برا ہِ کرم تقطیع کر دیں

محمد وارث

لائبریرین
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں



ج ہا تے رَ نق شے ق دم دے ک تے ہے​

خ یا با خ یا با ا رم دے ک تے ہے​

غالب نے " تیرا " کا الف گرا کر " ر " پر " زبر " کی اضافت ( اشباع ) کر کے وزن پورا کیا ہے، کیا میری تقطیع درست ہے؟
تیرا میں الف لفظ کے آخر میں ہے جبکہ جو الف میں نے گرائے ہیں وہ الفاظ کے درمیاں میں تھے، شاید یہی میری غلتی ہے ؟

بالکل صحیح ہے، لا جواب، خوشی اس بات کی ہوئی کہ آپ غور کر رہے ہیں، آپ کا یہ پیغام آپ کے ایڈٹ کرنے سے پہلے میں دیکھ چکا تھا :) لیکن اب آپ نے بالکل صحیح کہا اور اپنی غلطی کی نشاندہی بھی صحیح کی۔ یہ گرانے کا عمل 'اخفا' ہے۔


کیا ہم نہایت ضرورت کے وقت بھی درمیان میں سے لفظ نہیں گرا سکتے ؟

نہیں گرا سکتے، ماسوائے 'اور' کے جو 2 1 ہے لیکن اسے 'ار' بنا کر 2 بنا لیتے ہیں۔


کیا ہم بوقتِ ضرورت واولز کے علاوہ بھی کسی لفظ کو گرا سکتے ہیں ؟

نوٹ کریں کہ اخفا کا عمل کیوں کرتے ہیں، ظاہر ہے وزن پورا کرنے لیکن یاد رہے کہ حروفِ علت کے گرانے سے صوت اور تلفظ پر کوئی فرق نہیں پڑتا یعنی تیرا کا الف گرا بھی دیں بھی تو تیرَ ہوگا جو تیرا ہی پڑھا جائے گا، عروض میں صوت کا بہت عمل دخل ہے۔ یعنی اخفا میں ایک بڑھے حرفِ علت (الف، و، ی) کو چھوٹے حرفِ علت (زیر، زبر، پیش) سے بدل لیتے ہیں۔ اسی طرح اسکا الٹ عمل اشباع ہے۔ اب کسی حرف صحیح consonant کو گرا کر دیکھیں، مثلاً ساگر کی آخری 'ر' گرا دیں، اسکے بعد جو لفظ باقی رہے گا وہ دریا کو کھیت میں بند کر دے گا :)، کیا سے کیا ہوگیا، سو غلط ہے بلکہ ناجائز ہے۔


بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب​

تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
َ​
حضرت غالب نے اس غزل کے مقطعہ کے آخری مصرعہ میں اہلِ کو اہلے ( ے ) کی اضافت کیساتھ تقطیع کر کے اشباع سے کام لیا ہے، کیا میں درست ہوں؟


ماشاءاللہ، بہت خوب، مجھے بھی خوشی ہو رہی ہے یہ سب دیکھ کر، بالکل صحیح لکھا آپ نے۔ مشق کیلیئے اب خود ہی اس غزل کے تمام اشعار کی تقطیع کرتے رہیں۔

آپ نے غالب کو حضرت لکھا میرے آنکھوں میں ٹھنڈک اتر آئی۔ :)

اور اب آپ اس قابل بھی ہو گئے ہیں ماشاءاللہ کہ اس بحر میں ایک خوبصورت غزل کہہ سکیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث بھائی میں نے بہت کچھ لکھا ہے جو مجھے بھی اور ایسے شاعر جو کہ عرض کو پسند نہیں کرتے انھیں بھی بہت اچھا لگا لیکن میں عروض کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا جب جاننے نکلا تو یہ راہ ناقابلِ سفر معلوم ہوئی بہت کوشش کی لیکن کبھی سمجھ نہ آئی، اور میں نے بے بحر شاعری کو ترق کرنا چاہا مگر خرم میری ہمت بڑھاتا رہا اور مجھ اس سائیٹ پر لایا، میں حیران ہوں کہ آپ کے ایک پیغام سے میں اتنا کیسے سمجھ گیا، اور اس بحر کو اتنا سمجھ گیا، میں بہت خوش ہوں، میں آپ سے بہت دور ہوں لیکن یہ دنیا اب گلوبل ولیج بن چکی ہے، آپ پہلے شخص ہیں جن کی محنت سے میں آج اس بحر کو اور عروض کو تھوڑا سا سمجھ سکا ہوں، کیا میں آپ کو اپنا استاد بنا سکتا ہوں اور آپ کو اس سلسلے میں تنگ کرسکتا ہوں؟ اگر آپ میرے استاد بن جائیں تو مجھے بے حد خوشی ہو گی۔ شکریہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی میں نے بہت کچھ لکھا ہے جو مجھے بھی اور ایسے شاعر جو کہ عرض کو پسند نہیں کرتے انھیں بھی بہت اچھا لگا لیکن میں عروض کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا جب جاننے نکلا تو یہ راہ ناقابلِ سفر معلوم ہوئی بہت کوشش کی لیکن کبھی سمجھ نہ آئی، اور میں نے بے بحر شاعری کو ترق کرنا چاہا مگر خرم میری ہمت بڑھاتا رہا اور مجھ اس سائیٹ پر لایا، میں حیران ہوں کہ آپ کے ایک پیغام سے میں اتنا کیسے سمجھ گیا، اور اس بحر کو اتنا سمجھ گیا، میں بہت خوش ہوں، میں آپ سے بہت دور ہوں لیکن یہ دنیا اب گلوبل ولیج بن چکی ہے، آپ پہلے شخص ہیں جن کی محنت سے میں آج اس بحر کو اور عروض کو تھوڑا سا سمجھ سکا ہوں، کیا میں آپ کو اپنا استاد بنا سکتا ہوں اور آپ کو اس سلسلے میں تنگ کرسکتا ہوں؟ اگر آپ میرے استاد بن جائیں تو مجھے بے حد خوشی ہو گی۔ شکریہ۔


