برا ہِ کرم تقطیع کر دیں

محمد وارث

لائبریرین
اچھی غزل ہے راجا صاحب۔

دوسرے شعر لاجواب ہے، بہت خوب، بہت پسند آیا مجھے۔ لیکن اس میں مجھے 'تری' کی بجائے 'مری' زیادہ لطف دے رہا ہے، کیا خیال ہے؟
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
واہ واہ واہ راجا بھائی کیا بات ہے آپ کی بہت خوب بہت اچھی غزل ہے کیا بات ہے آپ کی ساری غزل بہت اچھی ہے لیکن مجھے یہ شعر بہت پسند آئے بہت خوب

تری آنکھ دریا ہے ایسا کہ جسکا
کسی سمت کوئی کنارہ نہیں ہے


بہاروں کی آمد ہے گلشن میں لیکن
مری چشم نم ہے، نظارہ نہیں ہے

بھلا دوں اسے پر ہے پاسِ محبت
وفاؤں سے پھرنا گوارہ نہیں ہے
 

ایم اے راجا

محفلین
اچھی غزل ہے راجا صاحب۔

دوسرے شعر لاجواب ہے، بہت خوب، بہت پسند آیا مجھے۔ لیکن اس میں مجھے 'تری' کی بجائے 'مری' زیادہ لطف دے رہا ہے، کیا خیال ہے؟

بہت شکریہ وارث بھائی، آپ نے تو میرا خون دگنا کر دیا:)
دوسرے شعر میں تری کہ بجائے مری لکھنے سے ترنم میں واقعی اضافہ ہوتا ہے، مگر خیال بدل جاتا ہے، یعنی شاعر محبوب کی آنکھ کی بات کر رہا، کہ وہ دریا کی مانند ہیں،
ذرا اظہارِ خیال فرمائیے گا،
اعجاز صاحب سے بھی توجہ کی استدعا ہے شکریہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ وارث بھائی، آپ نے تو میرا خون دگنا کر دیا:)
دوسرے شعر میں تری کہ بجائے مری لکھنے سے ترنم میں واقعی اضافہ ہوتا ہے، مگر خیال بدل جاتا ہے، یعنی شاعر محبوب کی آنکھ کی بات کر رہا، کہ وہ دریا کی مانند ہیں،
ذرا اظہارِ خیال فرمائیے گا،
اعجاز صاحب سے بھی توجہ کی استدعا ہے شکریہ۔


آپ نے صحیح کہا، راجا صاحب لیکن محبوب کی آنکھوں کی تعریف میں شاید 'دریا' کی بجائے 'جھیل' لاتے ہیں۔ شاید دریا بھی ہو لیکن جھیل زیادہ مستعمل اور مقتضائے حال ہے۔

'مری' آنکھ دریا ہے ایسا کہ جسکا
کسی سمت کوئی کنارہ نہیں ہے

'مری' کرنے سے مجھے یہ لگا کہ میری آنکھیں تیرے ہجر میں رو رو کر ایک ایسا دریا بن چکی ہیں اور وہ طغیانی پر ہیں کوئی کنارہ ہی نہیں رہا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میرا دھیان تعریف کی طرف گیا ہی نہیں تھا۔ :)
 

ایم اے راجا

محفلین
آپ نے صحیح کہا، راجا صاحب لیکن محبوب کی آنکھوں کی تعریف میں شاید 'دریا' کی بجائے 'جھیل' لاتے ہیں۔ شاید دریا بھی ہو لیکن جھیل زیادہ مستعمل اور مقتضائے حال ہے۔

