انٹرویو انٹرویو وِد اعجاز اختر

امن ایمان

محفلین
کسی انسان کو جاننے کے لیے کبھی ایک لمحہ کافی ہوتاہے اور کبھی یہ عمل انسان کی پوری زندگی پر محیط کرجاتا ہے۔ میں نے بھی تھوڑی سی کوشش کی کہ اپنے سوالوں کے ذریعے میں کسی حد تک آپ سے واقفیت حاصل کرسکوں ۔۔جان پہچان کےاس سلسلہ میں سوالات فکس نہیں تھے۔۔شخصیت اور موقع محل کے مطابق سوالات کی نوعیت بھی مختلف ہوتی تھی۔۔اب جبکہ کافی تھریڈز اپنے اختتامی مراحل میں ہیں۔۔اس لیے میں چاہتی ہوں کہ اس جگہ سب سے ایک طرح کے سوال پوچھوں جو کہ پورے انٹرویو کا خلاصہ ہوں۔ یہاں میں یہ بات بھی واضع کرتی جاؤں کہ یہ اختتام میری جانب سے ہوگا۔۔۔۔باقی سب لوگوں کو پوری اجازت ہے کہ آپ میرے بعد اس ممبر سے کچھ بھی پوچھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔یا پھر ممبر کی اپنی مرضی کہ وہ اپنے تھریڈ کو مقفل کرنا چاہیں تو ایسا کرسکتے ہیں۔
آخر میں میں آپ کی شکرگزار ہوں کہ آپ کے تعاون کی وجہ سے یہ سب ممکن ہوا ورنہ شاید بات ایک دولوگوں سے آگے نہ بڑھتی۔

آپ کے لیے سوالات۔۔
flower.gif


1: اب تک زندگی کی سب سے بڑی achievement؟

2: کس خواہش کے پورا ہونے کا انتظار ابھی باقی ہے؟

3: اپنے بارے میں ایک جملہ جسے سننے کے لیے کان منتظر ہوں؟

4: کیا آپ کے فیملی ممبرز یا دوستوں میں سے کسی نے آپ کے اس دھاگے کو پڑھا؟

5: اوپر والے سوال کا جواب اگر ہاں میں ہے تو ان کی رائے؟

6: اگر جواب نہ میں ہے تو کیوں نہیں پڑھایا۔۔۔اس کی وجہ؟

7: آپ کا اپنے دشمنوں کے نام کوئی پیغام؟ :wink:

8: آپ کا اپنےدوستوں کے نام کوئی محبت اور خلوص سے بھرا پیغام؟ :)

9: اردو محفل کو کیسا پایا؟

10: اراکینِ محفل کے لیے کوئی خاص پیغام؟

11: محفل کی بہتری کے لیے کوئی مشورہ؟

12: اگر آپ اردو محفل پر نہ ہوتے تو کہاں ہوتے؟

13: ایڈمن یا ناظم اعلیٰ سے کوئی شکایت؟ ( دل کی بھڑاس نکالنے کے اس سے بہترین موقع پھر کبھی نہیں آئے گا) :)

14: پاکستان کے حالات سدھارنے کے لیے کوئی مشورہ جس کو چاہے آپ نافذ نہیں کرواسکتے لیکن جذبہ رکھتے ہیں؟ (اعجاز چاء اصولاً تو آپ اس سوال کے جواب سے مستثنیٰ ہیں، کیوں کہ آپ پاکستانی نہیں ہیں لیکن اردو زبان کے ناتے، اور پھر ہم مذہب ہونے کی بنا پر آپ اگر بہتری کا کوئی مشورہ رکھتے ہوں تو۔۔۔۔)

15: اپنا شخصی خاکہ تحریر کریں جس میں آپ کی خوبیاں اور خامیاں بھی شامل ہوں۔۔اور کچھ اس طرح کے ہم آپ کو لفظوں سے پوری طرح پہچان لیں؟ ( جامع لکھنے پر نمبر ایکسٹرا) :)

16: کبھی یاد آنے پر آپ اس انٹرویو کو دوبارہ پڑھیں گے تو کیسا محسوس کریں گے؟ ( سچ اور صرف سچ)

17: آپ کس ممبر کا انٹرویو پڑھنا چاہتے ہیں؟( نیا تھریڈ کس کے لیے اوپن کیا جائے)

18: کوئی خاص موضوع یا سوال جس کا جواب آپ ذہن میں رکھتے ہوں اور میرا اُس جانب خیال نہ گیا ہو؟

19: اردو محفل پر آپ کا پسندیدہ سیکشن، پسندیدہ ٹاپک، پسندیدہ پوسٹ؟

20: اردو محفل پر آپ کا اپنا پوسٹ کیا بہترین دھاگہ، بہترین جواب، بہترین مشورہ؟

21: اس دھاگے کا ایسا ہی اختتام ہونا چاہیے تھا یا اس سے بہت بہتر کی امید تھی؟

22: امن ایمان کے لیے کوئی پیغام، مشورہ یا تنقید؟
 

مغزل

محفلین
امن و ایمان کا شکریہ :
رسید حاضر ہے میں مکمل پڑھنے کے لیے فرصت کا طلبگار ہوں۔
والسلام
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اب تو مجھے انٹر ویو کی ضرورت ہی نہیں رہے گی:( کہ اعجاز انکل کے بارے وہ سب سوال جو میں کرنا چاہ رہی تھی ان کے جواب تفصیل کے ساتھ یہاں موجود ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
کوئی بات نہیں، کئی ایک اراکین ایسے ہیں جن کا ابھی انٹرویو نہیں ہوا۔ ان میں سے کسی کا انٹرویو شروع کر دو۔
 

mfdarvesh

محفلین
وہ تو میں کر ہی دوں گا، مگر آپ نے محفل پہ انٹرویو جو کرنے ہیں، بولنے کا طریقہ تو آنا چاہیے نا
 

