برا ہِ کرم تقطیع کر دیں

ایم اے راجا

محفلین
وارث بھائی اب نئی بحر فعلن فعلن فعلن فعلن کو شروع کیا جائے تو کیسا رہے گا، میرا خیال ہیکہ اگر آپ اسکی کچھ تعریف بمعہ نام کر دیں تو میں نئی تھریڈ میں اِسے شروّ کر دوں، خرم آپ کیا کہتے ہیں۔
 
وارث بھائی اب نئی بحر فعلن فعلن فعلن فعلن کو شروع کیا جائے تو کیسا رہے گا، میرا خیال ہیکہ اگر آپ اسکی کچھ تعریف بمعہ نام کر دیں تو میں نئی تھریڈ میں اِسے شروّ کر دوں، خرم آپ کیا کہتے ہیں۔

اس بحر پر یاد آگیا تو مزاح کی ذیل میں تحریر کر دوں۔ امید ہیکہ احباب و اساتذہ برا نہیں منائیں گے۔

اگر اپنی ابے کھٹ کھٹ تکینیک میں اس بحر کا ترجمہ کیا جائے تو غالباً "کھٹکھٹ کھٹکھٹ کھٹکھٹ کھٹکھٹ" جیسی کوئی چیز سامنے آئے گی۔
بالی وڈ کا ایک گانا "ساجن ساجن ساجن ساجن" اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو اسی بحر میں ہے خیر مزے کی بات یہ کہ ایک بار ایک شرابی کو اس گانے سے متاثر ہو کر یوں گاتے ہوئے سنا "باون ترپن باون ترپن"۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی اب نئی بحر فعلن فعلن فعلن فعلن کو شروع کیا جائے تو کیسا رہے گا، میرا خیال ہیکہ اگر آپ اسکی کچھ تعریف بمعہ نام کر دیں تو میں نئی تھریڈ میں اِسے شروّ کر دوں، خرم آپ کیا کہتے ہیں۔

شکریہ ساگر صاحب، جو وزن آپ نے لکھا ہے وہ متقارب کی ہی ایک مزاحف شکل ہے، اور نام اسکا متقارب مثمن اثلم ہے اور کیا اس میں یہ ہے کہ 'فعولن' کا پہلا حرف اڑا دیا ہے باقی 'عُولُن' رہا تو اس کو 'فَعلُن' سے بدل لیا کیونکہ عروض کی یہ روایت ہے کہ رکن کے غیر معروف وزن کو معروف سے بدل دیتے ہیں۔

لیکن ایک بات یہ ہے کہ یہ بحر اردو میں مستعمل ضرور ہے لیکن اتنی زیادہ نہیں، اور اس میں شعر کم کم ہی کہے جاتے ہیں اور اسکی وجہ یہ ہے کہ اس میں سارے 'سبب' یا 2 اکھٹے ہو گئے اور الفاظ کا زیر و بم یا اتار چڑھاؤ کہ 'سبب' اور 'وتد' کی ترتیب سے بنتے ہیں اس میں نہیں ہیں سو حسن بھی کم کم ہے۔

امید ہے کہ متقارب کا ہی حصہ ہونے کی وجہ سے آپ کو اس بحر کی سمجھ آ گئی ہوگی۔

میرے خیال میں اگر نئی بحر ہی شروع کرنی ہے تو اس کیلیئے رمل مثمن مخذوف بہت بہتر رہے گی، جسکا وزن 'فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن' ہے، کلاسیکی اساتذہ عموماً اسی بحر سے عروض کی تعلیم شروع کیا کرتے تھے (یہ فقرہ صرف معلومات کیلیئے لکھا ہے وگرنہ میں پھر دہرا دوں کہ اللہ کے فضل و کرم سے استاد نہیں ہوں اور نہ بننا چاہتا ہوں :)


فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
2212 2212 2212 212

دیوانِ غالب کی پہلی غزل اسی بحر میں ہے۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا


باقی جیسے آپ کی مرضی۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اعجاز صاحب اور وارث صاحب آپ کی محبت کا بہت شکریہ اب اس غزل کے بارے میں کیا کہتے ہیں میں ساگر بھائی کی بات کا جواب بھی دوں گا لیکن پہلے ایک غزل اور ارسال کرنی ہے جو میں نے آج لکھی ہے


