جگرمراد آبادی

  1. حسن محمود جماعتی

    جگر دل برد از من دیروز شامے::: جگر مراد آبادی

    دل برد از من دیروز شامے فتنہ طرازے، محشر خرامے روئے مبینش صبح تجلی لوح جبینش ماہ تمامے مشکیں خط او سنبل بہ گلشن لعلیں لب او بادہ بہ جامے چشمے کہ کوثر یک جرعہء او قدے کہ طوباش ادنی غلامے عارض چہ عارض گیسو چہ گیسو صبحے چہ صبحے شامے چہ شامے آں تیغ ابرو واں تیر مژگاں آمادہ ہر یک بر قتل عامے...
  2. طارق شاہ

    جگر مُراد آبادی :::::: دِل کو مِٹا کے داغِ تمنّا دِیا مجھے :::::: Jigar Muradabaadi

    دِل کو مِٹا کے داغِ تمنّا دِیا مجھے اے عِشق ! تیری خیر ہو، یہ کیا دِیا مجھے محشر میں بات بھی نہ زباں سے نِکل سکی کیا جُھک کے اُس نگاہ نے سمجھا دِیا مجھے مَیں، اور آرزُوئےوصالِ پَرِی رُخاں اِس عِشقِ سادہ لَوح نے، بہکا دِیا مجھے ہر بار، یاس ہجر میں دِل کی ہُوئی شریک! ہر مرتبہ ، اُمید نے...
  3. طارق شاہ

    جگر :::: ککام آخر جذبۂ بے اِختیار آ ہی گیا -- Jigar Muradabaadi

    جگر مُراد آبادی کام آخر جذبۂ بے اِختیار آ ہی گیا دل کچُھ اِس صُورت سے تڑپا، اُن کو پیار آ ہی گیا جب نِگاہیں اُٹھ گئِیں، الله رے معراجِ شوق! دیکھتا کیا ہُوں، وہ جانِ انتظار آ ہی گیا ہائے! یہ حُسنِ تصوّر کا فریبِ رنگ و بُو میں یہ سمجھا، جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا ہاں سزا دے، اے خُدائے...
  4. طارق شاہ

    جگر :::: کیا بتائیں، عشق ظالم کیا قیامت ڈھائے ہے -- Jigar Muradabaadi

    جگرمُرادآبادی کیا بتائیں، عشق ظالم کیا قیامت ڈھائے ہے یہ سمجھ لو، جیسے دل سینے سے نِکلا جائے ہے جب نہیں تُم ، تو تصوّر بھی تُمھارا کیا ضرور؟ اِس سے بھی کہہ دو کہ یہ تکلیف کیوں فرمائے ہے ہائے، وہ عالم نہ پُوچھو اِضطرابِ عِشق کا ! یک بہ یک جس وقت کچھ کچھ ہوش سا آجائے ہے کِس طرف جاؤں، کِدھر...
  5. طارق شاہ

    جگر :::: میرا جنُونِ شوق، وہ عرضِ وفا کے بعد -- Jigar Muradabaadi

    جگر مُراد آبادی میرا جنُونِ شوق، وہ عرضِ وفا کے بعد وہ شانِ احتیاط تِری ہر ادا کے بعد تیری خبر نہیں، مگر اتنی تو ہے خبر! تُو اِبتدا سے پہلے ہے، تُو اِنتہا کے بعد شاید، اِسی کا نام مُقامِ فنا نہ ہو نازک سا ہوتا جاتا ہے دل ہر صدا کے بعد گو دل سے تنگ ہوں، مگر آتا ہے یہ خیال پھر...
  6. طارق شاہ

    جگر :::: اگر شامل نہ در پردہ کسی کی آرزو ہوتی -- Jigar Muradabaadi

    جگر مُراد آبادی اگر شامِل نہ در پردہ کِسی کی آرزُو ہوتی ! تو پھر اے زندگی ظالم، نہ میں ہوتا نہ تُو ہوتی اگر حائِل نہ اُس رخ پر نقابِ رنگ و بُو ہوتی کِسے تابِ نظر رہتی، مجالِ آرزُو ہوتی نہ اِک مرکز پہ رُک جاتی، نہ یوں بے آبرُو ہوتی ! محبّت جُستجُو تھی، جُستجُو ہی جُستجُو ہوتی تِرا مِلنا...
Top