بلاگ پر لکھی جانے والی تحریریں ادب کا حصہ ہیں یا نہیں؟

میرے خیال سے ادبی تنقید کا مقصد ادب کا معیار بہتر کرنا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی مصنف تنقید کے بعد اپنے فن پارے میں مناسب تبدیلی کر لے تو اس سے قاری کو کیا فرق پڑے گا؟ :)
آپ نے پتے کی بات کہی ہے بھائی جان:laughing:سہی ہے۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت مناسب بات کہی آپ نے۔ لیکن جہاں تک میری رائے کا تعلق ہے تو اس کے لیے مصنف کو نئے سرے سے کوشش کرنی چاہیے۔
 

پردیسی

محفلین
محترم اصلاحی صاحب کا سوال صرف یہ ہے کہ،
بلاگ پر لکھی جانے والی تحریریں ادب کا حصہ ہیں یا نہیں؟
سب سے پہلے تو یہ دیکھنا یا جاننا پڑے گا کہ ادب کیا ہے ؟
بغیر کسی تہمید یا آسان لفظوں میں یوں سمجھئے کہ اپنی حدود میں قید خوبصورت الفاظوں سے سجی سنوری تحریر جس میں کوئی مقصد چھپا ہو کو ہم ادبی تحریر کہہ سکتے ہیں ۔
کچھ لوگ کسی اچھی تحریر کو بھی ادبی کہتے ہیں جو کہ پابند ہو اپنے اسلوب کی،
ویسے شاعری بھی ادب کا ہی حصہ ہے
اب آتا ہوں آپ کے سوال کی جانب کہ ،بلاگ پر لکھی جانے والی تحریریں ادب کا حصہ ہیں یا نہیں؟
پہلے یہ دیکھا جائے بلاگ کہتے کس کو ہیں۔۔۔۔یعنی کہ ایک ایسی ڈائری جس میں آپ اپنی سوچ کو اتارتے ہیں، یعنی یوں جانئے کہ آپ کی وہ تمام یادیں جسے آپ تحریری طور پر محفوظ کر رہے ہیں۔
اب کچھ سوچیں ایسی ہوتی ہیں جو کہ بالکل ذاتی ہیں اور کچھ سوچیں ایسی جسے آپ دوسروں کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں یا بانٹنا چاہتے ہیں۔
ایک ذاتی ڈائری میں تو آپ انہیں علیحدہ علیحدہ کر سکتے ہیں۔۔۔یعنی کچھ لکھیں اور کچھ کسی خوف سے نہ لکھیں
مگر بلاگ ان تمام پابندیوں سے آزاد ہے۔جو جی چاہے لکھیں۔۔بالکل آزادی سے اور بے فکری سے۔۔(یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے ہاں ایسی اآزادی نہیں ہے)
اب رہ گئی بات کہ یہ تحریریں ادب کا حصہ ہیں یا نہیں۔۔۔۔۔۔ اس کا بالکل سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگر منٹو ، عصمت چغتائی ، بیدی وغیرہ کی تحریریں ادب کا اعلی اور بہترین نمونہ ہیں تو ایک بلاگر کی تحریریں بھی ادب کا اعلی ترین نمونہ ہیں اور ادب کا ہی حصہ ہیں
منٹو ، عصمت چغتائی ، بیدی وغیرہ نے وہ لکھا جو انہوں نے محسوس کیا
اور بلاگر بھی وہی لکھتا ہے جو وہ محسوس کرتا ہے
 

رانا

محفلین
منٹو ، عصمت چغتائی ، بیدی وغیرہ نے وہ لکھا جو انہوں نے محسوس کیا
اور بلاگر بھی وہی لکھتا ہے جو وہ محسوس کرتا ہے

آپ کی اس بات کو پڑھ کر ایک نو آموز ادیب کے حوالے سے بلاگ کا یہ فائدہ بھی زہن میں آیا کہ کم از کم بلاگ کی تحریر چھپنے میں کسی کی محتاج نہیں ہوتی۔ وہ جو محسوس کرے گا اسے ادب کی کسی صنف کے ذریعے لوگوں تک پہنچادے گا۔ عصمت چغتائی کا ایک افسانہ اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا جس پر بعض لوگوں کا ردعمل اتنا شدید تھا اور عصمت چغتائی کو اتنا برا بھلا کہا گیا کہ اردو ڈائجسٹ کو معذرت کرنی پڑی کہ یہ غلطی سے شائع ہوگیا ہے۔ لیکن عجیب اتفاق کہ دوسرے ہی مہینے پھر ایک اور افسانہ عصمت چغتائی کا شائع ہوگیا اور اگلے مہینے پھر اردو ڈائجسٹ کو معذرت کرنی پڑی کہ یہ بھی غلطی سے شائع ہوگیا ہے۔
 