شمشاد

لائبریرین
بھئی یہ گپ سپ اس دھاگے میں نہ کریں۔
ناعمہ تم الگ الگ دھاگوں میں درویش بھائی اور نوید سیالکوٹی کا انٹرویو شروع کر دو۔
 

مزمل اختر

محفلین
لو ابھی ہی حاضر ہوں۔

ہ اعجاز انکل آپ کو اس محفل کا کب اور کیسے پتہ چلا؟

*میں تو اپنے آپ کو اس محفل کے بانیوں میں سے سمجھتا ہوں۔ میرے اردو کمپیوٹنگ یاہو گروپ پر ہی اس کی ساری منصوبہ بندی جاری تھی۔ یہاں تک کہ نام کی تجویز میں بھی میرا مشورہ شامل تھا۔ نبیل اور میری ای میل خط و کتابت بھی اکثر ہوتی تھی ان دنوں۔

ہ محفل پہ پہلا دن کس طرح گزرا؟ کچھ تفصیلی تاثرات؟
**یہ تو اب یاد بھی نہیں۔ ہاں یہ ضرور یاد ہے کہ پہلے محفل میں نہ اوپیرا کام کرتا تھا نہ فائر فاکس، اور میں یہی استعمال کرتا تھا۔ چنانچہ میں اردو میں ٹائپ کرنے میں بھی دقّت محسوس کر رہا تھا۔ یا کبھی میرا پاس ورڈ قبول نہیں ہوتا تھا۔ بہر حال میں محض دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا تھا کہ ایک مکمل اردو کی سائٹ بن گئ ہے اگرچہ یہ ارادہ نہیں تھا کہ میں دوسری فورموں کی طرح یہاں کی گپ شپ میں حصّہ لیا کروں گا۔ ابتدائ ارکان سب میرے جانے پہچانے تھے۔ قدیر، زکریا، جہانزیب، افتخار راجہ، منہاجین۔ شروع میں میں نے اس کے ادبی حصّے میں زیادہ حصّہ لیا، اور اس کے علاوہ اب بھی اردو کمپیوٹنگ اور اردو ادب سے متعلق پوسٹس ہی میری تعداد میں زیادہ ہوں گی۔ یعنی جنھیں واقعی پوسٹس کہا جا سکتا ہے۔ حاضری اور ٓنا ہے جانا ہے میں تو محض گپ شپ ہی ہوتی ہے، ان کو پوسٹس نہیں ماننا چاہئے اگرچہ انھیں کے شمار سے میں تین ہزار کے عدد کے قریب پہنچ رہا ہوں۔ شروع میں تو کئ ماہ تک میں یہاں زیادہ وقت نہیں گزارتا تھا، جب لاگ ان کرتا تو اپنے پچھلے سیشن سے بمشکل پچیس تیس پیغامات ہوتے تھے، ان میں اپنی دلچسپی کے پیغامات دو بیس منٹ میں پڑھے یا جواب دئے اور لاگ آف۔ دھیرے دھیرے گپ شپ میں بھی حصّہ لینے لگا اور پھر زیادہ وقت گزرنے لگا۔
محفل کے تین فیورٹ اراکین کے نام؟
**یہ سب سے مشکل سوال۔ میں تین کیا تیس نام آسانی سے گنوا سکتا ہوں۔خواتین میں ہی اگر جویریہ شگفتہ کے علاوہ ماوراء کا نام لوں تو فرزانہ کہیں گی کہ بابا جانی میں؟؟ اور ماوراء کا نام لوں تو وہ کہے گی کہ زاویہ کے جشن کا اب تک غصّہ ہےآپ کو کیا؟
تو یوں کرتا ہوں:
چار مذکّر ارکان:
شمشاد، رضوان، محب، شاکر (دوست)، ۔۔ لیکن پھر نبیل اور ظفری کو کہاں رکھوں؟ یہ تو چھہ ہو گئے!!
چار صنفِ نازک ارکان:
جویریہ مسعود (حال جیہ)، شگفتہ، فرزانہ، ماوراء۔۔۔ بلکہ ان کو بھی چھہ کر دوں تو مہوش علی اور امن ایمان۔ ٕ(مکھّن لگا رہا ہوں تاکہ تم آسان آسان سوال پوچھو۔ تم جوابوں کے جواب میں بھی سوالات کا ڈھیر لگا دیتی ہو نا۔ اب تک محب قیصرانی اور ماوراء کے انٹر ویو کے سارے پیغامات نہیں پڑھ سکا اور نہ اتنا وقت ہے۔ دیکھو اتنا وقت تو تمھارے حصّے میں ہی چلا گیا۔

ہ چند جملے اپنی شخصیت کے بارے میں؟


ہ محفل کا پسندیدہ سیکشن؟ ( جہاں آپ زیادہ پائے جاتے ہوں)
**اردو کمپیوٹنگ اور فانٹ سے متعلق پیغامات، اردو لائبریری اور گپ شپ، اردو ادب میں ادھر ذرا کم جانا ہو رہا ہے۔

ہ ہندوستان میں رہتے ہوئے پاکستان کے لیے آپ کے کیا محسوس کرتے ہیں؟
پاکستان کے لئے میرے جذبات وہی ہیں جو شاید زیادہ تر ہندوستانی مسلمانوں کے ہوں گے۔ کہ آخر اپنے ہی لوگ اجنبی کیوں ہو گئے۔ میں تقسیم کو بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک غلط قدم مانتا رہا ہوں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ مجھے فکشن میں بھی اتفاق سے وہی ناول افسانے بے حد پسند ہیں جو تقسیم کے پس منظر میں تھے۔ گڈریا، ٹوبہ ٹیک سنگھ، آنگن، آگ کا دریا، اداس نسلیں۔ وغیرہ

ہ آپ کبھی پاکستان آئے ہیں؟
** اب تک تو نہیں لیکن خواہش ضرور ہے۔ میرے کئ رشتے دار وہاں ہیں اگر چہ دور کے۔

