نیرنگ خیال

لائبریرین
یہ مارگلہ ہلز کے دامن سے چوٹی کی طرف جاتا وہ راستہ تھا، جہاں لوگ شاذ ہی قدم رکھتے ہیں۔ فطرت اپنے اصل حسن کے ساتھ موجود تھی۔ پگڈنڈی تھی کہ خیابان کی تفسیر تھی۔ دونوں اطراف سے درختوں نے راستے کو یوں ڈھک رکھا تھا کہ ہلکی بارش کی رسائی زمین تک ناممکن سی ہوگئی تھی۔ بل کھاتا چڑھائی چڑھتا یہ راستہ تھکا دینے والا تھا۔ لیکن جتنا وجود تھکتا تھا ذہن پر جمی گرد اتنی ہی دھلتی چلی جا رہی تھی۔ تازہ ہوا پھیپھڑوں میں اتری تھی کہ ایک بار نظام تنفس بھی پریشان ہوگیا۔ آج کوئی مٹی کوئی گرد نہیں۔ جسم میں ایک تازگی کی لہر سے دوڑ گئی۔ اسی جوش کے زیر اثر جو میں نے تیز رفتاری دکھانے کی کوشش کی تو پاؤں کے نیچے آنے والے خزاں رسیدہ پتوں نے اس مملکت کے عام آدمی سے زیادہ شور مچا دیا تھا۔ وہ اتنی زور سے چلائے تھے کہ ایک بار تو میں نے بھی رک کر دیکھا ، پتے ہی ہیں نا۔

کتنی بھلی لگتی ہے فطرت کی خاموشی۔کبھی پرندوں کا چہچہانا اس خاموشی کو توڑتا تھا۔ تو کبھی کسی بھولے بھٹکے چوپائے کی چلنے سے جھاڑیاں شور مچاتی تھیں جیسے کسی نے انہیں بےسبب کچی نیند سے بیدار کر دیا ہو۔ یہ خاموشی فراواں کلام کرتی ہے۔ سماعتوں کو وہ لفظ سناتی ہے جو روزمرہ کی گفتگو سے متروک ہوچکے ہیں۔ وہ خیال، وہ جذبے وہ چاہتیں جو دم توڑ چکی ہیں ان کو زندہ کرتی ہے۔

اوپر پہنچا تو ایک خوبصورت نظارہ منتظر تھا۔ نیچے عمیق وادی میں بےرحم شہر اقتدار پھیلا تھا۔ بلند و بالا عمارات چھوٹی ہو کر نشان سا رہ گئی تھیں۔ دور کہیں راول جھیل کا پانی ایک بڑے تالاب کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ اور مشرق سے نکلتا انڈے کی زردی جیسا سورج مجھے ناصر کاظمی کےاشعار یاد دلا رہا تھا۔ ایسے موسم میں یہ ہلکی ہلکی بارش کسی معصوم بچے کے لمس جیسی لگ رہی تھی۔ گزری رات کے سائے سمٹ چکے تھے۔ روز مرہ کی فکریں، پریشانیاں جھنجھٹ سب نیچے رہ گیا تھا۔ اوپر اگر کوئی چیز تھی تو وہ حسن تھا خالق کا۔ مالک کا۔​
 

باباجی

محفلین
بھائی ذوالقرنین
تیری پوسٹ پڑھ کے سوچا اپنی روٹین بھی لکھ دوں.. ایک دن غلطی سے صبح جلدی آنکھ کھل گئی تو سوچا کہ چلو چھت پہ چڑھ کر تازہ ہوا لیتے ہیں کچھ جسم و جاں میں تازگی آئے.. چھت پہ چڑھا آس پاس لوگوں کئی منزلہ مکانات نے ہوا کو روک رکھا اور کبوتروں کے پنجروں سے آتی "بے ہوش کن" بدبو نے سارے اطباق روشن کردیے.. پھر سوچا باہر جاتا ہوں تو گلی میں سیوریج کی نئی پائپ لائن ڈالنے کے لیے کھدا ہوا گڑھا نو گزے کی قبر کی مانند خوش آمدید کہتا نظر آیا اور میں پانی سے بچتا بچاتا گلی سے باہر آکر ہوٹل سے چائے پی کر واپس آگیا اور جس طرح بائیک نکالی وہ الگ کہانی ہے :)
 

