images

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کی بنیادی وجہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل 2025 کو 26 بھارتی سیاحوں کی ہلاکت ہے۔ بھارتی حکومت نے اس واقعے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا اور پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹوں میں بھارت چھوڑنے کا حکم دیا۔ اس کے جواب میں، پاکستان نے بھارت کی اس کارروائی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت نے پانی روکنے یا موڑنے کی کوشش کی تو اسے "جنگی اقدام" تصور کیا جائے گا اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔
اس کشیدگی کے دوران، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1500 سال سے کشیدگی چل رہی ہے اور امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک اس معاملے کو خود حل کر لیں گے۔ تاہم، ان کا یہ بیان تاریخی حقائق سے متصادم تھا کیونکہ مسئلہ کشمیر 1947 میں تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔
اس صورتحال میں، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
مجموعی طور پر، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی موجودہ لہر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ایک سانحے کے بعد شروع ہوئی ہے، جس میں دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان الزامات اور جوابی اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔
میرے خیال میں اگر قائداعظم محمد علی جناح اس وقت موجود ہوتے، تو وہ پاکستان اور بھارت کی کشیدگی کے حوالے سے کچھ اہم اقدامات کر سکتے تھے۔ یہ چند ممکنہ اقدامات ہیں جو قائداعظم کی سیاسی حکمت عملی اور قیادت کے تحت کیے جا سکتے تھے:
  1. سخت دفاعی تیاری: قائداعظم ہمیشہ پاکستان کے دفاعی مفادات کو اہمیت دیتے تھے۔ وہ پاکستان کی فوج کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات کرتے اور پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کا انتظام کرتے۔
  2. سفارتکاری اور مذاکرات: قائداعظم ایک تجربہ کار سفارتکار تھے۔ وہ بھارت کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے لیے مستقل طور پر مذاکرات کے ذریعے بات چیت کرنے کی کوشش کرتے، تاکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا قائم ہو سکے۔
  3. بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا: قائداعظم عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے۔ وہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر پاکستان کے حق میں آواز اٹھاتے تاکہ عالمی برادری کی حمایت حاصل کی جا سکے۔
  4. مسئلہ کشمیر پر واضح موقف: قائداعظم کشمیر کے مسئلے پر کبھی بھی کسی نوعیت کی رعایت دینے کے حق میں نہیں تھے۔ وہ پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر پزیرائی دلانے کے لیے کام کرتے اور کشمیر کو ایک اہم ایجنڈا بناتے۔
  5. مقامی اتحاد کو فروغ دینا: قائداعظم پاکستان میں فرقہ وارانہ اور لسانی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش کرتے، تاکہ داخلی کشیدگی کم ہو اور ملک کا داخلی استحکام مضبوط ہو۔
  6. معاشی استحکام کی کوششیں: قائداعظم معاشی خودمختاری پر زور دیتے اور پاکستان کو اقتصادی طور پر مستحکم بنانے کے لیے اقدامات کرتے تاکہ بھارت یا کسی دوسرے ملک کی جانب سے معاشی دباؤ کا مقابلہ کیا جا سکے۔
  7. پاکستان کے مفادات کا تحفظ: قائداعظم کسی بھی صورت میں پاکستان کے مفادات کو کمزور نہ ہونے دیتے۔ وہ ہر فیصلہ پاکستان کی سلامتی، خودمختاری اور وقار کے مطابق کرتے۔
  8. دھمکیوں کے بجائے حکمت عملی کا استعمال: قائداعظم کبھی بھی بے بنیاد دھمکیوں اور جنگی اقدامات کی طرف نہیں بڑھتے تھے۔ وہ ہمیشہ حکمت عملی کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے اور طاقت کے استعمال سے گریز کرتے۔
یہ سب اقدامات قائداعظم کی سیاسی بصیرت اور قیادت کی بنیاد پر کیے جا سکتے تھے، جنہوں نے ہمیشہ پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھا۔


 
آخری تدوین:
Top