بحرِ رمل

ایم اے راجا

محفلین
میرے خیال میں اگر نئی بحر ہی شروع کرنی ہے تو اس کیلیئے رمل مثمن مخذوف بہت بہتر رہے گی، جسکا وزن 'فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن' ہے، کلاسیکی اساتذہ عموماً اسی بحر سے عروض کی تعلیم شروع کیا کرتے تھے۔


فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
2212 2212 2212 212

دیوانِ غالب کی پہلی غزل اسی بحر میں ہے۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
 

محمد وارث

لائبریرین
میرا خیال ہے ساگر صاحب اس موضوع کو وہیں (تقطیع والے تھریڈ میں) جاری رکھتے ہیں، اس سے مجھے بھی آسانی رہے گی اور نئے پڑھنے والوں کو بھی کیا خیال ہے؟ اسی لیئے میں نے اس بحر کا کچھ تعارف وہیں لکھ دیا تھا اور باقی بھی لکھ دوں گا، انشاءاللہ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
میرا خیال ہے ساگر صاحب اس موضوع کو وہیں (تقطیع والے تھریڈ میں) جاری رکھتے ہیں، اس سے مجھے بھی آسانی رہے گی اور نئے پڑھنے والوں کو بھی کیا خیال ہے؟ اسی لیئے میں نے اس بحر کا کچھ تعارف وہیں لکھ دیا تھا اور باقی بھی لکھ دوں گا، انشاءاللہ۔

سر ایسا کرتے ہیں اس دھاگے میں اس دھاگے کا لینک دے دیتےہیں اصل میں اس دھاگے میں بہت زیادہ پیغام ہو گئے تھے جس کی وجہ سے وہ کھلنے میں وقت لیتا تھا اس وجہ سے میں نے اور ساگر بھائی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس بحر کے لے نیا سلسلہ شروع کرے گے اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں آپ کا بہت شکریہ ویسے جیسا آپ کہے گے ویسا ہی ہم کرے گے شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
جیسے آپ کی مرضی خرم صاحب کہ 'ہمہ یاراں دوزخ' ;)

اس بحر کا مختصر تعارف:

'رمل' کا مطلب ہوتا ہے 'گِھرا ہوا ہونا' اس بحر میں چونکہ رکن 'فاعلاتن' کا وتد 'علا' دو سببوں 'فا' اور 'تن' میں گھرا ہوا ہے، اسی طرح 'فاعلاتن فاعلاتن' میں دو سبب 'تن' اور 'فا' دو وتدوں 'علا' اور 'علا' میں گھرے ہوئے ہیں اس لیئے اسے رمل کہتے ہیں۔

یہ ایک مفرد بحر ہے (متقارب کی طرح) یعنی اسی میں ایک ہی رکن 'فاعلاتن' کی تکرار ہے۔

رمل مثمن سالم کا وزن 'فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن' ہے یعنی فاعلاتن چار بار ایک مصرعے میں، لیکن سالم حالت میں یہ بحر مستعمل نہیں ہے، بلکہ مزاحف ہی استعمال ہوتی ہے۔

مزاحف کا مطلب یہ ہے اس میں کسی 'زحاف' کا استعمال کر کے اس کے رکن کی شکل بدل دی جاتی ہے۔

زیرِ نظر بحر، رمل مثمن محذوف کا مطلب یہ ہے کہ آخری رکن 'فاعلاتن' میں سے آخری سبب یعنی 'تن' خذف کر دیا گیا ہے، باقی رہا 'فاعلا' تو اس کو 'فاعلن' سے بدل لیا اور یوں اسکا وزن ہوا

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

اس بحر میں عمل تسبیغ جائز ہے یعنی 'فاعلن' کو فاعلان یا فاعلات بھی بنا سکتے ہیں۔ اسطرح اس بحر میں یہ دو وزن کسی بھی ایک شعر یا مختلف اشعار کے مختلف مصرعوں میں جمع کیئے جا سکتے ہیں۔


فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلان (یا فاعلات) اس وزن کو رمل مقصور بھی کہتے ہیں۔

