برسرِ دشتِ وفا پاؤں اٹھا بیٹھے ہیں (سعداللہ شاہ)

برسرِ دشتِ وفا پاؤں اٹھا بیٹھے ہیں
یعنی اب سر کو بھی داؤ پہ لگا بیٹھے ہیں‌

ہم نہ رانجھا ہیں، نہ مجنوں ہیں، نہ فرہاد کوئی
خاک اڑاتے ہوئے اس دشت میں آ بیٹھے ہیں

آسمانوں سے شفق بن کے کوئی ہنستا ہے
اس زمیں پر تو خداؤں کے خدا بیٹھے ہیں

زندہ رہنے کا جو سوچیں گے تو مر جائیں گے
ہم تو دنیا سے توقع ہی اٹھا بیٹھے ہیں

کچھ نہیں‌ہے یہ تری یاد کا جادو ہے فقط
جو بھرے شہر میں ہم سب سے جدا بیٹھے ہیں

یاد کیا آئے ہمیں کس کو بھلا ڈالا ہے
یاد کرنا تھا جسے اس کو بھلا بیٹھے ہیں

سعد انصاف کے طالب ہیں محبت والے
اس لیے عشق کی دہلیز پہ آ بیٹھے ہیں
(سعداللہ شاہ)
 

آصف شفیع

محفلین
برسرِ دشتِ وفا پاؤں اٹھا بیٹھے ہیں
یعنی اب سر کو بھی داؤ پہ لگا بیٹھے ہیں‌

کیا خوب مطلع ہے اور روایتی مضمون کو کس خوبصورتی سے باندھا گیا ہے۔ غزل کے تمام اشعار قابلِ تعریف ہیں۔
 
Top