہو گی جہنم کے شرارے میں

مُصِر ہے ساری دنیا پھر بھی اپنی جان دینے پر
اگر چہ دل کا سودا ہے خسارے ہی خسارے میں

زمانہ اور ہی باتیں ترے بارے میں کرتا تھا
یہ میں ہوں، بات جس نےکی تری آنکھوں کے بارے میں

میں یوں ہی رات کو زیرِ فلک بیٹھا نہیں رہتا
تری آنکھیں چمکتی دیکھتا ہوں تارے تارے میں

تُو میرے پاس، میرے دو قدم کے فاصلے پر تھا
میں تجھ کو ڈھونڈتا پھرتا تھا قسمت کے ستارے میں

یہ دل پگھلا ہے جیسے، موم بھی پگھلا نہ یوں ہو گا
کوئی میں نے تپش دیکھی محبت کے شرارے میں !!

نظر منظر سے خالی ہو یہ ممکن ہو نہیں سکتا
کوئی موجود رہتا ہے ہمیشہ ہی نظارے میں

 

شیزان

لائبریرین
سب دیئے وارے افق کی دار پر
تب سحر اُتری در و دیوار پر

دار سے اس کو اُتارا تو گیا
رہ گیا اس کا ہیولیٰ دار پر

کر گئے سرگوشیاں تیمار دار
اور جو گزری دلِ بیمار پر

ناؤ مانجھی نے ڈبو دی نیند میں
آ گیا الزام سب منجھدار پر

اس نے راتیں محنتوں میں کاٹ دیں
لوگ شک کرتے رہے کردار پر

اس گلی سے کھینچ تو لائے مجھے
رہ گیا سایہ اُسی دیوار پر

کشتیاں بھی کس قدر معصوم ہیں
پھر بھروسہ کر لیا پتوار پر

آؤ گے جب آؤ گے تب آؤ گے
اب یقیں آتا نہیں اقرار پر

میری اپنی تو کوئی خواہش نہیں
آ گیا ہوں میں ترے اصرار پر

زندگی چمکی چراغوں میں عدیم
رات جب اتری در و دیوار پر

 

شیزان

لائبریرین
گھر سے وہ کتنی شان سے نکلا
حادثے میں جہان سے نکلا

جو الگ آن بان سے نکلا
فرد وہ خاندان سے نکلا

سنسناہٹ سی سنسناہٹ تھی
جیسے نیزہ کمان سے نکلا

تُو کوئی اور ڈھونڈ لے کردار
میں تری داستان سے نکلا

نہ ستارہ نہ آفتاب نہ چاند
جانے کیا آسمان سے نکلا

تری محفل سے جو نکل آیا
وہ تو سمجھو جہان سے نکلا

میں نے اتنا کہاں بھلایا تھا
وہ تو وہم و گمان سے نکلا

داستاں اس قدر طویل نہ تھی
قصہ اک درمیان سے نکلا

لفظ رہ جائے گا وہی باقی
جو قلم کی زبان سے نکلا

جاں بدن سے عدیم نکلی ہے
یا بدن قیدِ جان سے نکلا


ایک ہی تھا کرایہ دار عدیم
وہ بھی دل کے مکان سے نکلا
 

شیزان

لائبریرین
شکوہ بھی کر رہے ہیں اُسی کا خدا سے ہم
ملنے بھی جا رہے ہیں اُسی بےوفا سے ہم

آ دیکھ لیں کہ دل میں کوئی چور تو نہیں
کیوں ڈر رہے ہیں آج ہر اِک آشنا سے ہم

ڈھونڈے گا تُو کہاں سے ہمیں اِس جہان میں
تیرا پتہ تو پوچھ ہی لیں گے صبا سے ہم

رکھنا ہے آپ کو جو تعلق تو دیکھ لیں
ایسے ہی تُند خُو ہیں بہت ابتدا سے ہم

ایسا مقام تو یہ سخن میں نہیں عدیم
پہنچے ہیں اِس جگہ بھی کسی کی دُعا سے ہم
 

شیزان

لائبریرین
پیار وہ بھی تو کرے، وہ بھی تو چاہے گاہے
آہ وہ بھی تو بھرے، وہ بھی کراہے گاہے