جاسمن

لائبریرین
بہت خوبصورت۔ بہت خوبصورت۔۔۔بہت خوبصورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

یاز

محفلین
بھائی ذوالقرنین
تیری پوسٹ پڑھ کے سوچا اپنی روٹین بھی لکھ دوں.. ایک دن غلطی سے صبح جلدی آنکھ کھل گئی تو سوچا کہ چلو چھت پہ چڑھ کر تازہ ہوا لیتے ہیں کچھ جسم و جاں میں تازگی آئے.. چھت پہ چڑھا آس پاس لوگوں کئی منزلہ مکانات نے ہوا کو روک رکھا اور کبوتروں کے پنجروں سے آتی "بے ہوش کن" بدبو نے سارے اطباق روشن کردیے.. پھر سوچا باہر جاتا ہوں تو گلی میں سیوریج کی نئی پائپ لائن ڈالنے کے لیے کھدا ہوا گڑھا نو گزے کی قبر کی مانند خوش آمدید کہتا نظر آیا اور میں پانی سے بچتا بچاتا گلی سے باہر آکر ہوٹل سے چائے پی کر واپس آگیا اور جس طرح بائیک نکالی وہ الگ کہانی ہے :)

واہ واہ کیا کہنے جناب۔ چھا شا گئے او۔
 
یہ مارگلہ ہلز کے دامن سے چوٹی کی طرف جاتا وہ راستہ تھا، جہاں لوگ شاذ ہی قدم رکھتے ہیں۔ فطرت اپنے اصل حسن کے ساتھ موجود تھی۔ پگڈنڈی تھی کہ خیابان کی تفسیر تھی۔ دونوں اطراف سے درختوں نے راستے کو یوں ڈھک رکھا تھا کہ ہلکی بارش کی رسائی زمین تک ناممکن سی ہوگئی تھی۔ بل کھاتا چڑھائی چڑھتا یہ راستہ تھکا دینے والا تھا۔ لیکن جتنا وجود تھکتا تھا ذہن پر جمی گرد اتنی ہی دھلتی چلی جا رہی تھی۔ تازہ ہوا پھیپھڑوں میں اتری تھی کہ ایک بار نظام تنفس بھی پریشان ہوگیا۔ آج کوئی مٹی کوئی گرد نہیں۔ جسم میں ایک تازگی کی لہر سے دوڑ گئی۔ اسی جوش کے زیر اثر جو میں نے تیز رفتاری دکھانے کی کوشش کی تو پاؤں کے نیچے آنے والے خزاں رسیدہ پتوں نے اس مملکت کے عام آدمی سے زیادہ شور مچا دیا تھا۔ وہ اتنی زور سے چلائے تھے کہ ایک بار تو میں نے بھی رک کر دیکھا ، پتے ہی ہیں نا۔

کتنی بھلی لگتی ہے فطرت کی خاموشی۔کبھی پرندوں کا چہچہانا اس خاموشی کو توڑتا تھا۔ تو کبھی کسی بھولے بھٹکے چوپائے کی چلنے سے جھاڑیاں شور مچاتی تھیں جیسے کسی نے انہیں بےسبب کچی نیند سے بیدار کر دیا ہو۔ یہ خاموشی فراواں کلام کرتی ہے۔ سماعتوں کو وہ لفظ سناتی ہے جو روزمرہ کی گفتگو سے متروک ہوچکے ہیں۔ وہ خیال، وہ جذبے وہ چاہتیں جو دم توڑ چکی ہیں ان کو زندہ کرتی ہے۔