"مواد" پر منحصر ہے ۔۔۔ آیا مواد بھی اس قابل ہے کہ اسے ادب کی ذیل میں شمار کیا جائے ۔۔۔ ۔ بلاگ تو محض ایک ذریعہ ہے ۔۔۔ اگر مواد اس قابل ہے کہ اسے "ادب" میں شمار کیا جا سکے تو کیا مضائقہ ہے؟

بہت مناسب بات کی ہے، جناب شہزاد احمد نے!
 
ادب اور میڈیا میں فرق ہے۔
کوئی تحریر یا کلام، وہ زبانی ہو، تحریری ہو، صوتی ہو جس صورت میں ہو، وہ تو ہوا میڈیا (ذریعہ، ذرائع ابلاغ)۔
یہ سوال دوسرا ہے کہ وہ تحریر یا کلام ’’ادب‘‘ ہے یا نہیں۔ اگر وہ ادب ہے تو جہاں بھی ہے، ادب ہے۔ اگر ادب نہیں ہے تو نہیں ہے۔
 
یہاں ایک اور سوال اٹھایا گیا: ’’یہ کون طے کرے گا کہ فلاں تحریر ادب ہے یا نہیں؟‘‘
صاحبو! ادب اور اس کے معیارات معروف ہیں، اس میں ’’کون‘‘ کی گنجائش نہیں۔ ایک تحریر بالعموم ’’ادب‘‘ سمجھی جاتی ہے تو وہ ادب ہے، اس کے محاسن اور معایب پر بات ہو سکتی ہے، لکھاری کو مشورہ دیا جا سکتا ہے، وغیرہ۔ اور یہ بہت طویل بحث ہے۔ تنقید بھی اسی بحث کا ایک حصہ ہے۔
 
انٹرنیٹ کے زمانے میں آ کر فرق اگر پڑتا ہے تو میڈیا کا۔ ہم نسل ہا نسل سے مطبوعہ کتابوں سے مانوس ہیں اور انہی کو حوالہ جانتے ہیں، اس میں قباحت بھی کوئی نہیں تاہم اس کے پیش منظر کو وسیع کرنا ہو گا۔
انٹرنیٹ پر مختلف فورم ہیں، بلاگ ہیں، وغیرہ وہاں ادب پیش بھی کیا جاتا ہے، اس پر گفتگو بھی ہوتی ہے۔ گویا تحقیق، تخلیق، تنقید، تنقیح سب کچھ ہوتا ہے۔ اور اس کے منافی بھی ہوتا ہے؛ ادب کے نام پر ’’کچھ اور‘‘ پیش کیا جاتا ہے، اس پر تالیاں بھی پیٹی جاتی ہیں۔ تاہم قابلِ غور بات یہ ہے، کہ ایسے منفی رویے کیا انٹرنیٹ تک محدود ہیں؟ ہرگز نہیں! مطبوعہ ادب اور تنقید میں بھی مثبت اور منفی دونوں طرح کے رویے ملتے ہیں۔
گویا ہمارے پاس تین چیزیں آ گئیں۔
1۔ ادب اگر ادب ہے تو ادب ہے، میڈیا اس کا کچھ بھی رہا ہو۔
2۔ ادب اور تنقید میں مثبت، منفی، تعمیری، تخریبی رویے کسی میڈیا سے مشروط نہیں ہیں۔
3۔ نئے ذرائع ابلاغ تخلیق، تحقیق اور تنقیح کے شعبوں میں وسعت کا باعث بن رہے ہیں۔
 