رمل کی کئی مزاحف شکلیں مستعمل ہیں جیسے رمل مثمن مخذوف، مخبون، مقصور، مشکول وغیرہ۔ اسی طرح مسدس اوزان بھی بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں جن میں سب سے مشہور رمل مسدس مخذوف (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) ہے۔

رمل مثمن مخذوف میں کہی ہوئی غالب کی ایک غزل کی نشاندہی میں کر چکا، مزید کی آپ کریں۔ :)
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث بھائی شکریہ۔ پر پائی جی بڑی اوکھی جی بحر اے، کو شش کرتے ہیں کہ ہمارے موٹے دماغ میں آ جائے :)
وارث بھائی میں نے نئی تھریڈ اسلیئے شروع کی تھی کہ نئے آنے والے بحر کا نام دیکھ کر متوجہ ہو نگے اور کلاس بڑھے گی، اگر آپ نہیں چاہتے تو آپ موضوع اسی تھریڈ میں منتقل کر دیں، مجھے اور خرم کو کوئی اعتراض نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اتنی مشکل بحر بھی نہیں ہے ساگر صاحب :)

ویسے میں نے اوپر اپنی پوسٹ تھوڑی سی مدون کی ہے، اس میں میں نے چار وزن لکھے تھے لیکن آخری دو اوازان کے بارے میں کسی مستند کتاب سے باوجود تلاش کے کوئی حوالہ نہ ڈھونڈ سکا سو اس بحر کے دو اوزان ہی رہنے دیئے ہیں جو کہ مروج اور مستعمل ہیں۔

دیوانِ غالب کی کئی غزلیں اس بحر میں ہیں، ایک دو یاد ہیں لکھتا ہوں:

- دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا

- سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

وغیرہ وغیرہ۔

ویسے اسی بحر کی ایک چھوٹی شکل بھی ہے جو مجھے بہت پسند ہے، اسکا نام بحر رمل مسدس مخذوف ہے یعنی مثمن اور مسدس میں یہ فرق ہے کہ ایک رکن (فاعلاتن) کم ہے مسدس میں، اور وزن یہ ہے:

فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

مولانا رومی علیہ الرحمہ کی شہرہ آفاق مثنوی اور اقبال کا ماسٹر پیس (مثنوی جاوید نامہ) اسی بحر رمل مسدس مخذوف میں ہیں۔

غالب کی بھی چند ایک غزلیں شاید ہیں اس بحر میں، اس وقت یاد نہیں آ رہیں، لیکن اپنی ایک غزل (اگر اس کو غزل کہہ سکیں) اس بحر میں یاد ہے، مطلع کچھ یوں ہے، مکمل غزل آپ کی شاعری میں موجود ہے:

اس جہاں میں ایسی کوئی بات ہو
جیت ہو اور نا کسی کی مات ہو
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم سر میں نے کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے اس پر نظر ثانی فرما دے اور اس کی غلطیاں دور کر دے شکریہ




اب مری کاوش یہی ہے شام کے آنے تلک
بے خودی میں ہی رہوں گا جام کے آنے تلک

وقت کی شمشیر سے کٹتا ہی جائے من مرا
جان جائے گی ترے پیغام کے آنے تلک


مجھ سے بھی بڑ کر یہاں‌بد نام آئے گا بلہ
نام تو ہوگا مرا بدنام کے آنے تلک

مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں
اس قدر بے دام ہوں میں دام کے آنے تلک