ساگر صاحب بہت شکریہ آپ کا، لیکن یقین مانیں اور یہ بات میں بغیر کسی کسرِ نفسی کے کہہ رہا ہوں کہ میں استاد بننے کے قابل نہیں ہوں۔ میں خود ابھی اس علم کا ایک طالب علم ہوں (اور عروض تو فقط ایک بنیاد ہے شاعری کی، ورنہ فنِ شعر و شاعری تو بحرِ بیکراں ہے)۔

تنگ کرنے کا کیا ہے صاحب، حاضر ہوں، یہ ہماری محفل ہے ہی اتنی پیاری کے سب یہاں پر دوستوں کی طرح رہتے ہیں۔ آپ کو کوئی معلومات درکار ہوں یا کچھ بھی ہو، یہاں پوسٹ کرتے رہیں میں اپنی بساط کے مطابق عرض کرتا رہونگا۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم کچھ دن میں یہاں نہیں‌آ سکا آج آیا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں ساگر بھائی تو کمال کر رہے ہیں اور وارث بھائی آپ کابہت شکریہ جو آپ ہم دونوں کو اتنی توجہ سے سمجھا رہیں ہیں سر میں نےبھی ایک غزل حضرت غالب صاحب کی زمین میں لکھی تھی بہت پہلے اسی بحرمیں وہ بھی میں یہاں ارسال کرتا ہوں

نہیں دیکھتے وہ جو ہم دیکھتے ہیں
ہے کس پر نگاہِ کرم دیکھتے ہیں

عقیدت سے تم کو یوں دیکھا ہے ہم نے
کہ جیسے مسلماں حرم دیکھتے ہیں

خیالوں میں دیکھا تجھے ہم نے ایسے
حقیقت میں جیسے ارم دیکھتے ہیں

خوشی سب کے چہرے پہ ہر دم سجا کر
ہم اپنی نگاہوں کو نم دیکھتے ہیں

عجب کر رہے ہیں دوانے یہ دیدار
نگہ بند کرکے صنم دیکھتے ہیں​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
شکریہ خرم صاحب

دراصل روایتی عربی علم عروض، جو کہ پہلے فارسی اور پھر اردو میں منتقل ہوا، اس میں کچھ سقم تھے جن کو دور کرنے کیلیئے پچھلی صدی کے آخری نصف میں بہت کام ہوا، خاص طور علوم السنہ الشرقیہ کے مغربی ماہرین اور ایرانی عالموں نے اس پر بہت کام کیا اور اب ماشاءاللہ اردو میں بھی اس پر کام ہو چکا ہے۔

متحرک اور ساکن کے نظام کو سامنے رکھ کر اگر اوپر والے شعر کو دیکھیں تو بحر کا رکن ہے 'فعولن' یعنی فعو وتد ہے اور لُن سبب ہے (اس بحر کو متقارب بھی اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ متقارب یا تقارب قرب یا قریب سے ہے اور اس بحر میں چونکہ وتد اور سبب قریب قریب ہیں تو اسے متقارب کہا جاتا ہے)۔ اب اسکے متحرک اور ساکن نظام کا مطالعہ کرتے ہیں، متحرک کو م سے اور ساکن کو س سے ظاہر کر رہا ہوں۔

فعولن - م م س م س
فعولن - م م س م س
فعولن - م م س م س
فعولن - م م س م س

اس شعر کو دیکھتے ہیں

ستارو - م م س م س
س آگے - م م س م س (الف آ میں دو الف ہوتے ہین پہلا متحرک، دوسرا ساکن)
جہا او - م م س م س
ر بی ہے۔ اور یہیں میں آپ کو لانا چاہ رہا تھا، بحر کے مطابق اس ٹکڑے کا پہلا حرف متحرک ہونا چاہیئے لیکن یہاں پر 'اور' کی 'ر' آ رہی ہے جو کہ ساکن ہے تو کیا اس کا مطلب ہوا کہ شعر غلط ہو گیا۔

اسی طرح اس شعر کا دوسرا مصرع

ابی عش - م م س م س
ق کے ام - پھر دیکھیئے کہ یہاں بھی متحرک چاہیئے لیکن عشق کی ق تو ساکن ہے۔

سو کیا کریں، چلیں یہ کرتے ہیں کہ متحرک اور ساکن کی تعریف دیکھتے ہیں۔ متحرک وہ حرف ہے جو کسی اضافت کے ساتھ مل کر متحرک ہے اور ساکن وہ ہے جس پر کوئی اضافت نہیں ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اوپر والے مسئلے کو حل کرنے کیلیئے علم عروض کے ماہرین نے ساکن حرف کی تعریف ہی بدل دی، انہوں نے کہا کہ ساکن صرف اور صرف وہ حرف ہے جو کسی متحرک حرف کے ساتھ ملا ہو اور جو حرف کسی متحرک حرف کے ساتھ نہ ملا ہو وہ ساکن نہیں ہے چاہے وہ بظاہر ساکن ہی نظر آتا ہے، مثلاً