عدل تھوڑا سا تو اے عادلِ وعدہ شکناں
عہد وہ روز کرے اور نبھاہے گاہے

لے حوالے ترے کر دی ہے تعلق کی کلید
یاد کر روز اسے، مل اسے گاہے گاہے

نرم سا نور بھی ہو، گرم سی تاریکی میں
آ شبِ ہجر میں بھی صورتِ ماہے گاہے

پیار دریا ہے جو دونوں ہی طرف بہتا ہے
میں تو چاہوں اسے، وہ بھی مجھے چاہے گاہے

اتنی تکلیف بھی کیا ، یہ بھی تکلف کیسا
جو ہمیشہ نہیں ملتے ہو تو کاہے گاہے

حسن کے در پہ سدا دل کو گداگر دیکھا
بر سر تخت انا صورتَ شاہے گاہے

حسنِ دنیا بھی فسوں خیز ہے اس پر بھی نظر
جانب، کوچۂ جاناں بھی نگاہے گاہے

ہے بھروسہ تو چلو آؤ یہ وعدہ کر لیں
مر ہی جائے جو کسی اور کو چاہے گاہے

نہ سہی تو نہ سہی وصل ہمیشہ کا عدیم
نہ ملے تو نہ ملے روز، پہ گاہے گاہے
 

شیزان

لائبریرین
پہلے فسانہ کیا تھا ترا ،اب فسانہ کیا
تجھ پر کوئی یقین کرے گا زمانہ کیا

ہم ایک دوسرے سے بندھے تو نہیں ہوئے
جانے کا کوئی ڈھوند رہے ہو بہانہ کیا

رہتا ہے میرے سامنے ہر پل ترا خیال
تیرا کسی سے ذکر کروں غائبانہ کیا

تیرے تو ہاتھ کانپ رہے ہیں مثالِ برگ
تجھ سے ہمارے دل پہ لگے گا نشانہ کیا

شب کا قیام کیا ہے، کرو عمر بھر قیام
یہ سوچ لو کہ ہم کو کہے گا زمانہ کیا

ہونٹوں پہ تیرے وردِ خدا اس قدر ہے کیوں
ایسا گناہ تُو نے کیا کافرانہ کیا

کچھ کام کر لیا ہے تو سر کو اٹھا کے چل
اتنا بھی اب مزاج بھلا عاجزانہ کیا

یہ وار تُو نے دل پہ کیا قاتلانہ کیا
تجھ کو خبر ہے تجھ کو کہے گا زمانہ کیا

اتنے بڑے قدم جو اٹھاتا ہے تُو عدیم
ایسے میں تیرے ساتھ چلے گا زمانہ کیا
 

شیزان

لائبریرین
جسے عدیم سدھارے ہوئے زمانہ ہوا
اُسی کے ساتھ یہ دل بھی کہیں روانہ ہوا


بس ایک ہُوک دھڑکتی ہے اب تو سینے میں
ہمارے دل کو تو دھڑکے ہوئے زمانہ ہوا


دُھواں سا ہے، نہ بھڑکتا ہے دل نہ بجھتا ہے
اِسی طرح سے سلگتے ہوئے زمانہ ہوا

اُدھر تو جا کے کوئی گھر کو لوٹتا ہی نہیں
یہ کس طرف کو ترا کارواں روانہ ہوا

یہ فیصلہ تو بہت دیر سے تھا ذہنوں میں
ہماری آج کی باتیں تو اک بہانہ ہوا

نظر کا وار تھا، پہلا ہی قاتلانہ ہوا