ہ جیالوجی میں ماسٹرز آپ کے لیے فطرت کو سمجھنے میں کس حد تک مددگار ثابت ہوا؟
اس پر کبھی بطور خاص غور تو نہیں کیا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ میرا تعلق ہمیشہ شہروں سے رہا اس لئے دیہاتوں کی فضا کا محض کتابوں سے معلوم ہوتا تھا۔ فیلڈ ورک نے یہ مواقع دئے کہ نہ صرف گاؤں بلکہ غیر آباد جنگلوں سے بھی گزرے بلکہ قیام کیا۔ جنگلوں کی مہک، چرواہوں کے گیت، کھیتوں میں (اور کرناٹکا میں اکثر ناریل کے باغوں) میں گیلی مٹّی کی سوندھی خوشبو۔ اپنا ہی یہ شعر ابھی یاد آّ گیا
سوندھی مٹی کی مہک دور سے آتی ہے مجھے
سرد رحمت کی خبر آ کے سناتی ہے مجھے
ویسے اس ’پہیلی‘ کا جواب ہے بارش، کنوؤں یا ٹیوب ویلس کا پانی نہیں۔

ہ کبھی ریسرچ کے دوران کوئی یادگار واقعہ جو آپ کو اب تک یاد ہو؟
**ہندی ادیب یش پال کی کتاب کا نام ہی یاد آ رہا ہے۔ ’کیا بھولوں کیا یاد کروں‘۔ شاید یہ واقعہ جو مجھے ہی نہیں، میرے محکمے میں بھی اکثر یاد کیا جاتا ہے،
ہمارے یہاں ڈرائیوروں میں اکثر شراب نوشی کی عادت عام ہے، پاکستان میں بھی ہو گی۔ اتفاق سے ملازمت کے شروع کے دو تین سالوں میں میں بڑے کیمپ میں تھے جہاں چار پانچ ڈرائورس تھے اور ان کی اپنی اپنی رہائش گاہیں (زیادہ عرصے تک کہیں کام ہوتا ہے تو وہاں عارضی کوارٹرس بنا لئے جاتے ہیں لکڑی، ٹین وغیرہ کے، ان کو ہٹ مینٹس کہتے ہیں) اس لئے ان کی طرزِ رہائش کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا تھا۔ حیدر آباد میں جب تبادلہ ہو کر80۔79 میں کرناٹکا میں فیلڈ ورک کے لئے گیا تو ہم دو ہی افسران تھے اور ایک ڈرائیور۔ اور وہ صاحب بلا نوش۔ ہمارے خیمے ایک ندی کے کنارے تھے اور وانی ولاس ساگر نامی ڈیم کے گیٹس سے قریب ہی اس ندی پر ایک تنگ سی پلیا ہماری کیمپ سائٹ اور ڈیم کا علاقہ، ٹورسٹ سینٹر اور وانی ولاس پورہ گاؤں سے الگ کرتی تھی۔ موصوف جن کا نام راملو تھا، اکثر اس پلیا پر پڑے پائے جاتے تھے نشے میں دھت۔ کتنی ہی بار ان کو سمجھایا کہ بھائ کبھی اس ندی میں ہی گر جاؤ گے، اکثر گیٹ کھلے ہوتے تھے ان دنوں اور پانی خوب زور و شور سے ندی میں گرتا تھا۔ لیکن جب یہ نہ مانے تو پھر باقاعدہ ان کے خلاف مہم کرنی پڑی۔ باقاعدہ اس طرح کے ان کی بیہوشی کے عالم میں ہی پولس رپورٹ کی گئ۔ ان کا اسپتال میں معائنہ کروایا گیا اور سارے ثبوتوں کے ساتھ دفتر میں کارروائ شروع کی۔ اس کا فوری فائدہ تو یہ ہوا کہ ہم کو دوسرا مقامی ڈرائور رکھنے کی اجازت مل گئ اور راملو کو واپس بلوا لیا گیا، بعد میں کچھ دن سسپینڈ رہے راملو، لیکن یہ واقعہ ڈرائیوروں میں بھی مشہور ہو گیا شاید اور اس کے بعد مجھے جو ملے، وہ سب اچھے ثابت ہوئے، یا پھر اچھّے بنے رہے کم ز کم میرے ساتھ۔ بہر حال اب بھی مجھے وہ منظر نہیں بھولتا جب میں اور میرا یہ ساتھی داسو شام کو گھوم کر یا ایک مقامی ڈاکٹر کے پاس کبھی کبھی کھانا کھا کر لوٹتے ہپوتے پیدل اور پُلیا پر راملو ایسے پڑے ملتے کہ ہمیں شک ہوتا کہ شاید چل بسے۔ ایک بار تو ہم دونوں ہی ان کو سیدھا کھڑا کر کے گھسیٹتے ہوئے کیمپ واپس لائے، اور اکثر تو یہ ممکن نہ ہوتا تو کیمپ ٓ کر چوکیدار کو بلا کر لے جاتے۔ ٓخر ایک دن پولس نے ہی وہاں سے اٹھوایا اور سارا کیس بنا۔
(اس پر یہ یاد آیا کہ یہ حیدرآباد سے دوسرے سال کے فیلڈ ورک کی بات ہے۔ اس سے پہلے 1978۔79 میں جو میرا ساتھی اور دوست تھا، وہ 11 جولائ کو ممبئ کے علاوہ سری نگر میں دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہو گیا۔حملے میں پہلے آشیش گھوش رائے کی بیوی کابیری، سالے اور سالے کی بیوی اور ان کے کچھ اور رشتے دار ختم ہوئے اور اس دن آشیش زخمی ہوا تھا۔ اخبار میں خبر پڑھی تو دوپہر میں اسسے رابطہ کی کوشش کرتا رہا۔ پھر کولکاتا میں دوسرے ساتھیوں کو فون ملایا تو شام کو چھہ بجے خبر ملی کہ وہ بھی چل بسا۔ یہ لوگ کشمیر گھومنے گئے تھے۔ آشیش کو تو محض جیالوجی اور اپنے گٹار کے علاوہ کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اکثر ہم دونوں جگل بندی کرتے تھے، ان دنوں میں بانسری بجاتا تھا، آشیش کے ساتھ ہی میں نے اپنی بنگلہ بولنے کی مشق کی، اور اس سال کے بعد 1980۔81 اور 1981۔82 میں بھی آشیش فیلڈ کا ساتھی رہا داسو کے ساتھ ساتھ۔ میرے اب تک شائع ہونے والے پانچ چھہ مقالوں میں سے دو مقالے ہمارے مشترکہ ہیں۔ اور ایک تیسرے پیپر میں جو میرا تنہا تھا، میں نے اپنے دونوں کرناٹکا کے فیلڈ ساتھیوں۔ داسو اور آشیش گھوش رائے کے لئے اظہارِ تشکر کیا تھا۔ یہ اگرچہ واقعہ نہیں ہے لیکن میرے شعبے کے تین چار عزیز ترین ساتھیوں میں سے دو کا ذکر یہاں ہی ہو گیا۔

