اے عشق جنوں پیشہ۔۔۔ احمد فراز کی آخری کتاب سے انتخاب

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ہم تو خوش تھے کہ چلو دل کا جنوں کچھ کم ہے
اب جو آرام بہت ہے تو سکوں کچھ کم ہے

رنگِ گریہ نے دکھائی نہیں اگلی سی بہار
اب کے لگتا ہے کہ آمیزشِ خوں کچھ کم ہے

اب ترا ہجر مسلسل ہے تو یہ بھید کُھلا
غمِ دل سے غمِ دنیا کا فسوں کچھ کم ہے

اُس نے دکھ سارے زمانے کا مجھے بخش دیا
پھر بھی لالچ کا تقاضا ہے کہوں، کچھ کم ہے

راہِ دنیا سے نہیں، دل کی گزرگاہ سے آ
فاصلہ گرچہ زیادہ ہے پہ یوں کچھ کم ہے

تُو نے دیکھا ہی نہیں مجھ کو بھلے وقتوں میں
یہ خرابی کہ میں جس حال میں ہوں کچھ کم ہے

آگ ہی آگ مرے قریۂ تن میں ہے فرازؔ
پھر بھی لگتا ہے ابھی سوزِ دروں کچھ کم ہے
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
عمر بھر کا مان ٹوٹا اور کیا
موڑ آیا ساتھ چُھوٹا اور کیا

کون سچ کہتا ہے سچ سنتا ہے کون
میں بھی جُھوٹا تُو بھی جُھوٹا اور کیا

جان سے جانا ضروری تو نہیں
عاشقی میں سر تو پُھوٹا اور کیا

ہوتے ہوتےلعل پتھر ہو گئے
رفتہ رفتہ رنگ چُھوٹا اور کیا

رہ گیا تھا یاد کا رشتہ فقط
آخرش یہ پُل بھی ٹُوٹا اور کیا

اُس کی آنکھیں بھی کبھی سچ بولتیں
دل تو تھا جھوٹوں سا جھوٹا اور کیا

غیر تو تھے غیر، اپنے آپ کو
سب سے بڑھ کر ہم نے لُوٹا اور کیا

اس قدر کافی تھی یادِ کربلا
روئے دھوئے سینہ کوٹا اور کیا

آؤ دیکھو تو ذرا باغِ وفا
اب کوئی گل ہے نہ بوٹا اور کیا

فتنہ سامانی میں یکساں ہیں فرازؔ
اپنا دل ہو یا کہوٹا اور کیا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میری تنہائی میں مجھ سے گفتگو کرتا ہے کون
تُو نہیں ہوتا تو میری جستجو کرتا ہے کون

کس کا خنجر ہے جو کر دیتا ہے سینے کو دو نیم
پھر پشیمانی میں زخمِ دل رفو کرتا ہے کون

اِس خرابے میں بگولہ سی پھر ے ہے کس کی یاد
اِس دیارِ رفتگاں میں ہاؤ ہو کرتا ہے کون

خوف کس کا ہے کہ اپنے آپ سے چھپتا پھروں
نا گہاں پھر مجھ کو میرے رو برو کرتا ہے کون

کونسا موسم چُرا لیتا ہے غنچوں کی چٹک
نغمہ پیراؤں کو سُرمہ در گُلو کرتا ہے کون

کون پی جاتا ہے آخر مرے حصے کی شراب
میں نہیں ہوتا تو پھر خالی سبو کرتا ہے کون
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جل جانے کی حسرت بھی ہو پانی میں بھی رہنا
کچھ سہل نہیں عہدِ جوانی میں بھی رہنا

