برا ہِ کرم تقطیع کر دیں

ایم اے راجا

محفلین
براہِ کرم اقبال کے اس شعر کی تقطیع کر دیں اور بحر کے بارے میں بتا دیں۔


ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

شکریہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ساگر صاحب یہ شعر بحر مُتَقارِب مثمن سالم میں ہے۔ مثمن کا مطلب آٹھ یعنی اس بحر کے ایک شعر میں آٹھ رکن اور ایک مصرعے میں چار۔ سالم کا مطلب ہے کہ اس بحر میں جو رکن ہے وہ مکمل ہے اور کہیں بھی اس میں تبدیلی نہیں کی گئی۔ اسے متقارب کیوں کہتے ہیں اسکی تفصیل چھوڑتا ہوں کہ اس وقت یہ آپ کیلیئے غیر ضروری ہوگی

یہ بحر ایک مفرد بحر ہے، مفرد کا مطلب ہے کہ اس بحر میں اصل میں ایک ہی رکن ہے اور اسکی بار بار تکرار ہے، یہ مثمن ہے تو مطلب ہوا کہ اس بحر کے ایک شعر میں ایک ہی رکن کی آٹھ بار تکرار ہے۔ مفرد کے مقابلے میں مرکب بحریں ہوتی ہیں تفصیل چھوڑتا ہوں۔

اس بحر کا رکن ہے 'فعولن' یعنی فَ عُو لُن یعنی 1 2 2 اور اس بحر میں اسی ایک رکن کی بار بار تکرار ہونی ہے۔

اس بحر کا وزن ہے

فعولن فعولن فعولن فعولن

(یہ بات نوٹ کریں کہ جب بحر کا نام لکھتے ہیں تو ایک مکمل شعر میں جتنے رکن ہوتے ہیں انکی تعداد بتائی جاتی ہے لیکن جب وزن لکھتے ہیں تو صرف ایک مصرعے کا لکھتے ہیں، یہ مثمن بحر ہے یعنی آٹھ رکن ایک شعر میں ہیں لیکن جب وزن لکھا تو صرف ایک مصرعے کا)


اب اس شعر کی تقطیع دیکھتے ہیں

سِ تا رو - فعولن یعنی 1 2 2 (یاد رکھنے کا پہلا اصول، نون غنہ کا وزن نہیں ہوتا سو اسے تقطیع میں بھی شمار نہیں کرتے، اس لیئے ستاروں کا نون غنہ تقطیع میں نہیں آرہا اور نہ ہی اسکا کوئی وزن ہے)

سِ آ گے - فعولن 1 2 2 (یاد رکھنے کی دوسری بات، حرف علت الف، واؤ یا یے کو ضرورت شعری کے وقت وزن پورا کرنے کیلیئے لفظ سے گرا کر اور اسے اضافت یعنی زیر، زبر، پیش سے بدل کر اسکا وزن ختم کر سکتے ہیں کیونکہ اضافتوں کا بھی کوئی وزن نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ بولنے میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور فائدہ یہ کہ وزن پورا ہو جاتا ہے، یہاں 'سے' کو 'سِ' یعنی س کے نیچے زیر لگا کر سمجھا جائے گا تا کہ وزن پورا ہو)

جَ ہا او - فعولن 1 2 2 (جہاں کا نون غنہ پھر گرایا ہے، اب جب بھی کسی شعر میں جہاں اور جہان یا آسماں اور آسمان، یا کارواں اور کاروان جیسے لفظ دیکھیں تو غور کریں کہ شاعر نے جہان کو جہاں کہیں وزن پورا کرنے کیلیئے تو نہیں باندھا)

ر بی ہے - فعولن 1 2 2 (یاد رکھنے کی اگلی بات کہ دو چشمی ھ کا بھی شعر میں کوئی وزن نہیں ہوتا اس لیئے بھی کو بی سمجھتے ہیں)

اَ بی عش - فعولن 1 2 2
ق کے ام - فعولن 1 2 2
ت حا او - فعولن 1 2 2
ر بی ہے - فعولن 1 2 2

اسی بحر میں علامہ کی ایک خوبصورت غزل ہے

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

اس غزل کی تقطیع خود کرنے کی کوشش کریں اور کسی مشکل کی صورت میں ضرور بتائیں۔

والسلام
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
وارث بھائی بہت خوب آپ نے تو کمال کردیا یہ بات مجھے بھی فائدہ دے گی اور ساگر بھائی کو بھی وارث بھائی ایک درخواست کروں گا جہاں آپ 2 اور 1 لکھ کر سمجھا رہے ہیں وہاں آپ ایک اصافہ اور کرے مطلب متحرک ، ساکن اور وتد سبب کے بارے میں‌بھی بتاتے جائے اس طرح مجھے تو ٹھیک سمجھ آتی ہے