ہ بچپن کی کچھ خوشگوار یادیں جو اب تک آپ کے ساتھ ہوں؟
**شاید یہ بات کہ میرے بچپن کے کھیل بھی بڑے ’غیر طفلانہ‘ ہوتے تھے۔ ایک غیر متعلقہ بات یہ یاد آئ کہ میں نے ایک چھاپہ خانہ’ ایجاد‘ کیا تھا۔ ایک بانس کی قمچی کو بیچ میں سے چھیل کر اس طرح بناتا تھا کہ ایک سرے کو غلیل کی طرح سے کھنیچ کر چھوڑیں تو قوّت سے دوسرے سرے پر پڑے۔ ایک حصّے پر اُلٹا لکھتا تھا گیلی روشنائ سے اور دوسرے سرے پر کاغذ رکھ کر غلیل چھوڑتا تو کاغذ پر سیدھے حروف کے نقوش ابھر جاتے تھے۔ شاید یہ اسی وقت کی مشق ہے کہ میں اب بھی بہت تیزی سے الٹی تحریر لکھ سکتا ہوں، اردو ہی نہیں ہندی اور انگریزی میں بھی اسی تیزی سے۔
تو وہ بات یہ ہے کہ میں ایک دستی رسالہ نکالا کرتا تھا۔ (جریدوں کی ادارت کا شوق نیا نہیں، میں نے بہت ادارت کی بھی ہے بلکہ شاید میرا ریکارڈ ہو کہ سولہ سال کی عمر میں میں نے ایک رسالے کا باقاعدہ ڈکلیریشن لیا تھا۔ بچوں کے اس نہ چھپنے والے رسالے کا نام تھا تحفہ ڈائجیسٹ)
بات پھر دور تک چلی گئ۔ ہاں تو اس ہاتھ سے لکھے جانے والے رسالے کا نام تھا بازیچہ۔ والد سے نام کا مشورہ لیا تھا تو وہ بھی ٹھہرے غالب کے بھتیجے کہ استاد شاعر تھے۔ فرمایا "بازیچۂ اطفال‘ رکھو۔" اتنا لمبا نام ہم کو گوارا نہ ہوا اور ہم نے اسے محض ’بازیچہ‘ کر دیا۔ تو جناب نہ جانے کیا بات ہوئ تھی، میرے امتحان تھے یا کوئ اور بات کہ میرے والد جنھیں ہم ابّی صاحب کہتے تھے، کو اسی بات پر غصّہ آگیا۔ اور صرف اسی ایک بار انھوں نے لکڑی سے پٹائ کی۔ کہ میں ایسے بیکار کاموں میں وقت ضائع کرتا ہوں، اور میرے ہاتھ سے تازہ شمارہ چھین کر پھاڑ کر پھینک دیا۔ ہم بھی رو دھو کر چپ رہے۔ اگلی صبح ہی ابّی صاحب نے مجھے بلایا اور سفید کاغذوں کی ا یک موٹی تھپّی اور قلم دیا اور کچھ سمجھایا بھی۔ بس پھر کیا تھا۔ اتنے بہت سے کاغذ مل گي تو ہم نے فوراً رسالے کا سالنامہ شائًع کر دیا۔ اسی دور میں ایک ناول بھی شروع کر رکھا تھا۔ اس کا محض نام یاد رہ گیا ہے اب۔ ’لالو کی گائے‘
سمجھ نہیں آرہا کیا کہوں
میں نے اپنے دادا جی کو نہیں دیکھا، انکے بارے میں اب تک صرف سنا ہی ہے لیکن آپ کی باتیں پڑھ کر ایسا لگا جیسے مجھے میرے اپنے دادا جی کے بارے میں معلومات مل رہی ہو حالانکہ کے آپ کے اطوار دلچسپیاں دادا جی سے بالکل جدا ہےچ مگر پڑھتے وقت یہی لگا کہ میں کسی اپنے قریبی زشتہ دار کے بارے میں پڑھ رہا ہوں اور بہت خوشی ہونے لگی ہے
اردو محفل سچ میں بہت بہترین جگہ ہے وقت گزارنے کے لیے یا کہنا چاہیے اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنے کے لیے
یہاں کے اتنے پیارے لوگ، قدم قدم پر معلومات بکھری ہوئی ہے، اتنے سارے کام جنہیں صرف کبھی سوچا کرتا تھا محفل کے ممبران کی مدد سے کچھ ہی گھنٹوں میں پورے ہوجاتے ہیں
دل سے دعا نکلتی ہے آپ لوگوں کے لیے
آپ کے جوابات پڑھ کر مجھے کسی ناول پڑھنے سے زیادہ مزا آیا
لہکن میں نے شروع ہی کیا تھا کہ ختم ہوگیا
ممکن ہوتو آپ مزید لکھتے رہیں
اللہ آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائے آمین
ہمارے لیے بھی دعا کیجیے گا
 