'مری' آنکھ دریا ہے ایسا کہ جسکا
کسی سمت کوئی کنارہ نہیں ہے

'مری' کرنے سے مجھے یہ لگا کہ میری آنکھیں تیرے ہجر میں رو رو کر ایک ایسا دریا بن چکی ہیں اور وہ طغیانی پر ہیں کوئی کنارہ ہی نہیں رہا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میرا دھیان تعریف کی طرف گیا ہی نہیں تھا۔ :)
استادوں سے بحث یو تو بہت غلط روش ہے مگر بندہ آپکو بھائی کہتا ہے سو جائز جانتا ہے:)
آپ صد فیصد درست ہیں، مگر میرا خیال یہ تھا کہ مرے محبوب کی آنکھیں ایسا دریا ہے کہ جس کا کنارہ ہی نہیں اگر میں ڈوب گیا تو پھر باہر نکلنا دشوار ہو جائے گا۔

سو ہم یہ فیصلہ اعجاز صاحب تک اٹھا رکھتے ہیں کہ، مری ٹھیک ہے یا تری:)
 

الف عین

لائبریرین
مجھے بھی ’مری‘ زیادہ بہتر لگ رہا ہے۔ دونوں الفاظ میں شعر تو درست ہے لیکن مفہوم الگ الگ ہیں۔ اور ان دونوں مفہوموں میں مجھے ’مری‘ کے ساتھ والا مضمون زیادہ پسند آ رہا ہے۔ محبوب کی آنکھوں کی تعریف تو بہت لوگوں نے کی ہوگی لیکن اپنے گریے کی تعریف کم ہی کی گئی ہے۔
باقی اشعار کل دیکھتا ہوں۔ خرم کی بھی غزلیں کاپی پیسٹ کر کے رکھی ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
آ گیا میں یہاں۔۔۔۔
وہ سورج ہے کوئی، ستارہ نہیں ہے
مگر اب رہا وہ، ہمارا نہیں ہے

مفہوم۔۔ اگر وہ ستارہ ہوتا تو کیا تمہارا ہو جاتا ؟؟
پہلے مصرعے کی مناسبت سے کسی دوسرے مصرعے کی ضرورت ہے یہاں۔
تری آنکھ دریا ہے ایسا کہ جسکا
کسی سمت کوئی کنارہ نہیں ہے

جیسا وارث نے کہا ہے ’مری‘ بہتر ہے۔ نہ صرف یہ کہ آنکھوں کے حسن کو دریا سے تشبیہ نہیں دی جاتی، بلکہ جھیل سے۔ بلکہ مری کہنے سے شعر کا حسن بڑھ جاتا ہے۔ شاعری اگر داخلی بیان سے مملو ہو تو زیادہ پر اثر ہوتی ہے۔ خارجی طور پر محض کسی انسان یا شے کا حسن بیان کر دیا جائے تو وہ بات نہیں ہوتی۔ شاعری ہو جاتی ہے لیکن بڑی شاعری نہیں۔ اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں’سمت‘ کا لفظ بھی بدل دیا جائے تو کیسا رہے۔۔ یعنی:
مری آنکھ دریا ہے ایسا کہ جس میں
کہیں چھور، کوئی کنارہ نہیں ہے
تو کیسا رہے؟

ضیا کیا کرے گا یہ جگنو گھروں میں
چمک اس کی، کوئی شرارہ نہیں ہے

شرارہ چمک دیتا ہے یا گھر پھونک دیتا ہے؟ اس کے علاوہ جو زبان استعمال کی گئی ہے اس میں ’ضیا‘ جیسا ثقیل لفظ مناسب نہیں۔ یوں کیہوں تو شاید کچھ بات بہتر بنے:
بھلا کیا یہ روشن کرے گا گھروں کو
یہ جگنو ہے، کوئی ستارہ نہیں ہے

نہ آیا کبھی پوچھنے بھی جو ہم کو
بھلانا اسے پر گوارہ نہیں ہے

دوسرے مصرعے کی زبان کھٹکتی ہے، ’پر‘ کی وجہ سے
کبھی پوچھنے بھی جو آیا نہ ہم کو
اسے بھول جائیں؟ گوارا نہیں ہے


