بھارتی مصنفہ کا اعتراف

F@rzana

محفلین
انیس سالہ بھارتی نژاد مصنفہ کا ناول اشاعت کے کچھ ہفتے بعد ہی تمام دکانوں سے واپس منگا لیا گیا۔ کاویا وسواناتھن نے اعتراف کیا تھا کہ ان کے ناول میں کئی پیراگراف ایک دوسری مشہور مصنفہ کے ناول سے ملتے جلتے ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں سال دوئم کی طالبہ کاویا وسواناتھن اس وقت مشہور ہوئیں جب انہیں صرف سترہ برس کی عمر میں لٹل، براؤن اینڈ کمپنی نامی پبلشنگ کمپنی نے دو ناول لکھنے کے پانچ لاکھ ڈالر کے لگ بھگ ادا کرنے کا معاہدہ کیا۔

’ہاؤ اوپل مہتا گاٹ کسڈ، گاٹ وائلڈ اینڈ گاٹ اے لائف‘(How Opal Mehta Got Kissed, Got Wild and Got a Life) اس سلسلے کا پہلا ناول تھا۔

اس ناول سے متعلق تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب ہارورڈ یونیورسٹی کے اخبار دی ہارورڈ کرمزن نے خبر شائع کی کہ مس وسواناتھن کے ناول اور نوجوانوں کے لیے ناول لکھنے والی ایک دوسری مصنفہ میگن میکیفرٹی کے ناولوں سلاپی فرسٹس (Sloppy Firsts) اور سیکنڈ ہیلپنگز (Second Helpings) کے کچھ پیراگرف اتنے ملتے جلتے ہیں کہ کہا جا سکتا ہے کہ مس وسواناتھن نے باقاعدہ ان ناولوں کی نقل ماری ہے۔

میگن میکیفرٹی کی پبلشنگ کمپنی کراؤن کا الزام ہے کہ ایسے پیراگرافوں کی تعداد چالیس یا اس سے زیادہ ہے۔ انہوں نے اسے ’چوری‘ قرار دیا ہے۔



وسواناتھن نے ذرائع ابلاغ میں بار بار مس میکیفرٹی سے معافی مانگی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر نقل نہیں ماری بلکہ یہ غیر ارادی طور پر ہوا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے بھی ہائی سکول میں مس میکیفرٹی کے دونوں ناول پڑھے تھے اور انہیں بھی وہ ناول بہت پسند آئے تھے۔ اور انہیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ ان پر ان ناولوں کا کتنا اثر تھا۔

میگن میکیفرٹی کی پبلشنگ کمپنی نے یہ دلیل رد کر دی ہے۔ کمپنی کے صدر سٹیو راس کا کہنا ہے : ’ ہمارا خیال ہے کہ ملتے جلتے پیراگرافوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ممکن نہیں کہ یہ غیر ارادی طور پر ہوگیا ہو‘۔

مس وسواناتھن کے اپنے پبلشر نے بیان دیا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ نوجوان مصنفہ نے جان بوجھ کر نقل نہیں ماری۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ناول میں سے جلد از جلد متنازعہ پیراگراف تبدیل کر دیں گے۔

اس تنازعے نے ناول کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔ اس اتوار کو ناول اخبار دی نیو یارک ٹائمز کے سب سے زیادہ بکنے والے ناولوں کی لسٹ میں بتیسویں نمبر پر ہوگا۔

مس وسواناتھن امریکہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے بھارتی والدین ریاست نیو جرسی میں رہتے ہیں اور وہ اکلوتی اولاد ہیں۔

ان کا ناول اوپل مہتا ایک ایسی بھارتی امریکی لڑکی کی کہانی ہے جو بہت پڑھاکو ہوتی ہے اور ہمیشہ بہترین گریڈ لیتی ہے لیکن جب وہ اپنی من پسند ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتی ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ اسے اس لیے داخلہ نہیں مل سکتا ہے کہ پڑھائی کے علاوہ اس کی کوئی سماجی زندگی نہیں۔

اوپل مہتا کہ والدین ایک منصوبہ بناتے ہیں کہ کس طرح ان کی بیٹی وہ تمام کام کرے جو عام امریکی لڑکیاں کرتی ہیں تاکہ اسے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل سکے۔

ہالی وڈ کی مشہور کمپنی ڈریم ورکس پہلے ہی اس ناول پر مبنی فلم بنانے کے حقوق خرید چکی ہے۔

بشکریہ بی بی سی۔اس بابت مزید:http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/story/2006/04/060429_indian_novelist.shtml
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت خوب۔ بھارتی بھی ہمارے جیسے ہیں۔ جیسے بھی ہوں، جہاں بھی رہیں، ڈنڈی مارنا عام سی بات ہے۔ویسے اب تو آجائیں؟
بے بی ہاتھی
 

