بحرِ رمل

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم بھائی بہت اچھی غزل ہے، جو مصرع/ شعر میں نے نیلے کیئے ہیں غضب کے ہیں اور جو سرخ کیئے ہیں ان میں گڑ بڑ ہے، زیادہ تو وارث بھائی اور الف عین صاحب ہی دیکھیں گے، آپ کو اس تخلیق پر میری طرف سے دل کی گہرائیوں سے مبارک قبول ہو۔


بہت شکریہ ساگر بھائی اس پر اعجاز صاحب نے بھی آپ کی بات کی تصدیق کر دی ہےمیں اس پر کچھ کرتا ہوں شکریہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم بھائی بہت اچھی غزل ہے، جو مصرع/ شعر میں نے نیلے کیئے ہیں غضب کے ہیں اور جو سرخ کیئے ہیں ان میں گڑ بڑ ہے، زیادہ تو وارث بھائی اور الف عین صاحب ہی دیکھیں گے، آپ کو اس تخلیق پر میری طرف سے دل کی گہرائیوں سے مبارک قبول ہو۔


بہت شکریہ ساگر بھائی اس پر اعجاز صاحب نے بھی آپ کی بات کی تصدیق کر دی ہےمیں اس پر کچھ کرتا ہوں شکریہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
وارث بھی اب تک یہاں نہیں آئے؟
غزلیں دونوں ہی بحر و اوزان میں درست ہیں۔
فرخ کی غزل میں جو ساگر نے سرخ نشان دئے ہیں ان میں بحر سے زیادہ معانی کی گڑبڑ ہے بلکہ معانی میری بوڑھی عقل میں گھس نہیں رہے!!
مجھ سے بھی بڑ کر یہاں‌بد نام آئے گا بلہ
یہاں شاید ’بڑھ‘ لکھنا تھا، املا کی غلطی ہو گئی، لیکن یہ ’بلہ‘ کیا بلا ہے؟

نام تو ہوگا مرا بدنام کے آنے تلک
مجھے تو بے معنی لگ رہا ہے، بلکہ وہی اوپر والی بات

مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں
اس قدر بے دام ہوں میں دام کے آنے تلک
دوسرا مصرعہ واضح نہیں۔

صبح کی خرم ن رکھو امُید اب سو جائیے
چاند بھی سو جائے گا اس بام کے آنے تلک
دوسرا مصرعہ بہت خوب بلکہ حاصلِ غزل ہے، لیکن پہلے مصرعے میں بحر درست نہیں۔ ’نہ رکھ‘ وزن میں آتا ہے، لیکن یہاں یہ امر ہے جو آدھا واحد حاضر میں یعنی ’رکھ‘ جب کہ ’سو جائیے‘ میں جمع حاضر یا تعظیمی ہے، دونوں صورتوں میں ایک ہی طریقہ ہونا چاہئے۔ سوال پھر یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا صبح کی امید میں جاگا جاتا ہے؟؟

اب ساگر کی غزل:
پہلے وہی بات کہ نہ جانے کیوں ساگر میاں ہندی والوں کی طرح زبان بگاڑ دیا کرتے ہیں۔ ’میں جا رہا ہوں‘ جیسے بیان کو زیادہ سے زیادہ ’ جا رہا ہوں میں‘ باندھا جا سکتا ہے، لیکن ’رہا ہوں میں جا‘ ’جا میں ہوں رہا‘ ’رہا میں جا ہوں‘ الفاظ وہی ہیں لیکن نشست خراب ہے۔ جیسے یہ مصرعہ:
دے بدل ہر زاویہ وہ دفعتاً
درست ہونے پر بھی بھلا نہیں لگتا۔
اور کچھ باتیں:

بابری مسجد ہو یا سُمنات ہو
یہاں ’سوم ناتھ‘ یا ’سوم نات‘ کو سُمنات‘ بنا دینا ضرورت شعری تو کہا جا سکتا ہے لیکن درست نہیں۔
اسطرح پینے کو مے کب ملتی ہے
اور
جس جگہ پر دانے کی بہتات ہو
ان دونوں میں اگر چہ ے یا ی کا گرنا درست تو ہے لیکن کھٹکتا ہے۔ خاص کر
اسطرح پینے کو مے کب ملتی ہے
کو اگر
اسطرح پینے کو کب ملتی ہے مے
کر دیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور مصرع زیادہ رواں ہو جاتا ہے۔