جان - اس میں جیم متحرک ہے اور الف اور نون دونوں ساکن ہیں لیکن ضرورتِ شعری کے وقت آخری نون چونکہ ساکن الف کے ساتھ ہے تو اس کو متحرک مان لیا جاتا ہے۔

اسی طرح عشق میں اوپر والے مصرعے میں ق جو کہ ساکن شین کے ساتھ ملا ہوا ہے اسکو متحرک مان لیا گیا ہے۔

یہ انتہائی پچیدہ اور کنفیوزنگ صورتحال ہے (اور یہ صرف ایک ہے، روایتی علم عروض میں زحافات اور اراکین میں اتنے زیادہ پچیدگیاں ہیں کہ یہ علم چیستان بن گیا ہے)۔

اب اس کو نئے نظام کے ساتھ دیکھتے ہیں جس میں متحرک اور ساکن کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند یعنی جیسے عشق میں دو ہجے ہیں عش اور ق، اسیطرح 'اور' میں دو ہجے ہیں او اور ر، اسی طرح دل میں صرف ایک ہجا ہے، سبب میں دو ہجے ہیں س اور بب، محمد میں تین ہجے ہیں م حم مد، سخنور میں تین ہجے ہیں س خن ور۔

اب ہجائے کوتاہ (چھوٹی آواز) کو 1 فرض کر لیں اور ہجائے بلند (بڑی آواز) کو 2 تو اب دیکھتے ہیں۔

عشق - عش ق - 2 1
اور - او ر - 2 1
محمد - م حم مد - 1 2 2
سبب - س بب - 1 2

فعولن - ف عو لن - 1 2 2

اس نظام سے روایتی عروض کے تقریباً تقریباً تمام مسئلے حل ہو گئے ہیں اور یہ یاد رکھنے میں بھی آسان ہے۔

بہرحال اپنی اپنی پسند کی بات ہے، لیکن یقین مانیں جن دنوں میں عروض کو سیکھنے کی کوشش کر رہا تھا تو ان پچیدگیوں نے وہ تنگ کیا کہ بس، خیر کشتی اپنی جب کنارے آ لگی غالب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :)


بہت شکریہ وارث بھائی بہت شکریہ پہلے مجھے 1 اور 2 کی سمجھ نہیں آئی تھی لیکن اب سمجھ آ رہی ہے اس طرح تو آسان ہے اس سے مجھے سمجھ آ رہی ہیں‌اور ساگر بھائی کو بھی سمجھ آ رہی ہو گی آپ ایک مہربانی فرمائے گا جب تک ہم اس بحر کو مکمل سمجھ نہیں جاتے اس وقت تک کسی دوسری طرف نہیں لیے کر جائے گا ہم کو شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ وارث بھائی بہت شکریہ پہلے مجھے 1 اور 2 کی سمجھ نہیں آئی تھی لیکن اب سمجھ آ رہی ہے اس طرح تو آسان ہے اس سے مجھے سمجھ آ رہی ہیں‌اور ساگر بھائی کو بھی سمجھ آ رہی ہو گی آپ ایک مہربانی فرمائے گا جب تک ہم اس بحر کو مکمل سمجھ نہیں جاتے اس وقت تک کسی دوسری طرف نہیں لیے کر جائے گا ہم کو شکریہ


میں نے کہاں لیکر جانا ہے خرم صاحب، میں تو خود کہیں نہیں جاتا یہاں تک حجام کے پاس بال کٹوانے بھی مہینوں تک نہیں جاتا۔ :)



السلام علیکم کچھ دن میں یہاں نہیں‌آ سکا آج آیا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں ساگر بھائی تو کمال کر رہے ہیں اور وارث بھائی آپ کابہت شکریہ جو آپ ہم دونوں کو اتنی توجہ سے سمجھا رہیں ہیں سر میں نےبھی ایک غزل حضرت غالب صاحب کی زمین میں لکھی تھی بہت پہلے اسی بحرمیں وہ بھی میں یہاں ارسال کرتا ہوں

نہیں دیکھتے وہ جو ہم دیکھتے ہیں
ہے کس پر نگاہِ کرم دیکھتے ہیں​

عقیدت سے تم کو یوں دیکھا ہے ہم نے
کہ جیسے مسلماں حرم دیکھتے ہیں​

خیالوں میں دیکھا تجھے ہم نے ایسے
حقیقت میں جیسے ارم دیکھتے ہیں​

خوشی سب کے چہرے پہ ہر دم سجا کر
ہم اپنی نگاہوں کو نم دیکھتے ہیں​

عجب کر رہے ہیں دوانے یہ دیدار
نگہ بند کرکے صنم دیکھتے ہیں​

اچھی غزل ہے اور وزن میں ہے۔ بہت خوب۔

اور جن اشعار میں جو الفاظ میں نے سرخ کیے ہیں انکو نوٹ کریں اور بیان کریں / تشریح کریں کہ یہاں پر وزن کیسے پورا کیا گیا ہے۔ یہ کوئی امتحانوں والا سوال نہیں ہے محترم اور نہ ہی اسکے کوئی نمبر ہیں :)، لیکن اگر ایک بار یہاں کانسپٹ کلیئر ہو گیا تو ساری زندگی یہ چیز نہیں بھولے گی اور یہ چیزیں آگے سبھی بحور میں کام آئیں گی۔