یہ کیا کہ رہے تازہ رفاقت کی للک بھی
اور محو کسی یاد پرانی میں بھی رہنا

کردار ہی ایسا تھا کہ اے صاحبِ تمثیل
اچھا نہ لگا ہم کو کہانی میں بھی رہنا

اے دل تے قاتل بھی ہمی اور ہمی کو
ہر وقت تری مرثیہ خوانی میں بھی رہنا

دیکھو تو کوئی اُس کو کہ جوں موج میں دریا
ہر اک لگاوٹ بھی روانی میں بھی رہنا

کچھ مرحمتِ عشق ہے کچھ تربیتِ فن
الفاظ کی سج دھج کا معانی میں بھی رہنا

بیکار الجھتے ہو فرازؔ اہلِ جہاں سے
شکوہ بھی نہنگوں سے ہے، پانی میں بھی رہنا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جس طرف جائیں زمانہ رو برو آ جائے ہے
اے خیالِ یار اگر ایسے میں تو آ جائے ہے

پھر کوئی چارہ گروں کے ناز اٹھائے کس لئے
وحشیوں کو بھی اگر کارِ رفو آ جائے ہے

پھر کہاں دنیا جہاں کے تذکرے اک بار اگر
ذکر تیرا درمیانِ گفتگو آ جائے ہے

ہم تہی دستوں کی پھردریا دلی بھی دیکھیو
دستِ مستاں میں اگر دستِ سبو آ جائے ہے

مدتوں کی تشنگی کے بعد اک صہبا کا گھونٹ
جس طرح صحرا میں کوئی آبجو آ جائے ہے

اے مصور، حسنِ جاناں نقشِ جاناں میں کہاں
کب تری تصویر میں وہ ہو بہو آ جائے ہے

کثرتِ گریہ نے آخر رنگ دکھلانا تو تھا
اب بجائے اشک آنکھوں میں لہو آ جائے ہے

تری بیتیں، تیری باتیں، کیا کہیں کیا ہیں فرازؔ
بزم سج جاتی ہے جس محفل میں تُو آ جائے ہے
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کسی کا در نہ کوئی آستانہ آگے تھا
اُس آشنا کا تو دل میں ٹھکانہ آگے تھا

میں خوش نشیں تھا کہ دو گام ہی تو جانا تھا
میں دیکھتا ہوں تو کوسوں زمانہ آگے تھا

کہانیاں بھی انہیں سانحوں سے بنتی ہیں
جو رنج جھیل رہا ہوں، فسانہ آگے تھا

سنا ہے اہلِ ہوس اب وفا کے گاہک ہیں
یہ کاروبار نہ ہم سے ہُوا نہ آگے تھا

مری غزل نے وہ شہرت ترے جمال کو دی
تری تلاش میں مجھ سے زمانہ آگے تھا

لہو کی لہر سے اب کوئی لَے نہیں اٹھتی
یہ ہجر سازِ سُخن کا بہانہ آگے تھا

زمانوں بعد اُسے دیکھا تو آج سوچتے ہیں
مزاج اپنا ہی کچھ عاشقانہ آگے تھا

بزرگ کہتے ہیں اب جس جگہ یہ مسجد ہے
اِسی نواح میں ایک بادہ خانہ آگے تھا

بھٹک گیا کہ کہیں پا شکستہ بیٹھا ہے
جو زعمِ تیز روی میں روانہ آگے تھا

فرازؔ اب کہاں ملتے ہیں ہوش والے بھی
وگرنہ شہر میں کیا کیا دِوانہ آگے تھا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نہ شوقِ وصل نہ رنجِ فراق رکھتے ہیں
مگر یہ لوگ ترا اشتیاق رکھتے ہیں

یہ ہم جو تجھ پہ ہیں نازاں تو اِس سبب سے کہ ہم
زمانے والوں سے بہتر مذاق رکھتے ہیں

ہم اہلِ دل سے کوئی کیوں ملے کہ ہم سےفقیر
نہ عطر و عود نہ ساز و یراق رکھتے ہیں

جمالِ یار فقط چشم و لب کی بات نہیں
سو ہم خیالِ سیاق و سباق رکھتے ہیں

مثالِ شیشۂ خالی کتابِ عقل کو بھی
ہم اہلِ میکدہ بالائے طاق رکھتے ہیں

شیوخِ شہر سے کیا بحث جو گِرہ میں فقط
دو حرفِ عقد و سہ حرفِ طلاق رکھتے ہیں

فرازؔ خوش ہو کہ تجھ سے خفا ہے فتوہ فروش
بھلے سے یہ بھی کہیں اتفاق رکھتے ہیں
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہ فرمائش غزل کی ہے کہ فن کی آزمائش ہے
چلو جو بھی ہے اک جانِ سخن کی آزمائش ہے

