اگر فرصت ملے تو۔۔۔

محمداحمد

لائبریرین
اگر فرصت ملے تو۔۔۔

سُنا ہے تم بہت مصروف ہو
مصروف بھی اتنے کہ فرصت تم سے ملنے کو ترستی ہے
سُنو !
مصروفیت کے دائرے کو پاٹ کر
ٖفرصت سے ملنے کا کبھی موقع ملے تو
سب سے پہلے خود سے ملنا
پھر فراغت کا کوئی لمحہ بچے تو
غم کے نم آلود رستوں پر کہیں سے دھوپ لا رکھنا
بھٹکتی شام سے پُروا کے دھیمے گیت سننا
آہٹوں کی تتلیوں کے رنگ چننا
بادلوں کی دھند میں چھپتے ہوئے منظر سے تصویریں بنانا
آئنہ رو ساعتوں کے عکس آنکھوں میں سجانا
وقت کے ساحل پہ گیلی ریت سے اک گھر بنانا
ہاتھ کے محراب سے دل کے دیئے کی تھرتھراتی لو کو بجھنے نہ دینا
پیڑوں کے دامن سے لپٹی ہوئی چھاؤں میں مہکی ہوئی باتیں چھپانا
اور پرندوں کی چہک سے نظم کے مصرے بنانا
یا پروں کی اوٹ سے چھنتی ہوئی کرنو ں سے
یادوں کی دھنک بھرنا
گر نہیں تو
کاسنی پھولوں کی صورت من کے سُونے پن میں کھِلنا
پھر بھی گر فرصت ملے تو۔
مجھ سے ملنا۔

حامد یزدانی
 

ح سید

محفلین
محمد احمد صاحب۔ یہ نظم عزیز حامد مدنی کی نہیں بلکہ حامد یزدانی کی ہے جو میں نے ان کے شعری مجموعے ’’ابھی اک خواب رہتا ہے‘‘ میں پڑھی تھی۔ اس مجموعے کے دونوں ایڈیشنز میرے پاس ہیں۔ شکریہ
 

محمداحمد

لائبریرین
محمد احمد صاحب۔ یہ نظم عزیز حامد مدنی کی نہیں بلکہ حامد یزدانی کی ہے جو میں نے ان کے شعری مجموعے ’’ابھی اک خواب رہتا ہے‘‘ میں پڑھی تھی۔ اس مجموعے کے دونوں ایڈیشنز میرے پاس ہیں۔ شکریہ

بہت شکریہ اس تصیح کا۔

یہ حامد یزدانی کی ہی نظم ہے اور اولین پوسٹ میں میں نے ہی اسے شامل کیا ہے اور شاعر کا نام بھی درست لکھا ہے۔ تاہم تبصرہ کرتے ہوئے مغالطے کا شکار ہو گیا۔
 
Top