اپنے ہومیو پیتھی تجربات شئیر کریں!

رانا

محفلین
آپ کےمراسلوں سے ایک بات تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ پلیسیبو ایفیکٹ سے نہ تو واقف ہیں اور نہ ہی شاید اس کے متعلق پڑھنا اور جاننا چاہتے ہیں۔
سر یہ آپ ہی کی دی گئی تعریفیں ہیں پلیسبو کے متعلق۔ لیکن ان پر اٹھنے والے سوالات کی وضاحت میں جناب کو مشکل پیش آرہی ہے تو اب شائد پلیسبو ایفیکٹ کی یہ وضاحت کافی ثابت نہیں ہورہی۔:)
پلیسیبو کیا ہے؟
پلیسیبو سے مراد کوئی بھی ایسی شے ہو سکتی ہے جو بظاہر حقیقی طبی علاج لگے لیکن حقیقت میں نہ ہو۔ یہ کوئی گولی، شاٹ، یا دیگر جعلی علاج ہو سکتا ہے۔ تمام پلیسیبو میں ایک قدر مشترک ہے کہ ان میں صحت پر اثر انداز ہونے والا کوئی فعال مادہ شامل نہیں ہوتا۔

پلیسیبو ایفیکٹ (اثر) کیا ہے؟
بسا اوقات کسی شخص پر پلیسیبو کا رد عمل بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ یہ رد عمل مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی۔ مثال کے طور پر اس شخص کی علامات بہتر ہو سکتی ہیں۔یا کسی شخص کا رد عمل ایسا ہو سکتا ہے گویا اس پر اس علاج کا سائڈ ایفیکٹ ظاہر ہوا ہے۔
یہ ردعمل پلیسیبو ایفیکٹ (اثر) کے طور پر جانا جاتا ہے۔


ایک کام کر لیں کہ زیک نے جو روابط دیے ہیں انھیں ایک مرتبہ پڑھ لیں (آپ انگریزی سے اتنے نا بلد بھی نہیں ورنہ انٹرمیڈیٹ سے لے کر بیچلر اور ماسٹر تک کے تمام کورسز بھی انگریزی میں ہی تھے جو آپ نے پڑھے اور پاس کیے) اور اس ایفیکٹ پر ہومیوپیتھی کے نتائج کو پرکھیں۔ :)
سر پہلی بات تو یہ کہ انٹر تک اردو میڈیم تھے ہم۔:) باقی کورسز کی انگریزی اور انگریزی زبان میں مہارت دو الگ الگ باتیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ مجھے ابھی تک یہ سمجھ نہیں آسکی کہ لنکس پڑھنے پر اتنا زور دینے کی بجائے جو کچھ آپ لوگوں نے ان لنکس سے سمجھا اسے کیوں بیان نہیں کررہے۔ جتنے مراسلے اب تک آپ لوگ لکھ چکے ہیں اسکی بجائے چند سطور میں پلیسبو ایفیکٹ سمجھادینے میں کیا مجبوری آڑے آرہی ہے؟ لیکن پھر بھی آپ لوگوں کے مسلسل آئیں بائیں شائیں کرنے اور مسلسل بدکنے کی وجہ سے آج تھوڑی ہمت کرکے ان پیپرز کو سمجھنے کی کوشش کرہی ڈالی ہے اور اس سے یہ پتہ لگ گیا کہ کیوں آپ لوگ سوال کا جواب دینے سے بدک رہے تھے اور پیپرز کا حوالہ دے کر جان چھڑانے کی کوشش میں تھے۔ ان پیپرز میں سرے سے کہیں ایسی کوئی وضاحت ہی موجود نہیں جو خاکسار نے آپ سے مانگی تھی۔

1- پہلے پیپر کا تمام تر فوکس اس بات پر ہے کہ ان کی اس ریسرچ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ہومیوپیتھی اثرات پلیسبو ایفیکٹ سے زیادہ نہیں۔ پلیسبو ایفیکٹ کی کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔
2- دوسرے پیپر کا مکمل متن تو پیمنٹ کے عوض مل رہا ہے لیکن جتنا متن ویب سائٹ پر سامنے لگا ہوا تھا اس کا لب لباب بھی یہی ہے اور پلیسبو کی وضاحتوں سے یکسر خالی۔
3- چوتھا پیپر کچھ تفصیلی ہے لیکن تمام تر زور اسی بات پر ہے کہ ہومیوپیتھی اثرات پلیسبو ایفکٹ سے زیادہ نہیں۔ اور ہومیوپیتھی میں کچھ بھی حقیقت نہیں۔
4- تیسرا لنک البتہ کافی تفصیلی ہے اور چار میں سے صرف یہی ایک لنک ہے جس میں پلیسبو پر کچھ تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ حضرات نے بھی شائد یہ پیپرز بغور نہیں پڑھے ورنہ کم از کم مجھے صرف اس لنک کے پڑھنے کا مشورہ دیتے بجائے اس بات کی گردان کرنے کے کہ چاروں پیپرز پڑھو۔ ابھی تک سمجھ نہیں آسکی کہ باقی کے تین پیپرز کا اس پوری گفتگو سے کیا تعلق تھا۔ جب کہ خاکسار دھاگے کے ابتدائی مراسلے میں تسلیم کرچکا تھا کہ سائنس کے دلدادہ ہومیوپیتھی کو بے حقیقت جانتے ہیں اسکے باوجود یہ تین پیپرز کسی خوشی میں عنایت کئے گئے سمجھ سے بالا ہے۔ بہرحال اس چوتھے پیپر میں پلیسبو کی تین مشہور حضرات کی تعریفیں بیان کردی گئی ہیں جو اس سے کچھ زیادہ نہیں بتارہیں جو آپ پہلے ہی شئیر کرچکے ہیں جن کا ذکر میں اوپر کرچکا ہوں۔ اسکے علاوہ یہ بتایا گیا ہے کہ پلیسبو ایفیکٹ ہر وقت وقوع میں نہیں آتا اور اسکی کوئی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی کہ کس پر یہ اثر نظر آئے گا اور کس پر نہیں۔ مزید یہ کہ پلیسبو ایفیکٹ عموما معمولی بیماریوں میں ہی نظر آتا ہے۔ پیپر کے مطابق
The placebo effect can be powerful but is usually only effective for relatively minor ailments