اور ساگر بھائی آپ نے یہ سلسلہ ٹھیک شروع کیا ہے اب ہم کم از کم اساتذہ سے سوال تو کر سکے گے میرے خیال میں جہاں تک مجھے یاد آتا ہے ساگر بھائی آپ نے بھی اس بحر میں‌ایک غزل لکھی ہے ہے نا اس کو آپ خود وزن میں کرنےکی کوشش کرے
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی بہت خوب آپ نے تو کمال کردیا یہ بات مجھے بھی فائدہ دے گی اور ساگر بھائی کو بھی وارث بھائی ایک درخواست کروں گا جہاں آپ 2 اور 1 لکھ کر سمجھا رہے ہیں وہاں آپ ایک اصافہ اور کرے مطلب متحرک ، ساکن اور وتد سبب کے بارے میں‌بھی بتاتے جائے اس طرح مجھے تو ٹھیک سمجھ آتی ہے

اور ساگر بھائی آپ نے یہ سلسلہ ٹھیک شروع کیا ہے اب ہم کم از کم اساتذہ سے سوال تو کر سکے گے میرے خیال میں جہاں تک مجھے یاد آتا ہے ساگر بھائی آپ نے بھی اس بحر میں‌ایک غزل لکھی ہے ہے نا اس کو آپ خود وزن میں کرنےکی کوشش کرے

شکریہ خرم صاحب

دراصل روایتی عربی علم عروض، جو کہ پہلے فارسی اور پھر اردو میں منتقل ہوا، اس میں کچھ سقم تھے جن کو دور کرنے کیلیئے پچھلی صدی کے آخری نصف میں بہت کام ہوا، خاص طور علوم السنہ الشرقیہ کے مغربی ماہرین اور ایرانی عالموں نے اس پر بہت کام کیا اور اب ماشاءاللہ اردو میں بھی اس پر کام ہو چکا ہے۔

متحرک اور ساکن کے نظام کو سامنے رکھ کر اگر اوپر والے شعر کو دیکھیں تو بحر کا رکن ہے 'فعولن' یعنی فعو وتد ہے اور لُن سبب ہے (اس بحر کو متقارب بھی اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ متقارب یا تقارب قرب یا قریب سے ہے اور اس بحر میں چونکہ وتد اور سبب قریب قریب ہیں تو اسے متقارب کہا جاتا ہے)۔ اب اسکے متحرک اور ساکن نظام کا مطالعہ کرتے ہیں، متحرک کو م سے اور ساکن کو س سے ظاہر کر رہا ہوں۔

فعولن - م م س م س
فعولن - م م س م س
فعولن - م م س م س
فعولن - م م س م س

اس شعر کو دیکھتے ہیں

ستارو - م م س م س
س آگے - م م س م س (الف آ میں دو الف ہوتے ہین پہلا متحرک، دوسرا ساکن)
جہا او - م م س م س
ر بی ہے۔ اور یہیں میں آپ کو لانا چاہ رہا تھا، بحر کے مطابق اس ٹکڑے کا پہلا حرف متحرک ہونا چاہیئے لیکن یہاں پر 'اور' کی 'ر' آ رہی ہے جو کہ ساکن ہے تو کیا اس کا مطلب ہوا کہ شعر غلط ہو گیا۔

اسی طرح اس شعر کا دوسرا مصرع

ابی عش - م م س م س
ق کے ام - پھر دیکھیئے کہ یہاں بھی متحرک چاہیئے لیکن عشق کی ق تو ساکن ہے۔

سو کیا کریں، چلیں یہ کرتے ہیں کہ متحرک اور ساکن کی تعریف دیکھتے ہیں۔ متحرک وہ حرف ہے جو کسی اضافت کے ساتھ مل کر متحرک ہے اور ساکن وہ ہے جس پر کوئی اضافت نہیں ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اوپر والے مسئلے کو حل کرنے کیلیئے علم عروض کے ماہرین نے ساکن حرف کی تعریف ہی بدل دی، انہوں نے کہا کہ ساکن صرف اور صرف وہ حرف ہے جو کسی متحرک حرف کے ساتھ ملا ہو اور جو حرف کسی متحرک حرف کے ساتھ نہ ملا ہو وہ ساکن نہیں ہے چاہے وہ بظاہر ساکن ہی نظر آتا ہے، مثلاً