صبح کی خرم ن رکھو امُید اب سو جائیے
چاند بھی سو جائے گا اس بام کے آنے تلک

شکریہ
 

ایم اے راجا

محفلین
اس جہاں میں ایسی کوئی بات ہو
جیت ہو اور نا کسی کی مات ہو


بس ہوس کے ہیں یہ سارے سلسلے
بابری مسجد ہو یا سُمنات ہو

دے بدل ہر زاویہ وہ دفعتاً
کُل نفی کے ساتھ جو اثبات ہو

زخم دل کے چین سے رہنے نہ دیں
روزِ روشن ہو کہ کالی رات ہو


اسطرح پینے کو مے کب ملتی ہے
ناب ہو، تُو ساتھ ہو، برسات ہو

دام دیکھے ہیں وہاں اکثر بچھے
جس جگہ پر دانے کی بہتات ہو

برملا گوئی کا حاصل ہے اسد
اپنوں کی نظروں میں بھی کم ذات ہو


وارث بھائی بہت غضب کی غزل ہے اسکا یہاں ہو نا بہت ضروری ہے، ساری غزل ہی اچھی بہت اچھی ہے مگر سرخ شعروں نے تو میرے دِل کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جی چاہتا ہے پڑھتا ہی رہوں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
السلام علیکم سر میں نے کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے اس پر نظر ثانی فرما دے اور اس کی غلطیاں دور کر دے شکریہ




اب مری کاوش یہی ہے شام کے آنے تلک
بے خودی میں ہی رہوں گا جام کے آنے تلک

وقت کی شمشیر سے کٹتا ہی جائے من مرا
جان جائے گی ترے پیغام کے آنے تلک



مجھ سے بھی بڑ کر یہاں‌بد نام آئے گا بلہ
نام تو ہوگا مرا بدنام کے آنے تلک


مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں
اس قدر بے دام ہوں میں دام کے آنے تلک

صبح کی خرم ن رکھو امُید اب سو جائیے
چاند بھی سو جائے گا اس بام کے آنے تلک

خرم بھائی بہت اچھی غزل ہے، جو مصرع/ شعر میں نے نیلے کیئے ہیں غضب کے ہیں اور جو سرخ کیئے ہیں ان میں گڑ بڑ ہے، زیادہ تو وارث بھائی اور الف عین صاحب ہی دیکھیں گے، آپ کو اس تخلیق پر میری طرف سے دل کی گہرائیوں سے مبارک قبول ہو۔
 

ایم اے راجا

محفلین
اتنی مشکل بحر بھی نہیں ہے ساگر صاحب :)

ویسے میں نے اوپر اپنی پوسٹ تھوڑی سی مدون کی ہے، اس میں میں نے چار وزن لکھے تھے لیکن آخری دو اوازان کے بارے میں کسی مستند کتاب سے باوجود تلاش کے کوئی حوالہ نہ ڈھونڈ سکا سو اس بحر کے دو اوزان ہی رہنے دیئے ہیں جو کہ مروج اور مستعمل ہیں۔

دیوانِ غالب کی کئی غزلیں اس بحر میں ہیں، ایک دو یاد ہیں لکھتا ہوں:

- دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا

- سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

وغیرہ وغیرہ۔

ویسے اسی بحر کی ایک چھوٹی شکل بھی ہے جو مجھے بہت پسند ہے، اسکا نام بحر رمل مسدس مخذوف ہے یعنی مثمن اور مسدس میں یہ فرق ہے کہ ایک رکن (فاعلاتن) کم ہے مسدس میں، اور وزن یہ ہے:

فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

مولانا رومی علیہ الرحمہ کی شہرہ آفاق مثنوی اور اقبال کا ماسٹر پیس (مثنوی جاوید نامہ) اسی بحر رمل مسدس مخذوف میں ہیں۔

غالب کی بھی چند ایک غزلیں شاید ہیں اس بحر میں، اس وقت یاد نہیں آ رہیں، لیکن اپنی ایک غزل (اگر اس کو غزل کہہ سکیں) اس بحر میں یاد ہے، مطلع کچھ یوں ہے، مکمل غزل آپ کی شاعری میں موجود ہے:

اس جہاں میں ایسی کوئی بات ہو
جیت ہو اور نا کسی کی مات ہو

وارث بھائی بہت شکریہ، مجھے بھی رمل مسدس مخذوف ہی پسند ہے :) اسی پر طبع آزمائی کرتا ہوں۔
ایک سوال:۔ کیا رمل مسدس مخذوف میں بھی تسبیغ جائز ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
وارث بھی اب تک یہاں نہیں آئے؟
غزلیں دونوں ہی بحر و اوزان میں درست ہیں۔
فرخ کی غزل میں جو ساگر نے سرخ نشان دئے ہیں ان میں بحر سے زیادہ معانی کی گڑبڑ ہے بلکہ معانی میری بوڑھی عقل میں گھس نہیں رہے!!
مجھ سے بھی بڑ کر یہاں‌بد نام آئے گا بلہ
یہاں شاید ’بڑھ‘ لکھنا تھا، املا کی غلطی ہو گئی، لیکن یہ ’بلہ‘ کیا بلا ہے؟