اصل مسئلہ وہی ہے جسے بہت پہلے information blast کا نام دیا گیا۔
ایک دم اتنا کچھ منظر پر آ جاتا ہے کہ ادیب، محقق، نقاد، قاری اس سب کچھ کو اتنی تیزی سے یا تو جان نہیں پاتا یا پھر اس پر پوری توجہ دے نہیں پاتا کہ کوئی نہ کوئی نئی چیز نئی بات سامنے آ جاتی ہے۔ سچی بات بھی یہ ہے کہ آپ کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت بھی ہو، وقت بھی ہو اور آپ محاورتاً چوبیس گھنٹے تازہ نہ تازہ تخلیقات اور تنقیدیات کمپیوٹر پر دیکھ بھی رہے ہوں ۔۔۔ پھر بھی انفارمیشن آگے نکل جاتی ہے، آپ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یعنی قاری پوری انفارمیشن کا احاطہ کر نہیں پاتا۔

یہ وہ صورت ہے جو اس طرح کے ہزاروں سوالوں کو جنم دیتی ہے۔
 
بلاگ، فورم، ان پر پیش کی جانے والی تخلیقات (ادب بشمول غیر ادب)، تنقید، تبصرے، بلاگ یا فورم والے کا ان کو قائم رکھنا یا مٹا دینا۔ یہ تو رویے ہیں۔ ایک شخص کسی ایک فورم یا بلاگ سے منسلک ہے تو اسے ایک دو ماہ میں اس فورم یا بلاگ کے رویوں کا ادراک ضرور ہو جاتا ہے، وہ بھی تو اپنی کوئی رائے رکھتا ہے نا! اس کا اظہار بھی کرتا ہے۔ مگر وہی ’’اتنا شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی‘‘ کے مصداق بہت سارے اظہاریے گم ہو جاتے ہیں۔

تو ۔۔۔ یہی ہے صاحبو! کہ دیکھ بھال کر سوچ سمجھ کر چلنا ہے، دیکھنا ہے، سننا ہے، کہنا ہے!۔
 

نایاب

لائبریرین
بامقصد بات کا ابلاغ کسی بھی ذریعے سے ہو " ادب " میں شمار ہوتی ہے ۔
سو میرے ناقص خیال سے بلاگز پر لکھی جانے والی بامقصد تحاریر آنے والے وقت میں " ادب " میں ہی شمار ہوں گی ۔
" ادب " نام ہے کسی ذی شعور حساس انسان کی اس سوچ کا جو کہ معاشرتی واقعات و حالات پر جذبہ " تحسین و تنقید " کے زیر اثر ابھرتی ہے ۔
اور تحریر و تقریرکی صورت میں دوسرے انسانوں کے سامنے آتی ہے ۔ اور وہ اس سے " آگہی " اخذ کرتے ہیں ۔
محترم پردیسی بھائی کا اظہار خیال لفظ " ادب " کو پوری معنویت سے بیان کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
محترم اصلاحی صاحب کا سوال صرف یہ ہے کہ،

سب سے پہلے تو یہ دیکھنا یا جاننا پڑے گا کہ ادب کیا ہے ؟
بغیر کسی تہمید یا آسان لفظوں میں یوں سمجھئے کہ اپنی حدود میں قید خوبصورت الفاظوں سے سجی سنوری تحریر جس میں کوئی مقصد چھپا ہو کو ہم ادبی تحریر کہہ سکتے ہیں ۔
کچھ لوگ کسی اچھی تحریر کو بھی ادبی کہتے ہیں جو کہ پابند ہو اپنے اسلوب کی،
ویسے شاعری بھی ادب کا ہی حصہ ہے
اب آتا ہوں آپ کے سوال کی جانب کہ ،بلاگ پر لکھی جانے والی تحریریں ادب کا حصہ ہیں یا نہیں؟
پہلے یہ دیکھا جائے بلاگ کہتے کس کو ہیں۔۔۔ ۔یعنی کہ ایک ایسی ڈائری جس میں آپ اپنی سوچ کو اتارتے ہیں، یعنی یوں جانئے کہ آپ کی وہ تمام یادیں جسے آپ تحریری طور پر محفوظ کر رہے ہیں۔
اب کچھ سوچیں ایسی ہوتی ہیں جو کہ بالکل ذاتی ہیں اور کچھ سوچیں ایسی جسے آپ دوسروں کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں یا بانٹنا چاہتے ہیں۔
ایک ذاتی ڈائری میں تو آپ انہیں علیحدہ علیحدہ کر سکتے ہیں۔۔۔ یعنی کچھ لکھیں اور کچھ کسی خوف سے نہ لکھیں
مگر بلاگ ان تمام پابندیوں سے آزاد ہے۔جو جی چاہے لکھیں۔۔بالکل آزادی سے اور بے فکری سے۔۔(یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے ہاں ایسی اآزادی نہیں ہے)
اب رہ گئی بات کہ یہ تحریریں ادب کا حصہ ہیں یا نہیں۔۔۔ ۔۔۔ اس کا بالکل سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگر منٹو ، عصمت چغتائی ، بیدی وغیرہ کی تحریریں ادب کا اعلی اور بہترین نمونہ ہیں تو ایک بلاگر کی تحریریں بھی ادب کا اعلی ترین نمونہ ہیں اور ادب کا ہی حصہ ہیں
منٹو ، عصمت چغتائی ، بیدی وغیرہ نے وہ لکھا جو انہوں نے محسوس کیا
اور بلاگر بھی وہی لکھتا ہے جو وہ محسوس کرتا ہے
 