کہاں تک مجھے تو رُلاتا رہے گا
محبت کو اپنی چُھپاتا رہے گا

حقیقت فسانے بناتا رہے گا
مجھے خواب ہی بس دِکھاتا رہے گا

تجھی پر ہے لازم وطن کی حفاظت
توہی اب یہ پرچم اٹھاتا رہے گا

اگر راستے سے پلٹ کر ہے جانا
تو پھر راستے بھی بتاتا رہے گا

مجھے تو فسانے بھی اپنے سنا دے
مری داستاں ہی سُناتا رہے گا

ارے سُن کسی کی صدا آ رہی ہے
یہ خرم ہے اب گنگُناتا رہے گا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
مجھے شق ہے اس غزل میں‌پہلے سے زیادہ غلطیاں ہو گی لیکن پُر امید ہوں بہت شکریہ

میں زندہ مگر زندگی اب نہیں ہے
مری آنکھ میں‌روشنی اب نہیں ہے

مجھے دشمنی میں سکوں ہی سکوں ہے
میں کیسے کہوں عاشقی اب نہیں ہے

میں تنہا ہی خوش ہوں رہوں گا بھی تنہا
مجھے خواہشِ دوستی اب نہیں ہے

ترے جانے سے وہ بھی چپ ہو گئے ہیں
ہیں دشمن مگر دشمنی اب نہیں ہے

یہ غزلیں یہ نظمیں ترے دم سے تھیں بس
میں کیسے لکھوں شاعری اب نہیں ہے

مرا دل مری جاں ترا ہی ہے سب کچھ
مری زندگی بھی مری اب نہیں ہے



شکریہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
شکریہ ساگر صاحب، جو وزن آپ نے لکھا ہے وہ متقارب کی ہی ایک مزاحف شکل ہے، اور نام اسکا متقارب مثمن اثلم ہے اور کیا اس میں یہ ہے کہ 'فعولن' کا پہلا حرف اڑا دیا ہے باقی 'عُولُن' رہا تو اس کو 'فَعلُن' سے بدل لیا کیونکہ عروض کی یہ روایت ہے کہ رکن کے غیر معروف وزن کو معروف سے بدل دیتے ہیں۔

لیکن ایک بات یہ ہے کہ یہ بحر اردو میں مستعمل ضرور ہے لیکن اتنی زیادہ نہیں، اور اس میں شعر کم کم ہی کہے جاتے ہیں اور اسکی وجہ یہ ہے کہ اس میں سارے 'سبب' یا 2 اکھٹے ہو گئے اور الفاظ کا زیر و بم یا اتار چڑھاؤ کہ 'سبب' اور 'وتد' کی ترتیب سے بنتے ہیں اس میں نہیں ہیں سو حسن بھی کم کم ہے۔

امید ہے کہ متقارب کا ہی حصہ ہونے کی وجہ سے آپ کو اس بحر کی سمجھ آ گئی ہوگی۔

میرے خیال میں اگر نئی بحر ہی شروع کرنی ہے تو اس کیلیئے رمل مثمن مخذوف بہت بہتر رہے گی، جسکا وزن 'فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن' ہے، کلاسیکی اساتذہ عموماً اسی بحر سے عروض کی تعلیم شروع کیا کرتے تھے (یہ فقرہ صرف معلومات کیلیئے لکھا ہے وگرنہ میں پھر دہرا دوں کہ اللہ کے فضل و کرم سے استاد نہیں ہوں اور نہ بننا چاہتا ہوں :)


فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
2212 2212 2212 212

دیوانِ غالب کی پہلی غزل اسی بحر میں ہے۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا


باقی جیسے آپ کی مرضی۔

جی سر آپ نے ٹھیک کہا ہے فعلن بحر میں‌بہت کم شاعری نظر سے گزری ہے ایک مشہور غزل
ہم تم ہونگے بادل ہو گا
رقص میں سارا جنگل ہو گا
بھی اسی بحر میں ہے

میرے خیال سے بھی بحر کوبدلنا چاہے متقارب سے ہٹ کر کوئی بحر ہو باقی اب ساگر بھائی کا انتظار کرتے ہیں پھر اس بحر سے سے اگلی کلاس شروع کرے گے شکریہ
 