جان - اس میں جیم متحرک ہے اور الف اور نون دونوں ساکن ہیں لیکن ضرورتِ شعری کے وقت آخری نون چونکہ ساکن الف کے ساتھ ہے تو اس کو متحرک مان لیا جاتا ہے۔

اسی طرح عشق میں اوپر والے مصرعے میں ق جو کہ ساکن شین کے ساتھ ملا ہوا ہے اسکو متحرک مان لیا گیا ہے۔

یہ انتہائی پچیدہ اور کنفیوزنگ صورتحال ہے (اور یہ صرف ایک ہے، روایتی علم عروض میں زحافات اور اراکین میں اتنے زیادہ پچیدگیاں ہیں کہ یہ علم چیستان بن گیا ہے)۔

اب اس کو نئے نظام کے ساتھ دیکھتے ہیں جس میں متحرک اور ساکن کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند یعنی جیسے عشق میں دو ہجے ہیں عش اور ق، اسیطرح 'اور' میں دو ہجے ہیں او اور ر، اسی طرح دل میں صرف ایک ہجا ہے، سبب میں دو ہجے ہیں س اور بب، محمد میں تین ہجے ہیں م حم مد، سخنور میں تین ہجے ہیں س خن ور۔

اب ہجائے کوتاہ (چھوٹی آواز) کو 1 فرض کر لیں اور ہجائے بلند (بڑی آواز) کو 2 تو اب دیکھتے ہیں۔

عشق - عش ق - 2 1
اور - او ر - 2 1
محمد - م حم مد - 1 2 2
سبب - س بب - 1 2

فعولن - ف عو لن - 1 2 2

اس نظام سے روایتی عروض کے تقریباً تقریباً تمام مسئلے حل ہو گئے ہیں اور یہ یاد رکھنے میں بھی آسان ہے۔

بہرحال اپنی اپنی پسند کی بات ہے، لیکن یقین مانیں جن دنوں میں عروض کو سیکھنے کی کوشش کر رہا تھا تو ان پچیدگیوں نے وہ تنگ کیا کہ بس، خیر کشتی اپنی جب کنارے آ لگی غالب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :)
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث صاحب بہت بہت شکریہ امید ہیکہ آپکی نوازشیں ہم پر جاری رہیں گی، مینے ایک غزل اسی زمین میں لکھی تھی تقطیع کرنے کی کوشش کرتا ہوں پھر آپ ناقدانہ نظر کے پیش لاوءں گا۔
حضور الف عین صاحب تقتیع غلط ہے تقطیع ہی درست لفظ ہے لیکن اس دن میں جو کی بورڈ یوز کر رہا ےھا اسکے وی میں پرابلم تھا جسکی وجہ سے مجھ سے یہ ناکردہ غلطی سرزد ہوئی، معافی چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئیندہ بھی بندہ آپ کی رہنمائی سے مستفید ہوتا رہے گا۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث بھائی ذرا دیکھیں یہ تقطیع درست ہے کیا ؟

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
21 2 221 221 221

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
221 221 221 221

وارث بھائی اسے ذرا ملاحظہ فرمائیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی ذرا دیکھیں یہ تقطیع درست ہے کیا ؟

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
21 2 221 221 221

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
221 221 221 221

وارث بھائی اسے ذرا ملاحظہ فرمائیں۔


بالکل صحیح ہے، بہت خوب۔

دو باتیں، اس شعر میں 'ترے' اور 'مری' نوٹ کریں، یہ اگر 'تیرے' اور 'میری' ہوتا یعنی ی کے ساتھ تو وزن بگڑ جاتا لہذا شاعر نے قصداً 'ترے' اور 'مری' استعمال کیا ہے، شعر پڑھتے وقت (اور کہتے وقت بھی :) ) اس صورتحال پر نظر رکھیں کہ شاعر بعض جگہ تیرے، میرے، تیری، میری لکھتے ہیں اور بعض جگہ ترے، مرے، تری، مری وغیرہ۔ یہ چیز رکن اور بحر کو پہچاننے میں مدد دے گی۔

کسی شعر کی تقطیع کے جزو لکھتے وقت روایت یہ ہے کہ اسے عروضی متن میں لکھا جاتا ہے نا کہ شعر کی املا کے مطابق، مثلاً آپ نے بعینہ شعر ہی لکھ دیا تقطیع لکھتے وقت لیکن اسکا عروضی متن یہ ہے۔

ترے عش، ق کی ان، تہا چا، ہتا ہو
مری سا، د گی دی، ک کا چا، ہتا ہو

فائدہ اس کا یہ ہے کہ کانسپٹس کلیئر ہوتے ہیں، مثلاً میں نے جو عروضی متن لکھا ہے اس میں غور کریں کہ دوسرے مصرعے میں 'کیا' کو 'کا' کیوں لکھا ہے۔