مزمل اختر

محفلین
شکریہ جوجو۔ پہلے مزید جوابات جو صبح سے ٹائپ کرتا رہا ہوں آف لائن:
اعجاز انکل آپ کی زندگی میں کمپیوٹر کس طرح شامل ہوا؟ آپ کو اردو کمپیوٹنگ کا خیال کس طرح آیا؟

** یہ ایک اتفاق ہی رہا۔ ہوا یوں کہ 1988۔89 میں حکومتِ ہند کے پاس سرمائے کی کمی ہو گئ اور ہمارا ہر سال کی طرح اکتوبر نومبر میں فیلڈ جاناالتوا میں پڑ گیا کہ فنڈ نہیں مل سکے تھے۔ یہاں یہ بتا دوں کہ کچھ پروجیکٹس میں جہاں ڈرلنگ وغیرہ بھی ہوتی ہے، سارا سال کام چلتا ہے اور مستقل کیمپ چلتا رہتا ہے۔ اور باقی چھہ ماہ کے ہوتے ہیں، عملی طور پر پانچ ماہ کے ہی۔ عموماً نومبر سے اپریل کے درمیان۔ اس سال دسمبر تک فنڈ نہیں ملے تو تمام فیلڈ افسران کے لئے کمپیوٹر ٹریننگ کا پلان بنا دیا گیا۔ ڈیڑھ ماہ کی۔ اس میں ڈاس، ڈی بیس، اور بیسک وغیرہ کی ٹریننگ تھی۔ اسی دوران جب پروگرامنگ میں دل چپسی پیدا ہوئ تو ایک اتوار کو حیدرآباد کی سنڈے مارکیٹ سے پرانی کتابیں خرید لایا جو کموڈور اور زیڈ ایکس سپیکٹرم وغیرہ پرسنل کمپیوٹرس (جس زمانے میں ان کو ٹی وی سے اٹیچ کرنا پڑتا تھا ڈسپلے کے لئے) کی کتابیں لایا ارو بیسک کی کئ نئ کمانڈس معلوم ہوئیں جو خود ہمارے انسٹرکٹرس کو نہیں معلوم تھیں۔ مثلاً Play۔ کورس کے دوران ہی 26 جنوری آئ، ہندوستان کا یوم جمہوریہ۔ اور اس موقعے پر ہم نے ایک پروگرام بنایا جس میں ترنگا لہراتا تھا اور پس منظر میں قومی ترانہ جن گن من بجتا تھا۔ پرچم کشائ کی تقریب کے بعد ہمارے ڈپٹی دائریکٹر جنرل کو خاص طور پر کمپیوٹر سینٹر میں لے جایا گیا اور اس کی نمائًش کی گئ۔ لیکن اس کے بعد بیسک سے ربط چھوٹ گیا۔ بعد میں پھر فیلڈ ورک شروع اور اس میں میرا تخصص تھا "جیوکیمیکل سروے" یعنی مخصوص فاصلے پر مٹی یا پتھر کے نمونے اکٹھے کرنا اور ان کے کیمیائ تجزئے کے بعد نتائج کو پروسیس کرنا۔ اس کام کے لئے ڈی بیس کام میں آیا اور اس کام کے لئے پروگرام بنایا جس کو سٹیٹبیس (STATBAS. Statistics-Basic) کا نام دیا۔ یہ پروگرام کئ ساتھیوں نے بھی استعمال کیا۔ بعد میں کامران، میرے بیٹے نے کمپیوٹر کا ایک سالہ کورس کیا اپنی انجینئرنگ کے دوران 1998 میں تو اسی پروگرام کو فاکس پرو میں تبدیل کیا۔ خیر ٹریننگ کا زمانہ تھا 286 کمپیوٹرس کا۔ 1996 میں ہم نے خود کمپیوٹر لے لیا، جو مع پرنٹر (HP Deskjet 200) کے پچاس ہزار روپیوں میں پڑا۔ اس کی خصوصیات: آٹھ ایم بی ریم، 66 میگا ھرٹز انٹیل پروسیسر، 256 کے بی ویڈیو ریم، 560 ایم بی ہارڈ ڈسک!!!۔ 1997 میں تین کمپیوٹر رسائل کی خریداری شروع کی جس سے مختلف سافٹ وئرس سے شناسائ ہوئ۔ تب سے اب تک گھر کے کمپیوٹر پر چوری کا م س آفس کبھی انسٹال نہیں کیا، ونڈوز بھی او ایم ای ورژن انجینیر انسٹال کرتے تھے تو پوچھ لیتا تھا کہ آتھرائزڈ ورژن ہے یا نہیں۔ ستار آفس انھیں رسائل کی سی ڈیز سے انسٹال کرتا تھا۔ اور اسی دوران ہی لینکس بھی ہمیشہ سسٹم میں رہا، ڈوئل بوٹنگ 1998 سے ہی کر رہا ہوں۔
1997 میں ہی دفتر کے اپنے ساتھی عبد المغنی صاحب جو مصحف اقبال توصیفی کے نام سے اردو کے اہم شاعر ہیں، اردو کے کسی سافٹ وئر کے بارے میں پوچھا۔ وہ جیلانی بانو کے کزن بھی ہیں۔ انھوں نے جیلانی آپا کے صاحبزادے اشہر فرحان کا فون نمبر اور پتہ دیا۔ ان سے تو اس وقت ملاقات نہیں ہوئ، ان کے ساتھی راجیو نے اس کا شئرویر ورژن دیا۔ اور اس کو استعمال کرنا شروع کیا۔ لیکن کچھ زیادہ مزا نہیں آیا۔ 1998 میں جب حج کا سفر نامہ مکمکل کیا تو اس کو ٹائپ کرنے کا خیال آیا۔ اسی سال علی گڑھ گیا تھا تو ایک دوست نے ان پیج سے تعارف کرایا اور سی ڈی میں کاپی کر کے لے کر آیا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ مفت ہے۔ اسی کو استعمال کر کے اپنی یہ کتاب ٹائپ کی۔ پھر اس کے بعد ہی ایک اور پروجیکٹ کا خیال آیا۔ ہندی میں قرآن کی تفسیر کا کہ یہ اب تک نہیں ہے۔ اور اس سے یہ خیال پیدا ہوا کہ ہندی کے مفت پروگرام بھی محض فانٹس کا استعمال کرتے ہیں تو کیوں نہ ایسے فانٹس ہوں جو صوتی طور پر ہی کام کریں۔ ہندی کے لئے مختلف فانٹس 2002ء تک بناتا رہا۔ اور اسی دوران یہ بھی خیال آیا کہ اردو کے بھی ایسے ہی فانٹس ہوں اور یہ تجربے بھی کئے، اس وقت تک انٹر نیٹ سے اتنا ربط نہیں تھا۔ 2002 میں بچّوں کی فرمائش پر کیبل انٹر نیٹ لیا تو ہم بھی انٹر نیٹ سے جڑ گئے۔ سب سے پہلے یاہو گروپ بنایا quran-in-hindi. اس سے پہلے ہی ایک پروگرام بھی بنایا تھا جس میں اس وقت تک کی لکھی تفسیر کو اپنے ہی ّسکی فانٹس میں ٹائپ کر کے شامل کیا تھا۔ جن دوستوں نے ہندی سیکھ لی ہے، وہ ڈاؤن لوڈ کر کے دیکھیں، یہ پروگرام قرآن درپن کے نام سے یاہو گروپ قرآن ان ہندی کے فائل سیکشن میں ملے گا۔ (وہیں ایک انگریزی کی تفسیر بھی ملے گی بچوں کےلئے، فاتحہ اور آخری دس سورتوں کی تفسیر QMEZ- Quran Made Easyکے نام سے۔یہ بھی پروگرام ہے یعنی ایکزیکیوٹیبل فائل)۔ اس کے بعد اردو کمپیوٹنگ یاہو گروپ۔ اسی گروپ سے یونی کوڈ سے تعارف ہوا۔ اور جیسا کہ کہتے ہیں، باقی تاریخ ہے۔ 2002ء میں کامران امریکہ سے ایک بار آئے تو اپنا پرانا لیپ ٹاپ دے گئے۔ اور 2004ء میں ایک نیا لیپ ٹاپ بھی۔ پرانے کا ڈسپلے کارڈ جواب دے گیا تھا جلد ہی۔ تو یہ ہے ہماری کمپوٹنگ کی تاریخ۔


