جگر :::: اگر شامل نہ در پردہ کسی کی آرزو ہوتی -- Jigar Muradabaadi

طارق شاہ

محفلین



uxsh.jpg

جگر مُراد آبادی

اگر شامِل نہ در پردہ کِسی کی آرزُو ہوتی !
تو پھر اے زندگی ظالم، نہ میں ہوتا نہ تُو ہوتی

اگر حائِل نہ اُس رخ پر نقابِ رنگ و بُو ہوتی
کِسے تابِ نظر رہتی، مجالِ آرزُو ہوتی

نہ اِک مرکز پہ رُک جاتی، نہ یوں بے آبرُو ہوتی !
محبّت جُستجُو تھی، جُستجُو ہی جُستجُو ہوتی

تِرا مِلنا تو مُمکِن تھا، مگر اے جانِ محبوُبی !
مِرے نزدیک توہینِ مزاجِ جُستجُو ہوتی

نگاہِ شوق اُسے بھی ڈھال لیتی اپنے سانچے میں
اگر اِک اور بھی دُنیا ورائے رنگ و بُو ہوتی

جگر مُراد آبادی

 
آخری تدوین:

عمر سیف

محفلین
نہ اِک مرکز پہ رُک جاتی، نہ یوں بے آبرُو ہوتی !
محبّت جُستجُو تھی، جُستجُو ہی جُستجُو ہوتی

واہ ۔۔
 

طارق شاہ

محفلین
تشکّر خلیل بھائی اظہارِ خیال پر ۔
صائمہ شاہ صاحبہ نے اس غزل کا اک شعر، پسندیدہ اشعار
میں پیش کیا جو بہت ہی خوب لگا تو غزل تلاش کرکے پیش کردی :)
خوشی ہوئی جو آپ صاحبان کو غزل پسند آئی
بہت خوش رہیں :)
 
آخری تدوین:
Top