بحرِ رمل

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یوں نہ بولو بیچ میں بے کار خرم چپ رہو
چل نہ جائے تم پہ بھی تلوار خرم چپ رہو

سچ کو سچ کہنا نہیں حق بات پر بولو نہیں
بین کر دے گی تمہیں سرکار خرم چپ رہو

قتل ہوتا دیکھ کر اس کو تماشا جان لو
بیٹھ کے چپکے سے تم اس پار خرم چپ رہو

تم گواہی دو گے تو مجرم بتائے جاؤگے
دیکھ لو سب کچھ مگر ہر بار خرم چپ رہو

گولیوں کی یہ صدا چونکا رہی ہے مجھ کو بھی
تم نے بھی سن لی ہے لیکن یار خرم چپ رہو

جان کر انجان ہوجا، تو وگرنہ موت ہے
کھل نہ جائے سب پہ یہ اسرار خرم چپ رہو

اس غزل پر بھی بہت کچھ تم کو سننا ہے مگر
جان کی پروا نہ کر ، یا ہار خرم چپ رہو


سر جی توجہ چاہتا ہوں
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب واہ واہ کیا ہی بہترین غزل کہی ہے واہ واہ، بہت بہت مبارک ہو جانی بھائی، کچھ ٹائپو ہے اسے درست کر لیں۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
اکثر اشعار وزن میں درست ہیں، یوں بہتری کی بات سوچوں گا بعد میں۔ فی الحال:
گولیوں کی یہ صدا چنکا رہی ہے مجھ کو بھی
یہ ’چنکانا‘ میری عقل سے باہر ہے؟؟
 

ایم اے راجا

محفلین
اعجاز صاحب، میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ ٹائپو بہت ہیں جیسے سچ کو سیچ لکھا ہے اسی طرح خرم بھائی چونکا کو چنکا لکھ گئے ہیں، شاید
 

الف عین

لائبریرین
واقعی بھول گیا تھا۔ ادگر دعوت القرآن کی پروف ریڈنگ میں لگ گیا تھا۔ اب دیکھتا ہوں۔
باقی اشعارر تو دست ہی ہیں۔ اوزان خطا نہیں ہوئے۔ لیکن یہ:
سچ کو سچ کہنا نہیں حق بات پر بولو نہیں
بین کر دے گی تمہیں سرکار خرم چپ رہو
حق بات پر بولو نہیں‘ اچھا نہیں لگ رہا
یوں کہو
سچ کو سچ کہنا نہیں حق بات پر بھی چپ رہو

یہ مصرع:
تم گواہی دو گے تو مجرم بتائے جاؤگے
دو گے میں ے کا گرنا بھلا نہیں لگتا۔ ججب کہ تو کی واؤ طویل آواز دے رہی ہے و فصیح نہیں۔
تم گواہی دو تو خود مجرم ہی سمجھے جاؤ گے
بہتر رہے گا۔

جان کر انجان ہوجا، تو وگرنہ موت ہے
کھل نہ جائے سب پہ یہ اسرار خرم چپ رہو
کچھ واضح نہیں ہوا۔ مراد یہ ہے کہ تم کو کچھ راز ایسے معلوم ہو گئے ہیں کہ آشکار کرنے پر موت یقینی ہے؟ یوں بھی ’جا، تو وگرنہ‘ اچھا استعمال نہیں ہے۔
اس کو یوں کہو
جان کر انجان ہوجا، تو وگرنہ موت ہے
جان کو انجان بن جاؤ وگرنہ موت ہے۔
یوں بھئی دوسرے مصرع بکہ ہر ردیف میں ’چپ رہو‘ یعنی ’تم‘ کے افعال ہیں۔ پھر یہاں تو کیوں؟

اس غزل پر بھی بہت کچھ تم کو سننا ہے مگر
جان کی پروا نہ کر ، یا ہار خرم چپ رہو
یہاں بھی دوسرے مصرع میں نہ کر۔ تو والا صیغہ ہے، یہاں بھی ’کرو‘ کا محل ہے۔ اور یہ ’یا ہار‘ کیا ہے واللہ اعلم۔ پھر غزل پر تو محض استاد کی لعن طعن ممکن ہے یا احباب کے تعریفوں کے دونرے، زندگی اور موت کا سوال کہاں سے آ گیا؟
دوسرا مصرع یوں کہا جا سکتا ہے
اس طرح سدھریں گے یہ اشعار۔۔۔
کیا خیال ہے؟
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یوں نہ بولو بیچ میں بے کار خرم چپ رہو
چل نہ جائے تم پہ بھی تلوار خرم چپ رہو

سچ کو سچ کہنا نہیں حق بات پر بھی چپ رہو
بین کر دے گی تمہیں سرکار خرم چپ رہو

قتل ہوتا دیکھ کر اس کو تماشا جان لو
بیٹھ کے چپکے سے تم اس پار خرم چپ رہو

تم گواہی دو تو خود مجرم ہی سمجھے جاؤ گے
دیکھ لو سب کچھ مگر ہر بار خرم چپ رہو

گولیوں کی یہ صدا چونکا رہی ہے مجھ کو بھی
تم نے بھی سن لی ہے لیکن یار خرم چپ رہو

جان کر انجان بن جاؤ وگرنہ موت ہے۔
کھل نہ جائے سب پہ یہ اسرار خرم چپ رہو

اس غزل پر بھی بہت کچھ تم کو سننا ہے مگر
اس طرح سدھریں گے یہ اشعار خرم چپ رہو
سر اب ٹھیک ہے
 

الف عین

لائبریرین
کاپی پیسٹ کرنے میں تمہاری ایک املا کی غلطی سدھری نہیں جو اب بھی جاری ہے:
جان کو انجان بن جاؤ وگرنہ موت ہے۔
کھل نہ جائے سب پہ یہ اسرار خرم چپ رہو
پہلے مصرعے میں ’کو‘ نہیں’ کر‘ ہونا چاہیے۔
 
Top