کمرشل ادب اور ادبِ عالیہ میں فرق ہوا کرتا ہے ۔۔۔ اس متعلق کوئی کتاب دیکھ لیجیے ۔۔۔ فی زمانہ بلاگنگ کو ادیب لوگ زیادہ لفٹ نہیں کرواتے لیکن ایک وقت ایسا آئے گا جب بلاگز میں موجود تحاریر کو بھی سنجیدگی سے لیا جائے گا ۔۔۔ اپنی بات کو دہراؤں گا ۔۔۔ "مواد" پر منحصر ہے ۔۔۔ اگر مواد اس قابل ہے کہ اسے ادب کی ذیل میں شمار کیا جا سکے تو پھر کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ بلاگ میں شامل تحاریر کو ادب کے دائرے میں شامل نہ کیا جائے ۔۔۔
بھائیشہزاد احمدمیرے خیال میں یہاںکمرشل ادب اور ادبِ عالیہ کی بات نہیں ہے بلکہ اس بات جتنے جھگڑے ہو رہے ہیں ان پر غایر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ در اصل جھگڑا ایک ہے۔اور وہ دو نسلوں کا یعنی بڈھوں اور نوجوانوں کا جھگڑا ہے ،اور مجھے اس میں زیادتی بڈھوں کی معلوم ہوتی ہے۔بڈھوں کو نوجوانوں سے زیادہ سے زیادہ یہ شکایت ہو سکتی ہے کہ وہ خود سر ہیں ،بڈھوں کا کہنا نہیں مانتے جوانی تو خیر بقول انھیں بڑے بوڑھوں کی دیوانی ہوتی ہے۔اور دیوانے کو یوں بھی کچھ نہیں کہا کرتے۔لیکن مجھے سب سے زیادہ حیرت ان ہوش مند اور فرزانہ بڈھوں پر ہوتی ہے جو نوجوانوں کو بھی خواہ مخواہ شکنجے میں کس کر وہیں رکھنا چاہتے ہیں۔جہاں وہ خود ہیں۔زیادہ حیرت اس لئے ہوتی ہے کہ کہ بڈھے خود اپنی زندگی میں سے جوان اور جوان سے بوڑھے ہو چکے ہیں۔اپنے ریشے ریشے میں محسوس کر چکے ہیں کہ زمانہ ایک متحرک قوت ہے جو آگے بڑھتی رہتی ہے۔اور زندگی ایک نامیاتی حقیقت ہے جو بدلتی رہتی ہے اور روز بروز سے زیادہ مہذب اور پہلے سے زیادہ مکمل ہوتی جاتی ہے۔پھر کسی طرح سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ کیوں چاہتے ہیں کہ نئی نسل بھی اسی منزل پر رہے جہاں پرانی نسل ہے۔میں اس کی نفسیات پر غور کرتا ہوں تو سوا حسد اور کم بینی کے اور کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔نوجوان تو بوڑھوں پر ہنستے ہیں ،اور یہ دونوں نسلوں کے لئے بڑی تکلیف دہ بات ہے۔بڈھوں کی رجعت پسندی کو تو معاف بھی کیا جا سکتا ہے۔لیکن ان کی ہٹ دھرمی کسی طرح گوارا نہیں کی جا سکتی اس لئے کہ اس سے زندگی کی بالیدگی خطرے میں پڑ تی ہے۔بچوں کی ضد تو ایک معصوم اور بے ضرر چیز ہوتی ہے اس لئے کہ اس کی بنیاد نادانی ہے۔لیکن بڈھوں کی ہٹ ان کی بد خوئی اور حق نا شناسی کی دلیل ہے۔اس لئے کہ سب کچھ دیکھ بھال کر اور جان بوجھ کر ہٹ کرتے ہیں۔اور اگر میرا یہ خیال گلط ہے تو پھر ہمارے بڑے بوڑھوں میں اتنی فراخ دلی اور نیک نیتی کیوں نہیں کہ وہ ہم سے کہ سکیں۔
پیو شراب جوانوں کہ موسم گل ہے
ہمیں بھی یاد وہ عہد شباب آیا
اگر پچھلی نسل والے اپنی زندگی کے دن گذار چکے ہیں اور اپنے مقدر کی تکمیل کر چکے ہیں۔اگر اب وہاپنے میں اتنی سکت نہیں پاتے کہ نئی نسل کی نئی زندگی میں اس کے شریک کار ہیں ،تو کم سے کم ان کو اتنی توفیق ہونا ہی چاہئے کہ خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ہم کو نئی زندگی اور اس کے نئے مقدر کی تکمیل کے لئے چھوڑ دیں۔
میرا خیال ہے کہ بڈھے اگر تھوڑا سا اپنی نفسیات پر غور کریں اور تھوڑی سی مشقت اور زحمت برداشت کر کے اس نفسیات کو بد؛لنے کی کوشش کریں اور زندگی کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیں تو شاید پڑھا پا انھطاط کا دوسرا ہم نہ رہے۔اور جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی صرف تخیل نہ رہے بلکہ ایک واقعی حقیقت ہو جائے۔