اور غالب کو حضرت لکھ آپ مجھے مجبور کر دیتے ہیں کہ میں ضرور بالضرور جواب دوں، اگر یہی بات ہے تو حضرت پھر لکھتے رہیئے حضرت۔ :)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
میں نے کہاں لیکر جانا ہے خرم صاحب، میں تو خود کہیں نہیں جاتا یہاں تک حجام کے پاس بال کٹوانے بھی مہینوں تک نہیں جاتا۔ :)





اچھی غزل ہے اور وزن میں ہے۔ بہت خوب۔

اور جن اشعار میں جو الفاظ میں نے سرخ کیے ہیں انکو نوٹ کریں اور بیان کریں / تشریح کریں کہ یہاں پر وزن کیسے پورا کیا گیا ہے۔ یہ کوئی امتحانوں والا سوال نہیں ہے محترم اور نہ ہی اسکے کوئی نمبر ہیں :)، لیکن اگر ایک بار یہاں کانسپٹ کلیئر ہو گیا تو ساری زندگی یہ چیز نہیں بھولے گی اور یہ چیزیں آگے سبھی بحور میں کام آئیں گی۔

اور غالب کو حضرت لکھ آپ مجھے مجبور کر دیتے ہیں کہ میں ضرور بالضرور جواب دوں، اگر یہی بات ہے تو حضرت پھر لکھتے رہیئے حضرت۔ :)

جی بہت شکریہ سر جی بہت شکریہ
جی مجھے جہاں تک سمجھ آ رہی ہے اس کے مطابق میں آپ کو جواب دیتا ہوں


فعولن
خشی سب ،
یہاں ’’و‘‘ کو ہٹا دیا گیا ہے مطلب ’’و’’ پڑھا نہیں‌جائے گا آپ نے ہی میری ایک غزل جی کا ردیف ”خواب“ تھا اس کی اصلاح میں آپ نے فرمایا تھا کے جہاں ”خ“ کے بعد ”و“ آئے گی تو ”و“ تقطع میں ”و“ نہیں لکھی جائےگی کیوں کے یہ پڑھنے میں نہیں آتی ہے اس طرح
خواب ، خوشی ، خواہش ،خود وغیر وغیر میں ”و“نہیں پڑھا جائے گا

کیا میں نے اپنا سبق ٹھیک لکھا ہے


اس کے بعد

فعولن
ہمپ نی

یہاں ”اپنی“ کے الف کو گرا دیا گیا ہے ”ہم اپنی“ میں ہم سبب ہے اس کو ہم نے وتد بنایا ہے کیوں کہ یہاں وتد کی ضرورت تھی اس لے اپنی کا الف گرا کر ہمپ نی کر دیا ہے میرے مطابق یہ ٹھیک ہو گیا ہے باقی آپ کی اصلاح


فعولن
یدی دار
میں نے پڑھا تھا کے اس بحر میں اگر ایک اصافی رکن ہو جائے تو وہ وزن میں ہی ہو گا کیون کے ایک رکن کی اجازت ہے
کیا میں نے ٹھیک سبق لکھا ہے مہربانی فرما کر اصلاح کرتے رہیں شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
مبارک ہو خرم۔ یہ غزل واقعی مکمل وزن میں ہے۔ وارث اچھے استاد ثابت ہوئے ہیں۔ اب ان کا یہ نیا رتبہ پکا۔!!! محفل میں ہر رکن کی اصلاح اسی طرح کریں کہ غزل کہنا آ جائے سب کو۔
اور یہ پھر لکھتا ہوں کہ اگر عروض کسی کے بس میں نہ آ رہا ہو تو غزلوں سے اجتناب کریں، نثری نظمیں ہی لکھتے رہیں۔ ان کو بھی قبوک تو کیا ہی جاتا ہے، اگرچہ ہم جیسے کچھ ثقہ لوگ ان کو سونگھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ہماری مجبوری ہے شاید۔۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
مبارک ہو خرم۔ یہ غزل واقعی مکمل وزن میں ہے۔ وارث اچھے استاد ثابت ہوئے ہیں۔ اب ان کا یہ نیا رتبہ پکا۔!!! محفل میں ہر رکن کی اصلاح اسی طرح کریں کہ غزل کہنا آ جائے سب کو۔
اور یہ پھر لکھتا ہوں کہ اگر عروض کسی کے بس میں نہ آ رہا ہو تو غزلوں سے اجتناب کریں، نثری نظمیں ہی لکھتے رہیں۔ ان کو بھی قبوک تو کیا ہی جاتا ہے، اگرچہ ہم جیسے کچھ ثقہ لوگ ان کو سونگھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ہماری مجبوری ہے شاید۔۔

استاد تو آپ بھی ہمارےہیں جس طرح وارث صاحب ہیں سر پہلے آپ نے حوصلہ افزائی کی اور اس کے بعد فوراََ آپ نے ڈرا بھی دیا ہے سر اگر نثری نظمیں لکھنی ہوتی تو اتنا کھجل کیوں‌ہوتے میں‌نے تو جو آزاد نظمیں لکھیں تھی وہ بھی اب نہیں‌لھک رہا ہوں عروض کی وجہ سے ویسے شاعری وہی ہے جس کو استاد شعراء پسند کرے عوام کی پسندگی پر گے تو وصی شاہ اور فرحت عباس شاہ غالب سے بڑے ہوئے
 