**آپ تقسیم کو غلط کیوں سمجھتے ہیں؟ ہماری آج جو الگ شناخت ہے وہ ہندؤں کے ساتھ رہتے ہوئے شاید کبھی نہ ہو سکتی۔۔۔آپ دیکھیں کہ ہندوستان کی سب سے بڑی ذبان ہندی ہے۔۔۔تو آپ سب جس اردو کی ترویج و ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔۔کیا ایک ساتھ رہتے ہوئے ممکن تھا؟۔۔۔ جب ہمارے پاؤں تلے اپنی ذمین ہی نہ ہوتی تو ہم اردو کو کس ناتے ذندہ رکھتے؟۔۔میں اگر غلط کہہ رہی ہو تو پلیز میری رہنمائی کریے گا۔

**اس کا جواب بہت تفصیل طلب ہے۔ مختصر یہ کہ میرا خیال ہے کہ تقسیم سے ان ہندوستانی مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا جو یہاں رہ گئے۔ اور یہ تو سب ہی مانیں گے کہ سارے مسلمانوں کی ہجرت تو نا ممکن تھی۔ اور جنھوں نے ہجرت کی بھی، ان کے ساتھ پاکستانی مقامیوں نے بھی کوئ اچھا سلوک نہیں کیا۔ لیکن اب جو حالات ہیں وہ اسی وجہ سے کہ مسلمان تعداد میں بڑی اقلیت بن گئے۔ اگر پاکتان نہیں بنتا تو ہماری تعداد نصف سے کچھ ہی کم ہوتی اور ہر معاملے میں مسلمان کی بات کو اہمیت دی جاتی۔ بلکہ یہوں کہنا بہتر ہوگا کہ ہندؤوں میں بھی جو تعصب پسند عناصر ہیں، وہ اس قدر اقلیت میں آ جاتے کہ ان کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ گاندھی جی تو آزادی سے پہلے ہپی کہتے رہے تھے کہ آزاد ہندوستان کی زبان ہندوستانی ہوگی۔۔ لکھنے میں فارسی رسم الخط میں اردو اور پالی رسم الخط میں ہندی، اور یہی رہتا تو اردو کی ترقی میں کوئ روڑے نہیں اٹکتے۔ اب بھی جو اردو کی مشکلات ہیں وہ حکومت یا انتظامئے کی وجہ سے نہیں ہیں۔ جہاں سکول کھلے بھی ہیں وہاں پڑھنے والے نہیں ہیں۔ کہ سب انگریزی سکولوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ جہاں بچے ہیں وہاں ٹیچرس کا عالم خراب ہیں، پابندی سے کوود ہی نہیں آ تے۔ لیکن یہ حالات تو سبھی سرکاری سکولوں میں ہوتے ہیں، ہندی اور دوسری زبانوں کے سرکاری سکولوں میں بھی کم و بیش یہی حالت ہے۔ جب تک کہ اردو والے خود سامنے نہ آ ئیں، اردو کی ترویج مشکل ہی ہے۔ بہر حال تقسیم نہ ہونے پر اردو کی حالت بہت بہتر ہوتی۔ الگ شناخت؟؟؟؟ یہ تو پاکستانیوں کی الگ شناخت ہے کہ وہ الگ ملک ہو گیا ہے۔ اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے طور پر ہم سب کی شناخت ہوتی۔ ہمارے پاؤں تلے اپنی زمین۔۔۔؟؟ لیکن اس کی اہمیت؟ درست کہ مسلمان کو کوشاں رہنے کی ضرورت ہے جب تک کہ دین اللہ کے لئے نہ ہو جائے، لیکن کیا پاکستان میں بھی مکمل شرعی نظام اب تک بھی قائم ہو سکا ہے؟؟ حج کے دوران ہی (شاید یہ بات میں نے اللہ میاں کے مہمان میں بھی کہیں لکھی ہے) ایک صاحب میرے پاس ہی طواف کر رہے تھے اور بآوازِ بلند ایک ہی دعا مستقل ان کو لبوں پر تھی، کہ اے اللہ ہمارے ملک پاکستان میں مکمل اسلامی نظام قائم کر دے۔۔۔۔!!