مبارک ہو بلاوا آ گیا مستوں کو مقتل سے
چل اے دل اب ترے دیوانہ پن کی آزمائش ہے

بہت سے ہاتھ ہیں دامانِ دل کو کھینچنے والے
جمالِ یار! تیرے بانکپن کی آزمائش ہے

نہیں کچھ قصۂ یوسف زلیخا میں بجز اِس کے
کسی کے دل، کسی کے پیرہن کی آزمائش ہے

چلو دل امتحانِ عاشقی میں سرخرو ٹھہرا
مگر یہ عشق تو پورے بدن کی آزمائش ہے

جو ہیں منقار زیرِ پر کہاں محفوظ ہیں وہ بھی
ابھی تو خوشنوایانِ چمن کی آزمائش ہے

یہ سن کر میکدے میں آج سارا شہر اُمڈ آیا
کہ مے نوشی میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے

نہ وہ خسرو، نہ جوئے شیرشرطِ وصل شیریں ہے
تو کیوں کوہاٹ کے ایک کوہکن کی آزمائش ہے

فرازؔ آیا نہیں لایا گیا اس کی قلمرو میں
کہاں غالبؔ کہاں اک بے وطن کی آزمائش ہے

1؎ ایک دوست کی فرمائش پر
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ترا قرب تھا کہ فراق تھا وہی تیری جلوہ گری رہی
کہ جو روشنی ترے جسم کی تھی مرے بدن میں بھری رہی

ترے شہر میں چلا تھا جب تو کوئی بھی ساتھ نہ تھا مرے
تو میں کس سے محوِ کلام تھا؟ تو یہ کس کی ہمسفری رہی؟

مجھے اپنے آپ پہ مان تھا کہ نہ جب تلک ترا دھیان تھا
تو مثال تھی مری آگہی تو کمال بے خبری رہی

مرے آشنا بھی عجیب تھے نہ رفیق تھے نہ رقیب تھے
مجھے جاں سے درد عزیز تھا انہیں فکرِ چارہ گری رہی

میں یہ جانتا تھا مرا ہنر ہے شکست و ریخت سے معتبر
جہاں لوگ سنگ بدست تھے وہیں میری شیشہ گری رہی

جہاں ناصحوں کا ہجوم تھا وہیں عاشقوں کی بھی دھوم تھی
جہاں بخیہ گر تھے گلی گلی وہیں رسمِ جامہ دری رہی

ترے پاس آ کے بھی جانے کیوں مری تشنگی میں ہراس تھا
بہ مثالِ چشمِ غزال جو لبِ آبجو بھی ڈری رہی

جو ہوس فروش تھے شہر کے سبھی مال بیچ کے جا چکے
مگر ایک جنسِ وفا مری سرِ رَہ دھری کی دھری رہی

مرے ناقدوں نے فرازؔ جب مرا حرف حرف پرکھ لیا
تو کہا کہ عہدِ ریا میں بھی جو بات کھری تھی کھری رہی
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
پروانہ وار شہر میں کیا کیا پھری ہَوا
آخر چراغِ کشتہ پہ میرے گِری ہَوا

