اگر ہم لوگ یہ ایک چیز چھوڑ دیں تو ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

بات تو چھوٹی سی ہے اور بہت سے لوگ پڑھ کر شاید یہ بھی لکھ دیں کہ مجھ اکیلے سے کیا ہوگا پوری دنیا ہی استعمال کررہی ہے شروعات ہمیشہ اپنے آپ سے ہی کرنی چاھئیے آج جو ہم لوگ بارشوں میں پریشان ہورہے ہیں جگہ جگہ گٹر بھرے ہوئے نظر آرہے ہیں اِن کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں پر میری نظر میں ایک بہت بڑی وجہ شاپنگ بیگ جسے عام ذبان میں تھیلی کہا جاتا ہے یہ مسئلے پیدا کرتی ہے ہمیں چاھئیے کہ ہم شاپنگ بیگ کا استعمال نہ کریں اگر ایسا نہیں کرسکتے تو کم سے کم اِس کا استعمال کریں اور اِس کی جگہ ایک کپڑے کا تھیلہ بنالیں سبزی وغیرہ لانے کے لئے قریب سے اور دوکان والوں کو بھی یہ ہی مشورہ دیں کہ کاغذ کی تھیلیاں استعمال کی جائیں یہ ندی نالوں میں جا کر گل جاتی ہیں پلاسٹک کی تھیلی گلتی نہیں جس کی وجہ سے جگہ جگہ گٹر بھرے ہوئے نظر آرہے ہوتے ہیں اپنےاپنے گھروں میں ایک کپڑے کا تھیلا بنالیں اُس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ کم سے کم آپ کی کھانے پینے کی چیزوں پر بیچارے غریبوں کی نظر نہیں پڑے گی کہ اُن کے دِل میں بھی ارمان ہو کہ ہمارے پاس ہوتے تو ہم بھی پھل فروٹ یا دیگر کھانے پینے کی چیزیں لاتے اور دوسرا ماحول بھی صاف سُتھرا ہوجائے گا ہم سارا بوجھ حکومت پر ڈال کر اپنے آپ کو صاف نہیں کرسکتے ہم لوگوں کو بھی مِل کر حکومت کا ساتھ دینا ہے ویسے بھی صفائی نصف ایمان ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
پلاسٹک بیگ اور باقی کوڑا آپ گٹر میں کیوں پھینک رہے ہیں؟
یہی تو اصل المیہ ہے۔ صفائی کو ہم نصف ایمان کہتے ہیں اور عملی زندگی میں ہمارا یہ حال ہے کہ کسی پارک میں چلے جائیں تو ریپرز تک ہم کھلی جگہوں پر پھینک دیتے ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کوڑے دان سکون اور چین کی زندگی گزار رہے ہیں۔
 

میم الف

محفلین
مگر غبار ہوئے پر ہَوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں

چچا غالب نے یہ شعر کسی شاپر کے بارے میں کہا ہو گا! :)
عین ممکن ہے!
لیکن شاپروں کے متعلق کہے گئے شعروں میں سے چچا غالب کے اِس شعر کا جواب نہیں:
دائم ’چڑھا‘ ہوا ترے ’سر‘ پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ ’شاپر‘ نہیں ہوں میں
 