چلے وہ اگر، ساتھ دنیا ہے چلتی
یہاں میں، کہ کوئی سہارا نہیں ہے

دوسرا مصرعہ بے معنی لگتا ہے، پہلا مصرع بھی اگر رواں کیا جائے تو یوں کیا جا سکتا ہے:
چلے وہ اگر ساتھ، دنیا چلے گی


بہاروں کی آمد ہے گلشن میں لیکن
مری چشم نم ہے، نظارہ نہیں ہے

یہاں بھی دوسرا مصرع بے معنی ہے۔ ویسے تمہارے ذہن میں یہ چشمِ نم تھا جیسا میں نے پڑھا ہے، یا اضافت نہیں ہے۔ اگر مطلب یہ ہے کہ میری آنکھوں میں آنسوؤں کی وجہ سے کوئی نظارہ نہیں دیکھ سکتا ہوں، تو بہتر ہو کہ یہ کنفیوژن دور کرنے کے لئے اسے ’آنکھ‘ کر دو۔۔ مری آنکھ نم ہے۔ یا ’ہے‘ کی جگہ میں کر دو، یعنی مری چشمِ نم میں نظارہ نہیں ہے۔ مطلب اگر چہ اب بھی صاف نہیں ہے

بھلا دوں اسے پر ہے پاسِ محبت
وفاؤں سے پھرنا گوارہ نہیں ہے

وفا سے پھرنا؟؟ وعدوں سے پھرنا تو سنا ہے، وفا چھوڑی جا سکتی ہے۔ یوں کہیں تو؟
بھلا دوں اسے ہے مگر پاسِ الفت
مجھے بے وفائی گوارا نہیں ہے


جلے ہم ہیں اسطرح راجا وفا میں
بچا کچھ بھی اب ہمارا نہیں ہے
دوسرے مصرعے میں شاید ’تو‘ ٹائپ کرنا بھول گئے، یوں کہا ہوگا کہ بچا کچھ بھی اب تو ہمارا نہیں ہے۔ شعر کوئی خاص تو نہیں، بس ’چلیبل‘ ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ویسے استادِ محترم صاحب آپ کی اصلاح بہت کمال کی ہوتی ہے جس شعر کو آپ کہتے ہیں کہ یہ کچھ خاص نہیں ہے لیکن وہ عام لوگ بہت پسند کرتے ہیں مطلب یہ کے آپ اعلیٰ درجے پر ہماری اصلاح کرتے ہیں اور ہمیں بھی اعلیٰ درجے پر دیکھنا چاہتے ہیں اگر آپ کسی شعر کو کہتے ہیں یہ شعر اچھا ہے تو اس شعر کو عام آدمی بہت بہت بہت پسند کرتا ہے مطلب وہ شعر پھر بہت کما کا ہوتا ہے ہمارے اور آپ کے ذہین میں زمین ، آسمان کا فرق ہے اس لیے ہماری غزل میں بہت ساری غلطیاں ہوتی ہیں لیکن راجا بھائی یہی ہمارے لیے بہتر ہے کیا خیال ہے آپ کا بہت شکریہ سر جی
 

ایم اے راجا

محفلین
استادِ محترم غزل کو دوبارہ کہا ہے برائے کرم توجہ دیجیئے۔ شکریہ۔
وہ سورج ہے کوئی ستارہ نہیں ہے
رہا اب مگر جو ہمارا نہیں ہے

مری آنکھ دریا ہے ایسا کہ جسکا
کسی سمت کوئی کنارہ نہیں ہے

بھلا کیا یہ روشن کرے گا گھروں کو
یہ جگنو ہے کوئی ستارہ نہیں ہے

کبھی پو چھنے بھی جو آیا نہ ہم کو
اسے بھول جائیں؟ گوارہ نہیں ہے

چلے وہ اگر ساتھ، دنیا چلے گی
یہاں میں کہ، کوئی سہارا نہیں ہے

بہاروں کی آمد ہے گلشن میں لیکن
مری آنکھ نم ہے، نظارہ نہیں ہے

بھلا دوں اسے ہے مگر پاسِ الفت
مجھے بے وفائی گوارہ نہیں ہے

جلے ہم ہیں اسطرح راجا وفا میں
بچا کچھ بھی اب تو ہمارا نہیں ہے​
 

مغزل

محفلین
راجا بھیا اچھی کوشش ہے ۔۔ سادہ زبان میں اچھی کوشش پر مبارکباد
۔۔۔اصلاح کیلئے رجوع کرتے ہیں الف عین صاحب اور وارث بھائی کی جانب۔
 