آپ کا یہ جواب پڑھ کے مجھے اے حمید یاد آگئے۔۔۔آپ کو فیلڈ ورک میں کس قسم کا کام کرنا پڑتا تھا؟ کبھی معدنیات کی تلاش میں کوئی نایاب چیز ہاتھ لگی؟

**ضرور۔ کرناٹکا میں اسی سال جس سال ہمارا ڈرائیور وہی شرابی راملو تھا، وانی ولاس پورہ گاؤں سے شمال شمال مغرب میں 35 کلو میٹر لمبی ایک زون (Zone)کے نشانات ملے تھے۔ جب کہ اس کی شمالی حد سے بھی کافی دور چترا درگا تانبے کی کان تھی اور وہاں ڈرلنگ جاری تھی مزید تانبے، جستے اور بعد میں سونے کے لئے۔ میری تجویز کردہ زون میں اگرچہ کچھ لوگوں نے ابتدائ کام کیا لیکن اسے زیادہ اہمیت کا حامل قرا رنہیں دیا۔ لیکن پچھلے دس سالوں میں سونے اور جستے کی کھوج میں ڈرلنگ وغیرہ بلکہ ذخیرہ ثابت کئے جانے کا کام اس زون میں کافی جنوب کی طرف بڑھ چکا ہے اور کافی مقدار میں سونا بھی مل رہا ہے۔ آندھرا پردیش میں بھی میری تجویز کے مقامات پر اب بھی کام جاری ہے اگر چہ یہ کم اہم ہیں۔ تو یہ بات تو میں نے بتا ہی دی کہ میرا زیادہ تر کام نمونے اکٹھے کرنے کا رہا ہے ور وہ بھی مٹّی کے، اس لئے پہاڑوں ہی نہیں کھیتوں اور گاؤوں میں بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ نومبر دسمبر میں جاتے تھے اور اپریل کے آخر یا مئ کے شروع میں واپس۔ سارے سال کا کام محض دو سال کیا تھا 1975 سے 1977 تک جب اڑیسہ کے مینگنیز انویسٹیگیشن کی ٹیم میں شامل تھا۔ اب یہ باتیں بتائ ہیں تو یہ بھی بتا دوں کہ 1975 تا 1978 کولکاتا میں پہلی پوسٹنگ تھی جہاں سے اڑیسہ میں کام کیا، پھر 1984 تک حیدرآباد میں رہا اور کرناٹکا میں کام کیا، اس کے بعد دو سال کے لئے شیلانگ چلا گیا ۔ شمال مشرق میں دو یا تین سال کی معین پوسٹنگ ہوتی ہے (آٹھ سال تک سروس والعں کے ئے تین سال کی پوسٹنگ، اس سے زیادہ ملازمت والوں کے لئے دو سال) وہاں میگھالیہ میں کام کیا۔ 1986 میں حیدرآباد واپس آیا (یہاں ہی 1988 میں گھر لے لیا تھا) اور 1998تک آندھرا پردیش میں کام کیا۔ اس کے بعد ڈیڑھ سال کمپیوٹر سیکشن کا انچارج رہا اور مزید ایک سیزن فیلڈ ورک کیا، 2000ء اکتوبر سے فیلڈ ورک سے فراغت ملی اور محکمے کے شعبۂ نشر و اشاعت سے متعلّق رہا، 2004ء میں ڈائریکٹر کے عہدے پر ناگپور میں پوسٹنگ ہوئ۔ اور یہ شعبہ ہے انجینیرنگ جیالوجی کا۔ یہاں مختلف بندوں (ڈیموں) پر میری نگرانی میں کام ہو رہا ہے۔

آپ اپنی تصنیفات کا کچھ مختصر تعارف ہمیں بتائیں پلیز۔۔کہ آپ نے اب تک کیا کیا لکھا؟

** شاعری تو شروع سے ہی کرتے رہے تھے۔ پہہلا مصرعہ جو اب بھی یاد ہے وہ تب کہا تھا جب سکول بھی نہیں جاتا تھا، پتنگ پھٹ گئ تو ہم نے عرض کیا
ہم نے پتنگ کو پھاڑ کر جھنڈا بنا دیا
اور والد نے اصلاح کی کہ "کو" نکال دو "ہم نے پتنگ پھاڑ کر جھنڈا بنا دیا" زیادہ درست ہے۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ واؤ گرنا اگرچہ جائز ہے لیکن "پتنگ کو" میں کاف یا گاف دونوں میں سے ایک حرف گر رہا تھا۔ ایک قطعہ والد نے کہہ کر دیا تھا اور گھر میں والد کے کچھ دوست آتے تھے (مشہور ترین مہمانوں میں بہزاد لکھنوی اوراعجاز صدیقی مدیر "شاعر"۔ اعجاز صدیقی تو کہتے تھے کہ میں "نجیب الطرفین" کی طرح "ادیب الطرفین" ہوں کہ والدہ بھی شاعرہ تھیں اور ان کا کلام بھی آئینہ اور شاعر میں چھپتا تھا) تو مجھ سے کہا جاتا کہ میں سناؤں اور میں والد کا قطعہ سنا دیتا تھا۔
آم کھاتے ہیں کاٹ کاٹ کے ہم
کبھی طوطاپری، کبھی نیلم
آم کھا کھا کے کہتے ہیں اعجاز
اے خدا یہ رہے سدا موسم
باقاعدہ تو کوئ کتاب شائع نہیں ہوئ، ادبی رسالوں میں ہی چھپتا رہا وہ بھی 1967 سے 1970 تک، اس کے بعد پچھلے سات آٹھ سالوں سے ہی مصحف اقبال توصیفی کی فرمائش پر "سب رس" یا "شعر و حکمت" (مدیران۔ شہر یار، مغنی تبسم) کے لئے کچھ دے دیتا ہوں۔ زیر طباعت (چاہے ای پبلشنگ کہہ لو) یہوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہیں:
اللہ میاں کے مہمان۔ حج کا سفر نامہ
صاد۔ طویل نظم
مائل بکرم راتیں ناولٹ
اپنی برہنہ پائ پر۔ مجموعہ کلام
دو ماہ پہلے ہی جب اپنی کتابوں میں فیض کی کتابیں ڈھونڈھ رہا تھا تو ایک اور کاپی ملی جس کے بارے میں بالکل یاد بھی نہیں تھی۔ یہ ایک ناولٹ کے دو باب ہیں "چھوٹی حویلی" کے نام سے۔ اب یاد بھی نہیں کہ کیا پلاٹ سوچا تھا اس کا۔
ایک افسانوں کا مختصر سا مجموعہ بھی ممکن ہے