فاتح بھائی یہ تو ہوگئی چاروں پیپرز کی بات۔ اب جو تعریفیں آپ نے شئیر کی تھیں اس لنک پر بھی احتیاطا جاکر دیکھ لیا تاکہ آپ کے لئے کوئی بہانہ باقی نہ رہ جائے۔ وہاں ایک نئی بات جو ملی جس کا ذکر آپ لوگوں نے پورے دھاگے میں کہیں نہیں کیا کہ پلیسبو ایفکیٹ میں کسی شخص کی توقعات کے مطابق اس کا دماغ کام کرتا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص یہ سوچے کہ اس گولی کے کھانے سے میری بیماری ختم ہوجائے گی تو دماغ اس کی توقعات کے مطابق ری ایکشن کرکے اس کی بیماری کو ٹھیک کردیتا ہے۔ اب ذرا اسے میرے کیس میں دیکھ لیں کہ جیسا کہ میں اوپر اپنی کھانسی کے حوالے سے تجربہ شئیر کرچکا ہوں کہ کتاب میں سے دوا نکالی اور علامات اتنی ملتی تھیں کہ پورا یقین تھا کہ اس سے ٹھیک ہوجاؤں گا لیکن دماغ نے اس کے مطابق ری ایکشن نہیں دیا۔ چلیں آپ کہہ سکتے ہیں کہ تیسرے پیپر کے مطابق پلیسبو ایفیکٹ کبھی کبھی ظہور پذیر ہوتا ہے۔ کیا وجہ کہ جب ڈاکٹر نے وہی دوا تجویز کی جو میں پہلے ہی کوئی ایک ماہ سے استعمال کررہا تھا تو دل بہت خراب ہوا یہ سوچ کرکہ یہ تو میں پہلے ہی استعمال کررہا ہوں اس سے کیا فرق پڑے گا۔ لیکن اب میری دس سال کی کھانسی اس دوا کے استعمال کے بعد ٹھیک ہوگئی۔ پہلی دوا اور ڈاکٹر کی دوا میں بہرحال دوا کی طاقت کا فرق تھا جو عین ہومیوپیتھی کے اصول کے مطابق تھا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پلیسبو کے مطابق دماغ انسان کی امید کے مطابق ری ایکشن دیتا ہے لیکن یہاں میری امید تو کچھ بھی نہ تھی صرف یہ سوچ کرکے کہ اتنی مشکل سے نمبر ملا ہے اب استعمال کرہی لیں۔ تو پھر اسے پلیسبو کے تحت کیسے سمجھا جائے؟ جب کہ ہومیوپیتھی کے اصول نے یہاں بالکل ٹھیک کام کیا کہ دس سال کی بیماری کو تیس طاقت میں کچھ فرق نہ پڑا لیکن ہزار طاقت میں بیماری ختم ہوگئی۔ اس بات پر بھی روشنی ڈالی جائے کہ دس سال کی مستقل کھانسی کو تیسرے پیپر کے کیا مطابق minor ailments میں فِٹ کیا جائے گا؟ ماتھے کے گومڑ کو ہوسکتا ہے کہ آپ اس میں فِٹ کردیں لیکن کینسر کے مریض کو کہاں فِٹ کریں گے؟ یہ مت کہیے گا کہ کینسر کا کیس سنا سنایا ہے۔ ان صاحب کا آفس میرے آفس سے پانچ منٹ کی واک پر ہے اگر آپ کی خواہش ہوگی تو بنفس نفیس جاکر ان کی ہسٹری لے آؤں گا۔:)
مذاق برطرف اگر آپ واقعی اس گفتگو میں سنجیدہ ہیں تو سنجیدگی سے ان نکات کی وضاحت عنایت فرمائیے۔ کیونکہ پلیسبو ایفیکٹ کا اثر جن چھوٹی موٹی بیماریوں پر بیان کیا جاتا ہے یہ تینوں کیسز ہی ان میں فِٹ نہیں بیٹھتے۔
 

