اے عشق جنوں پیشہ۔۔۔ احمد فراز کی آخری کتاب سے انتخاب

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میں یہاں "احمد فراز" کی آخری کتاب "اے عشق جنوں پیشہ" ٹائپ کر کے پوسٹ کیا کروں گا، پہلے ورڈ فائل میں کررہا تھا لیکن فائل کرپٹ ہونے کی وجہ سے مجھے کام دوبارہ کرنا پڑا۔
لہٰذا اس سے زیادہ محفوظ جگہ کوئی نظر نہیں آتی۔

نوٹ:تبصروہ جات کے لئے یہ دھاگہ استعمال کریں۔
استادِ محترم الف عین صاحب
مقدس آپی
قیصرانی صاحب
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اے عشق جنوں پیشہ
عمروں کی مسافت سے​
تھک ہار گئے آخر​
سب عہد اذیت کے​
بیکار گئے آخر​
اغیار کی باہوں میں​
دلدار گئے آخر​
رو کر تری قسمت کو​
غمخوار گئے آخر​
یوں زندگی گزرے گی​
تا چند وفا کیشا​
وہ وادئ کلفت تھی​
یا کوہِ الم جو تھا​
سب مدِّ مقابل تھے​
خسرو تھا کہ جم جو تھا​
ہر راہ میں ٹپکا ہے​
خوننابہ بہم جو تھا​
رستوں میں لٹایا ہے​
وہ بیش کہ کم جو تھا​
نے رنجِ شکستِ دل​
نے جان کا اندیشہ​
۔۔۔۔۔​
کچھ اہلِ ریا بھی تو​
ہمراہ ہمارے تھے​
رہرو تھے کہ رہزن تھے​
جو روپ بھی دھارے تھے​
کچھ سہل طلب بھی تھے​
وہ بھی ہمیں پیارے تھے​
اپنے تھے کہ بیگانے​
ہم خوش تھے کہ سارے تھے​
سو زخم تھے نس نس میں​
گھائل تھے رگ و ریشہ​
۔۔۔۔۔​
جو جسم کا ایندھن تھا​
گلنار کیا ہم نے​
وہ زہر کہ امرت تھا​
جی بھر کہ پیا ہم نے​
سو زخم ابھر آئے​
جب دل کو سیا ہم نے​
کیا کیا نہ محبت کی​
کیا کیا نہ جیا ہم نے​
لو کوچ کیا گھر سے​
لو جوگ لیا ہم نے​
جو کچھ تھا دیا ہم نے​
اور دل سے کہا ہم نے​
رکنا نہیں درویشا​
۔۔۔۔۔​
یوں ہے کہ سفر اپنا​
تھا خواب نہ افسانہ​
آنکھوں میں ابھی تک ہے​
فردا کا پریخانہ​
صد شکر سلامت ہے​
پندارِ فقیرانہ​
اس شہرِ خموشی میں​
پھر نعرۂ مستانہ​
اے ہمّتِ مردانہ​
صد خارہ و یک تیشہ​
اے عشقِ جنوں پیشہ​
اے عشقِ جنوں پیشہ​
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
قتلِ عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ
سب گنہگار ہیں راضی بہ رضا بسم اللہ

میکدے کے ادب آداب سبھی جانتے ہیں
جام ٹکرائے تو واعظ نے کہا بسم اللہ

ہم نے کی رنجشِ بے جا کی شکایت تم سے
اب تمہیں بھی ہے اگر کوئی گِلا بسم اللہ

بتِ کافر ہو تو ایسا کہ سرِ راہگذار
پاؤں رکھے تو کہے خلقِ خدا بسم اللہ

ہم کو گُلچیں سے گِلہ ہے گُل و گُلشن سے نہیں
تجھ کو آنا ہے تو اے بادِ صبا بسم اللہ

گرتے گرتے جو سنبھالا لیا قاتل نے فرازؔ
دل سے آئی کسی بسمل کی صدا، بسم اللہ
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں یوں ہے یوں ہے

جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے نہ بروں ہے یوں ہے

تم نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر
نوکِ ہر خار پہ اک قطرۂ خوں ہے یوں ہے

تم محبت میں کہاں سو د و زیاں لے آئے
عشق کا نام خرد ہے نہ جنوں ہے یوں ہے

اب تم آئے ہو مری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے یوں ہے

ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے

شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ
یہ بھی اک سلسلۂ کُن فیکوں ہے یوں ہے
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بھید پائیں تو رہِ یار میں گم ہو جائیں
ورنہ کس واسطے بیکار میں گم ہو جائیں

کیا کریں عرضِ تمنا کہ تجھے دیکھتے ہی
لفظ پیرایۂ اظہار میں گم ہو جائیں

یہ نہ ہو تم بھی کسی بِھیڑ میں کھو جاؤ کہیں
یہ نہ ہو ہم بھی کسی بازار میں گم ہو جائیں

کس طرح تجھ سے کہیں کتنا بھلا لگتا ہے
تجھ کو دیکھیں ترے دیدار میں گم ہو جائیں

تم ترے شوق میں یوں خود کو گنوا بیٹھے ہیں
جیسے بچے کسی تہوار میں گم ہو جائیں

پیچ اتنے بھی نہ دو کرمکِ ریشم کی طرح
دیکھنا سر ہی نہ دستار میں گم ہو جائیں

ایسا آشوبِ زمانہ ہے کہ ڈر لگتا ہے
دل کے مضموں ہی نہ اشعار میں گم ہو جائیں

شہر یاروں کے بلاوے بہت آتے ہیں فرازؔ
یہ نہ ہو آپ بھی دربار میں گم ہو جائیں
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے​
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے​
یوں پھریں باغ میں بالا قد و قامت والے​
تو کہے سر و و سمن سے چمن آراستہ ہے​
خوش ہو اے دل کہ ترے ذوقِ اسیری کے لئے​
کاکلِ یار شکن در شکن آراستہ ہے​
کون آج آیا ہے مقتل میں مسیحا کی طرح​
تختۂ دار سجا ہے رسن آراستہ ہے​
شہرِ دل میں تو سدا بھیڑ لگی رہتی ہے​
پر ترے واسطے اے جانِ من آ، راستہ ہے​
ہاں مگر جان سے گزر کر کوئی دیکھے تو سہی​
عشق کی بند گلی میں بھی بنا راستہ ہے​
اہلِ دل کے بھی مقدر میں کہاں منزلِ دوست​
عام لوگوں پہ تو ویسے ہی منع راستہ ہے​
خوش لباسی ترے عشاق کی قائم ہے ہنوز​
دیکھ کیا موجۂ خوں سے کفن آراستہ ہے​
ایک پردہ ہے اسیروں کی زبوں حالی پر​
یہ جو دیوارِ قفس ظاہرن آراستہ ہے​
حوصلہ چاہیے طوفانِ محبت میں فرازؔ​
اِس سمندر میں تو بس موجِ فنا راستہ ہے​
1؎ قافیہ غلط سہی پر اچھا لگا۔
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہ دِل کسی بھی طرح شامِ غم گزار تو دے
پھر اس کے بعد وہ عمروں کا انتظار تو دے

ہوائے موسمِ گُل جانفزا ہے اپنی جگہ
مگر کوئی خبرِ یارِ خوش دیار تو دے

ہمیں بھی ضد ہے کہاں عمر بھر نبھانے کی
مگر وہ ترکِ تعلق کا اختیار تو دے

بجا کہ درد سری ہے یہ زندگی کرنا
مگر یہ بارِ امانت کوئی اُتار تو دے

ترا ہی ذکر کریں بس تجھی کو یاد کریں
یہ فرصتیں بھی کبھی فکرِ روزگار تو دے

ترے کرم بھی مجھے یاد ہیں مگر مرا دل
جو قرض اہلِ زمانہ کے ہیں اُتار تو دے

فلک سے ہم بھی کریں ظلمِ ناروا کے گِلے
پہ سانس لینے کی مہلت ستم شعار تو دے

فرازؔ جاں سے گزرنا تو کوئی بات نہیں
مگر اب اس کی اجازت بھی چشمِ یار تو دے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بجھا ہے دل تو غمِ یار اب کہاں تُو بھی
بسانِ نقش پہ دیوار اب کہاں تُو بھی