اوپر پہنچا تو ایک خوبصورت نظارہ منتظر تھا۔ نیچے عمیق وادی میں بےرحم شہر اقتدار پھیلا تھا۔ بلند و بالا عمارات چھوٹی ہو کر نشان سا رہ گئی تھیں۔ دور کہیں راول جھیل کا پانی ایک بڑے تالاب کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ اور مشرق سے نکلتا انڈے کی زردی جیسا سورج مجھے ناصر کاظمی کےاشعار یاد دلا رہا تھا۔ ایسے موسم میں یہ ہلکی ہلکی بارش کسی معصوم بچے کے لمس جیسی لگ رہی تھی۔ گزری رات کے سائے سمٹ چکے تھے۔ روز مرہ کی فکریں، پریشانیاں جھنجھٹ سب نیچے رہ گیا تھا۔ اوپر اگر کوئی چیز تھی تو وہ حسن تھا خالق کا۔ مالک کا۔​


واہ ہ ہ ہ ہ ہ ! بہت خوبصورت۔۔ اللہ جمیل و یحب الجمال۔ فطرت بہت حسین ہے، دیکھنے والی آنکھیں کم ہیں، کم لوگ ہیں جو فطرت کی ان کہی کو سمجھ سکتے ہیں۔
 
بھائی ذوالقرنین
تیری پوسٹ پڑھ کے سوچا اپنی روٹین بھی لکھ دوں.. ایک دن غلطی سے صبح جلدی آنکھ کھل گئی تو سوچا کہ چلو چھت پہ چڑھ کر تازہ ہوا لیتے ہیں کچھ جسم و جاں میں تازگی آئے.. چھت پہ چڑھا آس پاس لوگوں کئی منزلہ مکانات نے ہوا کو روک رکھا اور کبوتروں کے پنجروں سے آتی "بے ہوش کن" بدبو نے سارے اطباق روشن کردیے.. پھر سوچا باہر جاتا ہوں تو گلی میں سیوریج کی نئی پائپ لائن ڈالنے کے لیے کھدا ہوا گڑھا نو گزے کی قبر کی مانند خوش آمدید کہتا نظر آیا اور میں پانی سے بچتا بچاتا گلی سے باہر آکر ہوٹل سے چائے پی کر واپس آگیا اور جس طرح بائیک نکالی وہ الگ کہانی ہے :)

پہلی منظر نگاری تھی، اب حقیقت نگاری ہے۔ میں نے اس پر کئی نظمیں لکھی ہیں۔
 

ہادیہ

محفلین
یہ مارگلہ ہلز کے دامن سے چوٹی کی طرف جاتا وہ راستہ تھا، جہاں لوگ شاذ ہی قدم رکھتے ہیں۔ فطرت اپنے اصل حسن کے ساتھ موجود تھی۔ پگڈنڈی تھی کہ خیابان کی تفسیر تھی۔ دونوں اطراف سے درختوں نے راستے کو یوں ڈھک رکھا تھا کہ ہلکی بارش کی رسائی زمین تک ناممکن سی ہوگئی تھی۔ بل کھاتا چڑھائی چڑھتا یہ راستہ تھکا دینے والا تھا۔ لیکن جتنا وجود تھکتا تھا ذہن پر جمی گرد اتنی ہی دھلتی چلی جا رہی تھی۔ تازہ ہوا پھیپھڑوں میں اتری تھی کہ ایک بار نظام تنفس بھی پریشان ہوگیا۔ آج کوئی مٹی کوئی گرد نہیں۔ جسم میں ایک تازگی کی لہر سے دوڑ گئی۔ اسی جوش کے زیر اثر جو میں نے تیز رفتاری دکھانے کی کوشش کی تو پاؤں کے نیچے آنے والے خزاں رسیدہ پتوں نے اس مملکت کے عام آدمی سے زیادہ شور مچا دیا تھا۔ وہ اتنی زور سے چلائے تھے کہ ایک بار تو میں نے بھی رک کر دیکھا ، پتے ہی ہیں نا۔

کتنی بھلی لگتی ہے فطرت کی خاموشی۔کبھی پرندوں کا چہچہانا اس خاموشی کو توڑتا تھا۔ تو کبھی کسی بھولے بھٹکے چوپائے کی چلنے سے جھاڑیاں شور مچاتی تھیں جیسے کسی نے انہیں بےسبب کچی نیند سے بیدار کر دیا ہو۔ یہ خاموشی فراواں کلام کرتی ہے۔ سماعتوں کو وہ لفظ سناتی ہے جو روزمرہ کی گفتگو سے متروک ہوچکے ہیں۔ وہ خیال، وہ جذبے وہ چاہتیں جو دم توڑ چکی ہیں ان کو زندہ کرتی ہے۔

اوپر پہنچا تو ایک خوبصورت نظارہ منتظر تھا۔ نیچے عمیق وادی میں بےرحم شہر اقتدار پھیلا تھا۔ بلند و بالا عمارات چھوٹی ہو کر نشان سا رہ گئی تھیں۔ دور کہیں راول جھیل کا پانی ایک بڑے تالاب کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ اور مشرق سے نکلتا انڈے کی زردی جیسا سورج مجھے ناصر کاظمی کےاشعار یاد دلا رہا تھا۔ ایسے موسم میں یہ ہلکی ہلکی بارش کسی معصوم بچے کے لمس جیسی لگ رہی تھی۔ گزری رات کے سائے سمٹ چکے تھے۔ روز مرہ کی فکریں، پریشانیاں جھنجھٹ سب نیچے رہ گیا تھا۔ اوپر اگر کوئی چیز تھی تو وہ حسن تھا خالق کا۔ مالک کا۔​
زبردست۔کتنے خوبصورت الفاظ کا چناؤ کیا:)
بہت عمدہ:)
انداز تحریر اتنا خوبصورت اور عمدہ ہے کہ تعریف کے دو چار الفاظ بے معنی سے لگ رہے ہیں
سپیچ لیس:)
 

اکمل زیدی

محفلین
بھائی ذوالقرنین
تیری پوسٹ پڑھ کے سوچا اپنی روٹین بھی لکھ دوں.. ایک دن غلطی سے صبح جلدی آنکھ کھل گئی تو سوچا کہ چلو چھت پہ چڑھ کر تازہ ہوا لیتے ہیں کچھ جسم و جاں میں تازگی آئے.. چھت پہ چڑھا آس پاس لوگوں کئی منزلہ مکانات نے ہوا کو روک رکھا اور کبوتروں کے پنجروں سے آتی "بے ہوش کن" بدبو نے سارے اطباق روشن کردیے.. پھر سوچا باہر جاتا ہوں تو گلی میں سیوریج کی نئی پائپ لائن ڈالنے کے لیے کھدا ہوا گڑھا نو گزے کی قبر کی مانند خوش آمدید کہتا نظر آیا اور میں پانی سے بچتا بچاتا گلی سے باہر آکر ہوٹل سے چائے پی کر واپس آگیا اور جس طرح بائیک نکالی وہ الگ کہانی ہے :)
بہت شکریہ بابا جی واپس لانے کا ...
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بھائی ذوالقرنین
تیری پوسٹ پڑھ کے سوچا اپنی روٹین بھی لکھ دوں.. ایک دن غلطی سے صبح جلدی آنکھ کھل گئی تو سوچا کہ چلو چھت پہ چڑھ کر تازہ ہوا لیتے ہیں کچھ جسم و جاں میں تازگی آئے.. چھت پہ چڑھا آس پاس لوگوں کئی منزلہ مکانات نے ہوا کو روک رکھا اور کبوتروں کے پنجروں سے آتی "بے ہوش کن" بدبو نے سارے اطباق روشن کردیے.. پھر سوچا باہر جاتا ہوں تو گلی میں سیوریج کی نئی پائپ لائن ڈالنے کے لیے کھدا ہوا گڑھا نو گزے کی قبر کی مانند خوش آمدید کہتا نظر آیا اور میں پانی سے بچتا بچاتا گلی سے باہر آکر ہوٹل سے چائے پی کر واپس آگیا اور جس طرح بائیک نکالی وہ الگ کہانی ہے :)
باباجی۔۔۔ لاہور میں تو کافی پارک ہیں۔۔۔۔ :)
 
Top