رانا

محفلین
یہ دعویٰ کہ ہر دوا کا اثر اس کی علامات رکھنے والے مریضوں میں یکساں نظر آتا ہے، اس کی کیا شرح ہے؟ نیز اس کی کنٹرولڈ سائنٹفک سٹڈیز کی کوئی رپورٹس بتائیں جن میں مروجہ طریق کار کے مطابق نصف مریضوں کو خالی گولیاں یا چینی کی گولیاں دی گئی ہوں اور نصف کو اصل دوا والی گولیاں اور ان دونوں قسم کے مریضوں پر اثرات کی شرح نکالی گئی ہو۔ ایسی سٹڈیز کنٹرولڈ ماحول میں کی جاتی ہیں جہاں یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ مریض نے اس مرض کے لیے نہ تو پہلے کوئی ادویات استعمال کی ہیں اور نہ اس سٹڈی کے دوران۔
مستند سائنٹفک پیپرز اور جرنلز کے روابط دیجیے گا۔:)
جناب میں نے اس حوالے سے بالکل بھی کوئی سرچ اب تک نہیں کی اور نہ ہی میرے علم میں ایسے کوئی پیپرز ہیں اور نہ ہی ان کی بابت معلوم کرنے کی ضرورت فی الوقت محسوس کرتا ہوں۔ ایسا مطالبہ تو آپ تب کریں جب میں ہومیوپیتھی کا ایمبیسڈر بن کر آپ کے سامنے آیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ ہوشیارباش ہومیوپیتھی پر ایمان لے آؤ ورنہ سب ایلوپیتھک جہنمی۔ خاکسار کو ذاتی طور پر دو واقعات کا تجربہ ہوا اور ایک قریبی شخصیت کا علم میں آیا۔ تو انہیں یہاں لاکر شئیرکردیا اور ہومیوپیتھی پر یقین رکھنے والوں کو دعوت دی کہ اپنے واقعات بھی شئیر کریں۔ اب کوئی ’’سائنسدان‘‘ باہر سے آکر زبردستی اس ’’سوڈوسائنس‘‘ کی میٹنگ میں گُھس آئے تو اور ضد کرے کہ مجھ سے پہلے بحث کرو کہ ہومیوپیتھی درست یا غلط اس کے بعد ہی تم لوگ اپنی محفل سجاسکتے ہو۔ تو پہلے بھی پوچھا تھا اور مکرر عرض ہے کہ ایسے ’’سائنسدان‘‘ کی کیا سزا ہونی چاہیے؟:)
 

رانا

محفلین
Initial singularity - Wikipedia
سائنس تو نام ہی مسلسل جستجو اور سیکھنے کے عمل کا ہے۔
آپ جو بات کر رہے ہیں اس کی مثال کچھ ایسی ہی ہے کہ جیسے کہا جائے کہ "آپ کے محلے کے فلاں دس لوگ آپ کے اصل باپ ہیں" اور جب آپ ثبوت مانگیں تو جواباً كہا جائے کہ "ابھی سائنس اس مقام تک نہیں پہنچی کہ ان دس کو آپ کا باپ ثابت کر سکے لیکن سائنس کے پاس تو اور بہت سی چیزوں کی وضاحت بھی موجود نہیں، پس ثابت ہوا کہ یہی دس مرد آپ کے باپ ہیں"۔
لگتا ہے آپ کی بھی کہیں کسی دکھتی رگ پر غلطی سے پاؤں آگیا تھا جو اس قدر برافروختہ نظر آرہے ہیں کہ گفتگو کے آداب ہی بھول گئے ہیں۔ کیا آپ کو اپنے پورے ذخیرہ علم سے ایسی پست مثال ہی ملی تھی بات سمجھانے کے لئے؟ سر بندے کی ذہنی سوچ کتنی بلند ہے اور اس کا کیا معیار ہے اس کا اندازہ ان مثالوں سے بھی بخوبی ہوتا ہے جو وہ اپنی بات سمجھانے کے لئے دیتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ آپ لوگوں کو آپ کی غلطی کی طرف توجہ دلانے کے لئے بطور مثال ویسی ہی کوئی سچویشن دی جائے تو بجائے اس کے کہ آپ لوگ یہ سوچیں کہ یہ بطور مثال ہے آپ اسی کا جواب دینا شروع کردیتے ہیں اور اگلا بندہ سرپکڑ لیتا ہے۔ جناب عالی اول تو یہ میرا اعتراض نہیں تھا لیکن پھر بھی آپ نے وکی پیڈیا کا مضمون جو اسمارٹ کاپی پیسٹ ماردیا ہے وہ اب بھی اس بات کا کوئی جواب نہیں دے رہا صرف یہ بتا رہا ہے کہ بگ بینگ سے پہلے ایک سنگولیرٹی تھی جس میں زمان ومکان اور تمام مادہ بند تھا۔ یہ سنگولیرٹی جس میں مادہ اور زمان و مکان بند تھا آئی کہاں سے اس کی کیا وضاحت کرتی ہے سائنس۔ خودبخود مادہ تو وجود میں نہیں آسکتا نا۔
اب آپ کو یہ بھی سمجھا دیا جائے کہ یہ میرا اعتراض نہیں تھا۔ پوچھا تو صرف یہ تھا کہ نتائج نظر آتے ہیں جیسے میں نے تین واقعات کا ذکر کیا۔ آپ لوگوں کا اعتراض تھا کہ دوا میں مالیکولز نہیں ہوتے اس لئے اس کا اثر نہیں مانا جاسکتا۔ اس بات کو رد کرنے کے لئے پوچھا تھا کہ اگر نتائج کا اس وجہ سے انکار کردیا جائے کہ نتائج کا سبب ثابت نہیں تو سائنس ہی کے مطابق عدم سے مادہ وجود میں نہیں آسکتا۔ تو صرف اس بناء پر اس تما کائنات کے مادے کا انکار کردیا جائے کہ اس مادے کے وجود میں آنے کی علت نامعلوم ہے؟
 