فاتح

لائبریرین
جہاں ”خ“ کے بعد ”و“ آئے گی تو ”و“ تقطع میں ”و“ نہیں لکھی جائےگی کیوں کے یہ پڑھنے میں نہیں آتی ہے اس طرح
خواب ، خوشی ، خواہش ،خود وغیر وغیر میں ”و“نہیں پڑھا جائے گا

اگر یہی کلیہ ہے تو خون، خونی، خول، خوشہ اور خوراک وغیرہ کے متعلق کیا خیال ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
فعولن
خشی سب ،
یہاں ’’و‘‘ کو ہٹا دیا گیا ہے مطلب ’’و’’ پڑھا نہیں‌جائے گا آپ نے ہی میری ایک غزل جی کا ردیف ”خواب“ تھا اس کی اصلاح میں آپ نے فرمایا تھا کے جہاں ”خ“ کے بعد ”و“ آئے گی تو ”و“ تقطع میں ”و“ نہیں لکھی جائےگی کیوں کے یہ پڑھنے میں نہیں آتی ہے اس طرح
خواب ، خوشی ، خواہش ،خود وغیر وغیر میں ”و“نہیں پڑھا جائے گا

کیا میں نے اپنا سبق ٹھیک لکھا ہے

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہاں واؤ معدولہ ہے، یہ وہ واؤ ہوتی ہے جسکی بولنے میں بالکل بھی آواز نہیں ہوتی، اور یہ فارسی الفاظ میں ہوتی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ سبھی ایسے فارسی الفاظ جن میں خ کے بعد واؤ ہوتی ہے ان میں واؤ معدولہ نہیں ہوتی (فاتح صاحب کی پوسٹ پر غور کریں)۔ مشہور الفاظ جن میں واؤ معدولہ ہے اور جو بولنے میں نہیں آتی اور نہ ہی جسکا کوئی عروضی وزن ہے وہ خود، خوش، خواہش، خواب، خویش، خوشامد، خورد وغیرہ۔



اس کے بعد

فعولن
ہمپ نی

یہاں ”اپنی“ کے الف کو گرا دیا گیا ہے ”ہم اپنی“ میں ہم سبب ہے اس کو ہم نے وتد بنایا ہے کیوں کہ یہاں وتد کی ضرورت تھی اس لے اپنی کا الف گرا کر ہمپ نی کر دیا ہے میرے مطابق یہ ٹھیک ہو گیا ہے باقی آپ کی اصلاح

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عملِ اخفا (گرانے کا عمل) ہمیشہ الفاظ کے آخر میں ہوتا ہے، شروع یا درمیان میں نہیں۔ تو؟

یہاں پر الفِ وصل کا استعمال ہوا ہے (اسے یاد رکھیں)، یہ اسطرح سے ہوتا ہے کہ اگر کوئی لفظ حرفِ صحیح consonant پر ختم ہو رہا ہے اور اگلا لفظ الف یا آ سے شروع ہو رہا ہے تو اگلے لفظ کے الف کو ساقط کر کے پچھلے لفظ کا آخری حرف اگلے لفظ کے الف ساقط کرنے کے بعد جو بچتا ہے اسکے ساتھ وصال کر دیتے ہیں، جیسے

ہم اپنی میں میم حرفِ صحیح ہے (حرفِ علت نہیں ہے) تو میم کو 'اپنی' کا الف ساقط کر کے پ کے ساتھ وصال کرایا، اور بن گیا ہَ مپ نی۔ وجہ یہ ہے کہ بولنے میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور فائدہ یہ کہ وزن پورا ہو جاتا ہے (یہ جملہ میرا خیال ہے کافی بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں)۔

الفِ وصل پر بحث میری اس پوسٹ میں بھی دیکھیئے۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=227972&postcount=5


فعولن
یدی دار
میں نے پڑھا تھا کے اس بحر میں اگر ایک اصافی رکن ہو جائے تو وہ وزن میں ہی ہو گا کیون کے ایک رکن کی اجازت ہے
کیا میں نے ٹھیک سبق لکھا ہے مہربانی فرما کر اصلاح کرتے رہیں شکریہ

باندھا آپ نے صحیح ہے، وضاحت کیلیئے نوٹ کریں کہ اسے عملِ تسبیغ کہتے ہیں۔ اور اسکے بعد جو وزن بنتا ہے اسکو مسبغ وزن کہتے ہیں۔ کرتے اس میں یہ ہیں کہ آخری رکن کے آخری حرف سے پہلے ایک الف کا اضافہ کر دیتے ہیں۔

جیسے اس بحر میں آخری رکن فعولن ہے، اسکے آخری حرف 'ن' سے پہلے ایک الف کا اضافہ کریں تو یہ ہوگا فعولان، اور یہی مسبغ وزن ہے یعنی اس بحر کا اب وزن ہوگا فعولن فعولن فعولن فعولان اور آپ کے مصرعے کا بھی یہی وزن ہوگا۔ آسانی سے یاد رکھنے کیلئے یہ کہہ لیں کہ آخری رکن میں ایک ہجائے کوتاہ 1 کا اضافہ کر لیں۔

