اے عشق جنوں پیشہ۔۔۔ احمد فراز کی آخری کتاب سے انتخاب

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کون سر گرداں ہو صحراؤں کے بیچ
قیس خوش بیٹھا ہے لیلاؤں کے بیچ

دے رہا ہے کون تلواروں کو آب
خوں نظر آتا ہے دریاؤں کے بیچ

آ بسے ہیں شہر میں خانہ بدوش
ہے اداسی خیمہ زن گاؤں کے بیچ

دیکھ اپنے دل فگاروں کو کبھی
سر میں سودا بیڑیاں پاؤں کے بیچ

تیری قربت بھی نہیں دکھ سے تہی
دھوپ کے پیوند ہیں چھاؤں کے بیچ

حرفِ عیسیٰ بھی گیا عیسیٰ کے ساتھ
بس صلیبیں ہیں کلیساؤں کے بیچ

ایک ہیں سب قیسؔ و فرہادؔ و فرازؔ
کیا رکھا ہے عشق میں ناؤں کے بیچ
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نذرِ قرۃ العین طاہرہ

تجھ پہ اگر نظر پڑے تُو جو کبھی ہو رُو برو
دل کے معاملے کروں تجھ سے بیان دو بدو

ہے تیرے غم میں جانِ جاں آنکھوں سے خونِ دل رواں
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جُو بہ جُو

قوسِ لب و خُمِ دَہن، پہ دو زلفِ پُر شکن
غنچہ بہ غنچہ گُل بہ گُل لالہ بہ لالہ بو بہ بو

دامِ خیالِ یار کے ایسے اسیر ہم ہوئے
طبع بہ طبع دل بہ دل مہر بہ مہر خو بہ خو

ہم نے لباس درد کا قالبِ جاں پہ سی لیا
رشتہ بہ رشتہ نخ بہ نخ تار بہ تار پو بہ پو

نقش کتابِ دل پہ تھا ثبت اُسی کا طاہرہؔ
صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بہ تو

شیشۂ ریختہ میں دیکھ لعبتِ فارسی فرازؔ
خال بہ خال خد بہ خد نکتہ بہ نکتہ ہو بہ ہو
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
دیوانگی خرابیِ بسیار ہی سہی
کوئی تو خندہ زن ہے چلو یار ہی سہی

وہ دیکھنے تو آئے بہانہ کوئی بھی ہو
عذرِ مزاج پرسیِ بیمار ہی سہی

رشتہ کوئی تو اُس سے تعلق کا چاہئے
جلوہ نہیں تو حسرتِ دیدار ہی سہی

اہلِ وفا کے باب میں اتنی ہوس نہ رکھ
اِس قحط زارِ عشق میں دو چار ہی سہی

خوش ہوں کہ ذکرِ یار میں گزرا تمام وقت
ناصح سے بحث ہی سہی تکرار ہی سہی

شامِ اسیری و شبِ غربت تو ہو چکی
اک جاں کی بات ہے تو لبِ دار ہی سہی

ہوتی ہے اب بھی گاہے بگاہے کوئی غزل
ہم زندگی سے برسرِ پیکار ہی سہی

اک چارہ گر ہے اور ٹھکانے کا ہے فرازؔ
دنیا ہمارے درپئے آزار ہی سہی
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
مگر چراغ نے لَو کو سنبھال رکھا ہے

محبتوں میں تو ملنا ہے یا اجڑ جانا
مزاجِ عشق میں کب اعتدال رکھا ہے

ہَوا میں نشہ ہی نشہ فضا میں رنگ ہی رنگ
یہ کس نے پیرہن اپنا اچھال رکھا ہے

بھلے دنوں کا بھروسا ہی کیا رہیں نہ رہیں
سو میں نے رشتۂ غم کو بحال رکھا ہے

ہم ایسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ خدا
سبھی نے وعدۂ فردا پہ ٹال رکھا ہے

حسابِ لطفِ حریفاں کِیا ہے جب تو کُھلا
کہ دوستوں نے زیادہ خیال رکھا ہے

بھری بہار میں اک شاخ پر کِھلا ہے گلاب
کہ جیسے تُو نے ہتھیلی پہ گال رکھا ہے

فرازؔ عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی
یہ کس نے فتنۂ ہجر و وصال رکھا ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
منزلِ دوست ہے کیا کون و مکاں سے آگے؟
جس سے پوچھو وہی کہتا ہے، یہاں سے آگے

