ایک 'جُوں' کا کھلا خط [اردو دان طبقے کے نام ] - از - محمد احمدؔ

محمداحمد

لائبریرین
ایک 'جُوں' کا کھلا خط
اردو دان طبقے کے نام

اس کھلے خط کی وساطت سے میں مسمات "جُوں" بقائمی ہوش و حواس اردو دان طبقے کے آگے چند حقائق رکھنا چاہتی ہوں تاکہ میرے متعلق ایک گمراہ کن محاورے اور کچھ دیگر قبیح غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے اور آئندگان کی اصلاح کا بندوبست بھی۔

دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ اپنے مخالفین کی بے حسی کا ذکر کرتے ہوئے اُ ن کے کانوں پر جوں کےرینگنے یا نہ رینگنے کا ذکر کرتے ہیں اور اس طرح پوائنٹ اسکورنگ کرکے اپنے نمبر بڑھانے اور دوسروں کے نمبر گھٹانے کا قومی فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہےکہ جوں رینگنے کا محاورہ زیادہ تر اُن لوگوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ جن کے سر پر بال ہی نہیں ہوتے یا ہوتے بھی ہیں تو اتنے سرسری کہ جوؤں کی رہائش تو کجا خیمہ گاہ کا کام بھی نہیں کر سکتے۔ اب ان بے انصاف لوگوں سے کوئی یہ پوچھے کہ جب سر میں ہی جوؤں کے معقول قیام و طعام کا بندوبست نہ ہو تو وہ کانوں پر کیونکر رینگنے لگی۔ پھر یہ بھی ہے کہ جوئیں کسی سیاست دان کی فرزندِ ارجمند تو ہیں نہیں کہ جنہیں براہِ راست ہیلی کاپٹر کے ذریعے کان پر لانچ کر دیا جائے کہ جناب رینگیے ۔

چلیے فرض کرلیا کہ مذکورہ بے حس شخص کے سر پر بال بھی ہیں اور اُس میں کسی حد تک جوؤں کی رہائش کا انتظام بھی ہے تب بھی جوؤں کو کیا پڑی کہ وہ اتنے بڑے سر کو چھوڑ کر کانوں پر آ کر رینگنا شروع کردیں۔ جو ناعاقبت اندیش اس قسم کی لغو باتیں کرتے ہیں اُنہیں شاید کانوں کی بناوٹ ، بے قرینہ اُتار چڑھاؤ اور دُشوار گزار گھاٹیوں کا اندازہ ہی نہیں ہے ۔ کیا جوئیں بے چاری جو پہلے ہی نہ جانے کیسے عسرت میں گزارا کر رہی ہوتی ہیں اس بات کی متحمل ہوسکتی ہیں کہ کان جیسی ناگفتہ بہ جگہ پر اسکیٹ بورڈنگ اور آئس سلائڈنگ قسم کے غیر سود مند کھیل کھیلیں اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بے حسوں کو گوش کے بل گوشہء احساس میں داخل کرنے کی سعی ِ لاحاصل کریں۔

پھر رینگنے کی ہی کیا تُک ہے۔ جوں بے چاری چل بھی سکتی ہے اور بوقتِ ضرورت دوڑ بھی سکتی ہے۔ آپ نے کبھی وہ منظر دیکھا ہے کہ جب کوئی حسینہ اپنے بالوں میں کیٹر پلر کی دہشتناک مشنری ٹائپ چیز یعنی کنگھی گھماتی ہے۔ اُس وقت دیکھنے کی ہوتی ہے جوؤں کی برق رفتاری۔ لیکن افسوس کے وہاں دیکھنے والی بھی صرف جوئیں ہی ہوتی ہیں اور اُنہیں اس وقت دیکھنے کی فرصت نہیں ہوتی ۔ سو یہ رینگنے والی بات پر سوچیں اور محاورے کو تازہ کریں۔ کان پر جوں رینگنے کے بجائے چلنا ہی کردیں۔ اور کان ہی کیوں ناک پر بھی جوں رینگ سکتی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ مو صوف تو ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتے تو ٹھیک ہے ۔ مکھی کو کان پربٹھا دیں اور جوں کو ناک پر رینگوادیں۔ آپ کے کون سے پیسے لگیں گے۔ دو نئے اور تازہ محاورے ہاتھ آ جائیں گے۔