رانا

محفلین
اگر آپ کو مستند ویب سائٹوں کے روابط دیے جائیں تو آپ کہتے ہیں کہ یہ انگریزی میں ہیں اور اپنے الفاظ میں بتائیں۔۔۔ اور جب کوئی بے چارہ اپنے الفاظ میں بتانے کی کوشش کرتا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ "بغیر سوچے سمجھے ایسی بات کر دی"۔۔۔ جائیں تو جائیں کہاں :laughing:
یہ لیجیے اس "بغیر سوچے سمجھے کی جانے والی بات" کے حوالے۔۔۔ یہاں سے آپ خود سوڈو سائنس کی تعریف اور سائنس کے ساتھ اس کا موازنہ پڑھ لیں اور پھر انھی تعریفوں اور موازنوں کی روشنی میں بتائیے گاکہ ہومیوپیتھی کہاں فال کرتی ہے
Pseudoscience - Wikipedia
Science versus Pseudoscience
science VS pseudoscience skeptic
science-VS-pseudoscience-skeptic.jpg
آپ نے سوڈوسائنس کے جونکات بیان کئے ہیں ان میں سے جو میری سمجھ میں آئے ان پر تھوڑی بات کرلیتے ہیں۔ دیگر جو میری سمجھ میں نہیں آئے ہوسکتا ہے وہ ہومیوپیتھی کے خلاف ہی ہوں۔

1- Starts with a conclusion and then works backwards to confirm.
کیا ہومیوپیتھی کی تاریخ پڑھی ہے آپ نے؟ ڈاکٹر ہانیمن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا کوئی اصول ہوگا۔ ان کو ایک کتاب کا ترجمہ کرتے ہوئے سنکونا کی چھال کے عرق سے ایسے بخار کے ٹھیک ہونے کا علم ہوا جو سنکونا کی چھال کی زیادہ مقدار پینے سے ویسے ہی ہوتا تھا۔ انہوں نے اس پر تجربات شروع کئے کہ اس کی کیا وجہ ہے۔ ایک لمبے عرصے کی تحقیق کے بعد انہوں نے conclusion کے طور پر ہومیو پیتھی کے اصول دریافت کئے۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ بغیر سوچے سمجھے جب کاپی پیسٹ کیا جائے تو مسائل تو جنم لیں گے۔

2- Hostile to critism
ایک بار پھر کہوں گا کہ ہومیوپیتھی کی تاریخ پڑھ لیں اور کوئی ایک واقعہ بھی ڈاکٹر ہانیمن کا دکھا دیں جو اس اصول پر پورا اترتا ہو۔ اس کے برعکس اس دور کے ایلوپیتھک ڈاکٹرز کا حال بھی ضرور پڑھیے گا جنہوں نے ڈاکٹر ہانیمن کے خلاف ایکا کرکے انہیں ملک بدر کرڈالا۔

3- Uses vague jargon to confuse and evade
ہومیوپیتھی کا کونسا اصول آپکو مبہم لگتا ہے؟ اس قدر واضح اصول ہے کہ انسانی جسم ہر بیرون شے کے خلاف ایک ردعمل دکھاتا ہے۔ حملہ جتنا کمزور ہو ردعمل اتنا ہی طاقتور ہوتا ہے۔ مزید اصول اوپر پہلے ہی بیان کرچکا ہوں دہرانے کا وقت نہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک مبہم اصول بتادیں۔

4- Grandiose claims that go beyond the evidence
یہاں ایویڈینس سے مراد اگر ریسرچ پیپرز ہیں تو وہ جتنے آپ نے شئیر کئے ہیں وہ بہرحال خلاف ہیں۔ اس کی وجہ میں بعد میں ذکر کروں گا فی الوقت اتنا ہی کہ سوائے شفایاب مریضوں کے ہومیوپیتھی ابھی ایسی کوئی شہادت پیش نہیں کرسکتی۔ (جتنے پیپرز آپ نے شئیر کئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا ہوں)
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
برادرم، میں نے جو لگاتار ایک سال تک بے شمار ہومیوپیتھک ادویات کے استعمال کے واقعات بیان کیے، کچھ ان پر بھی تبصرہو جائے۔ :laughing:
جب آپ کو کوئی بیماری ہی نہیں تھی تو کس بات پر تبصرہ کیا جائے جب کہ فریقین کو مسلم ہے کہ اس میں مادہ نہیں ہوتا جو نقصان پہنچاسکے۔ جسم اس انتہائی کمزور حملے کے خلاف جو ردعمل دکھاتا ہے اس کے نتیجے میں آپ کس بیماری سے شفاپانے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔
 

رانا

محفلین
یہ توملٹی بلین ڈالر انڈسٹری کا وجود ختم کر سکتی ہے۔ صرف گذشتہ دس سالوں میں ٹرِلین ڈالرز سے زائد رقم کینسر ڈرگز پر خرچ ہوئی ہے، اگر ہومیوپیتھک ادویات سے یہ ممکن ہے تب تو اگلے دس سالوں کے لیے ایک ٹرلین کا فگر دس ہزار پر آ سکتا ہے اور اس 10 ہزار میں سے بھی 9 ہزاز لیبلز پرنٹنگ اور شیشیوں کا خرچ ہو گا۔
اگر اس پر کچھ علمی تبصرہ کردیا جاتا تو خوب تھا بجائے سوڈوسائنس کے حمایتیوں کی طرح تضحیک آمیز تبصرہ کرنے کے۔ اس کی وضاحت درکار ہے حضور آپ کی سائنس کی رو سے۔
 