ایم اے راجا

محفلین
اچھی غزل ہے خرم صاحب اور وزن میں ہے، بہت خوب۔

پانچویں شعر کو ہو سکے تو مزید بہتر بنائیں، تھوڑا سا مبہم ہو رہا ہے کہ 'نا' شاید آپ نے تاکید کیلیئے لکھا ہے لیکن یہ 'نفی' کے معنی میں بھی آتا ہے اور دوسرے مصرعے میں بھی انداز شاید استفہامیہ ہے لیکن الفاظ نہ ہونے کی وجہ سے (کیا، کب تک وغیرہ) مبہم ہو جاتا ہے۔

بھائی چو تھے شعر پر بھی ذرا نظر ڈالیں، دوسرے مصرعے میں مطلب مبہم ہو رہا ہے۔ شکریہ
 

ایم اے راجا

محفلین
مجھے شق ہے اس غزل میں‌پہلے سے زیادہ غلطیاں ہو گی لیکن پُر امید ہوں بہت شکریہ

میں زندہ مگر زندگی اب نہیں ہے
مری آنکھ میں‌روشنی اب نہیں ہے

مجھے دشمنی میں سکوں ہی سکوں ہے
میں کیسے کہوں عاشقی اب نہیں ہے

میں تنہا ہی خوش ہوں رہوں گا بھی تنہا
مجھے خواہشِ دوستی اب نہیں ہے

ترے جانے سے وہ بھی چپ ہو گئے ہیں
ہیں دشمن مگر دشمنی اب نہیں ہے

یہ غزلیں یہ نظمیں ترے دم سے تھی(تھیں) بس
میں کیسے لکھوں شاعری اب نہیں ہے

مرا دل مری جاں ترا ہی ہے سب کچھ
مری زندگی بھی مری اب نہیں ہے



شکریہ
خرم بھائی بہت اچھی غزل ہے ایک حقیقی واقع کی عکاس، بھائی میری سمجھ میں جو کچھ آیا ہے اسے سرخ کر دیا ہے، جو شعر سرخ کیئے ہیں انھیں دوبارہ کہیں، مزید اساتذہ کرام ہی رائے دیں گے۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ ساگر صاحب، جو وزن آپ نے لکھا ہے وہ متقارب کی ہی ایک مزاحف شکل ہے، اور نام اسکا متقارب مثمن اثلم ہے اور کیا اس میں یہ ہے کہ 'فعولن' کا پہلا حرف اڑا دیا ہے باقی 'عُولُن' رہا تو اس کو 'فَعلُن' سے بدل لیا کیونکہ عروض کی یہ روایت ہے کہ رکن کے غیر معروف وزن کو معروف سے بدل دیتے ہیں۔

لیکن ایک بات یہ ہے کہ یہ بحر اردو میں مستعمل ضرور ہے لیکن اتنی زیادہ نہیں، اور اس میں شعر کم کم ہی کہے جاتے ہیں اور اسکی وجہ یہ ہے کہ اس میں سارے 'سبب' یا 2 اکھٹے ہو گئے اور الفاظ کا زیر و بم یا اتار چڑھاؤ کہ 'سبب' اور 'وتد' کی ترتیب سے بنتے ہیں اس میں نہیں ہیں سو حسن بھی کم کم ہے۔

امید ہے کہ متقارب کا ہی حصہ ہونے کی وجہ سے آپ کو اس بحر کی سمجھ آ گئی ہوگی۔

میرے خیال میں اگر نئی بحر ہی شروع کرنی ہے تو اس کیلیئے رمل مثمن مخذوف بہت بہتر رہے گی، جسکا وزن 'فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن' ہے، کلاسیکی اساتذہ عموماً اسی بحر سے عروض کی تعلیم شروع کیا کرتے تھے (یہ فقرہ صرف معلومات کیلیئے لکھا ہے وگرنہ میں پھر دہرا دوں کہ اللہ کے فضل و کرم سے استاد نہیں ہوں اور نہ بننا چاہتا ہوں :)


فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
2212 2212 2212 212

دیوانِ غالب کی پہلی غزل اسی بحر میں ہے۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا


باقی جیسے آپ کی مرضی۔
بہت شکریہ وارث بھائی، اس نئی بحر کو میں نئی تھریڈ میں شروع کرتا ہوں، ویسے کیا عجیب بات ہے کہ آپ استاد بننا نہیں چاہتے اور ہم آپ کو اپنا استاد بنانے پر تلے ہوئے ہیں جو کہ ایک دن ہم کر کے ہی رہیں گے، کیا خیال ہے خرم جی :)
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے شق ہے اس غزل میں‌پہلے سے زیادہ غلطیاں ہو گی لیکن پُر امید ہوں بہت شکریہ

میں زندہ مگر زندگی اب نہیں ہے
مری آنکھ میں‌روشنی اب نہیں ہے

مجھے دشمنی میں سکوں ہی سکوں ہے
میں کیسے کہوں عاشقی اب نہیں ہے

میں تنہا ہی خوش ہوں رہوں گا بھی تنہا
مجھے خواہشِ دوستی اب نہیں ہے

ترے جانے سے وہ بھی چپ ہو گئے ہیں
ہیں دشمن مگر دشمنی اب نہیں ہے

یہ غزلیں یہ نظمیں ترے دم سے تھی بس
میں کیسے لکھوں شاعری اب نہیں ہے

مرا دل مری جاں ترا ہی ہے سب کچھ
مری زندگی بھی مری اب نہیں ہے



شکریہ

خرم صاحب متقارب کے آپ استاد ہوتے چلے جا رہے ہیں لیکن "شک" کی املا میں ابھی بھی آپ کو "شک" ہے جو اسے "شق" لکھ رہے ہیں، :) اس سے کچھ اور ہو نہ ہو، مطلب کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ "شق" کا مطلب پھاڑنا ہوتا ہے۔۔

غزل آپ کی وزن میں ہے، بہت خوب۔ 'تھی' کی ٹائپو کو "تھیں' کریں، ویسے یہ شعر کچھ بہتری بھی چاہتا ہے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم صاحب متقارب کے آپ استاد ہوتے چلے جا رہے ہیں لیکن "شک" کی املا میں ابھی بھی آپ کو "شک" ہے جو اسے "شق" لکھ رہے ہیں، :) اس سے کچھ اور ہو نہ ہو، مطلب کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ "شق" کا مطلب پھاڑنا ہوتا ہے۔۔

غزل آپ کی وزن میں ہے، بہت خوب۔ 'تھی' کی ٹائپو کو "تھیں' کریں، ویسے یہ شعر کچھ بہتری بھی چاہتا ہے۔

بہت شکریہ سر جی یہ پتہ نہیں کیوں میں ہر بار شک کو شق لکھ دیتا ہوں میں جس وقت یہ غزل لکھ رہا تھا اس وقت غصہ میں‌تھا شاہد اسی وجہ سے املا میں غلطی ہو گی ہے :confused: اس کے لیے معافی چاہتا ہوں
میں اور استاد :grin:
اس کا مطلب ہے یہ غزل بھی وزن میں ہے تھی کو میں تھیں کر دیتا ہوں بہت شکریہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم بھائی بہت اچھی غزل ہے ایک حقیقی واقع کی عکاس، بھائی میری سمجھ میں جو کچھ آیا ہے اسے سرخ کر دیا ہے، جو شعر سرخ کیئے ہیں انھیں دوبارہ کہیں، مزید اساتذہ کرام ہی رائے دیں گے۔ شکریہ۔

بہت شکریہ ساگر بھائی آپ نے اس شعر کو سرخ کیا تھا
میں زندہ مگر زندگی اب نہیں ہے
مری آنکھ میں‌روشنی اب نہیں ہے

اس میں کیا تبدیلی کروں اگر آپ مناسب تبدلی کر سکتے ہیں تو آپ کی مہربانی ہو گی شکریہ مجھے تو بس یہی اچھا لگا تھا اس لے میں نے لکھ دیا
اوپر تھی والی غلطی کو ٹھیک کر دیا گیا ہے شکریہ
 