بہرکیف ، میری تمام متعلقین سے درخواست ہے کہ تھوڑے کہے کو بہت جانیں اور فوراً سے پیشتر اِس سلسلے میں معقول اقدامات کیے جائیں۔ آپ لوگ خود بھی اپنی حرکتیں ٹھیک کریں اور بے حسی کو صرف دوسروں کی جاگیر نہ قرار دیں اور اپنے دل میں بھی درد مندی کا احساس پیدا کریں۔ مزید یہ کہ بے حسوں کے کانوں پر جوں رینگوانے کے بجائے اُن کے کان کے نیچے محبت نامے بھی رسید کیے جا سکتے ہیں ، یہ کافی ساری بیماریوں کے لئے شافی نسخہ ہے۔ ورنہ یہ نہ ہو کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

والسلام

خیر اندیش

آپ کی 'اپنی'
جُوں
:):):)
 
آخری تدوین:
اُنہیں شاید کانوں کی بناوٹ ، بے قرینہ اُتار چڑھاؤ اور دُشوار گزار گھاٹیوں کا اندازہ ہی نہیں ہے
:laughing::laughing:
کان جیسی ناگفتہ بہ جگہ پر اسکیٹ بورڈنگ اور آئس سلائڈنگ
سیدھا سیدھا 'گھیسی' کہیں پائین :cool2:
بے حسوں کے کانوں پر جوں رینگوانے کے بجائے اُن کے کان کے نیچے محبت نامے بھی رسید کیے جا سکتے ہیں
کافی خطرناک و مشکوک و کان لال جملہ ہے:battingeyelashes:
۔۔۔۔۔
اعلیٰ :thumbsup:
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت عمدہ۔

لیکن ہمارے کان پر بھی جُوں تک نہیں رینگنی۔ اور یہ محاورہ زندہ رکھیں گے

تشکر :)

لگتا ہے کہ آپ نے خط کا آخری حصہ غور سے نہیں پڑھا:

مزید یہ کہ بے حسوں کے کانوں پر جوں رینگوانے کے بجائے اُن کے کان کے نیچے محبت نامے بھی رسید کیے جا سکتے ہیں ، یہ کافی ساری بیماریوں کے لئے شافی نسخہ ہے۔

:) :) :)
 

صائمہ شاہ

محفلین
ایک 'جُوں' کا کھلا خط
اردو دان طبقے کے نام

اس کھلے خط کی وساطت سے میں مسمی "جُوں" بقائمی ہوش و حواس اردو دان طبقے کے آگے چند حقائق رکھنا چاہتی ہوں تاکہ میرے متعلق ایک گمراہ کن محاورے اور کچھ دیگر قبیح غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے اور آئندگان کی اصلاح کا بندوبست بھی۔

دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ اپنے مخالفین کی بے حسی کا ذکر کرتے ہوئے اُ ن کے کانوں پر جوں کےرینگنے یا نہ رینگنے کا ذکر کرتے ہیں اور اس طرح پوائنٹ اسکورنگ کرکے اپنے نمبر بڑھانے اور دوسروں کے نمبر گھٹانے کا قومی فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہےکہ جوں رینگنے کا محاورہ زیادہ تر اُن لوگوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ جن کے سر پر بال ہی نہیں ہوتے یا ہوتے بھی ہیں تو اتنے سرسری کہ جوؤں کی رہائش تو کجا خیمہ گاہ کا کام بھی نہیں کر سکتے۔ اب ان بے انصاف لوگوں سے کوئی یہ پوچھے کہ جب سر میں ہی جوؤں کے معقول قیام و طعام کا بندوبست نہ ہو تو وہ کانوں پر کیونکر رینگنے لگی۔ پھر یہ بھی ہے کہ جوئیں کسی سیاست دان کی فرزندِ ارجمند تو ہیں نہیں کہ جنہیں براہِ راست ہیلی کاپٹر کے ذریعے کان پر لانچ کر دیا جائے کہ جناب رینگیے ۔