محترم اعجاز صاحب مہربانی فرما کر جن جن مصروں کے مطلب سمجھ نہیں‌آتے ان کو تبدل کر دے میں‌کوشش کر رہا ہوں مجھے کوئی سمجھ نہیں‌آ رہی
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم سر میں نے کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے اس پر نظر ثانی فرما دے اور اس کی غلطیاں دور کر دے شکریہ

اب مری کاوش یہی ہے شام کے آنے تلک
بے خودی میں ہی رہوں گا جام کے آنے تلک

وقت کی شمشیر سے کٹتا ہی جائے من مرا
جان جائے گی ترے پیغام کے آنے تلک

مجھ سے بھی بڑ کر یہاں‌بد نام آئے گا بلہ
نام تو ہوگا مرا بدنام کے آنے تلک

مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں
اس قدر بے دام ہوں میں دام کے آنے تلک

صبح کی خرم ن رکھو امُید اب سو جائیے
چاند بھی سو جائے گا اس بام کے آنے تلک

شکریہ

خرم صاحب، آپ کی غزل پر اعجاز صاحب نے صائب رائے دی ہے بلکہ ان سے التماس ہے کہ اصلاح بھی ضرور فرمائیں اس غزل پر۔

مطلع لا جواب ہے، لیکن جو چیز مجھے کھٹکی وہ یہ کہ 'کاوش' سے آپ حتمی اور یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے یعنی "رہوں گا" میں بات حتمی ہو گئی لیکن 'کاوش' کا نتیجہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کے اندازوں کے مطابق ہو، یا تو کاوش کی جگہ کوئی اور لفظ لائیں یا پھر اگر کاوش ہی رکھنا ہے تو 'گا' نکال دیں، جیسے

اب مری کاوش یہی ہے شام کے آنے تلک
بے خودی میں ہی رہوں مَیں جام کے آنے تلک

تیسرے شعر میں املا کی دو غلطیاں ہیں، یعنی آپ نے یوں لکھنا چاہا شاید

مجھ سے بھی بڑھ کر یہاں ‌بد نام آئے گا بھلا؟
نام تو ہوگا مرا بدنام کے آنے تلک

اگر دوسرے مصرعے کو ایسے کریں تو شاید مطلب مزید واضح ہو جائے

نام کیا ہوگا مرا بدنام کے آنے تلک؟


مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں
اس قدر بے دام ہوں میں دام کے آنے تلک

صبح کی خرم ن رکھو امُید اب سو جائیے
چاند بھی سو جائے گا اس بام کے آنے تلک

دونوں اشعار بہتری چاہتے ہیں، مقطع کا پہلا مصرعہ وزن سے بھی خارج ہے، اعجاز صاحب سے اصلاح کی درخواست ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یاد کر کے میں اسے رویا نہیں​


آج تک ایسے کبھی سویا نہیں

زخم ہی کیوں ہاتھ کی قسمت بنے
کاٹتا ہوں کیوں وہ جو بویا نہیں

ہے الگ ہی داستاں سب سے مری

درد کو میں نے کبھی کھویا نہیں
ں


ساگر صاحب آپ کے اشعار وزن میں ہیں، بہت خوب۔
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں وارث کی اصلاح مناسب بلکہ بہت خوب ہے۔
بد نام قافئے والے شعر سے میں اب بھی مطمئن نہیں۔ اور نہ وارث کی اصلاح نے ہی کچھ خاص فرق پیدا کیا ہے۔
یوسف والے شعر کے مفہوم اب بھی واضح نہیں۔ کہنا کیا چاہتے ہیں، اس کا علم ہو تو سوچا جائے کچھ۔
مقطع یوں ہو تو۔۔ بلکہ اسے آخری شعر ہی سمجھیں کہ تخلص نہیں ہے:
وہ دریچہ کب کھلے گا، چھوڑئے، سو جائیے
یا مقطع ہی بنانا ہو تو
کیا توقع اس کی‌خرم، شب کو بھی سورج اُگے
مزید صورتیں:
کب وہ سورج ہو طلوع، اب آئیے سو جائیے

کب تلک امید رکھیں وہ جھروکے سے کھِلے
لیکن ابھی بھی مطمئن نہیں ہوں میں۔ یہ کچھ مصرعے جلدی جلدی ذہن میں آ گئے ہیں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم صاحب، آپ کی غزل پر اعجاز صاحب نے صائب رائے دی ہے بلکہ ان سے التماس ہے کہ اصلاح بھی ضرور فرمائیں اس غزل پر۔