پھر اس کے بعد وہ قاتل کبھی رِہا نہ ہوا

کہاں تلاش کریں، کس جگہ اُسے ڈھونڈیں
ہمارا اُس سے تعارف ہی غائبانہ ہوا

گزر گیا وہ جو لمحہ تھا اُس کی چاہت کا
عدیم اب وہ ہمارا ہوا، ہوا نہ ہوا

عدیم، غالب و آتش ہوئے ، یگانہ ہوا
یہی وہ لوگ، مرا جن سے دوستانہ ہوا
 

شیزان

لائبریرین
اگر ارماں نہ ہوں دل میں تو دل محوِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو آتش درختوں میں تو جنگل میں دُھواں کیوں ہو

یہ میرا درد اپنا ہے، کسی پر بھی عیاں کیوں ہو
کسی کی آنکھ سے میرا کوئی آنسُو رواں کیوں ہو

جدائی آپ مانگی ہے تو پھر یادیں بھی کیوں اُس کی
اگر اتنے جفا کش ہو تو زیرِسائباں کیوں ہو

جب اپنا اپنا رستہ ہے، جب اپنی اپنی منزل ہے
تو کیوں مجھ پر سوال اتنے، یہاں کیوں ہو وہاں کیوں ہو

خوشی کی آبرُو ہے تو غموں کی آبرُو بھی ہے
جو مٹی میں ہی ملنا ہے تو پھر آنسُو رواں کیوں ہو

ہماری بات میں بولے ، زمانہ کون ہوتا ہے
ترا میرا تعلق ہے تو کوئی درمیاں کیوں ہو

تعلق ختم کرنا ہو تو اُس کے سو طریقے ہیں
یہ اتنی برہمی کیسی، تم اتنے سرگراں کیوں ہو

کسی کو کیا بتاؤں میں کہ میرے دل پہ کیا گزری
مرے غم کی کہانی ساری دنیا پر عیاں کیوں ہو
 
آخری تدوین:

شیزان

لائبریرین
ازل سے جو سروں پر ہے، ہمیشہ وہ سماں کیوں ہو
نئے ہیں ہم زمیں پر تو پرانا آسماں کیوں ہو

ہرا سورج کبھی نکلے، ستارے سرخ ہو جائیں
وہی پیلے سے انگارے، وہی نیلا دھواں کیوں ہو

شمالآ اور جنوبآ بھی ستارے چل تو سکتے ہیں
سدا مغرب کی جانب ہی رواں یہ کارواں کیوں ہو

دوپٹہ جیسے پھیلا ہو کسی بیوہ سی بڑھیا کا
زمیں کے سر پہ دن کا زرد سایہ سائباں کیوں ہو

کبھی اڑتی ہو
ئی یہ دھول بیٹھے بھی ستاروں کی
ہمیشہ سر پہ ساکت سا غبارِکہکشاں کیو ں ہو

مجھے یہ چاند پاگل کیوں لگے کوئی ستاروں میں
ہمیشہ پتھروں کا ہی ستاروں پر گماں کیوں ہو

کبھی نقطے ستاروں کی لکیروں میں بدل جائیں
سدا یہ رات کی چادر مثالِ پرنیاں کیوں ہو

اگر بنیاد چاہت ہو عدیم اس آفرینش کی
خطر کیوں ہو، حذر کیوں ہو، شرر کیوں ہو، دھواں کیوں ہو
 