جو لوگ ماضی کو حال اور مستقبل سے بہتر سمجھتے ہیں اور جن کے کان صرف باز گشت آوازوں میں دل کشی پاتے ہیں تو وہ اس وقت ہمارے مخاطب صحیح نہیں ہو سکتے اور ان سے ہمیں کچھ زایدہ کہنا بھی نہیں ہے۔لیکن جن لوگوں کے دل و دماغ صحیح قسم کے نئے اثرات قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں عام اس سے کہ وہ بوڑھے ہیں یا جوان ،ان سے ہم کو یہ کہنا ہے کہ زندگی ایک ناجاتی اور تغیر پذیر حقیقت ہے۔تغیر اور تبدل ہیئت نہ صرف اس کی لازمی خصوصیت ہے بلکہ اسکی فلاح و بہبود کی ضامن ہے۔کسی ایک منزل پر رک جانا یا الٹے قدم چلنا دونوں ناموس زندگی کے خلاف ہے۔زندگی فطرتا مجبور ہے کہ روپ بدلتی ہے اور ہر روپ پہلے سے زیادہ حسین اور قوی ہے۔اور اس کے لئے تنصی اور تخریب ضروری ہے۔ورنہ نئی تعمیر نا ممکن ہے۔یہ وہ باتیں ہیں جن سے کوئی ھوس و حواس رکھنے والا انکار نہیں کرے گا۔اس لئے کہ یہ تواریخ کائنات کی مسلم حقیقیں ہیں۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
بھائیشہزاد احمدمیرے خیال میں یہاںکمرشل ادب اور ادبِ عالیہ کی بات نہیں ہے بلکہ اس بات جتنے جھگڑے ہو رہے ہیں ان پر غایر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ در اصل جھگڑا ایک ہے۔اور وہ دو نسلوں کا یعنی بڈھوں اور نوجوانوں کا جھگڑا ہے ،اور مجھے اس میں زیادتی بڈھوں کی معلوم ہوتی ہے۔بڈھوں کو نوجوانوں سے زیادہ سے زیادہ یہ شکایت ہو سکتی ہے کہ وہ خود سر ہیں ،بڈھوں کا کہنا نہیں مانتے جوانی تو خیر بقول انھیں بڑے بوڑھوں کی دیوانی ہوتی ہے۔اور دیوانے کو یوں بھی کچھ نہیں کہا کرتے۔لیکن مجھے سب سے زیادہ حیرت ان ہوش مند اور فرزانہ بڈھوں پر ہوتی ہے جو نوجوانوں کو بھی خواہ مخواہ شکنجے میں کس کر وہیں رکھنا چاہتے ہیں۔جہاں وہ خود ہیں۔زیادہ حیرت اس لئے ہوتی ہے کہ کہ بڈھے خود اپنی زندگی میں سے جوان اور جوان سے بوڑھے ہو چکے ہیں۔اپنے ریشے ریشے میں محسوس کر چکے ہیں کہ زمانہ ایک متحرک قوت ہے جو آگے بڑھتی رہتی ہے۔اور زندگی ایک نامیاتی حقیقت ہے جو بدلتی رہتی ہے اور روز بروز سے زیادہ مہذب اور پہلے سے زیادہ مکمل ہوتی جاتی ہے۔پھر کسی طرح سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ کیوں چاہتے ہیں کہ نئی نسل بھی اسی منزل پر رہے جہاں پرانی نسل ہے۔میں اس کی نفسیات پر غور کرتا ہوں تو سوا حسد اور کم بینی کے اور کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔نوجوان تو بوڑھوں پر ہنستے ہیں ،اور یہ دونوں نسلوں کے لئے بڑی تکلیف دہ بات ہے۔بڈھوں کی رجعت پسندی کو تو معاف بھی کیا جا سکتا ہے۔لیکن ان کی ہٹ دھرمی کسی طرح گوارا نہیں کی جا سکتی اس لئے کہ اس سے زندگی کی بالیدگی خطرے میں پڑ تی ہے۔بچوں کی ضد تو ایک معصوم اور بے ضرر چیز ہوتی ہے اس لئے کہ اس کی بنیاد نادانی ہے۔لیکن بڈھوں کی ہٹ ان کی بد خوئی اور حق نا شناسی کی دلیل ہے۔اس لئے کہ سب کچھ دیکھ بھال کر اور جان بوجھ کر ہٹ کرتے ہیں۔اور اگر میرا یہ خیال گلط ہے تو پھر ہمارے بڑے بوڑھوں میں اتنی فراخ دلی اور نیک نیتی کیوں نہیں کہ وہ ہم سے کہ سکیں۔
پیو شراب جوانوں کہ موسم گل ہے
ہمیں بھی یاد وہ عہد شباب آیا