الف عین

لائبریرین
استادِ محترم غزل کو دوبارہ کہا ہے برائے کرم توجہ دیجیئے۔ شکریہ۔
وہ سورج ہے کوئی ستارہ نہیں ہے
رہا اب مگر جو ہمارا نہیں ہے

/// اس کا تو میں لکھ چکا ہوں کہ مطلب واضح نہیں۔

مری آنکھ دریا ہے ایسا کہ جسکا
کسی طرف کوئی کنارہ نہیں ہے

///یہاں وزن سے خارج کر دیا ےتم نے اس کو۔ اس سے تو کسی سمت‘ ہی بہتر تھا، لیکن میرا اعتراض دوسرا تھا۔ دریاؤں کی سمتیں نہیں ہوتیہں۔

بھلا کیا یہ روشن کرے گا گھروں کو
یہ جگنو ہے کوئی ستارہ نہیں ہے

کبھی پو چھنے بھی جو آیا نہ ہم کو
اسے بھول جائیں؟ گوارہ نہیں ہے

چلے وہ اگر ساتھ، دنیا چلے گی
یہاں میں کہ، کوئی سہارہ نہیں ہے
//// ابھی بھی مطلب واضح نہیں۔ کیا مطلب یوں ادا ہو سکتا ہے:
یہاں کوئی اپنا سہارا نہیں ہے؟

بہاروں کی آمد ہے گلشن میں لیکن
مری آنکھ نم ہے کوئی نظارہ نہیں ہے

/// یہاں ’کوئی‘ کا اضافہ کیوں، جس سے بحر سے خارج کر دیا ہے!!

بھلا دوں اسے ہے مگر پاسِ الفت
مجھے بے وفائی گوارہ نہیں ہے

جلے ہم ہیں اسطرح راجا وفا میں
بچا کچھ بھی اب تو ہمارا نہیں ہے​

باقی میں نے کچھ تبدیلی نہیں کی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
راجا۔۔ میں نے تمہارے پیغام میں ہی اصلاح اور رائے دے دی ہے۔ ’///‘ کے ساتھ Comments ہیں۔ ’کوئی‘ کا تم نے اضافہ کیوں اور کیسے کیا، یہ میں کیا جانوں؟
طرف ’فعو‘ ہے۔ کسی طرف اگر فعولن کیا جائے تو ’ر‘ ساکن ہوتا ہے، یعنی طرف بر وزن ’برف‘ آتا ہے، یا معلوم نہیں تم برف کو بھی بَرَف کہتے ہو تو۔
 

ایم اے راجا

محفلین
استادِ محترم و ساتھیو السلام علیکم،
کافی دنوں بعد متقارب میں ایک غزل کہی ہے جو ذیل میں آپکی نذر کرتا ہوں۔ شکریہ۔

مجھے زندگی سے گلہ بھی نہیں ہے
اگرچہ کبھی کچھ ملا بھی نہیں ہے

محبت ہے بے لوث جذبہ دلوں کا
سو مینے تو چاہا صلہ بھی نہیں ہے

قبیلے نے میرے دیا تھا جو گھاؤ
ابھی تک کسی سے سلا بھی نہیں ہے

یہ موسم کی سازش ہے بارش سے لوگو
کہ غنچہ چمن میں کھلا بھی نہیں ہے

امیروں نے شہروں میں راجا کبھی بھی
غریبوں کو بخشی جلا بھی نہیں ہے
 
Top