چلیے فرض کرلیا کہ مذکورہ بے حس شخص کے سر پر بال بھی ہیں اور اُس میں کسی حد تک جوؤں کی رہائش کا انتظام بھی ہے تب بھی جوؤں کو کیا پڑی کہ وہ اتنے بڑے سر کو چھوڑ کر کانوں پر آ کر رینگنا شروع کردیں۔ جو ناعاقبت اندیش اس قسم کی لغو باتیں کرتے ہیں اُنہیں شاید کانوں کی بناوٹ ، بے قرینہ اُتار چڑھاؤ اور دُشوار گزار گھاٹیوں کا اندازہ ہی نہیں ہے ۔ کیا جوئیں بے چاری جو پہلے ہی نہ جانے کیسے عسرت میں گزارا کر رہی ہوتی ہیں اس بات کی متحمل ہوسکتی ہیں کہ کان جیسی ناگفتہ بہ جگہ پر اسکیٹ بورڈنگ اور آئس سلائڈنگ قسم کے غیر سود مند کھیل کھیلیں اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بے حسوں کو گوش کے بل گوشہء احساس میں داخل کرنے کی سعی ِ لاحاصل کریں۔

پھر رینگنے کی ہی کیا تُک ہے۔ جوں بے چاری چل بھی سکتی ہے اور بوقتِ ضرورت دوڑ بھی سکتی ہے۔ آپ نے کبھی وہ منظر دیکھا ہے کہ جب کوئی حسینہ اپنے بالوں میں کیٹر پلر کی دہشتناک مشنری ٹائپ چیز یعنی کنگھی گھماتی ہے۔ اُس وقت دیکھنے کی ہوتی ہے جوؤں کی برق رفتاری۔ لیکن افسوس کے وہاں دیکھنے والی بھی صرف جوئیں ہی ہوتی ہیں اور اُنہیں اس وقت دیکھنے کی فرصت نہیں ہوتی ۔ سو یہ رینگنے والی بات پر سوچیں اور محاورے کو تازہ کریں۔ کان پر جوں رینگنے کے بجائے چلنا ہی کردیں۔ اور کان ہی کیوں ناک پر بھی جوں رینگ سکتی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ مو صوف تو ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتے تو ٹھیک ہے ۔ مکھی کو کان پربٹھا دیں اور جوں کو ناک پر رینگوادیں۔ آپ کے کون سے پیسے لگیں گے۔ دو نئے اور تازہ محاورے ہاتھ آ جائیں گے۔

بہرکیف ، میری تمام متعلقین سے درخواست ہے کہ تھوڑے کہے کو بہت جانیں اور فوراً سے پیشتر اِس سلسلے میں معقول اقدامات کیے جائیں۔ آپ لوگ خود بھی اپنی حرکتیں ٹھیک کریں اور بے حسی کو صرف دوسروں کی جاگیر نہ قرار دیں اور اپنے دل میں بھی درد مندی کا احساس پیدا کریں۔ مزید یہ کہ بے حسوں کے کانوں پر جوں رینگوانے کے بجائے اُن کے کان کے نیچے محبت نامے بھی رسید کیے جا سکتے ہیں ، یہ کافی ساری بیماریوں کے لئے شافی نسخہ ہے۔ ورنہ یہ نہ ہو کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

والسلام

خیر اندیش

آپ کی 'اپنی'
جُوں
:):):)
مسمات " جُوں " اردو میڈیم تو ہرگز نہیں لگتیں :)
 

محمداحمد

لائبریرین
مسمات " جُوں " اردو میڈیم تو ہرگز نہیں لگتیں :)

یہ "مسمات" خوب کہا۔ ورنہ ہم "مسمی" پر ہی اکتفا کیے ہوئے تھے۔ :)

موصوفہ نے گھاٹ گھاٹ کا پانی ( یعنی سر سر کا خون) پیا ہوا ہے سو انہیں کسی ایک سانچے میں بٹھانا دشوار ہوگا۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ احمد بھائی۔۔۔۔ کیا اعلی "جوں کشی" کی ہے۔۔۔ :p ویسے جوں کی میراتھن کی خیال کیسا ہے؟ ہو جائے پھر۔۔۔۔۔

لاجواب۔۔۔ اور اعلی تحریر۔۔۔ بہترین ہوگیا۔۔۔۔
 
Top