شیزان

لائبریرین
یہ تو نہیں عروجِ بہاراں چشیدہ ہوں
اے موسمِ خزاں میں ابھی نودمیدہ ہوں

روتا نہیں ہوں، قیمتِ گریہ کا علم ہے
ہنستا ہوں اس لیے کہ تبسم گزیدہ ہوں

وہ سامنے ہے پھر بھی مجھے دیکھتا نہیں
میں آفریدہ ہو کے بھی نا آفریدہ ہوں

میری صدا جدھر ہے، ادھر کی ہوا نہیں
آواز ہوں ضرور مگر ناشنیدہ ہوں

ڈر ہے کہ آنسوؤں میں کہیں تُو نہ ڈوب جائے
تُو سامنے نہ آ، میں ابھی آبدیدہ ہوں

سب عارضی حروف ہیں تحریرِ وقت کے
مجھ میں یہ فرق ہے کہ ذرا خط کشیدہ ہوں

مجھ کو دہن سے مُشک سخں کھینچنا پڑی
میں کربلائے لفظ میں بازو بریدہ ہوں

اب تک سوالِ ہجر کا سوجھا نہیں جواب
اک عمر ہو گئی ہے یونہی سر خمیدہ ہوں

اک آفتابِ ہجر فلک پر ہوا طلوع
لگتا ہے صد ہزار قیامت چشیدہ ہوں

دُھلتا نہیں ہے آنکھ سے منظر جدائی کا
حالانکہ میں تو شا م و سحر آبدیدہ ہوں
 

شیزان

لائبریرین
جب ضبط کروں دل سے نکلتی ہے فغاں اور
میں آگ بجھاتا ہوں تو اٹھتا ہے دھواں اور

تم دل کے نگر میں اسے ڈھونڈو گے کہاں اور
وہ شخص تو ہر روز بدلتا ہے مکاں اور

بادل ہے وہ پل پل بدلتا ہے ہوا سے
کیا اس کا بھروسہ ہے ، یہاں اور وہاں اور

اس جسم سے مٹتے ہی نہیں وصل کے آثار
میں ہاتھ لگاتا ہوں تو پڑتے ہیں نشاں اور

جب دو گے دل و جاں تو خبر تب تمہیں ہو گی
لینا دل و جاں اور ہے، دینا دل و جاں اور

شاید کہ فلک شدتِ حدت سے چٹخ جائے
اک آہ ذرا زور سے اے غم زدگاں اور

تم مانگ میں افشاں تو ذرا وصل کی بھر لو
ممکن ہے کہ بن جائے کوئی کاہکشاں اور

کچھ پھول کھلائے تو ہیں غالب کی زمیں میں
دو چار گھڑی آئے نہ اے کاش خزاں اور

نذرانہ سخن کا یہ عدیم اس کے لیے ہے
وہ جس کا زمانے میں ہے اندازِ بیاں اور


رک جاؤ عدیم ، اپنا سخں سنگ بنا لو
بھاگو گے تو بڑھ جائے گی آوازِ سگاں اور
 

شیزان

لائبریرین
آنسو جلائے تیرگیِ شام کے لیے
رکھے تھے یہ چراغ اسی کام کے لیے

ملنے سے پیشتر ہی بچھڑتے ہو کس طرح
آغاز تو کرو کسی انجام کے لیے

بہتان بعد میں، مجھے مل تو سہی کبھی
بنیاد تو بنا کوئی الزام کے لیے

وہ چاند اور اس سے ملاقات دن کے وقت
یہ روشنی سنبھال کسی شام کے لیے

اک سرخ دائرہ سا لبوں کا تھا جام پر
اٹھے تمام ہاتھ اسی جام کے لیے

یہ کہہ کے اس نے صاف ہی انکار کر دیا
یہ خاص دل نہیں ہے کسی عام کے لیے

سینہ ہے ،کوئی مقبرہء آہ و غم نہیں
اس میں جگہ نہیں دلِ ناکام کے لیے

تجھ سے ہے زندگی کے شب و روز کا وجود
سورج ہے جیسے گردشِ ایام کے لیے

وہ بےوفائی ہو کہ ستم ہو کہ قہر ہو
اچھا ہے وہ،بہت ہی برے کام کے لیے

شاعر ہی کوئی لائے تو لائے خیالِ خاص
اب تو نبی نہ آئیں گے الہام کے لیے

کتنے سلام، کتنے پیام آ گئے عدیم
بیٹھا ہوا تھا میں ترے پیغام کے لیے
 
Top