اہلِ دل کرتے رہے اہلِ ہَوس سے بحثیں
بات بڑھتی ہی نہیں سود و زیاں سے آگے

اب جو دیکھا تو کئی آبلہ پا بیٹھے ہیں
ہم کہ پیچھے تھے بہت ہم سفراں سے آگے

ہم نے اُس حد سے کِیا اپنے سفر کا آغاز
پر فرشتوں کے بھی جلتے ہیں جہاں سے آگے

کیسے بتلائیں کہ نیرنگِ زمانہ کیا ہے
کس کو دنیا نظر آتی ہے یہاں سے آگے

نہیں ایسا بھی کہ جب چاہا غزل کہہ ڈالی
شعر کی بات ہے کچھ طبعِ رواں سے آگے

اپنے حصّے کی پِلا دیتے ہیں اوروں کو فرازؔ
کب یہ دستور تھا ہم تشنہ لباں سے آگے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کہانیاں نہ سنو آس پاس لوگوں کی
کہ میرا شہر ہے بستی اداس لوگوں کی

نہ کوئی سمت نہ منزل سو قافلہ کیسا
رواں ہے بِھیڑ فقط بے قیاس لوگوں کی

کسی سے پوچھ ہی لیتے وفا کے باب میں ہم
کمی نہیں تھی زمانہ شناس لوگوں کی

محبتوں کا سفر ختم تو نہیں ہوتا
بجا کہ دوستی آئی نہ راس لوگوں کی

ہمیں بھی اپنے کئی دوست یاد آتے ہیں
کبھی جو بات چلے نا سپاس لوگوں کی

کرو نہ اپنی بلا نوشیوں کے یوں چرچے
کہ اِس سے اور بھڑکتی ہے پیاس لوگوں کی

میں آنے والے زمانوں سے ڈر رہا ہوں فرازؔ
کہ میں نے دیکھی ہیں آنکھیں اداس لوگوں کی
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے
جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے

اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں
مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے

کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتیں
کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے

شائستگیِ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا
نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل نہیں ہوتے

کیسے ہی تلاطم ہوں مگر قلزمِ جاں میں
کچھ یاد جزیرے ہیں کہ اوجھل نہیں ہوتے

عشاق کے مانند کئی اِہل ہوس بھی
پاگل تو نظر آتے ہیں پاگل نہیں ہوتے

سب خواہشیں پوری ہوں فرازؔ ایسا نہیں ہے
جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آخر اس عشق کا آزار کم تو ہونا تھا
شام تک سایۂ دیوار کم تو ہونا تھا

دوستو غم نہ کرو میرا کہ جس مقتل سے
تم گزر آئے ہو اک یار کم تو ہونا تھا

سر کشیدوں کا کوئی تذکرہ ہو گا ورنہ
ذکر اپنا سرِ دربار کم تو ہونا تھا

محفلِ غیر نہ ہوتی تو روش سے تیزی
دل بھی دُکھتا مگر آزار کم تو ہونا تھا

ہم نے کب چاہا کہ آئینۂ دل ہو صیقل
پر تری دید سے زنگار کم تو ہونا تھا

دل کی سازش تھی کہ بے دید ہوئی ہیں آنکھیں
اک نہ اک میرا طرف دار کم تو ہونا تھا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آب و دانہ قفس میں رکھا ہے
یوں مجھے پیش و پس میں رکھا ہے

اک شرارہ سا، دل کہیں جسے
جسم کے خار و خس میں رکھا ہے

عشق بھی چاہتا ہے وصلِ حبیب
کچھ نہ کچھ تو ہوس میں رکھا ہے

کون کرتا ہے کوچ بستی سے؟
دل کسی کا جرس میں رکھا ہے

صید و صیاد کب یہ جانتے ہیں
کس نے کس کو قفس میں رکھا ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نبھاتا کون ہے قول و قسم تم جانتے تھے
یہ قُربت عارضی ہے کم سے کم تم جانتے تھے

رہا ہے کون کس کے ساتھ انجامِ سفر تک
یہ آغازِ مسافت ہی سے ہم تم جانتے تھے

مزاجوں میں اتر جاتی ہے تبدیلی مری جاں
سو رہ سکتے تھے کیسے ہم بہم تم جانتے تھے

سو اب کیوں ہرکس و ناکس سے یہ شکوہ شکایت
یہ سب سود و زیاں یہ بیش و کم تم جانتے تھے

فرازؔ اس گمرہی پر کیا کسی کو دوش دینا
کہ راہِ عاشقی کے پیچ و خم تم جانتے تھے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یوں تجھے ڈھونڈنے نکلے کہ نہ آئے خود بھی
وہ مسافر کہ جو منزل تھے بجائے خود بھی

کتنے غم تھے کہ زمانے سے چھپا رکھتے تھے
اس طرح سے کہ ہمیں یاد نہ آئے خود بھی

ایسا ظالم ہے کہ گر ذکر میں اُس کے کوئی ظلم
ہم سے رہ جائے تو وہ یاد دلائے خود بھی

لطف تو جب ہے تعلق کا کہ وہ سحر جمال
کبھی کھینچے کبھی کھنچتا چلا آئے خود بھی

ایسا ساقی ہو تو پھر دیکھئے رنگِ محفل
سب کو مدہوش کرے ہوش سے جائے خود بھی

یار سے ہم کو تغافل کا گلہ کیوں ہو کہ ہم
بارہا محفلِ جاناں سے اٹھ آئے خود بھی
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
وہاں تو ہار قیامت بھی مان جاتی ہے
جہاں تلک ترے قد کی اُٹھان جاتی ہے

