ساغر صدیقی ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں ۔ ساغر صدیقی

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے کا نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں

شمع جسکی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے ، فنا ہوتا نہیں

اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو انکا طور پر بھی سامنا ہوتا نہیں

ہر شناور کو نہیں ملتا طلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں

ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں

ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھکو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں

(ساغر صدیقی)
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکری جناب۔ ساغر کی انتہائی خوبصورت غزل ہے۔ یہ شعر تو کافی مشہور ہوا ہے:
شمع جسکی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے ، فنا ہوتا نہیں
 
بہت اچھی غزل شیئر کی ہے۔ شکریہ سخنور صاحب
مقطع چھوڑ گئے آپ

بارہا دیکھا ہے ساغر رہگزارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں


شکریہ بابا ساغر صدیقی!:dancing:
ہر شناور کو نہیں ملتا طلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت اچھی غزل شیئر کی ہے۔ شکریہ سخنور صاحب
مقطع چھوڑ گئے آپ

بارہا دیکھا ہے ساغر رہگزارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں


شکریہ بابا ساغر صدیقی!:dancing:
ہر شناور کو نہیں ملتا طلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں

بہت شکریہ عمران شناور صاحب۔ آپ کو میری طرف سے صرف خراج نہیں بلکہ خراجِ تحسین۔ :) مجھے بھی لگ رہا تھا کہ جہاں سے میں نے کاپی کی ہے مقطع چھوٹ گیا ہے کیونکہ شاید ہی کوئی غزل ایسی ہو کہ جس میں ساغر نے اپنے تخلص کا استعمال نہ کیا ہو۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھکو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں


;)

واہ قبلہ! اس غزل کی خوبصورتی کا اندازہ اسی سے لگائیں کہ ہمارے سوال و جواب زیادہ تر اسی غزل کے اشعار کی مدد سے ہی ہوئے ہیں۔ :)
 
لائل پور کاٹن مل میں ملک گیر طرحی مشاعرہ ہوتا تھا۔ 1958 میں جگر مراد آبادی کی صدارت میں مشاعرہ ہوا۔ مصرع طرح تھاٜ ٴسجدہ_گاہ عاشقاں پر نقش پا ہوتا نہیں ٴ مختلف شعرا کے بعد ساغر صدیقی نے اپنی یہ غزل سنائی ٜ ٴایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں.. ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں ٴ یہ غزل سن کر جگر جھوم اٹھے اور حاضرین محفل نے خوب داد دی ۔ جگر مرادآبادی نے اپنی باری آنے پر کہا کہ میری غزل کی ضرورت نہیں حاصل مشاعرہ غزل ہو چکی اور اپنی غزل کو اسیٹج پر ہی پھاڑ دیا

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے الٹ دیں ان کے چہرے سے نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں
اب تو مدت سے رہ و رسم نظارہ بند ہے
اب تو ان کا طور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ہر شناور کو نہیں ملتا تلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقام خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تو دل سے جدا ہوتا نہیں
بارہا دیکھا ہے ساغرؔ رہ گزار عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس غزل کا مطلع دومختلف بحروں میں آرہا ہے (اور کچھ اور مصرعے بھی) ۔ سو مجھے شروع میں محسوس ہوا کہ ردیف کچھ تنگ ہو رہی ہے ۔
لیکن باقی اشعار سے دوسری بحر کا اندازہ ہوا تو غزل کا رنگ نکھرا۔کیا غزل ہے ۔واہہہہ
اپنے فرخ منظور بھائی بھی کیا خوب انتخاب لاتے ہیں ۔ سلامت سلامت۔
 
Top