اب سر بکف ہجوم جو دل دادگاں کا ہے
مقتل میں باندھ رکھی تھی ہم نے تری ہَوا

جیسے کوئی حباب رواں موجِ آب پر
پندارِ زندگی کا بھرم ہے نِری ہَوا

روشن نہیں رہی کوئی شمعِ خیال تک
پھر کس کو ڈھونڈتی ہے سر پھری ہَوا

حیران تھی کہ کتنے چراغوں کا خوں پیے
آخر کو روشنی کے بھنور میں گِھری ہَوا

صبحِ خزاں کی آخری یلغار ہے فرازؔ
اک دل گرفتہ پھول ہے اور دوسری ہَوا
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بیٹھے تھے لوگ پہلو بہ پہلو پیے ہوئے
اک ہم تھے تیری بزم میں آنسو پیے ہوئے

دیکھا جسے بھی اُس کی محبت میں مست تھا
جیسے تمام شہر ہو دارو پیے ہوئے

تکرار بے سبب تو نہ تھی رند و شیخ میں
کرتے بھی کیا شراب تھے ہر دو پیے ہوئے

پھر کیا عجب کہ لوگ بنا لیں کہانیاں
کچھ میں نشے میں چُور تھا کچھ تُو پیے ہوئے

یوں اُن لبوں کے مَس سے معطر ہوں جس طرح
وہ نو بہارِ ناز تھا خوشبو پیے ہوئے

یوں ہو اگر فرازؔ تو تصویر کیا بنے
اک شام، اُس کے ساتھ، لب جُو پیے ہوئے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کون اب قصہِ چشم و لب و ابرو میں پڑے
بارے آرام سے ہیں اپنے ہی پہلو میں پڑے

عشق نے حسن کے معیار بدل ڈالے ہیں
یار ابھی تک ہیں اُسی قامت و گیسو میں پڑے

دیکھ اے صاحبِ انصاف، عدالت اپنی
ہم بھی قاتل کے مقابل ہیں ترازو میں پڑے

خود کو لے آئے تھے ہنگامۂ دنیا سے الگ
اب پریشاں ہیں کسی گوشۂ یکسو میں پڑے

ہم بھی ایک شعلہ شمائل کو لئے ساتھ چلیں
اب کے گر برف کہستانِ سکردو میں پڑے

ہر طرف ایک صنم خانۂ حیرت ہے فراز
تم ابھی تک ہو اُسی شخص کے جادو میں پڑے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نا معلوم مسافت

نہ یہ کہ میں تری یادوں سے ہو گیا غافل
نہیں کہ میرا تساہل یہ شاعرانہ ہے

مری طویل خموشی پہ تُو قیاس نہ کر
کہ تجھ سے ترکِ تعلق کا شاخسانہ ہے

نہ راستے ہیں نہ منزل نہ قافلے نہ جرس
کہ جس طرح سے ہر اک خواب میں روانہ ہے

عجب دیارِ خموشاں ہے جس طرف دیکھو
نہ حرفِ دل ہے نہ سازِ سخن کا بہانہ ہے

نہ فرش و بام نہ دیوار و در نہ طاق و چراغ
یہ بود و باش بھی گویا مسافرانہ ہے

میں کس طرح تجھ سے رکھوں رابطہ کہ یہاں
نہ کوئی گھر ہے، نہ ہوٹل، نہ ڈاکخانہ ہے
٭٭٭
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بے رُخی تُو نے بھی، عذرِ زمانہ کر کے
ہم بھی محفل سے اٹھ آئے ہیں بہانہ کر کے

کتنی باتیں تھیں کہ نہ کہنا تھیں وہ کہہ بھیجی ہیں
اب پشیمان ہیں قاصد کو روانہ کر کے

جانتے ہیں وہ تنک خو ہے، سو اپنا احوال
ہم سنا دیتے ہیں اوروں کا فسانہ کر کے

کیا کہیں کیا ہے اُن کی آنکھوں میں کہ رکھ دیتی ہیں
ایک اچھے بھلے انساں کو دِوانہ کر کے

کوئی ویرانۂ ہستی کی خبر کیا لاتا
خود بھی ہم بھول گئے دفن خزانہ کر کے

آنکھ مصروفِ نظارہ تھی تو ہم خوش تھے فرازؔ
اُس نے کیا ظلم کِیا دل میں ٹھکانہ کر کے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یوں تو میخانے میں مے کم ہے نہ پانی کم ہے
پھر بھی کچھ کشتئِ صہبا میں روانی کم ہے

سچ تو یہ ہے کہ زمانہ جو کہے پھرتا ہے
اس میں کچھ رنگ زیادہ ہے کہانی کم ہے

آؤ ہم خود ہی درِ یار سے ہو آتے ہیں
یہ جو پیغام ہے قاصد کی زبانی کم ہے

تم بضد ہو تو چلو ترکِ ملاقات سہی
ویسے اِس دل نے مری بات تو مانی کم ہے

یاد رکھنے کو تو اے دوست بہت حیلے تھے
اک ترا زخمِ جدائی تو نشانی کم ہے

دفترِ شوق مرتّب ہو تو کیسے ہو فرازؔ
دل نے ہر بار کہا، ایک کہانی کم ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ذکرِ جاناں سے ہی میری غزل آراستہ ہے
ورنہ میں کون مرا شعر سے کیا واسطہ ہے

کیا بساط اپنی کہ اُس عربدہ خو کے آگے
آسماں سا بھی ستمگر سپر انداختہ ہے

اس کے ہاتھوں میں ہے میزانِ عدالت لرزاں
جیسے خود صاحبِ انصاف سزا یافتہ ہے

رہروِ دشتِ طلب کو تو ہے چلتے جانا
اس سفر میں کوئی منزل نہ کوئی راستہ ہے

ایسا نیرنگِ زمانہ بھی ہمیں دیکھنا تھا
قاتلِ خلق کے پرچم پہ بنی فاختہ ہے

کیا سکھائیں گے ہمیں جامعِ ازہر کے خطیب
اپنا دل نجدِ محبت کا سند یافتہ ہے

کون لایا ہے تجھے کوئے ملامت میں فرازؔ
تُو تو پہلے ہی تہی کیسہ و دل باختہ ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
لب کشا ہیں لوگ، سرکار کو کیا بولنا ہے
اب لہو بولے گا تلوار کو کیا بولنا ہے

بِکنے والوں میں جہاں ایک سے ایک آگے ہو
ایسے میلے میں خریدار کو کیا بولنا ہے

لو چلے آئے عدالت میں گواہی دینے
مجھ کو معلوم ہے کس یار کو کیا بولنا ہے

اور کچھ دیر رہے گوش بر آواز ہَوا
پھر چراغِ سرِ دیوار کو کیا بولنا ہے

مجھ سے کیا پوچھتے ہو آخری خواہش میری
اک گنہگارِ سرِ دار کو کیا بولنا ہے

خلقتِ شہر ہے چُپ، شاہ کے فرمان کے بعد
اب کسی واقفِ اسرار کو کیا بولنا ہے

وہی جانے پسِ پردہ جو تماشا گر ہے
کب، کہاں، کون سے کردار کو کیا بولنا ہے

جہاں دربار ہوں، شاہوں کے مصاحب ہوں فرازؔ
وہاں غالبؔ کے طرفدار کو کیا بولنا ہے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
وہ یار کسی شام، خرابات میں آئے
یوں ہو تو مزہ میل ملاقات میں آئے

مت پوچھ کہ ہم کون ہیں یہ دیکھ کہ اے دوست
آئے ہیں تو کس طرح کے حالات میں آئے

کچھ اور مِلا میرا لہو اپنی حنا میں
تا اور بھی اعجاز ترے ہاتھ میں آئے

اب ذکرِ زمانہ ہے تو ناراض نہ ہونا
گر نام تمہارا بھی کسی بات میں آئے

اچھا ہے تنّوع ترے اندازِ ستم میں
کچھ رنگِ مروّت بھی اگر ساتھ میں آئے

اک عمر سے جیسے نہ جُنوں ہے نہ سکوں ہے
یارب کوئی گردش مرے حالات میں آئے

یہ سال بھی اچھا تھا کہ یاروں کی طرف سے
کچھ اب کے نئے زخم بھی سوغات میں آئے

ہم ایسے فقیروں سے محبت سے ملا کر
تا اور بلندی ترے درجات میں آئے

ساتھ اُس کے فرازؔ ایسے بھی دن رات گزارے
اب جن کا مزہ صرف حکایات میں آئے
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہ تیری قلمرو ہے بتا پیرِ خرابات
غالب سا بھی کوئی دیکھا ہے میرِ خرابات

وہ رندِ بلا نوش و تہی دست و سدا مست
آزاد مگر بستۂ زنجیرِ خرابات

اشعار کہ جیسے ہو صنم خانۂ آذر
الفاظ کہ جیسے ہوں تصاویرِ خرابات

وہ نغمہ سرا ہو تو کریں وجد ملائک
یہ قلقلِ مینا ہے کہ تکبیرِ خرابات

اے شیخ یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تو نہیں ہے
تعمیرِ خرابات ہے تعمیرِ خرابات

ہم رند رہے مجلسِ واعظ کی بھی رونق
جوں حجلۂصوفی میں تصاویرِ خرابات

کس شوخ نے لکھا ہے یہ دیوارِ حرم پر
زمزم میں کہاں نشۂ تاثیرِ خرابات

میخانہ کسی شاہ کا دربار نہیں ہے
ساقی کے تصرّف میں ہے زنجیرِ خرابات

سعدیؔ ہو کہ حافظؔ ہو کہ خیامؔ کہ ہم ہوں
یہ لوگ تو ہیں جانِ اساطیرِ خرابات

ہیں ساغر و مینا کی طرح دل بھی شکستہ
ملّا ہو جہاں کاتبِ تقدیرِ خرابات

انسان کہ انساں کا لہو پینے لگا ہے
اے چارہ گرو پھر کوئی تدبیرِ خرابات

میخانہ پنہ گاہ تھی ہم دل زدگاں کی
پر اب کہاں جائے کوئی دلگیرِ خرابات

کب سے حرم و دیر ہیں بے نور، خدارا
لے آؤ کہیں سے کوئی تنویرِ خرابات

سرشار تو ہو جاتے ہیں سرکش نہیں ہوتے
ساقی کی نگاہیں ہیں عناں گیرِ خرابات

گر حور و مے و نغمہ سے جنّت ہے عبارت
دنیا میں یہی خواب ہے تعبیرِ خرابات

اے مفتیِ بد کیش نہ کر فتویٰ فروشی
کیا تُو بھی نہیں لائقِ تعزیرِ خرابات

میخوار کہ واعظ یہاں گردن زدنی ہے؟
کچھ تُو ہی بتا صاحبِ تفسیرِ خرابات

"ویراں شود آں شہر کہ میخانہ نہ دارد"
اب جائیں کہاں ڈھونڈھنے اکسیرِ خرابات
٭٭٭​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اُس کے ہمراہ چلے ہم تو فضا اور لگی
راستے اور لگے لغزشِ پا اور لگی

سَرو پر پیرہنِ گُل بھی سجے خوب مگر
یار کے قامتِ زیبا پہ قبا اور لگی

کم تو پہلے بھی نہیں تھا وہ دل آزاری میں
اُس پہ ظالم کو زمانے کی ہَوا اور لگی

پوچھتے پھرتے ہیں اب ترکِ تعلق کا علاج
خوش ہو اے دل کہ تجھے ایک بلا اور لگی

مہرباں یوں تو سدا کے تھے زمانے والے
لیکن اب کے روشِ خلقِ خدا اور لگی

کوچ کر جاتا ہے اک دوست ہر آوازے پر
گوشِ شنوا ہے تو سُن ایک صدا اور لگی

ہر نیا عشق نیا ذائقہ رکھتا ہے فرازؔ
آج کل پھر تری غزلوں کی ادا اور لگی
٭٭٭​
 
Top