مطلع لا جواب ہے، لیکن جو چیز مجھے کھٹکی وہ یہ کہ 'کاوش' سے آپ حتمی اور یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے یعنی "رہوں گا" میں بات حتمی ہو گئی لیکن 'کاوش' کا نتیجہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کے اندازوں کے مطابق ہو، یا تو کاوش کی جگہ کوئی اور لفظ لائیں یا پھر اگر کاوش ہی رکھنا ہے تو 'گا' نکال دیں، جیسے

اب مری کاوش یہی ہے شام کے آنے تلک
بے خودی میں ہی رہوں مَیں جام کے آنے تلک

تیسرے شعر میں املا کی دو غلطیاں ہیں، یعنی آپ نے یوں لکھنا چاہا شاید

مجھ سے بھی بڑھ کر یہاں ‌بد نام آئے گا بھلا؟
نام تو ہوگا مرا بدنام کے آنے تلک

اگر دوسرے مصرعے کو ایسے کریں تو شاید مطلب مزید واضح ہو جائے

نام کیا ہوگا مرا بدنام کے آنے تلک؟


مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں
اس قدر بے دام ہوں میں دام کے آنے تلک

صبح کی خرم ن رکھو امُید اب سو جائیے
چاند بھی سو جائے گا اس بام کے آنے تلک

دونوں اشعار بہتری چاہتے ہیں، مقطع کا پہلا مصرعہ وزن سے بھی خارج ہے، اعجاز صاحب سے اصلاح کی درخواست ہے۔

بہت شکریہ وارث صاحب بہت بہتر ہے مجھے خوشی ہوئی مطلع آپ کی نظر ثانی کے بعد خوب ہو گیا ہے پہلے میں کاوش کی جگہ کوشش یا خواہش لکھنے والا تھا لیکن پھر کاوش ہی لکھ دیا اب مطلع اس طرح ٹھیک ہے بہت شکریہ

اب مری کاوش یہی ہے شام کے آنے تلک
بے خودی میں ہی رہوں مَیں جام کے آنے تلک




اور یہ والا شعر اس طرح بھی ٹھیک ہے

مجھ سے بھی بڑھ کر یہاں ‌بد نام آئے گا بھلا؟
نام کیا ہوگا مرا بدنام کے آنے تلک؟


اعجاز صاحب آپ بھی نظر ثانی فرمائیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
مطلع میں وارث کی اصلاح مناسب بلکہ بہت خوب ہے۔
بد نام قافئے والے شعر سے میں اب بھی مطمئن نہیں۔ اور نہ وارث کی اصلاح نے ہی کچھ خاص فرق پیدا کیا ہے۔
یوسف والے شعر کے مفہوم اب بھی واضح نہیں۔ کہنا کیا چاہتے ہیں، اس کا علم ہو تو سوچا جائے کچھ۔
مقطع یوں ہو تو۔۔ بلکہ اسے آخری شعر ہی سمجھیں کہ تخلص نہیں ہے:
وہ دریچہ کب کھلے گا، چھوڑئے، سو جائیے
یا مقطع ہی بنانا ہو تو
کیا توقع اس کی‌خرم، شب کو بھی سورج اُگے
مزید صورتیں:
کب وہ سورج ہو طلوع، اب آئیے سو جائیے

کب تلک امید رکھیں وہ جھروکے سے کھِلے
لیکن ابھی بھی مطمئن نہیں ہوں میں۔ یہ کچھ مصرعے جلدی جلدی ذہن میں آ گئے ہیں۔

بہت شکریہ جناب اعجاز صاحب مطلع تو ٹھیک ہو گیا ہے بدنام والے شعر کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں اس کو کیسا ہونا چاہے



مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں

اس مصرے میں توکوئی مشکل نہیں ہے میرے خیال میں یہ تو صاف سمجھ آ رہا ہے
دوسرے مصرے میں کچھ فرق ہے
میں دوسرے مصرے میں‌کہنا چاہتا ہوں کے میری کوئی قیمت نہیں ہے میں بے کار ہوں
اگر اس کو اس طرح کر دیا جائے تو کیا کہتے ہیں آپ

مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں
اس قدر بے دام ہوں میں کام کے آنے تلک

اب جو دوسرا مصرا ہے اس کا مطلب کچھ اس طرح بنتا ہے کہ میں بہت حد تک بے دام ہوں میری کوئی قیمت بھی نہیں ہے اگر میں کسی کے کام بھی آ جاون تو بھی بے دام ہی رہوں گا یہ کہنا چاہتا ہوں


کیا توقع اس کی‌خرم، شب کو بھی سورج اُگے

یہ مصرا مجھے بہت اچھا لگا ہے

کب وہ سورج ہو طلوع، اب آئیے سو جائیے
یہ بھی ٹھیک ہے لیکن اوپر والا بہتر ہے باقی وارث صاحب اور ساگر بھائی کی رائے کا انتظار کرنا ہو گا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ابھی تک کی خبریں آنے تک غزل کی حالت یہ ہے :grin:

اب مری کاوش یہی ہے شام کے آنے تلک
بے خودی میں ہی رہوں مَیں جام کے آنے تلک

وقت کی شمشیر سے کٹتا ہی جائے من مرا
جان جائے گی ترے پیغام کے آنے تلک

مجھ سے بھی بڑھ کر یہاں ‌بد نام آئے گا بھلا؟
نام کیا ہوگا مرا بدنام کے آنے تلک؟


مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں
اس قدر بے دام ہوں میں کام کے آنے تلک

کیا توقع اس کی‌خرم، شب کو بھی سورج اُگے
چاند بھی سو جائے گا اس بام کے آنے تلک


جو مصرے/شعر سورخ ہے ان پر ابھی کوشش جارہ ہے اس سے اعجاز صاحب مطمئن نہیں ہے اور میرا خیال ہے کہ وارث صاحب بھی کچھ خاص مطمئن نہیں ہے اس پر نظر ثانی کرنے جناب
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ جناب اعجاز صاحب مطلع تو ٹھیک ہو گیا ہے بدنام والے شعر کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں اس کو کیسا ہونا چاہے



مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں

اس مصرے میں توکوئی مشکل نہیں ہے میرے خیال میں یہ تو صاف سمجھ آ رہا ہے
دوسرے مصرے میں کچھ فرق ہے
میں دوسرے مصرے میں‌کہنا چاہتا ہوں کے میری کوئی قیمت نہیں ہے میں بے کار ہوں
اگر اس کو اس طرح کر دیا جائے تو کیا کہتے ہیں آپ

مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں
اس قدر بے دام ہوں میں کام کے آنے تلک

اب جو دوسرا مصرا ہے اس کا مطلب کچھ اس طرح بنتا ہے کہ میں بہت حد تک بے دام ہوں میری کوئی قیمت بھی نہیں ہے اگر میں کسی کے کام بھی آ جاون تو بھی بے دام ہی رہوں گا یہ کہنا چاہتا ہوں


کیا توقع اس کی‌خرم، شب کو بھی سورج اُگے

یہ مصرا مجھے بہت اچھا لگا ہے

کب وہ سورج ہو طلوع، اب آئیے سو جائیے
یہ بھی ٹھیک ہے لیکن اوپر والا بہتر ہے باقی وارث صاحب اور ساگر بھائی کی رائے کا انتظار کرنا ہو گا

مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں
اس قدر بے دام ہوں میں کام کے آنے تلک

اگر یہ مصرعہ اسطرح ہو تو کیسا رہے گا۔

جان کر یوسف مجھے بازار میں رکھنا نہیں
ہوں بہت بے دام، تیرے کام کے آنے تلک


پہلا مصرعہ تومعنی کے لحاظ سے صاف ہے، دوسرے مصرعہ کو جب میں نے تبدیل کیا تو اب اسکا مطلب (تشریح) کچھ اسطرح ہوتی ہے کہ میں بہت ہی بے دام ہوں جب تک کہ تیرے (کسی کے) کام نہ آجائوں۔

اب آتے ہیں مقطعہ کی طرف پہلیا مصرعہ ہے۔

کیا توقع اس کی‌خرم، شب کو بھی سورج اُگے

بھائی شب کو اگر سورج اگ پڑے تو شب پھر شب رہے گی کیا؟ اس مسرعہ کو اگر ایسے کیا جائے تو کیسا رہے گا۔