یہ عہدِ سنگ زنی ہے سو چپ ہیں آئنہ گر
کہ لب کشا ہوں تو سمجھو دکان جاتی ہے

یہ مہربان مشیّت بھی ایک ماں کی طرح
میں ضد کروں تو مری بات مان جاتی ہے

سو کیا کریں یہاں بسمل کہ بات قاتل کی
کوئی نہ مانے عدالت تو مان جاتی ہے

میں کس طرح سے گزاروں گا عمر بھر کا فراق
وہ دو گھڑی بھی جُدا ہو تو جان جاتی ہے

یہ نامراد محبت بھی قاتلوں کی طرح
ضرور چھوڑ کے کوئی نشان جاتی ہے

فرازؔ اجڑنے لگا ہے چمن محبت کا
جو رُت ہمیشہ رہی مہربان، جاتی ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
چھیڑ دیتا ہے دل پھر سے پرانی کوئی بات
کوئی دکھ کوئی گلہ کوئی کہانی کوئی بات

ایک چُپ تھی کہ جو خوشبو کی طرح پھیلی تھی
صبحدم کہہ نہ سکی رات کی رانی کوئی بات

اہلِ گلشن کا تو شیوہ ہے کہ بدنام کریں
گُل بھی سنتا کبھی بلبل کی زبانی کوئی بات

وہ ترا عہدِ وفا تھا کہ وفائے وعدہ
میں کہ پھر بھول گیا یاد دلانی کوئی بات

جانے کیوں اب کے پریشاں ہیں ترے خانہ بدوش
ورنہ ایسی بھی نہ تھی نقلِ مکانی کوئی بات

جس طرح ساری غزل میں کوئی عمدہ مصرع
جس طرح یاد میں رہ جائے نشانی کوئی بات

اہلِ دستار و قبا تُرش جبیں کیوں ہیں فرازؔ
کہہ گئی کیا مری آشفتہ بیانی کوئی بات؟
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
خبر تھی گھر سے وہ نکلا ہے مینہ برستے میں
تمام شہر لئے چھتریاں تھا رستے میں

بہار آئی تو اک شخص یاد آیا بہت
کہ جس کے ہونٹوں سے جھڑتے تھے پھول ہنستے میں

کہاں کے مکتب و ملّا کہاں کے درس و نصاب
بس اک کتابِ محبت رہی ہے بستے میں

مِلا تھا ایک ہی گاہک تو ہم بھی کیا کرتے
سو خود کو بیچ دیا بے حساب سستے میں

یہ عمر بھر کی مسافت ہے، دل بڑا رکھنا
کہ لوگ ملتے بچھڑتے رہیں گے رستے میں

ہر ایک در خورِ رنگ و نمو نہیں ورنہ
گل و گیاہ سبھی تھے صبا کے رستے میں

ہے زہرِ عشق، خمارِ شراب ہے آگے
نشہ بڑھاتا گیا ہے یہ سانپ ڈستے میں

جو سب سے پہلے ہی رزمِ وفا میں کام آئے
فرازؔ ہم تھے انہیں عاشقوں کے دستے میں
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سب قرینے اُسی دلدار کے رکھ دیتے ہیں​
ہم غزل میں بھی ہُنر یار کے رکھ دیتے ہیں​
شاید آ جائیں کبھی چشمِ خریدار میں ہم
جان و دل بیچ میں بازار کے رکھ دیتے ہیں

تاکہ طعنہ نہ ملے ہم کو تنک ظرفی کا
ہم قدح سامنے اغیار کے رکھ دیتے ہیں

اب کسے رنجِ اسیری کہ قفس میں صیاد
سارے منظر گُل و گُلزار کے رکھ دیتے ہیں

ذکرِ جاناں میں یہ دنیا کو کہاں لے آئے
لوگ کیوں مسٔلے بیکار کے رکھ دیتے ہیں

وقت وہ رنگ دکھاتا ہے کہ اہلِ دل بھی
طاقِ نسیاں پہ سخن یار کے رکھ دیتے ہیں

زندگی تیری امانت ہے مگر کیا کیجئے
لوگ یہ بوجھ بھی تھک ہار کے رکھ دیتے ہیں

ہم تو چاہت میں بھی غالبؔ کے مقلّد ہیں فرازؔ
جس پہ مرتے ہیں اُسے مار کے رکھ دیتے ہیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ایسے ویسے گمان کیسے پڑے
دل میں یہ وہم آن کیسے پڑے