نام تو ہوگا مرا بدنام کے آنے تلک
مجھے تو بے معنی لگ رہا ہے، بلکہ وہی اوپر والی بات

مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں
اس قدر بے دام ہوں میں دام کے آنے تلک
دوسرا مصرعہ واضح نہیں۔

صبح کی خرم ن رکھو امُید اب سو جائیے
چاند بھی سو جائے گا اس بام کے آنے تلک
دوسرا مصرعہ بہت خوب بلکہ حاصلِ غزل ہے، لیکن پہلے مصرعے میں بحر درست نہیں۔ ’نہ رکھ‘ وزن میں آتا ہے، لیکن یہاں یہ امر ہے جو آدھا واحد حاضر میں یعنی ’رکھ‘ جب کہ ’سو جائیے‘ میں جمع حاضر یا تعظیمی ہے، دونوں صورتوں میں ایک ہی طریقہ ہونا چاہئے۔ سوال پھر یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا صبح کی امید میں جاگا جاتا ہے؟؟

اب ساگر کی غزل:
پہلے وہی بات کہ نہ جانے کیوں ساگر میاں ہندی والوں کی طرح زبان بگاڑ دیا کرتے ہیں۔ ’میں جا رہا ہوں‘ جیسے بیان کو زیادہ سے زیادہ ’ جا رہا ہوں میں‘ باندھا جا سکتا ہے، لیکن ’رہا ہوں میں جا‘ ’جا میں ہوں رہا‘ ’رہا میں جا ہوں‘ الفاظ وہی ہیں لیکن نشست خراب ہے۔ جیسے یہ مصرعہ:
دے بدل ہر زاویہ وہ دفعتاً
درست ہونے پر بھی بھلا نہیں لگتا۔
اور کچھ باتیں:

بابری مسجد ہو یا سُمنات ہو
یہاں ’سوم ناتھ‘ یا ’سوم نات‘ کو سُمنات‘ بنا دینا ضرورت شعری تو کہا جا سکتا ہے لیکن درست نہیں۔
اسطرح پینے کو مے کب ملتی ہے
اور
جس جگہ پر دانے کی بہتات ہو
ان دونوں میں اگر چہ ے یا ی کا گرنا درست تو ہے لیکن کھٹکتا ہے۔ خاص کر
اسطرح پینے کو مے کب ملتی ہے
کو اگر
اسطرح پینے کو کب ملتی ہے مے
کر دیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور مصرع زیادہ رواں ہو جاتا ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث بھی اب تک یہاں نہیں آئے؟
غزلیں دونوں ہی بحر و اوزان میں درست ہیں۔
فرخ کی غزل میں جو ساگر نے سرخ نشان دئے ہیں ان میں بحر سے زیادہ معانی کی گڑبڑ ہے بلکہ معانی میری بوڑھی عقل میں گھس نہیں رہے!!
مجھ سے بھی بڑ کر یہاں‌بد نام آئے گا بلہ
یہاں شاید ’بڑھ‘ لکھنا تھا، املا کی غلطی ہو گئی، لیکن یہ ’بلہ‘ کیا بلا ہے؟

نام تو ہوگا مرا بدنام کے آنے تلک
مجھے تو بے معنی لگ رہا ہے، بلکہ وہی اوپر والی بات

مجھ کو یوسف جان کر بازار میں رکھنا نہیں
اس قدر بے دام ہوں میں دام کے آنے تلک
دوسرا مصرعہ واضح نہیں۔