عملِ تسبیغ کی عموماً بہت ساری بحروں میں اجازت ہے (کچھ میں نہیں بھی ہے) اور یہ عموماً جگہ جگہ استعمال ہوتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مبارک ہو خرم۔ یہ غزل واقعی مکمل وزن میں ہے۔ وارث اچھے استاد ثابت ہوئے ہیں۔ اب ان کا یہ نیا رتبہ پکا۔!!! محفل میں ہر رکن کی اصلاح اسی طرح کریں کہ غزل کہنا آ جائے سب کو۔
اور یہ پھر لکھتا ہوں کہ اگر عروض کسی کے بس میں نہ آ رہا ہو تو غزلوں سے اجتناب کریں، نثری نظمیں ہی لکھتے رہیں۔ ان کو بھی قبوک تو کیا ہی جاتا ہے، اگرچہ ہم جیسے کچھ ثقہ لوگ ان کو سونگھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ہماری مجبوری ہے شاید۔۔


ذرہ نوازی ہے آپ کی اعجاز صاحب، لیکن یقین مانیے میں اس کام کا اہل نہیں ہوں یہ تو آپ جیسے اساتذہ کو ہی سزاوار ہے۔

ویسے خرم صاحب کی یہ غزل آپ نے میرے سر باندھ دی، حالانکہ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ غزل انہوں نے کافی عرصہ پہلے کہی تھی۔ :)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہاں واؤ معدولہ ہے، یہ وہ واؤ ہوتی ہے جسکی بولنے میں بالکل بھی آواز نہیں ہوتی، اور یہ فارسی الفاظ میں ہوتی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ سبھی ایسے فارسی الفاظ جن میں خ کے بعد واؤ ہوتی ہے ان میں واؤ معدولہ نہیں ہوتی (فاتح صاحب کی پوسٹ پر غور کریں)۔ مشہور الفاظ جن میں واؤ معدولہ ہے اور جو بولنے میں نہیں آتی اور نہ ہی جسکا کوئی عروضی وزن ہے وہ خود، خوش، خواہش، خواب، خویش، خوشامد، خورد وغیرہ۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن الفاظ میں‌ واؤ ہوتی ہے لیکن وہ پڑھنے میں نہیں‌ آتی صرف وہی واؤ تقطع میں لکھی نہیں جائے گی اور وزن میں بھی نہیں‌آئے گی اس کے علاوہ جو الفاظ فاتح صاحب نے بتائے ہیں وہ تقطع میں لکھے جائے گے اور وزن میں بھی آئے گے مطلب واؤ معدولہ وزن سے خارج ہوتی ہے لیکن اس کے علاوہ دوسرے واؤ وزن میں استعمال ہوتی ہے


یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ عملِ اخفا (گرانے کا عمل) ہمیشہ الفاظ کے آخر میں ہوتا ہے، شروع یا درمیان میں نہیں۔ تو؟

یہاں پر الفِ وصل کا استعمال ہوا ہے (اسے یاد رکھیں)، یہ اسطرح سے ہوتا ہے کہ اگر کوئی لفظ حرفِ صحیح consonant پر ختم ہو رہا ہے اور اگلا لفظ الف یا آ سے شروع ہو رہا ہے تو اگلے لفظ کے الف کو ساقط کر کے پچھلے لفظ کا آخری حرف اگلے لفظ کے الف ساقط کرنے کے بعد جو بچتا ہے اسکے ساتھ وصال کر دیتے ہیں، جیسے

ہم اپنی میں میم حرفِ صحیح ہے (حرفِ علت نہیں ہے) تو میم کو 'اپنی' کا الف ساقط کر کے پ کے ساتھ وصال کرایا، اور بن گیا ہَ مپ نی۔ وجہ یہ ہے کہ بولنے میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور فائدہ یہ کہ وزن پورا ہو جاتا ہے (یہ جملہ میرا خیال ہے کافی بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں)۔

الفِ وصل پر بحث میری اس پوسٹ میں بھی دیکھیئے۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=227972&postcount=5

شکریہ
اچھا اس کے علاوہ کون کون سے الفاظ ہیں جن کے شروع سے حرف کو گرا کر پچھلے لفظ سے میلایا جا سکتا ہے

باندھا آپ نے صحیح ہے، وضاحت کیلیئے نوٹ کریں کہ اسے عملِ تسبیغ کہتے ہیں۔ اور اسکے بعد جو وزن بنتا ہے اسکو مسبغ وزن کہتے ہیں۔ کرتے اس میں یہ ہیں کہ آخری رکن کے آخری حرف سے پہلے ایک الف کا اضافہ کر دیتے ہیں۔

جیسے اس بحر میں آخری رکن فعولن ہے، اسکے آخری حرف 'ن' سے پہلے ایک الف کا اضافہ کریں تو یہ ہوگا فعولان، اور یہی مسبغ وزن ہے یعنی اس بحر کا اب وزن ہوگا فعولن فعولن فعولن فعولان اور آپ کے مصرعے کا بھی یہی وزن ہوگا۔ آسانی سے یاد رکھنے کیلئے یہ کہہ لیں کہ آخری رکن میں ایک ہجائے کوتاہ 1 کا اضافہ کر لیں۔
بہت خوب بہت بہتر اچھا یہ بتائیں ایک غزل میں‌ کتنی بار عملِ تسبیغ کرنے کی اجازت ہے مطلب صرف ایک ہی مصرےمیں کر سکتے ہیں‌یا ایک سے زیادہ پر بھی ؟؟

عملِ تسبیغ کی عموماً بہت ساری بحروں میں اجازت ہے (کچھ میں نہیں بھی ہے) اور یہ عموماً جگہ جگہ استعمال ہوتا ہے۔[/QUOTE]