رانا

محفلین
اور ادھر مجھے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی فکر کھائے جا رہی کہ انہیں اب ڈونیشن کون دیگا :nailbiting:
جناب عالی ہومیوپیتھی اتنی سادہ اور آسان چیز نہیں ہے۔ ہومیوپیتھی دیگر مروج طریقہ علاج سے ایک بات میں بہت مختلف ہے۔ ہومیوپیتھی کہنے کو بہت سادہ طریق علاج ہے لیکن حقیقی معنوں میں اس سے پیچیدہ اور مشکل طریق علاج شاید ہی کوئی اور ہو۔ دیگر طریقوں میں بیماری کے حساب سے دوا دی جاتی ہے اور وہ ہر مریض پر یکساں کام کرتی ہے۔ جبکہ ہومیوپیتھی میں علامات کی بنیاد پر دوا دی جاتی ہے جو ہر مریض کی مختلف ہوتی ہیں۔ پھر علامات ہی کافی نہیں مریضوں کا مزاج بھی فرق ڈالتا ہے۔ کسی شخص کی تکالیف سردی میں بڑھتی ہیں تو اس کے لئے صرف دیگر علامات کا ملنا کافی نہیں ہوگا بلکہ اس دوا کے مزاج میں یہ علامت بھی ہونی چاہیے کہ اس کی تکلیفیں سردی میں زیادہ ہوجائیں۔ اسی طرح گرمی سے تکلیفوں کے اثرات دیکھنے پڑتے ہیں۔ کسی کی علامات ملنے کے باوجود کسی نفسیاتی دباؤ کے تحت اس پر دوا کام نہیں کرے گی بلکہ اس کی ذہنی علامات کو ایسے معاملات میں فوقیت دینی ہوگی۔ ڈاکٹر ہانیمن نے بھی ذہنی علامات کو زیادہ اہمیت دی ہے۔یہ بات تو خود ہومیوپیتھ مانتے ہیں کہ اس میں کبھی کوئی مستقل نسخہ نہیں چلتا کیونکہ دوا بیماری کی بجائے مریض کی علامات پر منحصر ہے جو ہر مریض کے مزاج کے مطابق الگ ہوں گی۔ ہمیشہ ہر مریض کی تفصیل سے کیس اسٹڈی کرکے دوا تجویز کرنی چاہئے۔ پھر اگر کوئی بیماری آہستہ آہستہ جسم پر غالب آئی ہے تو وہاں علامات ملنے کے باوجود ایسی دوا کام نہیں کرے گی جس کے مزاج میں بیماری کو فوری ٹھیک کرنا ہے۔ یہ صورت حال اس کے برعکس بھی ہے کہ جہاں بیماری اچانک حملہ آور ہوئی ہے وہاں علامات ملنے کے باوجود آہستہ اثر کرنے والی دوا نہیں چلے گی۔ پھر ان دواؤں کی طاقتوں کا معاملہ ہے جس میں ابھی تک تحقیق کی بہت گنجائش ہے کہ ایک دوا کن مریضوں میں کن طاقتوں میں دینی چاہیے۔ بعض اصول تو موجود ہیں۔ لیکن کیونکہ علاج کی بنیاد علامات ہیں اس لئے بعض اوقات ان اصولوں پر بھی دوا کام نہیں کرتی کہ مریض بعض اہم علامات کو غیر اہم سمجھ کر بیان ہی نہیں کرتا۔ جس ڈسپنسری سے خاکسار نے دوا لی تھی وہاں مریضوں کے بیٹھنے کی جگہ ایک بہت واضح نوٹس لگا ہوا تھا کہ ڈاکٹر سے اپنی کوئی علامت نہ چھپائیں کہ ہوسکتا ہے جس علامت کو آپ معمولی سمجھتے ہوں وہی آپ کی دوا تجویز کرنے میں مدد دے دے۔ پھر طاقتیں دیکھنی پڑتی ہیں۔ بعض بیماریوں میں چھوٹی طاقت مفید ثابت ہوتی ہے اور بعض میں ابتدا میں ہی بڑی طاقت مفید ثابت ہوئی ہے۔ قصہ مختصر کہ یہ طریق علاج ابھی بھی بہت تحقیق چاہتا ہے۔ اس لئے اس کی کیس اسٹڈی کرتے ہوئے ہومیوپیتھی میں اچھی مہارت، بہت مستقل مزاجی اور وقت کی ضرورت ہے۔ تو اب ان چند سرسری باتوں کو دیکھ کر بتائیں کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس کی کیس اسٹڈی روایتی کیس اسٹڈی کی طرح نتائج دے سکتی ہے۔ اس کے لئے تو بہتر طریق یہ ہے کہ کسی ایسے اچھے ہومیوپیتھ جس کے ہاں شفا کی نسبت غیرمعمولی ہو، کے کلینک میں مستقل مزاجی سے بیٹھ کر کیس اسٹڈی کی جائے۔ اسی لئے آپ نے دیکھا ہوگا کہ جتنے ہومیو کلینکس کھلے ہوتے ہیں ان میں سے بہت کم ایسے ہوتے ہیں جہاں مریضوں کا غیرمعمولی رش دیکھنے میں آئے۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ یہی کہ عموما عام ہومیوپیتھ نے مشہور بیماریوں کے لئے زیادہ استعمال ہونے والی ادویات کو ازبر کیا ہوتا ہے اور سب مریضوں پر وہی چلانے کی کوشش کرتے ہیں نتیجتا لوگوں کو فائدہ نہیں ہوتا اور ان کے کلینکس کو شام کے اوقات میں دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کیا کماتے ہوں گے۔:) یہ چیز ہومیوپیتھی کے بنیادی اصولوں کے ہی خلاف ہے۔ ہومیوپیتھی میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ مریض کی مکمل ہسٹری اور اس کی تمام علامات کا جائزہ لے کر اس کے لئے دوا تجویز کی جائے۔ ایک بار اس کی علامات سے میچ کرتی دوا منتخب کرلی جائے تو اس پر اثر کرتی ہے۔ لیکن ہومیوپیتھ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایک دوا بعض اوقات تمام علامات ہونے کے باوجود کام نہیں کرتی۔ ایسی صورت میں وہ طاقت بدلنے کا مشورہ دیتے ہیں یا درمیان میں کسی ایسی دوا کو داخل کرتے ہیں جو اصل دوا کے اثر کو ایکٹو کردے۔

