Qamar Shahzad

محفلین
اک عکسِ لا وجود سے لپٹا ہوا ہوں میں
جیسا مجھے نہ ہونا تھا ویسا ہوا ہوں میں

میرے درختِ جسم کو خوفِ خزاں نہیں
اُس معجزاتی ہونٹ کا چوما ہوا ہوں میں

پورے کیے ہیں پیار کے سارے لوازمات
اب کُن کے انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں میں

خود کو تمہارے بعد سمیٹا کچھ اس طرح
لگتا نہیں کہیں سے بھی ٹوٹا ہوا ہوں میں

آنکھیں مثالِ دشت نہیں بے سبب ہوئیں
کچھ دور جانے والوں کو رویا ہوا ہوں میں

ہر ایک ذی نفس پہ ہے لازم مرا ادب
آیا نہیں زمین پہ بھیجا ہوا ہوں میں

پرہیز چاہتا ہوں میں خوابِ وصال سے
حالانکہ اس دوا سے ہی اچھا ہوا ہوں میں

حیرت ہے تیرے ماتھے پہ بل تک نہیں پڑے
سن کر جو بات آگ بگولا ہوا ہوں میں

کھلتے نہیں ہر ایک پہ بام و درِ قمر
گو راز ہوں پر آپ پہ افشا ہوا ہوں میں
قمر آسی
 
Top