باعزت اسلامی قتل، پتھر مار مار کر انسانوں کا شکار

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
بی بی سی کی خبر دیکھئے، ایران میں جنسی بے راہ روی کی سزا پتھر مار مار کر انسانوں‌کا شکار و قتل۔ پتھر مار مار کر قتل کرنے کی سزا اللہ تعالی نے قرآن میں تجویز نہیں کی۔ سنت نبوی سے ثابت نہیں ہے لیکن زمانہء جاہلیت کی یہ رسم اب بھی چلی آ رہی ہے۔ اور اسلامی کہلاتی ہے ۔

ایران میں پتھر مار کر ہلاک کرنے کا تازہ ترین مقدمہ۔ بی بی سی
http://news.bbc.co.uk/2/hi/middle_east/7516238.stm

عراقی لڑکی کا پتھراؤ سے قتل۔ سی این این

اپنی کافرانہ رسموں کو اسلام کا حصہ بنانے کے لیے لوگوں نے کتب روایات میں اپنی پسند کے اضافے کئے جو کسی بھی طور قرآن سے یا سنت محمدی صلعم سے ثابت نہیں ہیں۔ پتھر مار کر ہلاک کرنے کی رسم قرآن میں کہیں بھی نہیں پائی جاتی۔

ان روایات پر یقین رکھنے والے لوگ یہ کہتے ہیں کہ پتھراؤ کرنے کی آیات قرآن میں موجود تھیں لیکن وہ ضائع ہو گئی ہیں۔نعوذ باللہ، یہ اللہ تعالی پر ایک کریہہ الزام ہے کہ وہ اپنی کتاب کی حفاظت نہ کرسکا اور نہ ہی اپنا دین مکمل کرسکا۔ نعوذ باللہ۔

یہ وہ یہودی اور زمانہ جاہلیت کی رسمیں ہیں جن سے آج بھی کچھ علاقوں کے لوگ چمٹے ہوئے ہیں۔ان رسموں کا مرکز، وسطی ایشیا، کردستان اور شمال مغربی ایران ہیں۔ یہی وہ علاقہ ہیں جہاں موجودہ کتب روایات کے مصنفین کا تعلق ہے۔ یعنی فارس و ایران و ترکستان۔

کافرانہ روایات کا اسلام میں اضافہ کی ضرورت ہی مزید کتب روایات کی ضرورت کو جنم دیتا ہے۔ اگر صرف قرآن کے اصولوں‌ اور قرآن کے اصولوں پر مبنی روایات کو ہی دیکھا جائے تو ان غیر اسلامی روایات کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
 
بہت شکریہ ، ایسے معصوم انسان جو ان حیوانی جرائم کو اپنی معصومیت سے سپورٹ کرتے ہوں، ان کا علاج مشیت ایزدی کے پاس آپ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہی ہیں :) یاد رکھئے جو لوگ اللہ کے قانون کو بدلتے ہیں ان کو من حیث القوم اللہ بدترین سزائیں دیتا ہے۔ کبھی اپنو‌ں کے ہاتھوں اور کبھی غیروں کے ہاتھوں۔
 
حیرت ہے اتنی نمک حلالی؟
امریکہ کا کیا گیا قتل عام نظر ہی نہیں‌ارہا۔ اس حیوانیت کا جو امریکی افواج روا رکھے ہوئے ہیں کی وجہ بھی مقتول پر ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے۔ کیا عقل کو کبھی ہاتھ بھی مارا ہے؟
 

تیلے شاہ

محفلین
بی بی سی کی خبر دیکھئے، ایران میں جنسی بے راہ روی کی سزا پتھر مار مار کر انسانوں‌کا شکار و قتل۔ پتھر مار مار کر قتل کرنے کی سزا اللہ تعالی نے قرآن میں تجویز نہیں کی۔ سنت نبوی سے ثابت نہیں ہے لیکن زمانہء جاہلیت کی یہ رسم اب بھی چلی آ رہی ہے۔ اور اسلامی کہلاتی ہے ۔

ایران میں پتھر مار کر ہلاک کرنے کا تازہ ترین مقدمہ۔ بی بی سی
http://news.bbc.co.uk/2/hi/middle_east/7516238.stm

عراقی لڑکی کا پتھراؤ سے قتل۔ سی این این

اپنی کافرانہ رسموں کو اسلام کا حصہ بنانے کے لیے لوگوں نے کتب روایات میں اپنی پسند کے اضافے کئے جو کسی بھی طور قرآن سے یا سنت محمدی صلعم سے ثابت نہیں ہیں۔ پتھر مار کر ہلاک کرنے کی رسم قرآن میں کہیں بھی نہیں پائی جاتی۔

ان روایات پر یقین رکھنے والے لوگ یہ کہتے ہیں کہ پتھراؤ کرنے کی آیات قرآن میں موجود تھیں لیکن وہ ضائع ہو گئی ہیں۔نعوذ باللہ، یہ اللہ تعالی پر ایک کریہہ الزام ہے کہ وہ اپنی کتاب کی حفاظت نہ کرسکا اور نہ ہی اپنا دین مکمل کرسکا۔ نعوذ باللہ۔

یہ وہ یہودی اور زمانہ جاہلیت کی رسمیں ہیں جن سے آج بھی کچھ علاقوں کے لوگ چمٹے ہوئے ہیں۔ان رسموں کا مرکز، وسطی ایشیا، کردستان اور شمال مغربی ایران ہیں۔ یہی وہ علاقہ ہیں جہاں موجودہ کتب روایات کے مصنفین کا تعلق ہے۔ یعنی فارس و ایران و ترکستان۔

کافرانہ روایات کا اسلام میں اضافہ کی ضرورت ہی مزید کتب روایات کی ضرورت کو جنم دیتا ہے۔ اگر صرف قرآن کے اصولوں‌ اور قرآن کے اصولوں پر مبنی روایات کو ہی دیکھا جائے تو ان غیر اسلامی روایات کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

فاروق بھائی آپ کے خیال میں ان لوگوں کی کیا سزا ہونی چاہیے؟؟؟؟
 

مغزل

محفلین
قبلہ ۔۔ زنا کی سزا ۔۔۔ شریعت میں سنگسار کرنا ہے ۔
دیگر عوامل پر بات کیجئے مگر شعائرِ اسلامی کا مذاق مت
اڑائیے۔۔ میں کسی سے بھی تقابل نہیں پیش کروں گا۔
روٹی آپ بھی کھاتے ہیں اور ممکن ہے شعور بھی رکھتے ہوں۔
امید ہے آپ آئندہ مراسلات میں اس حوالے سے ضرور احتیاط کیجئے گا۔
 

مغزل

محفلین
کیا آپ نے قرآن میں نہیں پڑھا کہ ایک قوم پر خدا کا عذاب پتھر برسنے کی صورت آیا۔؟؟
میں متعلقہ آیات پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 
قبلہ ۔۔ زنا کی سزا ۔۔۔ شریعت میں سنگسار کرنا ہے ۔
دیگر عوامل پر بات کیجئے مگر شعائرِ اسلامی کا مذاق مت
اڑائیے۔۔ میں کسی سے بھی تقابل نہیں پیش کروں گا۔
روٹی آپ بھی کھاتے ہیں اور ممکن ہے شعور بھی رکھتے ہوں۔
امید ہے آپ آئندہ مراسلات میں اس حوالے سے ضرور احتیاط کیجئے گا۔

اگر آپ کی شریعت ، شریعت محمدی یعنی اسلام ہے تو صاحب وہ شعائر اسلامی پیش کیجئے جہاں اللہ تعالی نے پتھر مار مار کر جان لینے کی سزا کا حکم دیا یا رسول اکرم کی سنت یہ رہی ہو؟ اسلام کی بنیادی کتاب قرآن حکیم ہے۔ اپنی طرف سے قوانین اس کتاب سے منسوب کرنا اللہ کی کتاب کا مذاق اڑانا ہے۔

اگر ایسا نہیں تو پھر شعائر اسلامی کیا ہیں بھائی؟ قرآن کے مطابق یا ہماری خواہشوں‌ کے مطابق؟‌ ہماری رسموں کے مطابق ۔۔ اللہ تعالی نے قرآن کیوں نازل فرمایا؟ ان زمانہ جاہلیت کی رسموں کو ثابت کرنے کے لئے؟ مذاق تو بھائی آپ اڑا رہے ہیں اللہ تعالی کا، رسول صلعم کا اور احکام قرآنی کا۔

یہ سزائیں قرآن و سنت سے فراہم کیجئے۔
 

مغزل

محفلین
پڑھیئے کہ موسیٰ علیہ السلام کے دور میں :

آج سنگساری کی سزا پر اعتراض کیا جاتا ہے، لیکن یہ سزا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعتوں میں موجود ہے۔
”انجیل، کتاب یوحنا، 1:3 تا 11“ میں اس سزا کا ذکر ہے، اور توریت مقدس میں بھی یہ حکم موجود ہے ”اگر کوئی بیل سینگ مارکر کسی مرد یا عورت کو زخمی کردے تو بیل کو سنگسار کیا جائے“ (کتاب خروج 12 تا 28)


جارج دوئم کے وقت تک انگلستان میں سزائے موت تو عام بات تھی۔
اس کے ساتھ جلانے اور جسمانی اعضاء کاٹ کر اذیت کے ساتھ اس مجرم کو ختم کرنے کی سزا بھی رائج تھی۔

عرب میں طرح طرح کی دردناک سزائیں دی جاتی تھیں۔ دشمن کی نعش ”مُثلہ“ کرکے بے حرمت کرنا عام تھا۔ یعنی انسانی نعش سے ناک، کان اور شرمگاہ کاٹنا، کلیجہ نکال کر چبانا یا گلے کا ہار بنانا وغیرہ اور اس طرح مردہ جسم انسانی کی بے حرمتی کرنا عام تھا۔

رحمت دو عالم صلّی اللہ علیہ وسلم کی اصلاحات
1۔ حضرت شداد بن اوس انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے ہر چیز سے حسن سلوک کرنا فرض کیا ہے۔ تم کسی کو سزائے موت دو تو اسے احسن طریقے سے انجام دو“۔ (مسلم)

2۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ (بطور سزا) قتل کرنے میں بھی احسان ترک نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو مثلہ نہ کرو۔ (کنز الاعمال، جلد دوئم)

3۔ حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”آگ سے جلانے کی سزا نہ دو، آگ کا عذاب آگ پیدا کرنے والا رب ہی دے گا“۔ (کنز الاعمال جلد سوئم)

اسلام کا نظریہ
اسلام نوع انسانی کے لیے رحمت بن کر آیا ہے۔ اس کا قانون عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ اس میں اعتدال ہے، یعنی نہ حد سے زیادہ سختی کہ انسانیت کا احترام ہی ختم ہوجائے، نہ بلکل نرمی کہ سزا محض مذاق بن کر رہ جائے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلام کا قانون سب کے لیے یکساں ہے۔ اس میں کسی چھوٹے بڑے یا اپنے پرائے کی تمیز نہیں۔

(ا) اسلام تزکیۂ اخلاق، اصلاح نفس اور جرائم کی روک تھام چاہتا ہے تاکہ وہ قیامت کے روز بلاخوف و خطر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوکر آخرت میں سرخروئی حاصل کرے۔ نہ یہ کہ جرم اور سزا کا ایسا چکر چل پڑے جیسا کہ آج کل ہورہا ہے کہ جرائم کا سلسلہ ختم ہی نہیں ہونے پاتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے

فَجَعَلْنَاھَا نَکَالاً لِّمَا بَیْنَ یَدَیْھَا وَمَا خَلْفَھَا وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِین ۝

ہم نے اس سزا کو ایک عبرت انگیز بنادیا ان لوگوں کے لیے جو اس وقت موجود تھے اور ان کے لیے جو بعد میں آنے والے تھے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لیے نصیحت کا ذریعہ بنادیا۔ (سورہ بقرہ آیت 66)

(ب) اسلام جرائم کی تشہیر کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ اس سے انجان اور معصوم بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔

جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے

لاَّ یُحِبُّ اللّہُ الْجَہْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَکَانَ اللّہُ سَمِیعًا عَلِیمًا ۝

یعنی اللہ تعالیٰ برائی کا اعلان اور تشہیر پسند نہیں کرتا سوائے اس شخص کے جس پر ظلم ہوا ہو۔ (سورہ النسآء آیت 148)

دور حاضر میں جرائم کی تشہیر جرائم کو اور بڑھا رہی ہے۔ اخبارات کی چٹ پٹی اور شہ سرخیوں سے معصوم بچے اور نیک دل انجان بھی جرائم کی راہیں اور واردات کے طور طریقے سیکھ لیتے ہیں۔

(ج) اسلامی حدود و تعزیرات کا اجراء اور نفاذ کڑی شرطوں کے بعد ہوتا ہے۔ مثلا یہ کہ عینی گواہ موجود ہوں، گواہ سچے ہوں۔ ان گواہوں کا ذکر سورہ نور کے پہلے اور دوسرے رکوع میں موجود ہے جن کو آگے چل کر وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔

(د) تمام تر اصلاحی تدابیر اور عفو درگذر کا رویہ اختیار کرنے کے باوجود جرم کا ارتکاب کرنے پر اسلام کسی مجرم اور ظالم سے ہمدردی نہیں رکھتا اور نہ ہی نرمی اختیار کرتا ہے۔ ہمدردی کا مستحق مظلوم ہے نہ کہ ظالم۔

ارشاد ربانی ہے

وَلَا تَأْخُذْکُم بِھِمَا رَأْفَۃٌ فِی دِینِ اللَّہِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ۝

ترجمہ: تمہارے اندر ان دونوں (مجرموں) کے لیے نرم دلی کا کوئی جذبہ پیدا نہ ہو اللہ تعالیٰ کے دین میں اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ (سورہ النور آیت 2)

قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں
اسلام کا قانون سب کے لیے یکساں ہے، جبکہ دنیا میں آج بھی نہ حقوق میں مساوات ہے اور نہ ہی قانون میں۔ جیسا کہ سابقہ زمانے میں یہودیت میں یہ رواج تھا کہ اگر کوئی ذیشان شخص (شاہوکار) جرم کرتا تھا تو اس پر حد جاری نہ کرتے تھے اور اگر کوئی غریب شخص جرم کرتا تھا تو اس پر حد جاری کی جاتی تھی۔ اور آج بھی دنیا کے غیر مسلم ممالک میں کالوں کے گرجے الگ ہیں اور گوروں کے گرجے الگ ہیں، اور کالے و گوروں کے قبرستان بھی الگ الگ ہیں۔ یہاں تک کہ کالے اپنے ملک کے شہری ہونے کے باوجود گوروں کے اسکول، کالجوں میں داخل نہیں ہوسکتے۔ لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کے ہر قانون اور ہر حقوق میں مساوات ہے۔

غاصب حکمرانوں کو جو مراعات اور سہولتیں حاصل ہیں وہ محکوموں کو ان کے اپنے ملک میں میسر نہیں، جسکی شہادت مغربی سامراجیوں کے زیر اقتدار افریقہ پیش کررہا ہے۔

جرم و سزا کے اندر دنیا میں یکسانیت نہیں۔ سرکاری حکام کو بالعموم اور ملکوں کی سربراہوں کو بالخصوص وہ قانونی تحفظ اور مراعات حاصل ہیں جو عوام کو نہیں۔ جبکہ اسلام کی نگاہ میں حاکم و محکوم، چھوٹے اور بڑے سب برابر ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے

یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ ۝

اے انسانو بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت (حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام) سے پیدا کیا ہے۔ تمہارے گروہ اور قبیلے (اس لیے) بنائے ہیں تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرسکو۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ (سورہ الحجرات 13)

اس آیت کریمہ میں مساوات کا حکم فرمایا گیا ہے کہ وطن، قوم، رنگ اور نسل پر فخر نہ کیا جائے۔ کیونکہ یہ چیزیں انسان کی تخلیق نہیں ہیں۔

اسی طرح فرمان نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم ہے ”کسی عربی کو کسی عجمی (غیر عرب) پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی غیر عرب کو عربی پر فضیلت ہے، سب کے سب آدم علیہ السلام کے بیٹے ہیں“۔ (بخاری و مسلم)

مذکورہ بالا فرمان کی وضاحت حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کے اس عملی نمونہ سے ہوتی ہے۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قریش کے معزز خاندان کی ایک خاتون چوری کے جرم پکڑی گئی جس کی وجہ سے قریش بہت پریشان تھے۔

اس واقعہ کو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس طرح بیان کیا ہے، فرماتی ہیں کہ قریش کو اس بات نے فکر مند کردیا تھا کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غزوہ فتح مکہ کے موقعہ پر ایک عورت نے چوری کی۔ انہوں نے (قریش ) نے کہا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم سے اس کی سفارش کون کرے گا؟ لوگوں نے کہا حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے سوا اس کی جرأت کون کرسکتا ہے، جو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے لاڈلے ہیں۔ وہ عورت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے سفارش کی۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کا رنگ متغیر ہوگیا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اللہ تعالیٰ کی حدود میں سفارش کررہے ہو؟ تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم آپ میرے لیے استغفار کیجیے۔ جب شام ہوگئی تو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد کی جو اس کی شان کے لائق ہیں۔ پھر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ صرف اس لیے ہلاک ہوگئے کہ جب ان میں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تھا تو وہ اس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور شخص چوری کرتا تواس پر حد جاری کرتے۔

اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے گی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا۔ پھر جس عورت نے چوری کی تھی آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا سو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔

حضرت عروہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد اس عورت نے اچھی طرح توبہ کی اور اس نے شادی کرلی اور اس کے بعد وہ میرے پاس آتی جاتی تھی اور میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کی ضروریات بیان کرتی تھی۔(شرح صحیح مسلم، جلد رابع، کتاب الحدود، صفحہ 761، 760 علامہ غلام رسول سعیدی)
 

مغزل

محفلین
فاروق صاحب یہ بھی پڑھیئے۔

HUDOOD_TAQABUL2.gif

HUDOOD_TAQABUL3.gif

HUDOOD_TAQABUL4.gif
 

وجی

لائبریرین
زانى كو رجم كے بدلے كسى اور طريقہ سے قتل كرنا جائز نہيں

فاروق سرور صاحب یہ فتوٰی دیکھ لیں

كيا شادى شدہ زانى كو پتھروں سے رجم كرنے كى بجائے تلوار يا گولى كے ذريعہ قتل كرنا جائز ہے ؟

الحمد للہ:

واجب تو يہى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت پر عمل كرتے ہوئے مكلف شادى شدہ زانى كو پتھر مار مار كر سنگسار اور رجم كيا جائے حتى كہ وہ مرجائے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قول اور فعل سے ايسا كرنا ثابت ہے.

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ماعز اسلمى اور جھينى قبيلہ كى عورت اور غامدى قبيلہ كى عورت اور دو يہوديوں كو مدينہ ميں رجم كيا تھا، اس كا ثبوت صحيح احاديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ملتا ہے، اور صحابہ كرام، اور تابعين عظام، اور ان كے بعد اہل علم كا اس پر اجماع ہے، اس ميں كسى نے بھى مخالفت نہيں كى، صرف چند ايك لوگ اس كے مخالف ہيں جن كى مخالفت كا كوئى وزن نہيں.

امام بخارى اور مسلم نے اپنى صحيحين ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے وہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ:

" بلا شبہ اللہ سبحانہ وتعالى نے محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو حق دے كر مبعوث فرمايا، اور ان پر كتاب نازل كى، تو اللہ تعالى كے نازل كردہ ميں رجم كى آيت بھى تھى، ہم نے اسے پڑھا، اور اسے سمجھا اور اچھى طرح حفظ و ياد بھى كيا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رجم و سنگسار كيا، اور ان كے بعد ہم نے بھى رجم كيا، مجھے خدشہ ہے كہ اگر لوگوں پر لمبا وقت گزر گيا تو كوئى كہنے والا يہ نہ كہنے لگے: اللہ كى قسم ہم تو كتاب اللہ ميں رجم كى آيت نہيں پاتے، تو وہ اللہ تعالى كا نازل كردہ فريضہ ترك كرنے كى بنا پر گمراہ ہو جائينگے، اور اللہ تعالى كى كتاب ميں شادى شدہ زانى مرد و عورت كو رجم كرنا حق ہے، جب اس زنا كى گواہى مل جائے، يا پھر حمل ہو يا اعتراف كر ليا جائے .... " الخ

اور اس بنا پر رجم كى سزا كو تلوار يا گولى مار كر قتل كرنا جائز نہيں، كيونكہ رجم كرنے ميں بہت زيادہ عبرت ہے، اور اس طرح زنا جيسے فحش كام جو كہ شرك اور اللہ تعالى كے حرام كردہ كسى نفس و جان كو قتل كے بعد سب سے عظيم گناہ ہے روكا جا سكتا ہے.

اور اس ليے بھى كہ شادى شدہ زانى كو رجم كرنے كى حد توقيفى امور ميں شامل ہوتى ہے، جس ميں اجتھاد اور رائے كى كوئى گنجائش ہى نہيں اور اگر تلوار يا گولى كے ساتھ شادى شدہ زانى كو قتل كرنا جائز ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسا ضرور كرتے، اور اپنى امت كے ليے بھى اسے بيان فرماتے، اور ان كے بعد صحابہ كرام بھى ايسا ضرور كرتے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 48 ).

زانى كو رجم كے بدلے كسى اور طريقہ سے قتل كرنا جائز نہيں
 

مغزل

محفلین
مجھے فہد صاحب کا مراسلہ اقباس کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے۔

ابوشامل بتاریخ 06 Nov 2007 بوقت 5:31 pm #

جہاں تک میں نے دیکھا ہے روشن خیال بہت تاریک خیال ہوتے ہیں۔
بقول مرشد:
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
 

مغزل

محفلین
فارق سرور صاحب ۔۔ اپنی استعدادِ علمی میں اضافہ کیجئے:
ویسے یہ وعید بھی ملاحظہ کیجئے ۔۔ شاید کفار کی نمک حلالی سے تائب ہوجائیں۔

HUDOOD_TAQABUL5.gif
 

مغزل

محفلین
فاروق صاحب یہ بھی ملاحظہ کیجئے ۔۔ شاید آنکھیں کھل جائیں۔

۱۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک مسلمان حاضر ہوا اور اس نے با آواز بلند کہا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں زنا کر بیٹھا ہوں مجھے پاک کردیجیے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس کی طرف سے منہ پھیرلیا۔ وہ شخص پھر سامنے آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زنا کا جرم سرزد ہوگیا ہے۔ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا یہاں تک کہ چار بار ایسا ہی ہوا۔ جب اس نے چار بار زنا کا اعتراف کرلیا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے اسے قریب بلا کر دریافت کیا۔ کیا تم دیوانے (پاگل) ہو؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ پھر حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا ہاں۔ یہ سن کر آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو حکم دیا کہ اسے لے جاؤ اور سنگسار کردو۔(شرح صحیح مسلم از مولانا غلام رسول سعیدی جلد رابع، کتاب الحدود صفحہ ۷۶۸)
 

وجی

لائبریرین
بہت خوب م م مغل صاحب اللہ آپکو جزائے خیر دے کیا یہ وہی آیت ہے کہ جب حضرے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایک مسلمان کو قتل کردینے کے بعد نازل ہوئی تھے
 

مغزل

محفلین
(ب) حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک اسلمی حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور زنا کا مرتکب ہوگیا ہوں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم (مجھ پر زنا کی حد جاری کرکے) مجھے پاک کردیجیے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک کو واپس کردیا۔ دوسرے روز دوبارہ حضرت ماعز حاضر خدمت ہوئے اور پھر عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں زنا کر بیٹھا ہوں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس کو واپس کردیا۔ اور اس کی قوم کی طرف پیغام بھیجا کہ کیا تم ماعز کی عقل میں کچھ فتور پاتے ہو؟ کیا تم اس کی کوئی بات بدلی ہوئی دیکھتے ہو؟ اہل قوم نے جواب میں عرض کیا، بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ ایک کامل عقل والے انسان ہیں۔

اس کے بعد حضرت ماعز بن مالک پھر تیسرے دن حاضر ہوئے۔ رسول اللہ نے پھر ان کی قوم کی طرف پیغام بھیجا اور ان کے متعلق لوگوں سے دریافت کیا۔ اہل قوم نے پھر یہی کہا کہ اس میں کوئی کمی نہیں ہے اور نہ اس کی عقل میں کوئی فتور ہے۔

جب وہ چوتھے روز آئے تو اس کے لیے گڑھا کھودا گیا۔ اور اس کے بعد حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ رجم (سنگسار ) کردیے گئے۔ سنن ابن ماجہ اور ترمذی میں مزید یہ بیان ہے کہ جب حضرت ماعز بن مالک کو سنگسار کیا جارہا تھا تو وہ پتھروں کی تکلیف سے بھاگنے لگے اور اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے مار ڈالا۔ جب حضور صلّی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا؟“ یا یوں فرمایا ”تم نے اسے کو چھوڑ کیوں نہ دیا، ہوسکتا ہے وہ توبہ کرلیتا اور اللہ کریم جل شانہ اس کی توبہ کو قبول کرلیتا۔“ (مشکوٰۃ، کتاب الحدود)

مجھے امید ہے آپ میری باتوں اور اقتباسات پر ۔۔ پریشان نہ ہونگے۔
ویسے میرے محیط شاہدے کے تحت آپ فورم میں عموما اسی طرح کے
شرانگیز مراسلے روانہ فرماتے ہیں۔۔ اللہ نے علم دیا ہے تو اس کا مثبت
استعمال کیجئے نہ کہ علم کو شر کیلئے کام میں لائیں۔
مزید یہ کہ پہلے پوری تحقیق کیجئے پھر بات کیا کیجئے ۔ ہوا میں ٹھسے اڑانے
سے خود آپ کی شخصیت اور حیثیت مجروح ہوت ہے۔

والسلام
 

مغزل

محفلین
بہت خوب م م مغل صاحب اللہ آپکو جزائے خیر دے کیا یہ وہی آیت ہے کہ جب حضرے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایک مسلمان کو قتل کردینے کے بعد نازل ہوئی تھے

میرے علم میں نہیں ۔ کوئی صاحبِ علم اس کی وضاحت کردے ۔۔ ممنون ہونگا۔
 

مغزل

محفلین
فاروق صاحب ۔۔ یہ بھی ملاحظہ کیجئے۔

(ج) حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک غامدیہ عورت حاضر خدمت ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں نے زنا کیا ہے، مجھے پاک کردیجیے۔ رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس کو واپس کردیا۔ دوسرے دن وہ پھر آئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے کیوں واپس کرتے ہیں؟ شاید آپ مجھے ایسے ہی لوٹا رہے ہیں جیسے آپ نے ماعز بن مالک اسلمی کو واپس کردیا تھا۔ اللہ کی قسم میں تو زنا کے نتیجہ میں حاملہ ہوچکی ہوں۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو اپنے بیان سے رجوع نہیں کرتی تو بہرحال ابھی نہیں، اب چلی جا یہاں تک کہ بچہ پیدا ہوجائے۔ راوئ حدیث کہتے ہیں کہ جب اس کا بچہ پیدا ہوگیا تو ایک کپڑے میں بچہ کو لپیٹے ہوئے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پھر حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں بچہ پیدا ہوگیا ہے۔

آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ابھی نہیں جا اور اس کو دودھ پلا یہاں تک کہ تو اس کا دودھ چھڑالے۔ چنانچہ وہ پھر بچہ کو لے کر حاضر خدمت ہوئی اس حال میں کہ اس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا بھی تھا۔ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم میں اس کا دودھ چھڑا چکی ہوں اور اب یہ روٹی بھی کھانے لگا ہے۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچہ مسلمانوں میں سے ایک شخص کو (پرورش کرنے کے لیے) دے دیا۔ پھر اس عورت کے متعلق حکم دیا۔ اس کے لیے اس کے سینے تک گڑھا کھودا گیا۔ اس کے بعد رجم (سنگساری) کا حکم دیا تو لوگوں نے سنگسار کرنا شروع کردیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی ایک پتھر لے کر سامنے آئے اور اس کے سر پر مارا۔ اس سے ان کے چہرے پر خون کے چھینٹے گرگئے۔ انہوں نے عورت کو برا بھلا کہا۔ جب آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا خالد ٹھہرو (اسے سخت سست نہ کہو) اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، اس عورت نے بلاشبہ ایسی توبہ کی ہے کہ اگر کوئی (ظلماً) ٹیکس والا بھی ایسی توبہ کرے تو اس کی مغفرت ہوجائے گی۔

اس کے بعد حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازے کی تیاری کا حکم دیا اور نماز جنازہ ادا فرمائی اور اسے دفن کردیا گیا۔ (مشکوٰۃ، کتاب الحدود)
 

مغزل

محفلین
غور کیجیے! اس عورت سے گناہ ہوگیا۔ نہ کوئی دیکھنے والا تھا، نہ شکایت کرنے والا، نہ پکڑنے والا تھا۔ وہ خود سر عام دردناک سزا پانے کے لیے حاضر ہوگئی۔ محض اس تصور سے کہ سزا اسے پاک کردی گی اور اس سے اس کی عاقبت سنور جائے گی۔

اسلامی سزاؤں کا مقصد مجرم کی اصلاح اور معاشرہ میں جرائم کا انسداد ہے۔ سزائیں شدید ہیں لیکن ان کے نفاذ میں حد درجہ احتیاط اور کڑی شرائط ہیں:
سچی توبہ اور اسلامی سزا مجرم کو پاک کردیتی ہے۔ لہٰذا توبہ کرلینے والے اور اپنے جرم کی سزا پالینے والے شخص سے حقارت اور نفرت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلامی نظام عدل کی بنیادی بات یہ ہے کہ جرم ثابت ہوجانے کے بعد کسی عدالت اور کسی بھی فرد کو حدود اللہ میں تخفیف اور تبدیلی کا اختیار نہیں۔ الَّا یہ کہ مقتول کے وارث خون بہا قبول کرنے پر راضی ہوجائیں یا ازخود معاف کردیں۔

چند حدود کے بیان سے قبل اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ حدود اللہ اور تعزیرات یعنی سزاؤں کا نفاذ عدلیہ کے اختیار میں ہے، کسی فرد کو از خود کسی صورت میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں۔ اس معاملہ میں ہرگز کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے قوانین میں اور اللہ تعالیٰ علیم و خبیر کے بھیجے ہوئے احکام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

انسان کا علم محدود ہے۔ وہ جو کچھ سوچتا ہے اپنے ذاتی یا قومی مفاد کے لیے سوچتا ہے یا علاقائی، ملکی اور گروہی فوائد کو مدنظر رکھتا ہے۔ اگر عالمی مقاصد بھی اس کے سامنے ہوں تو وہ وقتی اور ہنگامی ہوتے ہیں کیونکہ مستقبل کا علم اور غیب کی خبر صرف عالم الغیب اللہ کو ہے کہ وہ سب کا مالک ہے، سب کا خالق ہے اور سب کا رب ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب دائمی ہے۔ وہ قیام قیامت تک کے لیے ہے اور اسلامی احکام بھی دائمی ہیں عارضی اور وقتی نہیں ہیں۔

اسی طرح اسلامی تعزیرات تمام نوع انسانی کی بھلائی اور اقوام عالم کی اصلاح کے لیے ہیں۔ اسلامی سزاؤں سے مقصود محض انتقام یا بدلہ اور تعزیر نہیں بلکہ یہ سزائیں مجرم کی اصلاح، دوسروں کی عبرت، معاشرہ کی تطہیر اور مستقبل میں جرائم کی روک تھام کے لیے ہیں۔

بشکریہ ویب سائٹ
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top