بجا کہ چشمِ طلب بھی ہوئی تہی کیسہ
مگر ہے رونقِ بازار اب کہاں تُو بھی

ہمیں بھی کارِ جہاں لے گیا بہت دُور
رہا ہے درپئے آزار اب کہاں تُو بھی

ہزار صورتیں آنکھوں میں پھرتی رہتی ہیں
مری نگاہ میں ہر بار اب کہاں تُو بھی

اُسی کو وعدہ فراموش کیوں کہیں اے دل!
رہا ہے صاحبِ کردار اب کہاں تُو بھی

مری غزل میں کوئی اور کیسے در آئے
ستم تو یہ ہے کہ اے یار! اب کہاں تُو بھی

جو تجھ کو پیار کرے تیری لغزشوں کے سبب
فرازؔ ایسا گنہگار اب کہاں تُو بھی
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اک ذرا سُن تو سہی مہکتے گیسو والی
راہ میں کون دکاں پڑتی ہے خوشبو والی

پھر یہ کیوں ہے کہ مجھے دیکھ کے رم خوردہ ہے
تیری آنکھوں میں تو وحشت نہیں آہو والی

دیکھنے میں تو ہیں سادہ سے خدوخال مگر
لوگ کہتے ہیں کوئی بات ہے جادو والی

گفتگو ایسی کہ بس دل میں اُترتی جائے
نہ تو پُرپیچ نہ تہہ دار نہ پہلو والی

ایک منظر کی طرح دل پہ منقش ہے ابھی
ایک ملاقات سرِ شام لبِ جُو والی

درد ایسا ہے کہ بجھتا ہے چمک جاتا ہے
دل میں اک آگ سی ہے آگ بھی جگنو والی

جیسے اک خواب سرائے سے گزر ہو تیرا
کوئی پازیب چھنک جاتی ہے گھنگھرو والی

زعم چاہت کا تھا دونوں کو مگر آخرِ کار
آ گئی بیچ میں دیوار من و تو والی

ایس لگتا ہے کہ اب کے جو غزل میں نے کہی
آخری چیخ ہے دل توڑتے آہو والی

اک نگاہِ غلط انداز ہی اے جانِ فرازؔ
شوق مانگے ہے خلش تِیر ترازو والی
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مثالِ دستِ زلیخا تپاک چاہتا ہے
یہ دل بھی دامنِ یوسف ہے چاک چاہتا ہے

دعائیں دو مرے قاتل کو تم کہ شہر کا شہر
اُسی کے ہاتھ سے ہونا ہلاک چاہتا ہے

فسانہ گو بھی کرے کیا کہ ہو کوئی سرِ بزم
مآلِ قصۂ دل دردناک چاہتا ہے

اِدھر اُدھر سے کئی آ رہی ہیں آوازیں
اور اُس کا دھیان بہت انہماک چاہتا ہے

ذرا سی گردِ ہوس دل پہ لازمی ہے فرازؔ
وہ عشق کیا ہے جو دامن کو پاک چاہتا ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جنتِ گوش بنی مجھ سے گنہگار کی بات
آ گئی تھی مرے لب پر میرے دلدار کی بات

وہ نہیں ہے تو یونہی دل کو دُکھانے کے لئے
چھیڑ دی ہم نے کسی یارِ دل آزار کی بات

اُس ستمگر کو سبھی لوگ بُرا کہتے ہیں
کوئی سنتا ہی نہیں مرے غم خوار کی بات

خود کو بیچیں تو کہاں ہم کہ دل و جاں کی جگہ
ہر خریدار کرے درہم و دینار کی بات

صوفیِ شہر بھی پردے میں تصوّف کے سہی
چھیڑ دیتا ہے اُسی یارِ طُرحدار کی بات

کل ہوئی حضرتِ ناصح سے ملاقات فرازؔ
پھر وہی پند و نصیحت وہی بیکار کی بات
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں
در سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں

عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے
بعد میں سینکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں

پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں

بے بسی بھی کبھی قربت کا سبب بنتی ہے
رو نہ پائیں تو گلے یار سے 1؎ لگ جاتے ہیں

کترنیں غم کی جو گلیوں میں اُڑی پھرتی ہیں
گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں

داغ دامن کے ہوں، دل کے ہوں کہ چہرے کے فرازؔ
کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں
1؎ ضرورتِ اظہار
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
پیشِ جاناں سخن آشفتہ سری ہے، خاموش
تو جو گویا ہے تری بے خبری ہے خاموش

دل کو ایک فیصلہ کرنا ہے ترے بارے میں
اِس گھڑی جان ہتھیلی پہ دھری ہے، خاموش

اب کے شب گزری تو اک تیری مری بات نہیں
شہر کا شہر چراغِ سحری ہے خاموش

نالۂ نے، شررِ سنگ، سکوتِ صحرا
اپنی اپنی روشِ نوحہ گری ہے، خاموش

وہ قفس ہو کہ چمن، نالہ و نغمہ بے سود
جب تلک عالمِ بے بال و پری ہے خاموش
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا

دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
اُس کی ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا

پر طرح کی بے سرو سامانیوں کے باوجود
آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا

باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
شاخ سے بڑھ کر کفِ دلدار پر اچھا لگا

کون مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
تیغِ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا

ہم بھی قائل ہیں وفا میں اُستواری کے مگر
کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا

اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا

میرؔ کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فرازؔ
تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
چل نکلتی ہیں غمِ یار سے باتیں کیا کیا
ہم نے بھی کیں در و دیوار سے باتیں کیا کیا

بات بن آئی ہے پھر سے کہ مرے بارے میں
اُس نے پوچھیں مرے غم خوار سے باتیں کیا کیا

لوگ لب بستہ اگر ہوں تو نکل آتی ہیں
چپ کے پیرایۂ اظہار سے باتیں کیا کیا

کسی سودائی کا قصہ کسی ہرجائی کی بات
لوگ لے آتے ہیں بازار سے باتیں کیا کیا

ہم نے بھی دست شناسی کے بہانے کی ہیں
ہاتھ میں ہاتھ لئے یار سے باتیں کیا کیا

کس کو بِکنا تھا مگر خوش ہیں کہ اِس حیلے سے
ہو گئیں اپنے خریدار سے باتیں کیا کیا

ہم ہیں خاموش کہ مجبورِ محبت تھے فرازؔ
ورنہ منسوب ہیں سرکار سے باتیں کیا کیا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
رقص میں
کل شب ہوئی کسی سے ملاقات رقص میں
وہ کب تھی زندگی تھی مرے ساتھ رقص میں

اک دوسرے کو تھامے ہوئے بے سبب نہ تھے
محسوس کی ہے گردشِ حالات رقص میں

اُس کے بدن کی آنچ مرے دل تک آ گئی
آوارہ ہو رہے تھے مرے ہاتھ رقص میں

وہ ایڑیوں پہ مثلِ زمیں گھومتی رہی
سات آسماں تھے رقص کناں ساتھ رقص میں

کوئی نہیں تھا گوش بر آواز پھر بھی وہ
سرگوشیوں میں کرتی رہی بات رقص میں

یہ دل کہ اپنا سود و زیاں جانتا نہیں
آئے طرح طرح کے خیالات رقص میں

لمحوں کا التفات کہیں عارضی نہ ہو
میں کر رہا تھا خود سے سوالات رقص میں

موسیقیوں کی لے سے لہو موج موج تھا
وہ اس کے با وجود تھی محتاط رقص میں

پھر آ گئے کچھ اہلِ عبا بھی سبو بہ دست
کیا کیا دِکھا رہے تھے کرامات رقص میں

کچھ دیر بعد جیسے بہم ہو گئے تھے سب
اہلِ قبا و اہلِ خرابات رقص میں

آخر کو رقص گاہ میں ایسی پڑی دھمال
اک دوسرے سے چھوٹ گئے ہاتھ رقص میں

وہ کون تھی کہاں سے تھی آئی کدھر گئی
اتنا ہے یاد بیت گئی رات رقص میں
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
زباں پہ حرف سے پہلے ہی زخم آ جاتا
یہ حالِ دل تھا تو کیا حالِ دل کہا جاتا

میں حیرتی ہوں کہ سارا جہاں ہے سحرِ زدہ
جو دیکھتا تھا اسے دیکھتا چلا جاتا

وفا کا نام ہے ناکامئ محبت سے
وگرنہ کوئے ہوس تک یہ سلسلہ جاتا

اگر یہ زخم نہ بھرتا تو دل نہیں دکھتا
اگر یہ درد نہ تھمتا تو چین آ جاتا

کسی کے ہجر کو جی سے لگا لیا ہے عبث
یہ چند روز کا آزار تھا چلا جاتا

کیا ہے جس سے بھی اُس کی ستمگری کا گلہ
وہ اپنی درد بھری داستاں سنا جاتا

عجب ادا سے وہ گل پیرہن ہے محوِ خرام
فرازؔ دیکھ بہاروں کا قافلہ جاتا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تجھ کو بُھولے ہیں تو کچھ دوش زمانے کا نہ تھا
اب کے لگتا ہے کہ یہ دکھ ہی ٹھکانے کا نہ تھا

یہ جو مقتل سے بچا لائے سروں کو اپنے
ان میں اک شخص بھی کیا میرے گھرانے کا نہ تھا

ہر برس تازہ کِیا عہدِ محبت کو عبث
اب کُھلا ہے کہ یہ تہوار منانے کا نہ تھا

اب کے بے فصل بھی صحرا گل و گلزار سا ہے
ورنہ یہ ہجر کا موسم ترے آنے کا نہ تھا

دوش پر بارِ زمانہ بھی لئے پھرتے ہیں
مسئلہ صرف ترے ناز اٹھانے کا نہ تھا

یار! کیا کیا تری باتوں نے رُلایا ہے ہمیں
یہ تماشا سرِ محفل تو دِکھانے کا نہ تھا

کوئی کس منہ سے کرے تجھ سے شکایت جاناں
جس کو تُو بھول گیا یاد ہی آنے کا نہ تھا

آئے دن اک نئی آفت چلی آتی ہے فرازؔ
اب پشیماں ہیں کہ یہ شہر بسانے کا نہ تھا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
وہ قرب و ہجر کے سب روز و شب گذارے ہوئے
ہمارے شعر بنے یا سُخن تمہارے ہوئے

قمار خانۂ شہرِ وفا میں حوصلہ رکھ
یہاں تو جشن مناتے ہیں لوگ ہارے ہوئے

حرم تو خیر مگر بتکدے ہیں کیوں ویراں
تو کیا خدا کو صنم آشنا بھی پیارے ہوئے

جو اشک جذب ہوئے میری تیری آنکھوں میں
یہاں تو زخم بنے ہیں وہاں ستارے ہوئے

جو یادِ یار سے اب منہ چھپائے پھرتے ہیں
ہمی تو ہیں وہ غمِ زندگی کے مارے ہوئے

نگاہِ یار کو اب کس لئے تقاضا ہے
کہ ایک عمر ہوئی قرضِ جاں اُتارے ہوئے

فرازؔ خلوتِ جاں میں سکوت ہے کہ جو تھا
زمانے ہو گئے جیسے اُسے پکارے ہوئے
٭٭٭
 
Top