ایم اے راجا

محفلین
معذرت کے ساتھ

مجھے شق ہے اس غزل میں‌پہلے سے زیادہ غلطیاں ہو گی لیکن پُر امید ہوں بہت شکریہ

میں زندہ مگر زندگی اب نہیں ہے
مری آنکھ میں‌روشنی اب نہیں ہے

مجھے دشمنی میں سکوں ہی سکوں ہے
میں کیسے کہوں عاشقی اب نہیں ہے

میں تنہا ہی خوش ہوں رہوں گا بھی تنہا
مجھے خواہشِ دوستی اب نہیں ہے

ترے جانے سے وہ بھی چپ ہو گئے ہیں
ہیں دشمن مگر دشمنی اب نہیں ہے

یہ غزلیں یہ نظمیں ترے دم سے تھیں بس
میں کیسے لکھوں شاعری اب نہیں ہے

مرا دل مری جاں ترا ہی ہے سب کچھ
مری زندگی بھی مری اب نہیں ہے



شکریہ
میں سب سے پہلے اساتذہ کرام سے نہایت معذرت خواہ ہوں کہ میں وہ کام کرنے لگا ہوں جس کے میں قطعی قابل نہیں ہوں، اور خرم بھائی سے معذرت چاہتا ہوں کہ میں نے انکی مندرجہ بالا خوبصورت غزل میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں کی ہیں لیکن انکے خیال کو ویسا ہی رکھا ہے، میں ایک بار پھر گذارش کردوں کے میں قطعی طور پر اس کام کے قابل نہیں ہوں، مگر جانے کیوں کر گذرا ہوں۔
خرم بھائی یہ میرا اپنا ایک خیال ہے ضروری نہیں کے آپ ان تبدیلیوں سے متفق ہوں۔ مگر اساتذہ کرام اور خرم بھائی سے گزارش ہیکہ اس پر اپنی قیمتی آراء ضرور دیں۔ شکریہ۔

ہوں زندہ مگر زندگی اب نہیں ہے
رہی آنکھ میں‌روشنی اب نہیں ہے

سکوں ہی سکوں ہے مجھے دشمنی میں
مجھے خواہشِ دوستی اب نہیں ہے​


میں تنہا ہی خوش ہوں، رہوں گا بھی تنہا
کسی سے مری عاشقی اب نہیں ہے

ترے جانے سے وہ بھی چپ ہو گئے ہیں
ہیں دشمن مگر دشمنی اب نہیں ہے

ترے دم ہی سے تھیں وہ نظمیں وہ غزلیں
لکھوں کیا کہ وہ شاعری اب نہیں ہے


مرا دل، مری جاں، یہ سب کچھ ترا ہے
مری سانس بھی تو مری اب نہیں ہے


سرخ کیئے گئے اشعار اور مصرع میں مینے تبدیلی کی ہے ذرا ملاحظہ فرمائیے، اور اپنی رائے دیجیئے۔ شکریہ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت خوب جناب پہلے جب میں نے اس کو پڑھا تو سوچا کے ساگر بھائی نے دوسرے اور تیسرے شعر کے مصرے بدل دیے ہیں لیکن جب غور کر کہ پڑھا تو بہت اچھا لگا شکریہ ساگر بھائی بہت شکریہ مجھے بہت خوشی ہوئی
 

ایم اے راجا

محفلین
واہ، میاں ساگر تو اچھے خاصے استاذ بن گئے۔ اصلاح واقعی بہتر ہے۔
ارے حضور کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔
بس آپ جیسے استادوں کی صحبت پا کر اچھا طالب علم بن گیا ہوں، بس دعائوں کا طالب ہوں۔
وارث بھائی آپ سے بھی التماس ہیکہ خرم کی غزل میں جو تبدیلیاں مینے کی ہیں ان پر اپنی رائے دیں تاکہ یہ غزل مزید بہتر ہو سکے۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب جناب پہلے جب میں نے اس کو پڑھا تو سوچا کے ساگر بھائی نے دوسرے اور تیسرے شعر کے مصرے بدل دیے ہیں لیکن جب غور کر کہ پڑھا تو بہت اچھا لگا شکریہ ساگر بھائی بہت شکریہ مجھے بہت خوشی ہوئی
خرم بھائی مینے آپ کی غزل کا کوئی مصرعہ تبدیل نہیں کیا ہے، صرف موضعوں لفظوں کا استعمال کیا ہے، آپ کی غزل بہت اچھی ہے اور مینے کوشش کی ہیکہ آپ کا خیال تبدیل نہ ہو، اب یہ کوشش کتنی بارآورثابت ہوئی ہے یہ آپ خود فیصلہ کریں۔ شکریہ۔
 
Top