آخری بات، اس بحر پر آپ کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے ماشاءاللہ۔ دیوانِ غالب کھولیں، اس میں ردیف 'نون' والی غزلوں میں ایک غزل اسی بحر میں ہے، اس کو تلاش کریں اور مطلع کریں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث بھائی اسلاموعلیکم۔
بھائی ذرا اس شعر کو تو دیکھیئے۔

ابھی تو باقی، اک جہاں اور بھی ہے
ابھی تو راہوں کی تھکاں اور بھی ہے

میں نے اقبال(رح) کی زمین میں بحرِ متقارب مثمن سالم میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔
اس شعر کے دونوں مصرعوں میں الف کو زبر کی اضافت دیکر گرایا ہے، جواب کا منتظر رہوں گا، شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
دیوانِ غالب میں ن ردیف والی غزل دیکھوں یا کہ ن قافیہ والی غزل دیکھوں؟
دیوانِ غالب میں اس بحر میں موجود غزل کی سمجھ نہیں آئی برائے کرم کچھ رہنمائی فرما دیں۔ شکریہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی اسلاموعلیکم۔
بھائی ذرا اس شعر کو تو دیکھیئے۔

ابھی تو باقی، اک جہاں اور بھی ہے
ابھی تو راہوں کی تھکاں اور بھی ہے

میں نے اقبال(رح) کی زمین میں بحرِ متقارب مثمن سالم میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔
اس شعر کے دونوں مصرعوں میں الف کو زبر کی اضافت دیکر گرایا ہے، جواب کا منتظر رہوں گا، شکریہ۔


دیوانِ غالب میں ن ردیف والی غزل دیکھوں یا کہ ن قافیہ والی غزل دیکھوں؟
دیوانِ غالب میں اس بحر میں موجود غزل کی سمجھ نہیں آئی برائے کرم کچھ رہنمائی فرما دیں۔ شکریہ۔


ساگر صاحب پہلے دوسری بات کا جواب، مروجہ دیوانِ غالب میں غزلیں ردیف کی الفبائی ترتیب سے ہی لکھی جاتی ہیں، لہذا مذکورہ غزل ن ردیف میں ہی ہے اور کیا خوبصورت غزل ہے

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

واہ واہ واہ سبحان اللہ :)

دو کام کریں، ایک تو یہ کہ غالب کی اس غزل کے اشعار عروضی متن میں لکھیں، جیسا کہ میں نے پچھلی پوسٹ میں لکھا تھا۔

دوسرا یہ کہ آپ نے جو اوپر اپنا شعر لکھا ہے اس میں جسطرح آپ نے 'باقی' اور 'راہوں' کا الف گرایا ہے وہ غلط ہے، الف کو اسطرح الفاظ کے درمیان میں سے نہیں گرا سکتے۔ لہذا یہ کریں کہ اوپر والے شعر میں بھی غالب نے ایک جگہ الف کو گرایا ہے اسکی نشاندہی کریں اور پھر اسکا اپنے شعر میں الف کے گرانے سے موازنہ کریں اور دیکھیں کہ آپ نے کیا غلطی کی ہے۔ اور غلطی درست کر کے شعر دوبارہ کہیں۔

اگلی بات یا تیسرا کام :)
بات: آپ ابھی تک الفاظ کو گرا کر وزن پورا کر رہے تھے، اب اضافتوں کو کھینچ کر اور خاص طور پر زیر کو کھینچ کر وزن پورا کرنا دیکھیں (گرانے کے عمل کو 'اخفا' کہتے ہیں اور کھینچنے کے عمل کو 'اشباع')

غالب نے اپنے شعر میں 'نقشِ' جو کہ 2 1 ہے کی اضافت زیر کو کھینچ کر 'نقشے' باندھا ہے جو کہ 2 2 ہے اور بحر میں اس مقام پر 22 ہی سے وزن پورا ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بولنے میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور فائدہ یہ ہے کہ وزن پورا ہو جاتا ہے۔

کام: اسی غزل کے مقطعے میں غالب نے پھر اشباع کا عمل دہرایا ہے اسکی نشاندہی کریں۔
 

شمشاد

لائبریرین
وارث بھائی آپ جس لگن اور شوق سے یہ سب سکھا رہے ہیں۔ اللہ آپ کو جزا دے، تعریف کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ یقیناً بہت سے نوآموز شعراء آپ کی ان تحریروں سے فیضیاب ہوں گے۔ یہ اردو محفل کی خوش نصیبی ہے کہ آپ جیسے رکن اس محفل کو نصیب ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی آپ جس لگن اور شوق سے یہ سب سکھا رہے ہیں۔ اللہ آپ کو جزا دے، تعریف کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ یقیناً بہت سے نوآموز شعراء آپ کی ان تحریروں سے فیضیاب ہوں گے۔ یہ اردو محفل کی خوش نصیبی ہے کہ آپ جیسے رکن اس محفل کو نصیب ہیں۔