اگر پچھلی نسل والے اپنی زندگی کے دن گذار چکے ہیں اور اپنے مقدر کی تکمیل کر چکے ہیں۔اگر اب وہاپنے میں اتنی سکت نہیں پاتے کہ نئی نسل کی نئی زندگی میں اس کے شریک کار ہیں ،تو کم سے کم ان کو اتنی توفیق ہونا ہی چاہئے کہ خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ہم کو نئی زندگی اور اس کے نئے مقدر کی تکمیل کے لئے چھوڑ دیں۔
میرا خیال ہے کہ بڈھے اگر تھوڑا سا اپنی نفسیات پر غور کریں اور تھوڑی سی مشقت اور زحمت برداشت کر کے اس نفسیات کو بد؛لنے کی کوشش کریں اور زندگی کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیں تو شاید پڑھا پا انھطاط کا دوسرا ہم نہ رہے۔اور جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی صرف تخیل نہ رہے بلکہ ایک واقعی حقیقت ہو جائے۔
جو لوگ ماضی کو حال اور مستقبل سے بہتر سمجھتے ہیں اور جن کے کان صرف باز گشت آوازوں میں دل کشی پاتے ہیں تو وہ اس وقت ہمارے مخاطب صحیح نہیں ہو سکتے اور ان سے ہمیں کچھ زایدہ کہنا بھی نہیں ہے۔لیکن جن لوگوں کے دل و دماغ صحیح قسم کے نئے اثرات قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں عام اس سے کہ وہ بوڑھے ہیں یا جوان ،ان سے ہم کو یہ کہنا ہے کہ زندگی ایک ناجاتی اور تغیر پذیر حقیقت ہے۔تغیر اور تبدل ہیئت نہ صرف اس کی لازمی خصوصیت ہے بلکہ اسکی فلاح و بہبود کی ضامن ہے۔کسی ایک منزل پر رک جانا یا الٹے قدم چلنا دونوں ناموس زندگی کے خلاف ہے۔زندگی فطرتا مجبور ہے کہ روپ بدلتی ہے اور ہر روپ پہلے سے زیادہ حسین اور قوی ہے۔اور اس کے لئے تنصی اور تخریب ضروری ہے۔ورنہ نئی تعمیر نا ممکن ہے۔یہ وہ باتیں ہیں جن سے کوئی ھوس و حواس رکھنے والا انکار نہیں کرے گا۔اس لئے کہ یہ تواریخ کائنات کی مسلم حقیقیں ہیں۔
میرے پیارے بھائی! کچھ باتوں سے اتفاق کروں گا ۔۔۔ کچھ باتوں سے اختلاف ۔۔۔ ویسے میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ تجربے کا کوئی بدل نہیں ہوا کرتا ۔۔۔ جن کو آپ "بڈھے" کہہ رہے ہیں کیا وہ سب ایک جیسے ہیں؟ ایسا تو نہیں ہے۔ ہر آنے والی نسل کو پچھلی نسل سے "شکایات" ہوا ہی کرتی ہیں اور عموماََ "نوجوان نسل" کے لہجے میں تلخی بھی در آتی ہے ۔۔۔ یہ سب نارمل باتیں ہیں ۔۔۔ ہم کتنے ہی ایسے بزرگ افراد کو جانتے ہیں کہ جن کی ساری زندگیاں خدمتِ خلق میں گزر گئیں ۔۔۔ ہاں ایسے "بزرگ" بھی دیکھے جو نوجوانوں کو آگے بڑھتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے ۔۔۔ لیکن یہی حال نوجوانوں کا بھی ہے ۔۔۔ نوجوان نسل میں بھی "یہی" کہانی چل رہی ہے ۔۔۔ عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔ ایدھی صاحب کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جب کہ نوجوان نسل کی بات چل ہی نکلی ہے تو بتاتے جائیے کہ کرکٹرز محمد عامر اور محمد آصف کے ذاتی کردار کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ بہرحال، آپ کی بات میں وزن ضرور ہے ۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیوں ۔۔۔ میں اس سے کلی اتفاق نہیں کر پاؤں گا ۔۔۔ غالباََ میں کافی "برخوردار" واقع ہوا ہوں ۔۔۔ آپ کی باتوں سے یہ بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ "ارتقاء" کے فلسفے پر پر کافی حد تک یقین رکھتے ہیں ۔۔۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیے کہ ایک صورت "منفی ارتقاء" کی بھی ہوا کرتی ہے میرے محترم!
 