یہاں کراچی میں ایک ڈاکٹر نادر کا کلینک بہت مشہور تھا۔ اب تو وہ فوت ہوچکے ہیں ان کے اسسٹنٹ بیٹھتے ہیں لیکن جب تک وہ تھے ان کے کلینک پر اچھا خاصا رش ہوتا تھا اور لوگ صبح سویرے کلینک کھلنے سے بھی پہلے نمبر لینے پہنچے ہوتے تھے۔ اب ایسے کلینکس میں ہی ہومیوپیتھی کی کیس اسٹڈی بہتر ہوسکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ ریسیرچرز نے کیس اسٹڈی کے لئے اپنے جو قوائد بنائے ہوئے ہیں جن کا فاتح بھائی اور زیک نے بھی ذکر کیا، اتنے پیچیدہ طریق علاج کو ان پر کیسے جانچیں گے۔ لیکن ان ریسرچرز کو جیسا کہ میں مثال دی ڈاکٹر نادر جیسے کلینکس میں بھی ذرا مستقل مزاجی سے وقت دے کر کیس اسٹڈی کرنی چاہیے۔ ایک بار ڈاکٹر نادر کا بہت نام سن کر گوگل کیا تو ایک ڈاکٹر محبوب کی کیس اسٹڈی کا لنک ملا جو ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر نادر کے کلینک میں جب خود بعض کینسر کے مریضوں کو شفایاب ہوتے دیکھا تو انہوں نے مستقل ہومیوپیتھی طریق علاج کی پریکٹس شروع کردی۔ ڈاکٹر کینٹ بھی شائد ایلوپیتھک ڈاکٹر ہی تھے۔ اب آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پھر ہومیوپیتھی کیونکہ ریسرچرز کی ریسرچ پر نتائج نہیں دیتی اس لئے غلط ہے تو شوق سے یہ رائے رکھیں۔ ہم کبھی غلط نہیں کہیں گے۔:) مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب لوگ ہومیوپیتھس کی طرف سے یہ سب باتیں تسلیم کرنے کے باوجود ان کی چوپال میں لٹھ لے کر آجاتے ہیں کہ تم غلط ہو۔ بھائی وہ غلط ہیں تو آپ اپنے کام سے کام رکھیں انہوں نے کونسا آپ کو زبردستی ہومیوپیتھی کی میٹھی گولیاں کھلادی ہیں جو آپ غصہ کرجاتے ہیں۔:)
 
آخری تدوین:

شاہد شاہ

محفلین
جب آپ کو کوئی بیماری ہی نہیں تھی تو کس بات پر تبصرہ کیا جائے جب کہ فریقین کو مسلم ہے کہ اس میں مادہ نہیں ہوتا جو نقصان پہنچاسکے۔ جسم اس انتہائی کمزور حملے کے خلاف جو ردعمل دکھاتا ہے اس کے نتیجے میں آپ کس بیماری سے شفاپانے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔
انکے کہنے کا مطلب تھا کہ اگر دوا میں اثر ہو تو اسکا رد عمل بھی آنا چاہیے۔ فاتح بھائی سارا سال اوورڈوز ہومیوپیتھی کھاتے رہے اور انہیں کچھ نہیں ہوا۔ یہی ایلوپیتھی ادویات کیساتھ کرتے تو شاید آج یہاں موجود نہ ہوتے
 

جاسمن

لائبریرین
مریض اور ڈاکٹر کے رشتہ سے سہیلی کا رشتہ بنا جب میں ایم اے کر رہی تھی۔وہ علامتیں تلاش کرتی تھی۔مجھے الحمداللہ آرام آجاتا تھا۔
ممتاز مفتی سے متاثر ہوکر میری ایک اور سہیلی نے بھی ہومیوپیتھی پڑھی اور سیکھی اور گولڈ میڈل لیا۔وہ بہت علمی و ادبی شخصیت ہیں۔سو اپنی گوناگوں مصروفیات میں ہومیوپیتھی کو وقت نہ دے سکیں۔
یہاں میرے ایک شاگرد ہیں جو ہومیوپیتھک ڈاکٹر بھی ہیں۔ماشاءاللہ ماشاءاللہ اپنے اس پیشہ سے بہت ہی مخلص ہیں۔بہت محنت ،اخلاص اور دیانت داری سے پریکٹس کرتے ہیں۔
ان سے مجھے اور میرے گھر والوں کو کئی بیماریوں میں آرام آیا۔
چند نہیں بھی ٹھیک ہوسکیں۔
وہ بھی علامات پوچھتے ہیں۔
ان کے دو کیسز بتاتی ہوں۔
 