قیصرانی

لائبریرین
ارے نہیں‌محب بھائی۔ فرزانہ صاحبہ اتنی اچھی ساتھی ہیں، یقین کریں‌کہ میں دو تین دن سے انہیں اتنا مٍس کر رہا ہوں کہ کیا بتاؤں؟ وہی تو ایک میری ہم مزاج تھیں۔ :D دعا کریں بس۔
بے بی ہاتھی
 

شمشاد

لائبریرین
کر بھلا سو ہو بھلا، اللہ بڑا کارساز ہے،

میں تو انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا ہوں، حتی کے ٹمبکٹو تک کی ساری جیلیں بھی جھانک آیا ہوں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
شمشاد نے کہا:
کر بھلا سو ہو بھلا، اللہ بڑا کارساز ہے،

میں تو انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا ہوں، حتی کے ٹمبکٹو تک کی ساری جیلیں بھی جھانک آیا ہوں۔
ارے واقعی؟ اب کیا ہوگا؟ اتنی اچھی سی ہماری دوست فرزانہ صاحبہ گم ہو گئی ہیں۔اللہ میاں سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ہماری دوست واپس لا دیں۔
میرے پیارے اللہ میاں! ہم سب کی آپ سے یہ درخواست ہے کہ آپ ہماری اتنی اچھی اور پیاری سی دوست، محترمہ فرزانہ صاحبہ، جن کو آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں، ان کو اس فورم میں جلدی سے واپس لائیں۔انہیں کہیں‌کہ جب وہ آئیں گی تو میں انہیں مزے مزے کی کہانیاں بھی سناؤں گا اور انہیں چاکلیٹ بھی کھانے کو دوں گا۔ اگر وہ مجھ سے یا ہم میں سے کسی سے ناراض ہیں تو انہیں کہیں کہ یہاں‌ آئیں تاکہ ان کی ناراضگی دورکی جاسکے۔
بہت بہت شکریہ اللہ میاں
آپ کا بندہ، منصور
 

زیک

مسافر
یہ آپ کیا ہر تانے بانے میں فرزانہ کی غیرموجودگی کا ذکر لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ کچھ موضوع کا بھی خیال کر لیا کریں۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ دھاگہ انہوں نے کھولا تھا، اور خود غائب ہیں، شاید اس لیے ان کا ذکرِ خیر ہو رہا ہے۔
 

تیشہ

محفلین
شمشاد نے کہا:
آمین۔

کہانیاں انہیں سنااتے رہیے گا، چاکلیٹ ادھر بھجوا دیںا۔



:roll: کیا بات کرتے ہیں ؟ فرزانہ کو کہانیاں سنانے کو آلریڈی اُن کے اپنے مجود ہیں جناب ، : Allah انکا سایہ سلامت رہے ، اور فرزانہ انہی سے کہانیاں سنتی رہیں ، :lol:
 

شمشاد

لائبریرین
قیصرانی صاحب آپ کا کہانیاں سنانے کا چانس تو گیا، تو کیا میرا چاکلیٹ کا چانس بھی مارا گیا۔
 

تیشہ

محفلین
شمشاد نے کہا:
قیصرانی صاحب آپ کا کہانیاں سنانے کا چانس تو گیا، تو کیا میرا چاکلیٹ کا چانس بھی مارا گیا۔


:roll: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :lol:

جناب ، کہانیاں اپنے اپنے کہانی نویسوں سے ہی سنی سنائی جائے تو بہتر ہوتا ہے ، رہی چاکلیٹ تو وہ آپ قریبی شاپ سے بائے کیجئے اور کھا لیں یہی سوچئیے گا قیصرانی نے ہی بیھجی ہیں ،
:p
 

شمشاد

لائبریرین
باجو آپ بھی ناں، مفت کی چاکلیٹ ملنے والی تھی آپ نے وہ بھی واپس کروا دی، مجھے نہیں پتہ اپ یہ چاکلیٹ آپ کے ذمے۔ :cry:
 

تیشہ

محفلین
:p مفت کی کھائی ہوئی آسانی سے ہضعم نیہں ہوتیں ، اس لئے خود سے خرید کے کھایں گے تو اچھا رہے گا :D :p
 

شمشاد

لائبریرین
بوچھی نے کہا:
:p مفت کی کھائی ہوئی آسانی سے ہضعم نیہں ہوتیں ، اس لئے خود سے خرید کے کھایں گے تو اچھا رہے گا :D :p

ٹرائی کرنے میں کیا حرج ہے۔ زیادہ سے زیادہ پیٹ ہی خراب ہو گا نا، کوئی بات نہیں میڈیکل فری ہے۔
 
Top