کیا یقیں اس کا‌خرم، کل کو بھی سورج اُگے

دیکھیں کسی کو بھی یہ یقین نہیں کے وہ دوسرے دن کا سورج دیکھ سکے کا صرف امید اور توقع ہوتی ہے سو اب امید ہیکہ آپ اس شعر کو سمجھ گئے ہوں گے۔

مزید اساتذہ کرام سے نظر ثانی کی گزارش ہے۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
بد نام اور یوسف والے اشعار تو اب بھی مجھے اپیل نہیں کر رہے۔ کچھ اور سوچا جائے تو بہتر ہے۔
اور سورج اگے والا مصرع میں نے محبوب کے بام پر آنے کے لئے ستعمال کیا تھا۔ کہ چاند بھی اس کے بام تک آ کر انتظار میں سو جائے گا لیکن کیا پتہ محبوب کب بام پر جلوہ افروز ہو۔۔۔ اس خیال کو میں نے یہاں شب کو سورج اگے سے ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور پھر مایوسی کا عالم بھی۔۔۔ کہ جس طرح شب کو سورج کی توقع نہیں کی جا سکتی، اسی طرح محبوب کا دیدار ناممکن لگ رہا ہے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم میں نے کچھ تبدیلیاں کی ہے اس پر نظر ثانی فرما دے شکریہ

مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں
اس قدر بے دام ہوں میں کام کے آنے تلک


اس قدر بے کار ہوں میں کام کے آنے تلک

یاپھر ایک اور ہے

قید کر لے گے مجھے الزام کے آنے تلک



اور آخری شعر کے حوالے سے کچھ

جاگ کر خرم کسی کی یاد میں کیا فائدہ

اور اب کس کے لیے ہے جاگنا خرم تمہیں


اب حقیقت کو حقیقت مان کر سو جائیے



اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
یہ دونوں مصرعے بہتر ہیں:
جاگ کر خرم کسی کی یاد میں کیا فائدہ
اور اب کس کے لیے ہے جاگنا خرم تمہیں
اس قسم کا ایک مصرع یوں بھی ہو سکتا ہے:

اور کب تک اس طرح جاگو گے خرم رات بھر
ایک اور مصرع ابھی ہو گیا:

رات بھر تارے گنو گے بیٹھ کر کب تک بھلا
رات بھر تارے گنو گے خٌرم ایسے کس لئے
(’کس لئے ‘کی جگہ کب تلک زیادہ بہتر ہے، لیکم ردیف وہی ہے اس لئے ایسا نہیں کہا۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یہ دونوں مصرعے بہتر ہیں:
جاگ کر خرم کسی کی یاد میں کیا فائدہ
اور اب کس کے لیے ہے جاگنا خرم تمہیں
اس قسم کا ایک مصرع یوں بھی ہو سکتا ہے:

اور کب تک اس طرح جاگو گے خرم رات بھر
ایک اور مصرع ابھی ہو گیا:

رات بھر تارے گنو گے بیٹھ کر کب تک بھلا
رات بھر تارے گنو گے خٌرم ایسے کس لئے
(’کس لئے ‘کی جگہ کب تلک زیادہ بہتر ہے، لیکم ردیف وہی ہے اس لئے ایسا نہیں کہا۔


اور کب تک اس طرح جاگو گے خرم رات بھر
چاندبھی سوجائے گا اس بام کے آنے تلک

یہ ٹھیک ہے آپ کیا کہتے ہیں اور باقی دوسرے مصروں کے بارے میں کیا کہتے ہیں آپ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم اس سے پہلے ساگر صاحب میں کچھ شعر لکھیں ہیں وہ پیش کرتا ہوں پھر پہلے والی غزل کی طرف آؤ گا وارث صاحب اور اعجاز صاحب اس پر نظر ڈال لائے شکریہ



لے لیا ہے گھر تھا جیسا گھر مجھے لینا پڑا
تیری خاطر اس طرف بھی در مجھے لینا پڑا

نام اس کا تھا بہت ہی نامور تھا اس لیے
اب کے پھر الزام اپنے سر مجھے لینا پڑا

کب نظر اس کی تھی مجھ پر بے خودی میں تھا تو تب
چھین کر ساقی سے کل ساغر مجھے لینا پڑا

سوچ کر آیا تھا جو وہ کچھ نا تھا خرم مگر
کچھ نا کچھ اس کے چمن جا کر مجھے لینا پڑا​
 
Top