صبح کی خرم ن رکھو امُید اب سو جائیے
چاند بھی سو جائے گا اس بام کے آنے تلک
دوسرا مصرعہ بہت خوب بلکہ حاصلِ غزل ہے، لیکن پہلے مصرعے میں بحر درست نہیں۔ ’نہ رکھ‘ وزن میں آتا ہے، لیکن یہاں یہ امر ہے جو آدھا واحد حاضر میں یعنی ’رکھ‘ جب کہ ’سو جائیے‘ میں جمع حاضر یا تعظیمی ہے، دونوں صورتوں میں ایک ہی طریقہ ہونا چاہئے۔ سوال پھر یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا صبح کی امید میں جاگا جاتا ہے؟؟

اب ساگر کی غزل:
پہلے وہی بات کہ نہ جانے کیوں ساگر میاں ہندی والوں کی طرح زبان بگاڑ دیا کرتے ہیں۔ ’میں جا رہا ہوں‘ جیسے بیان کو زیادہ سے زیادہ ’ جا رہا ہوں میں‘ باندھا جا سکتا ہے، لیکن ’رہا ہوں میں جا‘ ’جا میں ہوں رہا‘ ’رہا میں جا ہوں‘ الفاظ وہی ہیں لیکن نشست خراب ہے۔ جیسے یہ مصرعہ:
دے بدل ہر زاویہ وہ دفعتاً
درست ہونے پر بھی بھلا نہیں لگتا۔
اور کچھ باتیں:

بابری مسجد ہو یا سُمنات ہو
یہاں ’سوم ناتھ‘ یا ’سوم نات‘ کو سُمنات‘ بنا دینا ضرورت شعری تو کہا جا سکتا ہے لیکن درست نہیں۔
اسطرح پینے کو مے کب ملتی ہے
اور
جس جگہ پر دانے کی بہتات ہو
ان دونوں میں اگر چہ ے یا ی کا گرنا درست تو ہے لیکن کھٹکتا ہے۔ خاص کر
اسطرح پینے کو مے کب ملتی ہے
کو اگر
اسطرح پینے کو کب ملتی ہے مے
کر دیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور مصرع زیادہ رواں ہو جاتا ہے۔

حضور اعجاز صاحب شکریہ۔
ایک گزارش معذرت کے ساتھ کہ پہلی غزل فرخ کی نہیں بلکہ خرم کی ہے اور مجھے جہاں گڑ بڑ لگی سرخ کر دیا اصلاح تو استادوں کا کام ہے ناں۔
دوسرا یہ کہ حضور جو غزل آپ نے میرے نام سے منصوب کی ہے ( دوسری) وہ میں نے کسی دوسری تھریڈ سے کاپی پیسٹ کی ہے اور وہ غزل وارث بھائی کی ہے، اور اسکے جو شعر میں نے سرخ کیئے ہیں وہ مجھے بہت زیادہ پسند آئے تھے، لگتا ہے آپ نے جواب بہت عجلت میں پوسٹ کیا ہے :) ایک بار پھر معذرت اگر میری بات آپ کو ناگوار گذرے۔ شکریہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی بہت شکریہ، مجھے بھی رمل مسدس مخذوف ہی پسند ہے :) اسی پر طبع آزمائی کرتا ہوں۔
ایک سوال:۔ کیا رمل مسدس مخذوف میں بھی تسبیغ جائز ہے۔

جی بالکل جائز ہے۔

اور دوسری بات یہ کہ اگر بحر رمل کی مثمن محذوف کی بجائے دیگر مزاحف شکلیں بھی یہاں آ رہی ہیں تو تھریڈ کا عنوان صرف "بحر رمل" ہونا چاہیئے، آپ کا کیا خیال ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پہلے وہی بات کہ نہ جانے کیوں ساگر میاں ہندی والوں کی طرح زبان بگاڑ دیا کرتے ہیں۔ ’میں جا رہا ہوں‘ جیسے بیان کو زیادہ سے زیادہ ’ جا رہا ہوں میں‘ باندھا جا سکتا ہے، لیکن ’رہا ہوں میں جا‘ ’جا میں ہوں رہا‘ ’رہا میں جا ہوں‘ الفاظ وہی ہیں لیکن نشست خراب ہے۔ جیسے یہ مصرعہ:
دے بدل ہر زاویہ وہ دفعتاً
درست ہونے پر بھی بھلا نہیں لگتا۔
اور کچھ باتیں:

