پیرزادہ قاسم اک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے - پیرزادہ قاسم

محمداحمد

لائبریرین
غزل

اک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے
یعنی اب جرمِ اسیری کی سزا دی جائے

دستِ نادیدہ کی تحقیق ضروری ہے مگر
پہلے جو آگ لگی ہے وہ بجھا دی جائے

اُس کی خواہش ہے کہ اب لوگ نہ روئیں نہ ہنسیں
بے حسی وقت کی آواز بنادی جائے

صرف سورج کا نکلنا ہے اگر صبح تو پھر
ایک شب اور مری شب سے ملا دی جائے

شرط اب یہ تو نہیں دل سے بھی دل ملتے ہوں
صرف آواز میں آواز ملا دی جائے

بے ضرورت ہو ملاقات ضروری تو نہیں
بزم کے ساتھ ہی یہ رسم اُٹھا دی جائے

صرف جلناہی نہیں ہم کو بھڑکنا بھی ہے
عشق کی آگ کو لازم ہے ہوا دی جائے

اور اک تازہ ستم اُس نے کیا ہے ایجاد
اُس کو اِس بار ذرا کھل کے دعا دی جائے

پیرزادہ قاسم
 

محمد وارث

لائبریرین
پیرزادہ قاسم کی ایک اور لاجواب غزل، بہت شکریہ احمد صاحب۔

مجھے بہت خوشی ہے کہ احباب اردو محفل میں بہت اچھا کلام پیش کر رہے ہیں، امید ہے اپنی پسند سے ہمیں نوازتے رہیں گے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب۔
صرف سورج کا نکلنا ہے اگر صبح تو پھر
ایک شب اور مری شب سے ملا دی جائے

واہ واہ کیا شعر ہے واہ۔
 

ظفری

لائبریرین
بے ضرورت ہو ملاقات ضروری تو نہیں
بزم کے ساتھ ہی یہ رسم اُٹھا دی جائے

بہت خوب ۔۔۔ احمد بھائی خوبصورت غزلوں کے ارسال کا سلسلہ جارہی رکھیئے گا ۔ :)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت خوب کیا بات ہے بہت اچھی غزل ہے مجھے تو یہ شعر بہت پسند آیا جو راجا بھائی کو بھی پسند آیا ہے
صرف سورج کا نکلنا ہے اگر صبح تو پھر
ایک شب اور مری شب سے ملا دی جائے
 
Top