آدمی کی زمیں سے دوستی تھی
بیچ میں آسمان کیسے پڑے

کیا کہیں درمیان دونوں کے
کون سے مہربان کیسے پڑے

تیری ہمسائیگی کے ارماں میں
رفتہ رفتہ مکان کیسے پڑے

بلبلیں قید تھیں تو پھولوں کے
دامنوں پر نشان کیسے پڑے

حشر برپا ہے شورِ خلقت سے
تیری آواز کان کیسے پڑے

لوگ حیراں ہیں شہر کے پیچھے
شہر کے پاسبان کیسے پڑے

خونِ دل خرچ ہو گیا ہے فرازؔ
بول شعروں میں جان کیسے پڑے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جورِ حبیب و پرسشِ اغیار ایک سے
گو زخم الگ الگ ہیں مگر وار ایک سے

ہر گھر میں اپنے اپنے بہار و خزاں کے رنگ
یوں دیکھنے میں ہیں در و دیوار ایک سے

بے اعتمادیوں کی فضا کارواں میں ہے
رہنا ہے دوسرے کو خبردار ایک سے

ہر بار زندگی نے نئے تجربے دیے
ہر چند اور لوگ تھے ہر بار ایک سے

ایک ربطِ خاص ہم کو رقیبوں سے ہے کہ ہیں
دلداگانِ عشق کو آزار ایک سے

اب بیش و کم کی بات نہ کر دوستوں کے بیچ
ہم کو سبھی نے زخم دیے یار ایک سے

جب دشمنی کی فصل ہو تَب دوست بھی عدو
جب دوستی کے دن ہو تو سب یار ایک سے

وہ میکشانِ شہر ہوں یا واعظانِ دیں
کردار الگ الگ ہیں اداکار ایک سے

رہیں خوش کہ روزِ حشر کچھ انصاف تو ملا
اچھا ہوا کہ سب ہیں گنہگار ایک سے

دلدارئ حبیب کہ آشوبِ دہر ہو
سب مرحلے فرازؔ ہیں دشوار ایک سے
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جب سجے محفلِ مے شام میں آ جائے کوئی
پینے بیٹھیں تو نظر جام میں آ جائے کوئی

یہ مقدر کے کرشمے ہیں کہ اکثر اوقات
ہونگاہوں میں کوئی، دام میں آ جائے کوئی

مجھ سے ملنے نہیں دیتے مجھے دنیا والے
صبح رخصت ہو کوئی، شام میں آ جائے کوئی

اُس کا دھیان آئے تو گھر ایسے مہک جاتا ہے
جیسے دیوار و در و بام میں آ جائے کوئی

ہم تو اُس کو سر آنکھوں پہ بٹھا لیتے ہیں
سوئے میخانہ جو احرام میں آ جائے کوئی

گرچہ امکاں تو بہت کم ہے مگر کیا معلوم
پھر کسی روز کسی شام میں آ جائے کوئی

جانے کب سے ہوں کسی خواب جزیرے میں فرازؔ
کاش اِس قریۂ گمنام میں آ جائے کوئی
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کوئی منزل تھی کہاں ترکِ طلب سے آگے
پھر بھی ہم ہیں کہ چلے جاتے ہیں سب سے آگے

اب کہاں جاں کے عوض جنسِ وفا ملتی ہے
یہ مگر شہر کا دستور تھا اب سے آگے

کون کہتا ہے نہیں چارۂ بیماریِ دل
ایک میخانہ بھی پڑتا ہے مطب سے آگے

"نہ بہ زورے نہ بہ زاری نہ بہ زر می آید"
بات بڑھتی ہی نہیں ہے کسی ڈھب سے آگے

تجھ کو اب کیسے بتائیں وہ ترا ہجر نہ تھا
ہم پریشاں تھے کسی اور سبب سے آگے

جب سے یہ سلسلۂ تیغ و گلو جاری ہے
اہلِ دل اہلِ زمانہ سے ہیں تب سے آگے

ہم کہ شائستہِ تہذیبِ محبت ہیں فرازؔ
ہم نے رکھا نہ قدم حدِ ادب سے آگے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کوئی سخن برائے قوافی نہیں ‌کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں ‌کہا

ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں‌ کہا

آشوبِ‌ زندگی تھا کہ اندوہِ عاشقی
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں ‌کہا

ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی
پھر بھی گُماں یہی‌ ہے کہ کافی نہیں کہا

بس یہ کہا تھا دل کی دوا ہے مغاں کے پاس
ہم نے شراب کو کبھی شافی نہیں کہا

پہلے تو دل کی بات نہ لائے زبان پر
پھر کوئی حرف دل کے منافی نہیں کہا

اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فرازؔ
عادت کو اُس کی وعدہ خلافی نہیں کہا
٭٭٭​
 
Top