جاسمن

لائبریرین
ایک خاتون کو ان کے بیٹے لے کے آئے جنہیں برین ٹیومر کی وجہ سے ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا اور زندگی تین ماہ بتائی تھی۔
میرے اس شاگرد نے پندرہ دن کی دوا دی۔پندرہ دن بعد آئے کہ بالکل بھی فرق نہیں پڑا۔ڈاکٹر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ مرض کی دوا دی تھی اور اب انہوں نے اپنی غلطی کی درستگی کے لئے خوتوں کا خوب انٹرویو کیا۔ایک معدہ کی علامت پہ دوا دی اور خاتون ٹھیک ہوگئیں اور اللہ کے فضل سے پانچ سال سے اچھی زندگی گذار رہی ہیں۔
گندم سے الرجی کے کئی مریض ٹھیک ہوئے۔ایک خاتون 21 سالوں سے گندم نہیں کھا رہی تھیں۔ان کے علاج سے ماشاءاللہ گندم کی روٹی کھانے لگیں۔
ایک اور خاتون کے دیور ایلوپیتھک ڈاکٹر تھے۔خاتون نے ان کی لاعلمی میں ہومیو پیتھک علاج سے آرام پایا۔ایک دن بیٹھی روٹی کھا رہی تھیں کہ دیور صاحب آنکلے اور حیران و پریشان ہوئے۔جب پتہ چلا تو مشکل سے یقین کیا اور پھر خود بھی ان ڈاکٹر سے مشورہ کرنے لگے۔
ایسے کئی واقعات ہیں۔
 

رانا

محفلین
ایک خاتون کو ان کے بیٹے لے کے آئے جنہیں برین ٹیومر کی وجہ سے ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا اور زندگی تین ماہ بتائی تھی۔
میرے اس شاگرد نے پندرہ دن کی دوا دی۔پندرہ دن بعد آئے کہ بالکل بھی فرق نہیں پڑا۔ڈاکٹر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ مرض کی دوا دی تھی اور اب انہوں نے اپنی غلطی کی درستگی کے لئے خوتوں کا خوب انٹرویو کیا۔ایک معدہ کی علامت پہ دوا دی اور خاتون ٹھیک ہوگئیں اور اللہ کے فضل سے پانچ سال سے اچھی زندگی گذار رہی ہیں۔
گندم سے الرجی کے کئی مریض ٹھیک ہوئے۔ایک خاتون 21 سالوں سے گندم نہیں کھا رہی تھیں۔ان کے علاج سے ماشاءاللہ گندم کی روٹی کھانے لگیں۔
ایک اور خاتون کے دیور ایلوپیتھک ڈاکٹر تھے۔خاتون نے ان کی لاعلمی میں ہومیو پیتھک علاج سے آرام پایا۔ایک دن بیٹھی روٹی کھا رہی تھیں کہ دیور صاحب آنکلے اور حیران و پریشان ہوئے۔جب پتہ چلا تو مشکل سے یقین کیا اور پھر خود بھی ان ڈاکٹر سے مشورہ کرنے لگے۔
ایسے کئی واقعات ہیں۔
جاسمن بہنا یہ گندم سے الرجی اور برین ٹیومر والے کیس تو واقعی حیران کُن ہے۔ اور ایسے اچھے اپنے پیشہ سے مخلص ہومیوپیتھ واقعی بہت کم ہیں کیونکہ ہومیوپیتھی محنت اور عرق ریزی مانگتی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
جاسمن بہنا یہ گندم سے الرجی اور برین ٹیومر والے کیس تو واقعی حیران کُن ہے۔ اور ایسے اچھے اپنے پیشہ سے مخلص ہومیوپیتھ واقعی بہت کم ہیں کیونکہ ہومیوپیتھی محنت اور عرق ریزی مانگتی ہے۔
بالکل ایسا ہی ہے۔میرے یہ شاگرد ابھی پرسوں ان سے فون پہ بات ہوئی۔
عمرہ پہ بات ہونے لگی تو میری طبیعت پوچھنے لگے۔میں نے بتایا کہ عمرہ پہ تو میں بالکل ٹھیک رہی۔کہتے یہ آب زم زم کا بھی کمال ہے۔پھر بتانے لگے کہ وہ چونکہ اپنے مریض سے بہت باتیں کرتے ہیں تو کچھ لوگ اکتانے لگتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جب تک باتیں نہیں کروں گا اور پوچھوں گا نہیں تو نہ ہی مریض کو اس کے فائدے کی باتیں بتا پاوں گا نہ ہی مجھے درست علامتیں پتہ چل سکیں گی۔
انہوں نے وٹزایپ پہ کئی گروپ جوائن کئے ہوئے ہیں۔ان کے فورمز بھی ہیں۔مشکل کیسز پہ وہ ایسے فورمز پہ بحث و مباحثہ بھی کرتے ہیں۔مریض کی علامتوں اور ملتے جلتے کیسز پہ بات ہوتی ہے۔اپنے تجربات شئیر کئے جاتے ہیں۔
میرے یہ شاگرد بہت اچھے انسان ہیں۔میرا بہت زیادہ ادب کرتے ہیں۔فیس بھی نہیں لیتے مجھ سے۔بہت اصرار کروں تو کبھی کبھی بڑی مشکل سے سو پچاس لے لیں گے کہ تبرک کے طور پہ لے رہا ہوں۔
اللہ انہیں بہت زیادہ خوشیاں،آسانیاں اور صحت کامل عطا فرمائے۔آمین!
 