اس بارے میں‌تو ساتھ ساتھ پتہ چلتا جائے گا اب میں‌کوشش کرتا ہوں اس بحر میں‌ایک غزل اور لکھوں اور اس کو پھر یہاں‌پیش کروں بلکہ ساگر بھائی سے بھی یہی کہتاہوں‌کہ وہ بھی اسی بحر میں‌ایک غزل لکھے اور اس کے یہاں بیان کرے تقطع کے ساتھ پھر ملتے ہیں نئی غزل کے ساتھ کیا یہ طریقہ ٹھیک رہے گا وارث صاحب یا حضرت غالب صاحب اور حضرت اقبال صاحب کی زمین پر ہی لکھے
 

محمد وارث

لائبریرین
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن الفاظ میں‌ واؤ ہوتی ہے لیکن وہ پڑھنے میں نہیں‌ آتی صرف وہی واؤ تقطع میں لکھی نہیں جائے گی اور وزن میں بھی نہیں‌آئے گی اس کے علاوہ جو الفاظ فاتح صاحب نے بتائے ہیں وہ تقطع میں لکھے جائے گے اور وزن میں بھی آئے گے مطلب واؤ معدولہ وزن سے خارج ہوتی ہے لیکن اس کے علاوہ دوسرے واؤ وزن میں استعمال ہوتی ہے

درست سمجھا اور کہا آپ نے۔


شکریہ
اچھا اس کے علاوہ کون کون سے الفاظ ہیں جن کے شروع سے حرف کو گرا کر پچھلے لفظ سے میلایا جا سکتا ہے

ایک درخواست یہ کہ الفِ وصل کے ساقط کرنے کو 'گرانا' کہنا چھوڑ دیں،'گرانا' اخفا سے متعلق ہے یہ ساقط کرنا ہے اور وہ بھی ایک مخصوص 'الف' کا، فرق آپ بخوبی سمجھتے ہیں۔

دوسرا یہ کہ یہ الفاظ کی فہرست نہیں ہے بلکہ ایک فارمولا یا کلیہ ہے جسکی تفصیل اوپر گزر چکی ہے، کچھ مثالیں دیکھتے ہیں:

'اگر اُس' کا وزن فَعُولُن یعنی 1 2 2 ہے لیکن اگر اس میں الف وصل کو ساقط کریں تو یہ لفظ ' اَ گَ رُس' بن جائے گا جس کا وزن فَعِلن یا 1 1 2 ہوگا، اب یہ شاعر کی مرضی ہے کہ 'اگر اس' کو فعولن سمجھے یا فعلن، کوئی اس پر معترض نہیں ہوگا۔

اسی طرح 'ہم آخر' یا مفعولن 2 2 2 کو 'ہَ ما خر' یا فعولن 1 2 2 بنا لیں۔

'خرم اب آسانی سے اس آسان عروضی انداز کو سمجھ رہے ہیں' اس جملے میں جہاں جہاں بھی الف وصل کو ساقط کیا جا سکتا ہے اسکی نشاندہی کریں۔ اور جہاں جہاں نہیں کر سکتے اسکی بھی۔:)



بہت خوب بہت بہتر اچھا یہ بتائیں ایک غزل میں‌ کتنی بار عملِ تسبیغ کرنے کی اجازت ہے مطلب صرف ایک ہی مصرےمیں کر سکتے ہیں‌یا ایک سے زیادہ پر بھی ؟؟

شاعر کی صوابدید ہے، پوری غزل میں کرے، یا کسی مصرعے میں بھی نہ کرے یا کسی میں کرے یا نہ کرے، یہ اسکی اپنی مرضی ہے۔ لیکن مصرعوں میں ایک جگہ ایسی ہے کہ اگر وہاں اس نے مسبغ وزن باندھ لیا تو بعد میں کچھ اور مصرعوں میں عملِ تسبیغ نا گزیر ہو جائے گا، سوچیئے اور بتائیے۔

مسبغ وزن کسی بھی مصرعے کے آخر میں جائز ہے درمیان میں نہیں، لیکن مقطع بحروں (جسکے ایک مصرعے کی بخوبی دو مساوی ٹکڑوں میں تقیسم ہوسکے، تفصیل بعد میں) کے درمیان بھی یہ عمل جائز ہے۔


اس بارے میں‌تو ساتھ ساتھ پتہ چلتا جائے گا اب میں‌کوشش کرتا ہوں اس بحر میں‌ایک غزل اور لکھوں اور اس کو پھر یہاں‌پیش کروں بلکہ ساگر بھائی سے بھی یہی کہتاہوں‌کہ وہ بھی اسی بحر میں‌ایک غزل لکھے اور اس کے یہاں بیان کرے تقطع کے ساتھ پھر ملتے ہیں نئی غزل کے ساتھ کیا یہ طریقہ ٹھیک رہے گا وارث صاحب یا حضرت غالب صاحب اور حضرت اقبال صاحب کی زمین پر ہی لکھے


آپ کی مرضی ہے اور ساگر صاحب لگتا ہے آج کل متقارب کے قریب ہونے کی کوششوں میں ہیں۔ :)

آخری بات (آج کی) یہ کہ اقبال کو تو ساری دنیا رحمۃ اللہ علیہ کہتی ہے، محترم اگر آپ صرف غالب کو ہی حضرت کہتے رہیں تو خاکسار زیرِ بارِ احسان ہے۔ :)
 