نایاب

لائبریرین
تخریب و تعمیر دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ اور اک دوسرے کے مقاصد کو تکمیل تک پہنچاتی ہیں ۔
" ادب کی تخلیق " نہ تو بڈھوں کی ملکیت ہے اور نہ ہی جوانوں کی ۔
ادب کی تخلیق عمروں پر نہیں بلکہ اس " سوچ و شعور " پر استوار ہوتی ہے ۔
جو کہ گہرے " احساس و مشاہدے " پر مبنی ہوتا ہے ۔
جب کوئی یہ کہتا ہے کہ " جوانوں کو پیروں کا استاد کر " تو یہاں جوانوں کے اس اکتساب کو ذکر کیا جا رہا ہوتا ہے جو کہ جوانوں نے پیروں کی زندگی کے گہرے مشاہدے سے حاصل کیا ہوا ہوتا ہے ۔ اور اس سے کسی بھی صورت " پیروں " کی تنقیص مراد نہیں ہوتی ۔
ویسے بھائیو " بڈھا بڈھا " کہہ کے مجھے مجبور کر دیا کہ " ابھی تو میں جوان ہوں " غزل سنوں ۔ اور خود کو حوصلہ دوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
میرا مطلب تھا کہ ادیب نقاد سب چائے خانے میں ہی آ جائیں تو گفتگو کا مزہ دوبالا ہو جائے گا۔
 
میرا مطلب تھا کہ ادیب نقاد سب چائے خانے میں ہی آ جائیں تو گفتگو کا مزہ دوبالا ہو جائے گا۔
تو محفل جمائیے ہم تشریف لاتے ہیں ۔۔۔:p:p:pایسے اچھی بحث ہو رہی ہے ماشائ اللہ محفل کے ارکان سنجیدہ،سمجھدار اور علم دوست ہیں مجھے خوشی ہے کہ مجھے اتنے اچھے لوگوں کی رفاقت نصیب ہوئی۔
 
Top