سیما علی

لائبریرین
یہی تو اصل المیہ ہے۔ صفائی کو ہم نصف ایمان کہتے ہیں اور عملی زندگی میں ہمارا یہ حال ہے کہ کسی پارک میں چلے جائیں تو ریپرز تک ہم کھلی جگہوں پر پھینک دیتے ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کوڑے دان سکون اور چین کی زندگی گزار رہے ہیں۔
کسی کو تو خوش کرتے ہیں کوڑے دان ہی سہی۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
بعض اوقات چلتی گاڑیوں سے کوڑا سڑکوں پر پھینکتے بھی دیکھا گیا جو انتہائی نازیبا حرکت ہے۔البتہ اب یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ حلال و حرام کے جو ضابطے رب کریم نے مقرر کیے انہیں نظر انداز کر کے جو چاہے کھاتے پھریں تو اس کے بھی مہلک اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ اسی کی ہی ایک مثال کرونا وائرس بھی ہے۔ پندرہ صدیاں پہلے ہادی برحقﷺنے ہمیں آگاہ کردیاتھا کہ اگر زندگی میں سکون چاہتے ہو، بیماریوں سے محفوظ رہ کر صحت مند زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہو تو صفائی کا خیال رکھو بلکہ صفائی اور پاکیزگی کو نصف ایمان قراردیا۔ ہمیں رستے میں پڑی گندگی ہٹانے کا حکم دیا گیا تاکہ کوئی گزرنے والا بیزار نہ ہو۔ راستے میں پتھر، کانٹے اور کنکر ہوں تو ہٹانے کا حکم دیا تاکہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔ ہمیں حکم دیا گیادن میں پانچ دفعہ نماز کیلئے وضو کرکے پاک صاف ہوں۔ جمعہ کے دن اچھی طرح نہا کر، صاف ستھرے کپڑے پہن کر نماز جمعہ کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔ ’’صفائی نصف ایمان‘‘ کا فلسفہ ہمیں تب ہی سمجھ آسکتا ہے جب ہم اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کے طور پر سمجھنے کی کوشش کریں۔ اکثر و بیشتر یہ دیکھا گیا ہے کہ مسلمان عوام الناس اسلام کو کوزے میں بند کر کے کچھ لوگوں کو ٹھیکے پر دے کر خود سکون سے بیٹھ گئے ہیں بلکہ آزاد ہو گئے ہیں اور خرابیاں یہنں سے شروع ہوتیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بعض اوقات چلتی گاڑیوں سے کوڑا سڑکوں پر پھینکتے بھی دیکھا گیا جو انتہائی نازیبا حرکت ہے۔البتہ اب یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ حلال و حرام کے جو ضابطے رب کریم نے مقرر کیے انہیں نظر انداز کر کے جو چاہے کھاتے پھریں تو اس کے بھی مہلک اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ اسی کی ہی ایک مثال کرونا وائرس بھی ہے۔ پندرہ صدیاں پہلے ہادی برحقﷺنے ہمیں آگاہ کردیاتھا کہ اگر زندگی میں سکون چاہتے ہو، بیماریوں سے محفوظ رہ کر صحت مند زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہو تو صفائی کا خیال رکھو بلکہ صفائی اور پاکیزگی کو نصف ایمان قراردیا۔ ہمیں رستے میں پڑی گندگی ہٹانے کا حکم دیا گیا تاکہ کوئی گزرنے والا بیزار نہ ہو۔ راستے میں پتھر، کانٹے اور کنکر ہوں تو ہٹانے کا حکم دیا تاکہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔ ہمیں حکم دیا گیادن میں پانچ دفعہ نماز کیلئے وضو کرکے پاک صاف ہوں۔ جمعہ کے دن اچھی طرح نہا کر، صاف ستھرے کپڑے پہن کر نماز جمعہ کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔ ’’صفائی نصف ایمان‘‘ کا فلسفہ ہمیں تب ہی سمجھ آسکتا ہے جب ہم اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کے طور پر سمجھنے کی کوشش کریں۔ اکثر و بیشتر یہ دیکھا گیا ہے کہ مسلمان عوام الناس اسلام کو کوزے میں بند کر کے کچھ لوگوں کو ٹھیکے پر دے کر خود سکون سے بیٹھ گئے ہیں بلکہ آزاد ہو گئے ہیں اور خرابیاں یہنں سے شروع ہوتیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے بہت ہی خوب بیان کیا ہے بس اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

وسیم

محفلین
چائے شاپر میں، نہاری شاپر میں، چنے شاپر میں، دھی شاپر میں، وغیرہ وغیر۔ یعنی ہر شے شاپر میں۔ اس قوم کو شاپر کی گھٹی پڑ چکی ہے۔ نا اس کا استعمال چھوڑتے ہیں اور نا اس کو ٹھیک سے ٹھکانے لگاتے ہیں۔

پاکستان میں عوام شاپر حق سمجھ کر لیتی ہے۔ ساڈا حق ایتھے رکھ
 
چائے شاپر میں، نہاری شاپر میں، چنے شاپر میں، دھی شاپر میں، وغیرہ وغیر۔ یعنی ہر شے شاپر میں۔ اس قوم کو شاپر کی گھٹی پڑ چکی ہے۔ نا اس کا استعمال چھوڑتے ہیں اور نا اس کو ٹھیک سے ٹھکانے لگاتے ہیں۔

پاکستان میں عوام شاپر حق سمجھ کر لیتی ہے۔ ساڈا حق ایتھے رکھ

لیکن گورنمنٹ کے بہت سارے اداروں میں تبدیلی آگئی ہے
وہاں پر ڈسپوزیبل کپ اور پلیٹ استعمال کرائی جارہی ہیں
 

وسیم

محفلین
لیکن گورنمنٹ کے بہت سارے اداروں میں تبدیلی آگئی ہے
وہاں پر ڈسپوزیبل کپ اور پلیٹ استعمال کرائی جارہی ہیں
ڈسپوزایبل کا کیا فائدہ اگر وہ ری سائیکل نہیں ہو سکتی اور ری سائیکل ڈسپوزایبل کا کیا فائدہ جب وہ ری سائیکل پلانٹ تک نا پہنچ سکے؟
 
ڈسپوزایبل کا کیا فائدہ اگر وہ ری سائیکل نہیں ہو سکتی اور ری سائیکل ڈسپوزایبل کا کیا فائدہ جب وہ ری سائیکل پلانٹ تک نا پہنچ سکے؟
اگر پلیسٹک نہیں ہے تو بہرحال بہتر ہے۔ پلیسٹکس کے ساتھ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بائوڈگریڈبل نہیں ہوتے۔
 
اب دوبارہ سے کراچی میں بارشیں شروع ہونے والی ہیں
کراچی والوں سے گذارش ہے کہ
شاپنگ بیگ کا استعمال بند کردیں
تاکہ گٹر اور نالے تھیلیوں کی وجہ سے بند نہ ہوں
اور زندگی یوں ہی رواں دواں رہے
 
Top