شفیق خلش ::::::اگر نِکلا کبھی گھر سے، تو اپنے ہونٹ سی نِکلا :::::: Shafiq -Khalish

طارق شاہ

محفلین


غزل
اگر نِکلا کبھی گھر سے، تو اپنے ہونٹ سی نِکلا
بُرا دیکھے پہ کہنا کیا مَیں غصّہ اپنا پی نِکلا

بڑھانا عِشق میں اُس کے قدم بھی پَس رَوِی نِکلا
کہ دل برعکس میرے، پیار سے اُس کا بَری نِکلا

محبّت وصل کی خواہش سے ہٹ کر کُچھ نہ تھی ہر گز
معزّز ہم جسے سمجھے، وہ ادنٰی آدمی نِکلا

تصوّر نے بنایا تھا جو نقشہ سا ، تخیّل میں
بضد اُس کے، متانت میں و ہ کتنا مُنحنی نِکلا

بڑھی کُچھ اور اُس کے ہِجر سے لاحق پریشانی!
تلاش و جستجو میں، جب دِلِ برباد بھی نِکلا

شناسا کون ایک ایسا ، نہ پایا فیض ہو جس نے!
مگر حق میں کہاں میرے کوئی اچھّا کبھی نِکلا

بڑھائی اور خوش فہمی خلشؔ، اِثبات کے مِصداق
کبھی باتوں ہی باتوں میں جو اُس کے منہ سے جی نِکلا

خلشؔ !اُن کو ندامت کا بہت ہی سامنا ہوگا
محبّت کرنے والوں میں اگر میں آخری نِکلا

شفیق خلشؔ

 
Top