حضورِ یار چلے جب بھی ،سر جھکا کے چلے
یہی لگا ہے کہ ہم سامنے خدا کے چلے
ہم اس لئے تو دیئے سے دیا جلا کے چلے
ہمیں خبر تھی کہ ہم سامنے ہوا کے چلے
یہ پُل صراط نہیں، یہ ہے پُل محبت کا
بڑے بڑے ہیں جو اِس پُل پہ ڈگمگا کے چلے
چمن تو خیر، چٹانوں میں پھول کھل جائیں
وہ ایک پل بھی ذرا سا جو مسکرا کے چلے
جہاں میں پھیل گئی ہیں ہتھیلیاں تیری
ہر ایک ہاتھ پہ جادو تری حنا کے چلے
جہاں کسی کا بھی جادو نہ چل سکا کوئی
فسون و سحر وہاں بھی تری ادا کے چلے
عدیمؔ ایسا کوئی ہمسفر جو تجھ سا ہو
قدم قدم سے ، نظر سے نظر مِلا کے چلے
کرن کرن تڑپ اٹھی خود اپنی حدت سے
جب آفتاب کو ہم آئینہ دِکھا کے چلے
پیمبری کا زمانہ تو یہ نہیں ہے عدیمؔ
یہ کون ہے جو دکھوں میں بھی مسکرا کے چلے
عدیمؔ رات کی جانب چلو جو چلنا ہے
"چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے"