اے عشق جنوں پیشہ۔۔۔ احمد فراز کی آخری کتاب سے انتخاب

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یونہی مل بیٹھنے کا کوئی بہانہ نکلے
بات سے بات فسانے سے فسانہ نکلے

پھر چلے ذکر کسی زخم کے چِھل جانے کا
پھر کوئی درد کوئی خواب پرانا نکلے

پھر کوئی یاد کوئی ساز اُٹھا لے آئے
پھر کسی ساز کے پردے سے ترانہ نکلے

یہ بھی ممکن ہے کہ صحراؤں میں گم ہو جائیں
یہ بھی ممکن ہے خرابوں سے خزانہ نکلے

آؤ ڈھونڈیں تو سہی اہلِ وفا کی بستی
کیا خبر پھر کوئی گم گشتہ ٹھکانہ نکلے

یار ایسی بھی نہ کر بات کہ دونوں رو دیں
یہ تعلق بھی فقط رسمِ زمانہ نکلے

یہ بھی ہے اب نہ اٹھے نغمۂ زنجیر فرازؔ
یہ بھی ہے ہم سا کوئی اور دِوانہ نکلے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کفن بدوش کہیں سر بکف لئے پھری ہے
یہ زندگی مجھے کس کس طرف لئے پھری ہے

مری طلب اُسے جنگاہ میں بھی لے جاتی
مری تلاش اُسے صف بہ صف لئے پھری ہے

میں رزم گاہ میں ہوتا تو پاگلوں کی طرح
وہ خیمہ گاہ میں راتوں کو دف لئے پھری ہے

یہ سر زمین مرے خوں سے سرخرو نہ ہوئی
یہ خاک مرے لہو کا شرف لئے پھری ہے

سو بے نیاز رہے دوستوں سے ہم کہ یہ جاں
خود اپنا تیر خود اپنا ہدف لئے پھری ہے

فرازؔ درخورِ قاتل نہ تھے ہمی ورنہ
ہمیں بھی جوششِ خوں سر بکف لئے پھری ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اُس نے جب چاہنے والوں سے اطاعت چاہی
ہم نے آداب کہا اور اجازت چاہی

یونہی بیکار میں کب تک کوئی بیٹھا رہتا
اس کو فرصت جو نہ تھی ہم نے بھی رخصت چاہی

شکوہ ناقدریِ دنیا کا کریں کیا کہ ہمیں
کچھ زیادہ ہی ملی جتنی محبت چاہی

رات جب جمع تھے دکھ دل میں زمانے بھر کے
آنکھ جھپکا کے غمِ یار نے خلوت چاہی

ہم جو پامالِ زمانہ ہیں تو حیرت کیوں ہے
ہم نے آبا کے حوالے سے فضیلت چاہی

میں تو لے آیا وہی پیرہنِ چاک اپنا
اُس نے جب خلعت و دستار کی قیمت چاہی

حُسن کا اپنا ہی شیوہ تھا تعلق میں فرازؔ
عشق نے اپنے ہی انداز کی چاہت چاہی
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تُو کہ شمعِ شامِ فراق ہے دلِ نامراد سنبھل کے رو
یہ کسی کی بزمِ نشاط ہے یہاں قطرہ قطرہ پگھل کے رو

کوئی آشنا ہو کہ غیر ہو نہ کسی سے حال بیان کر
یہ کٹھور لوگوں کا شہر ہے کہیں دُور پار نکل کے رو

کسے کیا پڑی سرِ انجمن کہ سُنے وہ تیری کہانیاں
جہاں کوئی تجھ سے بچھڑ گیا اُسی رہگزار پہ چل کے رو

یہاں اور بھی ہیں گرفتہ دل کبھی اپنے جیسوں سے جا کے مِل
ترے دکھ سے کم نہیں جن کے دکھ کبھی اُن کی آگ میں جل کے رو

ترے دوستوں کو خبر ہے سب تری بے کلی کا جو ہے سبب
تُو بھلے سے اُس کا نہ ذکر کر تُو ہزار نام بدل کے رو

غمِ ہجر لاکھ کڑا سہی پہ فرازؔ کچھ تو خیال کر
مری جاں یہ محفلِ شعر ہے تو نہ ساتھ ساتھ غزل کے رو
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مہر و مہتاب بنا ہوں نہ ستارا ہُوا ہوں
میں زمیں پر ہوں کہ افلاک کا مارا ہُوا ہوں

قعرِ دریا میں ہیں موجوں سے جو پسپا نہ ہوئے
میں کنارے پہ جو بیٹھا ہوں تو ہارا ہُوا ہوں

میں تو ذرّہ تھا مگر اے مرے خورشید خرام
تُو مجھے روند گیا ہے تو ستارا ہُوا ہوں

تم نے ہر وار پہ مجھ سے ہی شکایت کی ہے
میں کہ ہر زخم پہ ممنون تمہارا ہُوا ہوں

عشق میں حُسن کے انداز سما جاتے ہیں
میں بھی تیری طرح خود بین و خود آرا ہُوا ہوں

سفرِ ذات میں ایسا کبھی لگتا ہے فرازؔ
میں پیمبر کی طرح خود پہ اتارا ہُوا ہوں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو
باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو

جستہ جستہ پڑھ لیا کرنا مضامینِ وفا
پر کتابِ عشق کا ہر باب مت دیکھا کرو

اِس تماشے میں اُلٹ جاتی ہیں اکثر کشتیاں
ڈوبنے والوں کو زیرِ آب مت دیکھا کرو

میکدے میں کیا تکلف، میکشی میں کیا حجاب
بزمِ ساقی میں ادب آداب مت دیکھا کرو

ہم سے درویشوں کے گھر آؤ تو یاروں کی طرح
ہر جگہ خس خانہ و برفاب مت دیکھا کرو

مانگے تانگے کی قبائیں دیر تک رہتی نہیں
یار لوگوں کے لقب القاب مت دیکھا کرو

تشنگی میں لب بھگو لینا بھی کافی ہے فرازؔ
جام میں صہبا ہے یا زہراب مت دیکھا کرو
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشیں کوئی ہے
کہ شب ڈھلے تو سَحر تک کوئی نہیں، کوئی ہے

نہ کوئی چاپ نہ سایہ کوئی نہ سرگوشی
مگر یہ دل کہ بضد ہے، نہیں نہیں کوئی ہے

ہر اک زباں پہ اپنے لہو کے ذائقے ہیں
نہ کوئی زہرِ ہلاہل نہ انگبیں کوئی ہے

بھلا لگا ہے ہمیں عاشقوں کا پہناوا
نہ کوئی جیب سلامت نہ آستیں کوئی ہے

دیارِ دل کا مسافر کہاں سے آیا ہے
خبر نہیں مگر اک شخص بہتریں کوئی ہے

یہ ہست و بود یہ بود و نبود وہم ہے سب
جہاں جہاں بھی کوئی تھا وہیں وہیں کوئی ہے

فرازؔ اتنی بھی ویراں نہیں مری دنیا
خزاں میں بھی گُلِ خنداں کہیں کہیں کوئی ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے
تو نہیں ہوتا تو ہر شے میں کمی رہتی ہے

اب کے جانے کا نہیں موسمِ گر یہ شائد
مسکرائیں بھی تو آنکھوں میں نمی رہتی ہے

عشق عمروں کی مسافت ہے کسے کیا معلوم
کب تلک ہم سفری ہم قدمی رہتی ہے

کچھ دِلوں میں کبھی کھلتے نہیں چاہت کے گلاب
کچھ جزیروں پہ سدا دھند جمی رہتی ہے

تم بھی پاگل ہو کہ اُس شخص پہ مرتے ہو فرازؔ
ایک دنیا کی نظر جس پہ جمی رہتی ہے
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
قیمت ہے ہر کسی کی دکاں پر لگی ہوئی
بِکنے کو ایک بھِیڑ ہے باہر لگی ہوئی

غافل نہ جان اُسے کہ تغافل کے باوجود
اُس کی نظر ہے سب پہ برابر لگی ہوئی

خوش ہو نہ سر نوشتۂ مقتل کو دیکھ کر
فہرست ایک اور ہے اندر لگی ہوئی
ق
کس کا گماشتہ ہے امیرِ سپاہِ شہر
کن معرکوں میں ہے صفِ لشکر لگی ہوئی

برباد کر کے بصرہ و بغداد کا جمال
اب چشمِ بد ہے جانبِ خیبر لگی ہوئی

غیروں سے کیا گِلا ہو کہ اپنوں کے ہاتھ سے
ہے دوسروں کی آگ مرے گھر لگی ہوئی

لازم ہے مرغِ بادنما بھی اذان دے
کلغی تو آپ کے بھی ہے سر پر لگی ہوئی

میرے ہی قتل نامے پہ میرے ہی دستخط
میری ہی مُہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی

کس کے لبوں پہ نعرۂ منصور تھا فرازؔ
ہے چار سُو صدائے مکرّر لگی ہوئی
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ
سو جی رہے ہیں مرے شہر میں مرے ہوئے لوگ

یہ بے دلی کسی آفت کا پیش خیمہ نہ ہو
کہ چشم بستہ ہیں زانو پہ سر دھرے ہوئے لوگ

نہ کوئی یاد نہ آنسو نہ پھول ہیں نہ چراغ
تو کیا دیارِ خموشاں سے بھی پرے ہوئے لوگ

ہوائے حرص سبھی کو اُڑائے پھرتی ہے
یہ گرد بادِ زمانہ یہ بھُس بھرے ہوئے لوگ

یہ دل سنبھلتا نہیں ہے وداعِ یار کے بعد
کہ جیسے سو نہ سکیں خواب میں ڈرے ہوئے لوگ

کچھ ایسا ظلم کا موسم ٹھہر گیا ہے فرازؔ
کسی کی آب و ہوا میں نہ پھر ہرے ہوئے لوگ
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جب ہر اک شہر بلاؤں کا ٹھکانہ بن جائے
کیا خبر کون کہاں کس کا نشانہ بن جائے

عشق خود اپنے رقیبوں کو بہم کرتا ہے
ہم جسے پیار کریں جانِ زمانہ بن جائے

اتنی شدت سے نہ مل تُو کہ جدائی چاہیں
اور یہ قربت تری دوری کا بہانہ بن جائے

جو غزل آج ترے ہجر میں لکھی ہے وہ کل
کیا خبر اہلِ محبت کا ترانہ بن جائے

کرتا رہتا ہوں فراہم میں زرِ زخم کہ یوں
شائد آئندہ زمانوں کا خزانہ بن جائے

اِس سے بڑھ کر کوئی انعامِ ہنر کیا ہے فرازؔ
اپنے ہی عہد میں اک شخص فسانہ بن جائے
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یونہی مر مر کے جئیں وقت گذارے جائیں
زندگی ہم ترے ہاتھوں سے نہ مارے جائیں

اب زمیں پر کوئی گوتم نہ محمدﷺ نہ مسیح
آسمانوں سے نئے لوگ اُتارے جائیں

وہ جو موجود نہیں اُس کی مدد چاہتے ہیں
وہ جو سنتا ہی نہیں اُس کو پکارے جائیں

باپ لرزاں ہے کہ پہنچی نہیں بارات اب تک
اور ہم جولیاں دلہن کو سنوارے جائیں

ہم کہ نادان جواری ہیں سبھی جانتے ہیں
دل کی بازی ہو تو جی جان سے ہارے جائیں

تج دیا تم نے درِ یار بھی اُکتا کے فرازؔ
اب کہاں ڈھونڈھنے غمخوار تمہارے جائیں
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
باغباں ڈال رہا ہے گل و گلزار پہ خاک​
اب بھی میں چپ ہوں تو مجھ پر مرے اشعار پہ خاک​
کیسے بے آبلہ پا بادیہ پیما ہیں کہ ہے
قطرۂ خوں کے بجائے سر ہر خار پہ خاک

سرِ دربار ستادہ ہیں پئے منصب و جاہ
تُف بر اہلِ سخن و خلعت و دستار پہ خاک

آ کے دیکھو تو سہی شہر مرا کیسا ہے
سبزہ و گل کی جگہ ہے در و دیوار پہ خاک

تا کسی پر نہ کھُلے اپنے جگر کا احوال
مَل کے آ جاتے ہیں ہم دیدۂ خونبار پہ خاک

بسکہ اک نانِ جویں رزقِ مشقت تھا فرازؔ
آ گیا ڈال کے میں درہم و دینار پہ خاک
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نامہ بروں کو کب تک ہم کوئے یار بھیجیں
وہ نامراد آئیں ہم بار بار بھیجیں

ہم کب سے منتظر ہیں اس موسمِ جنوں کے
جب زخم تہنیت کے یاروں کو یار بھیجیں

کیوں چشمِ شہر یاراں ہے سوئے جاں فگاراں
کیا جامۂ دریدہ اُن کو اُتار بھیجیں؟

آؤ اور آ کے گِن لو زخم اپنے دل زدوں کے
ہم کیا حساب رکھیں ہم کیا شمار بھیجیں

یارانِ مہرباں کو گر فکر ہے ہماری
یا پندگر نہ بھیجیں یا غمگسار بھیجیں

جب یار کا سندیسہ آئے تو بات بھی ہو
یوں تو ہزار نامے خوباں ہزار بھیجیں

سُن اے غزالِ رعنا اب دل یہ چاہتا ہے
ہرروز اک غزل ہم در مدحِ یار بھیجیں

دل یہ بھی چاہتا ہے ہجراں کو موسموں میں
کچھ قربتوں کی یادیں ہم دُور پار بھیجیں

دل یہ بھی چاہات ہے اُن پھول سے لبوں کو
دستِ صبا پہ رکھ کر شبنم کے ہار بھیجیں

دل یہ بھی چاہتا ہے اُس جانِ شاعری کو
کچھ شعر اپنے چُن کر شاہکار بھیجیں

دل یہ بھی چاہتا ہے سب بھید چاہتوں کے
ہر مصلحت بھُلا کر بے اختیار بھیجیں

دل یہ بھی چاہتا ہے پردے میں ہم سُخن کے
دیوانگی کی باتیں دیوانہ وار بھیجیں

دل یہ بھی چاہتا ہے جب بے اثر ہو سب کچھ
تجھ کو بنا کے قاصد اے یادِ یار بھیجیں

دل یہ بھی چاہتا ہے یا چُپ کا زہر پی لیں
یا دامن و گریباں ہم تار تار بھیجیں

دل جو بھی چاہتا ہو لیکن فرازؔ سوچو
ہم طوقِ آشنائی کیسے اُتار بھیجیں
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ابر و باراں ہی نہ تھے بحر کی یورش میں شریک
دکھ تو یہ ہے کہ ہے ملاح بھی سازش میں شریک

تا ہمیں ترکِ تعلق کا بہت رنج نہ ہو
آؤ تم کو بھی کریں ہم اِسی کوشش میں شریک

اک تو وہ جسم طلسمات کا گھر لگتا ہے
اس پہ ہے نیّتِ خیاط بھی پوشش میں شریک

ساری خلقت چلی آتی ہے اُسے دیکھنے کو
کیا کرے دل بھی کہ دنیا ہے سفارش میں شریک

اتنا شرمندہ نہ کر اپنے گنہگاروں کو
اے خدا تُو بھی رہا ہے مری خواہش میں شریک

لفظ کو پھول بنانا تو کرشمہ ہے فرازؔ
ہو نہ ہو کوئی تو ہے تیری نگارش میں شریک
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نشستہ مسندِ ساقی پہ اب ہیں آب فروش
ہوئے ہیں شہر بدر، شہر کے شراب فروش

کوئی بھی دیکھنا چاہے نہ اپنے چہرے کو
سو جتنے آئنہ گر تھے ہوئے نقاب فروش

کسی کے پاس نہ ظرفِ خرد نہ حرفِ جنوں
ہوئے ہیں عارف و سالک سبھی نصاب فروش

یہ کہہ کے اُڑ گئے باغوں سے عندلیب تمام
جو باغباں تھے کبھی اب ہوئے گلاب فروش

نہ کشتیاں ہیں نہ ملاح ہیں نہ دریا ہے
تمام ریگِ رواں اور سبھی سراب فروش

جو حرفِ دل کبھی خونِ جگر سے لکھتے تھے
وہ اہلِ درد بھی اب ہو گئے کتاب فروش

کوئی نہیں جو خبر لائے قعرِ دریا کی
یہ تاجرِ کفِ سیلاب وہ حباب فروش

جو کور چشم، کہن سال و شعبدہ گر تھے
وہی تو لوگ ہیں اب سرمہ وخضاب فروش

نہیں فرازؔ تو لوگوں کو یاد آتا ہے
وہ نغمہ سنج وہ خوش گفتگو وہ خواب فروش
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مسافت دل کی تھی سو وہ جادۂ مشکل پسند آیا
ہمیں بھی مثلِ غالبؔ گفتۂ بیدلؔ پسند آیا

سمر قند و بخارا کیا ہیں خالِ یار کے آگے
سو ہم کو مصرعۂ حافظؔ بجان و دل پسند آیا

طبیعت کی کشاکش نے ہمیں آخر ڈبونا تھا
کبھی دریا اچھا لگا کبھی ساحل پسند آیا

متاعِ سوختہ دل سے لگائے پھرتا رہتا ہوں
کہ شہرِ آرزو جیسا بھی تھا حاصل پسند آیا

عجب رنگ آ گیا ہے دل کے خوں ہونے سے آنکھوں میں
ہمیں بھی اب کے گریہ میں لہو شامل پسند آیا

نہ تھا یوں بھی کہ جس کو دیکھتے ہم اُس کے ہو جاتے
کہ تُو بھی تو ہمیں جاناں بصد مشکل پسند آیا

فرازؔ اپنی ادا کا ایک دیوانہ ہے کیا کیجئے
اُسے سارے مسیحاؤں میں اک قاتل پسند آیا
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سبھی کہیں مرے غمخوار کے علاوہ بھی
کوئی تو بات کروں یار کے علاوہ بھی

بہت سے ایسے ستمگر تھے جو اب یاد نہیں
کسی حبیبِ دل آزار کے علاوہ بھی

یہ کیا کہ تم بھی سرِ راہ حال پوچھتے ہو
کبھی ملو ہمیں بازار کے علاوہ بھی

سو دیکھ کر ترے رخسار و لب یقیں آیا
کہ پھول کھلتے ہیں گلزار کے علاوہ بھی

کبھی فرازؔ سے آ کر ملو جو وقت ملے
یہ شخص خوب ہے اشعار کے علاوہ بھی
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سنو ہَواؤں کا نوحہ زبانیِ صحرا
کہ گرگ زاد کریں اب شبانیِ صحرا

سنو کہ پیاس ہر اک کی جدا کدا ٹھہری
سو بحر خاک کرے ترجمانیِ صحرا

سنو کہ سب کا مقدر کہاں غمِ لیلیٰ
کسی کسی پہ رہی مہربانیِ صحرا

سنو کہ دل کا اثاثہ بس ایک داغ تو ہے
کہ جیسے خانۂ مجنوں نشانیِ صحرا

سنو کہ اب کوئی بانگِ جرس نہ نالۂ نے
عیاں تو سب پہ ہے سوزِ نہانیِ صحرا

سنو کہ آبلہ پا اب کہاں سے آئیں گے
ہمارے ساتھ گئی گل گشانیِ صحرا

سنو کہ جب کوئی آئینِ گلستاں ہی نہیں
تو کوئی کیسے کرے باغبانیِ صحرا
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کس نے کہا تھا کہ وحشت میں چھانیے صحرا
کڑی ہے دھوپ تو اب سر پہ تانیے صحرا

بس اک ذرا سے اُجڑنے پہ زعم کتنا ہے
یہ دل بضد ہے کہ اب اس کو مانیے صحرا

کسی کی آبلہ پائی عنایتِ رہِ دوست
کسی کی چاک قبائی نشانیِ صحرا

یہ زندگی کہ خیاباں بھی ہے خرابہ بھی
اب اس کو خلد سمجھیے کہ جانیے صحرا

ہوس کے واسے سو در کھُلے ہیں شہروں میں
اگر جنونِ وفا ہے تو چھانیے صحرا

ستم تو یہ ہے کہ اب خانہ زادگانِ چمن
ہمیں بتانے لگے ہیں معانیِ صحرا

ہمیں ملی نہ کہیں خیمہ زن نگارِ بہار
لئے پھری ہے عبث بیکرانیِ صحرا

فرازؔ و قیس ہیں دونوں ہی کشتگانِ وفا
یہ جانِ شہرِ ملامت وہ جانیِ صحرا
٭٭٭​
 
Top