بابری مسجد ہو یا سُمنات ہو
یہاں ’سوم ناتھ‘ یا ’سوم نات‘ کو سُمنات‘ بنا دینا ضرورت شعری تو کہا جا سکتا ہے لیکن درست نہیں۔
اسطرح پینے کو مے کب ملتی ہے
اور
جس جگہ پر دانے کی بہتات ہو
ان دونوں میں اگر چہ ے یا ی کا گرنا درست تو ہے لیکن کھٹکتا ہے۔ خاص کر
اسطرح پینے کو مے کب ملتی ہے
کو اگر
اسطرح پینے کو کب ملتی ہے مے
کر دیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا اور مصرع زیادہ رواں ہو جاتا ہے۔


شکریہ آپ کا اعجاز صاحب، ساگر صاحب کی مہربانی سے اپنی غزل پر آپ کی خوبصورت تحریر پڑھنے کو مل گئی اور آپ کی رائے جان کر بہت خوشی بھی ہوئی۔ نوازش آپ کی۔

یہ غزل شاید کچھ تھریڈ کے حوالے سے اور کچھ اس وجہ سے سامنے آ گئی کہ یہ میری پہلی غزل تھی جو باقاعدہ وزن میں تھی اور اس وقت میرے لیئے سب سے بڑا 'چیلنج' اس وزن میں رکھنا تھا سو شاید اسی وجہ سے یاد بھی رہتی ہے۔:)
 

ایم اے راجا

محفلین
جی بالکل جائز ہے۔

اور دوسری بات یہ کہ اگر بحر رمل کی مثمن محذوف کی بجائے دیگر مزاحف شکلیں بھی یہاں آ رہی ہیں تو تھریڈ کا عنوان صرف "بحر رمل" ہونا چاہیئے، آپ کا کیا خیال ہے۔
وارث بھائی شکریہ، آپ نے بالکل درست فرمایا اس تھریڈ کا نام صرف بحرِ رمل ہونا چاہئیے، میں نے موضوع کا نام تبدیل کر دیا ہے۔
میں فی الحال مسدس پر طبع آزمائی کرتا ہوں، اسکے بعد اسکی مزاحف اشکال (تسبیغ شدہ) کے بارے میں بھی بتائیے گا۔ شکریہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
تین اشعار عرض ہیں

یاد کر کے میں اسے رویا نہیں
آج تک ایسے کبھی سویا نہیں

زخم ہی کیوں ہاتھ کی قسمت بنے
کاٹتا ہوں کیوں وہ جو بویا نہیں

ہے الگ ہی داستاں سب سے مری
درد کو میں نے کبھی کھویا نہیں​
ں
 

الف عین

لائبریرین
میں سمجھا کہ ساگر نے جو غزل یہاں پوسٹ کی ہے، وہی کسی اور تانے بانے میں انہوں نے ہی پوسٹ کی تھی اور میں نے رائے نہیں دی وہاں۔ اس بہانے یہاں غلط فہمی ہو گئی۔
اور بھئی یہ فرضی ناموں سے مجھے ڑی الجھن ہوتی ہے، کہاں تک یاد رکھوں کہ فوٹو ٹیک کون ہیں اور سخن ور کون ہیں۔ خیر ان لوگو ں نے تو اپنے اصل نام بتا دئے ہیں ورنہ کتنے ہی ایسے ارکان ہیں جن کے ناموں کا کچھ پتہ نہیہں چلتا۔ ایک دوست کا تو نام ہی فرضی ہے!! ایسے ہی ایک باذوق ہیں!!
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم بھائی بہت اچھی غزل ہے، جو مصرع/ شعر میں نے نیلے کیئے ہیں غضب کے ہیں اور جو سرخ کیئے ہیں ان میں گڑ بڑ ہے، زیادہ تو وارث بھائی اور الف عین صاحب ہی دیکھیں گے، آپ کو اس تخلیق پر میری طرف سے دل کی گہرائیوں سے مبارک قبول ہو۔


بہت شکریہ ساگر بھائی اس پر اعجاز صاحب نے بھی آپ کی بات کی تصدیق کر دی ہےمیں اس پر کچھ کرتا ہوں شکریہ
 
Top