طمیم

محفلین
ہومیوپیتھی دوا میں ایک خاصیت بھی ہے کہ اس میں موجود پیغام جب جسم میں پہنچتا ہے تو جسم میں موجود علامات کو چیک کرکے ہر اس فنکشن پر کام کرتا ہے جس کی خاصیت اس دوا میں موجود ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور بات بھی تجربہ سے گذری کہ مثال کے طور پر آپ اگر ایک دوا کے پندرہ قطرےایک وقت میں لیتے ہیں وہ اوور ڈوزز نہیں ہے یعنی وہ اس طرح اثر نہیں کرے گی جس طرح ہر آدھے گھنٹے کے بعد تین قطرے۔ یعنی وہ تین قطرے جسم پر نہایت تیزی سے اثر کرتے ہیں۔ یعنی ایک وقت میں زیادہ مقدار میں دوا لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
 

طمیم

محفلین
اسی طرح ہومیوپیتھی ادویات کو بناتے وقت یا استعمال کرتے وقت احتیاط کرنی چاہیئے کہ ایک شیشی دوسری شیشی کے ساتھ نہ ملے کیونکہ اس طرح دوا خراب ہوسکتی ہے ۔ یعنی اگر آپ ایک دوا کا ڈھکن دوسری دوا پر لگا دیں یا کسی شیشی کو دھو کر اس میں دوسری دوا ڈال لیں تو وہ دوا خراب ہوجاتی ہے ۔ یعنی اس میں وہ اثر نہیں رہتا۔
 

جاسمن

لائبریرین
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ہومیوپیتھک بہت ساری میٹھی گولیاں کھالیں یا چائے میں ڈالتے ہیں تو وہ شاید بغیر دوا والی سادہ گولیوں کی بات کرتے ہیں۔
ہومیوپیتھک ادویات مائع شکل میں ۔۔۔۔سادہ گولیوں پہ چند قطرے ڈال کے دیے جاتے ہیں۔
یہ سادہ گولیوں میٹھے والی بھی ہوتی ہیں اور بغیر مٹھاس کے بھی ہوتی ہیں ۔ ان کے سائز میں بھی فرق ہوتا ہے۔ ان گولیوں کے پیکٹ ہوتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
ہومیوپیتھی دوا میں ایک خاصیت بھی ہے کہ اس میں موجود پیغام جب جسم میں پہنچتا ہے تو جسم میں موجود علامات کو چیک کرکے ہر اس فنکشن پر کام کرتا ہے جس کی خاصیت اس دوا میں موجود ہوتی ہے۔
کافی ایڈوانس اے آئی والی نینو ٹیکنالوجی ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
ہومیو پیتھی میں اگر واقعی بیماریوں کے علاج ہو جاتے ہیں، اور ہومیو پیتھ 'ڈاکٹروں' کے پاس اگر واقعی کوئی "سنجیونی بُوٹی" موجود ہے تو کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں بہت زیادہ لوگ ان سے علاج نہیں کرواتے؟

آخر، پاکستانی کی آبادی کوئی اتنی ترقی یافتہ اور ساری کی ساری ایسی عالم فاضل تو نہیں ہے کہ ہومیو پیتھی کو 'غیر سائنس' کہہ کر اس سے علاج نہ کروائے۔ ایلو پیتھی کے مقابلے میں ہومیو پیتھی کے معالجین کی فیس بھی انتہائی کم ہے، دوائیاں بھی انتہائی سستی ہیں اس کے باوجود ان کے کلینک خالی ہیں جب کہ ایلو پیتھک ڈاکٹروں کے پرائیوٹ کلینکوں پر بھی کئی کئی گھنٹے گزار کر باری آتی ہے، وہاں سے کئی کئی دن پہلے نمبر لینا پڑتا ہے اور سرکاری ہسپتالوں پر تو لائنیں لگی ہوئی ہیں، لوگ دھکے کھاتے پھر رہے ہیں لیکن پھر بھی ہومیو پیتھ کے پاس نہیں جاتے؟

کیوں؟

اس کی وجہ ہے"کامیابی کی شرح"!۔ کتنے لوگ ہیں جن کو ہومیو پیتھی سے علاج میں کامیابی ہوتی ہے، خال خال۔ کوئی ہو گیا تو تجربہ بھی بیان کر دیا۔ دوسری طرف ایلو پیتھی میں کامیابی کی شرح بہت زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ ادھر کی بجائے ایلو پیتھ ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں، ان کو بھاری فیسیں بھی دیتے ہیں، ان کی جلی کٹی بھی سنتے ہیں، انتظار کی کوفت بھی اٹھاتے ہیں، ہر طرح کی پریشانی کا سامنا کرتے ہیں لیکن علاج پھر بھی ان سے ہی کرواتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ ڈاکٹر ان کی بیماری کا علاج کر دے گا، کوئی بسترِ مرگ پر بھی اپنے دل کی ساری شریانیں بند کیے بیٹھا ہے تو اسے بھی امید ہے کہ اس کا آپریشن ہو گیا تو وہ ٹھیک ہو جائے گا، دوسری طرف بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔

اب ذاتی تجربہ ہومیو پیتھی کا:

ایک بار مجھے ٹانگ میں شدید درد تھی، کئی دن ٹھیک نہ ہوئی۔ ڈاکٹر کو بھی دکھلا لیا کچھ ٹیسٹ بھی کروا لیے، لیکن درد ختم نہ ہوا۔ کسی نے ایک حاذق ہومیو پیتھ کا بتایا، ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کے کلینک پہنچا تو بند، دوسری بار پھر گیا تو بند۔ ساتھ والوں سے پوچھا تو کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب کو کوئی دل کا مسئلہ ہوا تھا، پنجاب کارڈیالوجی لاہور گئے ہوئے ہیں اپنے علاج کے لیے! بس میرے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ ٹانگ کا درد کچھ دنوں میں خود ہی ٹھیک ہو گیا لیکن دل میں ایک یاد بیٹھ گئی ہومیو پیتھی کی جو ابھی تک موجود ہے!
 
Top