ناصر کاظمی اوّلیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو ۔ ناصر کاظمی

فرخ منظور

لائبریرین
ناصر کاظمی کی ویب سے ایک غزل ملی جو بہت ہی خوبصورت ہے اور شاید محفل میں پہلے پوسٹ نہیں ہوئی۔

غزل

اوّلیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو
یاد آئی تیری انگشتِ حنائی مجھ کو

سرِ ایوان طرب نغمہ سرا تھا کوئی
رات بھر اُس نے تیری یاد دلائی مجھ کو

دیکھتے دیکھتے تاروں کا سفر ختم ہُوا
سو گیا چاند مگر نیند نہ آئی مجھ کو

سائے کی طرح میرے ساتھ رہے رنج و اَلم
گردشِ وقت کہیں راس نہ آئی مجھ کو

دھوپ اُدھر ڈھلتی تھی دل ڈوبتا جاتا تھا اِدھر
آج تک یاد ہے وہ شامِ جدائی مجھ کو

شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہَوا کھینچ کے لائی مجھ کو

ناصر کاظمی

 

فاتح

لائبریرین
شہرِ لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہَوا کھینچ کے لائی مجھ کو
قبلہ فرخ صاحب! آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اب تو لاہور سے بھی عشق ہو چکا ہے ہمیں۔
خوبصورت یادیں تازہ کرنے پر شکریہ
 

شاہ حسین

محفلین
اوّلیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو
یاد آئی تیری انگشتِ حنائی مجھ کو

کیا تشبیہ ہے ۔ !
کیا خوب مطلع ہے جناب واہ واہ سبحان اللہ ۔
جناب سخنور صاحب بہت شکریہ شامل محفل کرنے کا ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
واقعی خوبصورت غزل ہے سبھی اشعار اچھے ہیں۔

مقطع واقعی صحیح بات ہے اور یہ ہوا مجھے بھی کھینچتی ہے مگر کیا کروں کہ 'کعبہ مرے پیچھے ہے' ;)
 

فرخ منظور

لائبریرین
واقعی خوبصورت غزل ہے سبھی اشعار اچھے ہیں۔

مقطع واقعی صحیح بات ہے اور یہ ہوا مجھے بھی کھینچتی ہے مگر کیا کروں کہ 'کعبہ مرے پیچھے ہے' ;)

شکریہ وارث صاحب۔ مگر حضور
گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ِان بتوں کو بھی نسبت ہے د ور کی
;)
 
Top