شمشاد بھائی خوش نصیبی یہ میری ہے کہ مجھے اردو محفل ملی، میں نے اور بھی بہت سے اردو فورم دیکھے ہیں لیکن جس قدر اچھے، سنجیدہ اور صاحبانِ علم و فضل اس محفل پر موجود ہیں وہ کہیں نہیں ہیں اور یہ بھی اردو محفل کا اعجاز ہے کہ جو یہاں آ جاتا ہے پھر وہ آئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ :)

دراصل جب سال، سوا سال پہلے میں اس علم کو فقط کتابوں کی مدد سے سیکھ رہا تھا تو بہت سی مشکلات میں سے گزرا، اور بعض دفع تو رات کے پچھلے پہر جب کئی کئی کتابیں سامنے رکھ کر کچھ سمجھ نہیں آتا تھا تو انتہائی مایوسی کی حالت میں آنکھیں بھی نم ہو جاتی تھیں لیکن پھر اللہ تعالٰی سے دعا کرتا تھا اور الحمدللہ وہ دعائیں قبول ہوئیں۔ بس جب کوئی اس علم کے متعلق اپنی تڑپ کا اظہار کرتا ہے تو مجھے اپنا کرب یاد آ جاتا ہے۔ اور سکھانا کیسا شمشاد بھائی میں ابھی خود اس علم کا ابتدائی طالب علم ہوں بس کوشش ہوتی ہے کہ کچھ شیئر کر سکوں۔

شمشاد بھائی آپ نے جن نیک جذبات کا اور کلماتِ تحسین کا اظہار کیا ان کیلیئے تہہِ دل سے آپ کا انتہائی شکر گزار ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
واث، بسم اللہ کر کے ایک کتا ب باقاعد ہ لکھ ہی ڈالو اس موضوع پر۔ اور پہلے اپنی لائبریری میں ای پبلشنگ کر دو۔ واقعی بہت اچھر جا رہے ہو۔۔ جزاک اللہ خیراً
 

ایم اے راجا

محفلین
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں


ج ہا تے رَ نق شے ق دم دے ک تے ہے
خ یا با خ یا با ا رم دے ک تے ہے​

غالب نے " تیرا " کا الف گرا کر " ر " پر " زبر " کی اضافت ( اشباع ) کر کے وزن پورا کیا ہے، کیا میری تقطیع درست ہے؟
تیرا میں الف لفظ کے آخر میں ہے جبکہ جو الف میں نے گرائے ہیں وہ الفاظ کے درمیاں میں تھے، شاید یہی میری غلتی ہے ؟

کیا ہم نہایت ضرورت کے وقت بھی درمیان میں سے لفظ نہیں گرا سکتے ؟

کیا ہم بوقتِ ضرورت واولز کے علاوہ بھی کسی لفظ کو گرا سکتے ہیں ؟


بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
َ​
حضرت غالب نے اس غزل کے مقطعہ کے آخری مصرعہ میں اہلِ کو اہلے ( ے ) کی اضافت کیساتھ تقطیع کر کے اشباع سے کام لیا ہے، کیا میں درست ہوں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
واث، بسم اللہ کر کے ایک کتا ب باقاعد ہ لکھ ہی ڈالو اس موضوع پر۔ اور پہلے اپنی لائبریری میں ای پبلشنگ کر دو۔ واقعی بہت اچھر جا رہے ہو۔۔ جزاک اللہ خیراً


بہت شکریہ اعجاز صاحب، آپ جیسے استاد اور کہنہ مشق شاعر سے داد ملنا میرے لیئے بہت بڑا اعزاز ہے، نوازش آپکی محترم۔

کتاب لکھنا مجھ جیسے جاہل اور کاہل کیلیئے شاید سالوں کا پراجیکٹ ہو :) لیکن اگر کبھی کچھ لکھا گیا تو یقیناً اسے یہاں محفل پر ہی پیش کرونگا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث بھائی ہمیں انتظار رہے گا، ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں، اللہ عزوجل آپ کے علم اور زورِ قلم میں اضافہ فرمائے۔


وارث بھائی میں نے غالب کے شعر کی تقطیع کی ہے اوپر ہے ملاحظہ فرمائیے گا شکریہ۔
 
Top