ایم اے راجا

محفلین
خرم بھائی اور وارث بھائی اسلاموعلیکم۔
بھائی میں کچھ مصروفیات کی وجہ کافی دنوں بعد حاضر ہوا ہوں، شاید کافی پیچھے رھ گیا ہوں، چلیں دیر آید درست آید، ہاہاہاہاہاہ۔
وارث بھائی، کیا ہم بحرِ متقارب یا کسی اور بحر میں ایک رکن یا ایک لفظ کا اضافہ کر سکتے ہیں، پہلے رکن میں درمیان میں یا آخر میں، جیسے فعولن فعولن فعولن فعولن، فعلان فعولن فعولن فعولن، یا فعولن فعولن فعولن نعلان، یا فعولن فعولن فعلان فعولن، یا فعولن فعلان فعولن فعولن، اس طرح اضافہ کر سکتے ہیں؟

کیا مندرجہ ذیل شعر بحر مقتجب کے مطابق درست ہے ؟

کب تک تیرے بس میں رہوں
غم کی دسترس میں رہوں

طالبِ جواب۔ شکریہ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم بھائی اور وارث بھائی اسلاموعلیکم۔
بھائی میں کچھ مصروفیات کی وجہ کافی دنوں بعد حاضر ہوا ہوں، شاید کافی پیچھے رھ گیا ہوں، چلیں دیر آید درست آید، ہاہاہاہاہاہ۔
وارث بھائی، کیا ہم بحرِ متقارب یا کسی اور بحر میں ایک رکن یا ایک لفظ کا اضافہ کر سکتے ہیں، پہلے رکن میں درمیان میں یا آخر میں، جیسے فعولن فعولن فعولن فعولن، فعلان فعولن فعولن فعولن، یا فعولن فعولن فعولن نعلان، یا فعولن فعولن فعلان فعولن، یا فعولن فعلان فعولن فعولن، اس طرح اضافہ کر سکتے ہیں؟

کیا مندرجہ ذیل شعر بحر مقتجب کے مطابق درست ہے ؟

کب تک تیرے بس میں رہوں
غم کی دسترس میں رہوں

طالبِ جواب۔ شکریہ۔

میں بھی مصروفیات کی وجہ سے کم ہی وقت دے رہا ہوں ویسے میں ہوں ویلا :grin:
ارے ساگر بھائی پہلے متقارب کو تو مکمل ہونے دے

جواب دیکھتے ہیں جناب وارث صاحب کا
 

الف عین

لائبریرین
ساگر۔ وارث نمے اوپر لکھا ہے:

مسبغ وزن کسی بھی مصرعے کے آخر میں جائز ہے درمیان میں نہیں، لیکن مقطع بحروں (جسکے ایک مصرعے کی بخوبی دو مساوی ٹکڑوں میں تقیسم ہوسکے، تفصیل بعد میں) کے درمیان بھی یہ عمل جائز ہے۔

اس رو سے دوسرا مصرہ بحر میں درست نہیں۔ یہ اجازت محض آخری رکن میں ہو سکتی ہے اور وہ بھی سبب اور وتد کا لحاظ رکھتے ہوئے، یعنی فعولن والی بھر میں آخر میں فعو محض یا فعول تو ممکن ہے، لیکن فعول کی طرح چار حرفی فعلن نہیں۔ کہ فعلن 22 ہے، فعول 121 ہے۔
اور تمہارا شعر تو یوں بھی فعلن فعلن میں ہے۔ اس میں فعلن فعلن کی بجائے فعل فعولن کی اجازت ہے، لیکن دسترس والا مصرعہ تو فٹ نہیں ہوتا۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ساگر۔ وارث نمے اوپر لکھا ہے:

مسبغ وزن کسی بھی مصرعے کے آخر میں جائز ہے درمیان میں نہیں، لیکن مقطع بحروں (جسکے ایک مصرعے کی بخوبی دو مساوی ٹکڑوں میں تقیسم ہوسکے، تفصیل بعد میں) کے درمیان بھی یہ عمل جائز ہے۔

اس رو سے دوسرا مصرہ بحر میں درست نہیں۔ یہ اجازت محض آخری رکن میں ہو سکتی ہے اور وہ بھی سبب اور وتد کا لحاظ رکھتے ہوئے، یعنی فعولن والی بھر میں آخر میں فعو محض یا فعول تو ممکن ہے، لیکن فعول کی طرح چار حرفی فعلن نہیں۔ کہ فعلن 22 ہے، فعول 121 ہے۔
اور تمہارا شعر تو یوں بھی فعلن فعلن میں ہے۔ اس میں فعلن فعلن کی بجائے فعل فعولن کی اجازت ہے، لیکن دسترس والا مصرعہ تو فٹ نہیں ہوتا۔

سر تو پھر اس مصرعےکو کسے فٹ کرے گے ؟؟
 

الف عین

لائبریرین
خرم۔اور ساگر بھی۔۔۔۔۔
افسوس کہ لفظ ’دسترس‘ کسی طرح اس بحر میں فٹ نہیں ہوتا۔ دسترس بر وزن فاعلن ہے، جو نہ فعلن فعلن میں کہیں گھس سکتا ہے اور نہ فعل فعولن میں، یہی دو ارکان ممکن ہیہں اس بحر میں۔
وارث کہاں ہو، یار مجھ سے عروض کم ہی جھیلی جاتی ہے۔ جو کچھ کہتا ہوں میں، محض یاد داشت سے یا اپنے ’بلٹ ان کامن سینس‘ سے۔
 
Top