ہ انکل آپ کو کس طرح کے لوگ اچھے لگتے ہیں؟
ایسے لوگ جن کا ظاہر و باطن ایک جیسا ہوتا ہے میری طرح۔ کوئ سوال پوچھا جائے تو مکمل تفصیل سے جواب دیتے ہیں میری طرح ہی کہ کوئ بات تشنہ نہ رہ جائے۔ اور بات چھپاتے نہیں۔ مجھ کو یہ سب لوگ کہتے ہیہں کہ یہ میری خرابی ہے کہ میں موقعہ محل نہیں دیکھتا اور کوئ بھی بات کہہ دیتا ہوں جو یاد آ جائے۔ بہت سی باتیں لوگوں سے چھپاتا نہیں۔ اب یہی دیکھو، جو کچھ میں نے یہاں لکھ دیا ہے، صابرہ (تمھاری آنٹی) ہی دیکھیں گی تو کہیں گی یہ سب لکھنے کی کیا ضرورت تھی!! کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ مجھے سیاست آتی ہے اور نہ میں لوگوں کا ایسا رویہ پسند کرتا ہوں کہ ہر بات کسی مصلحت کے مطابق کی جائے۔

ہ کیسی بات پر اختلافِ رائے کے دوران آپ کا مخاطب سے بات کرنے کا کیا انداز ہوتا ہے؟
آپ پرسکون رہتے ہیں یا بہت غصے میں آجاتے ہیں؟

دونوں ہی باتیں ہوتی ہیں۔ سوال اس کا ہوتا ہے کہ فریقِ مخالف کون ہے۔ اگر چھوٹا ہوتا ہے تو بلا تکلف غصّہ کر دیتا ہوں، بزرگ ہو تو قابو کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ میں لاجک کو تب بھی نہیں چھوڑتا۔ دلیل سے اپنی بات کو درست کرنے کی ضرور کوشش کرتا رہوں گا مخالف اگر قائل ہو جائے تو کیا بات ہے۔

ہ انکل آپ اپنی زندگی سے مطمعن ہیں؟
** نہیں اور ہاں۔ نہیں محض اس وجہ سے کہ اللہ میاں نے محض چوبیس گھنٹے دئے ہیں اور میرے منصوبے نہ جانے کیا کیا ہیں۔ ہندی تفسیر اب تک محض جز عمّ کی ہو سکی ہے جہاں سے روایت کے مطابق شروع کی تھی۔ اور وقت ہے کہ ہاتھ سے نکلا چلا جا رہا ہے۔ پانچ دس سال کی باقی عمر میں (اس کا بھی کیا بھروسہ، ممکن ہے کہ پچیس تیس سال اور جی سکوں، 56 سال کی تو عمر ہو چکی ہے) صدی کا کام لے رکھا ہے میں نے۔ دعا کرو کہ جتنا ہو سکے کر سکوں۔ یا کسی درست ہاتھ میں سونپ سکوں۔ہاں اس لئے کہ میں جو چاہتا ہوں کر رہا ہوں، اپنی نا پسندیدگی کا کوئ کام نہیں کر رہا۔ یہاں تک کہ نہ آج تک رشوت دی نہ لی مثال کے طور پر۔
نہیں بالکل نہیں آپ اپنے حصہ کا کام صحت کے زمانہ میں ہی پورا کرکے جائیں گے ان شا اللہ اللہ آپ کو عافیت کی دولت سے مالا مال فرمائے
 

مزمل اختر

محفلین
استادٍ محترم چار دن سے سفر میں تھے اور ان کا لیپ ٹاپ ساتھ نہیں‌تھا۔ تو ابھی آج ہی واپس آئے ہیں۔ کل تک امید ہے کہ جواب دے دیں گے :)
مجھے تو سمجھ نہیں آرہا یہ سب 2006 کی بات ہے مجھے لگ رہا تھا ابھی کچھ مہینے پہلے کی پوسٹ ہونگی
ابھی اس میسیج پر نظر پڑھی تو دیکھا کہ 2006 اور ابھی 2018 ہاہاہاہا
اب تک تو لکھنے والے سب بھول بھی گئے ہونگے
کاش میں بھی آپ کے زمانہ میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوتا
مجھے پرانی چیزیں بہت پسند ہے
 

مزمل اختر

محفلین
اعجاز انکل شاعر فطرتا بہت حساس ہوتا ہے۔۔آپ کس حد تک حساس ہیں؟ ( یہاں مجھ سے

دو والی ذبر نہیں بن رہی جو فطرتا کے اوپر ڈالتے ہیں oops: )

میں بہت حسّاس ہوں اور اس پر مجھے فخر ہے، شرمندگی نہیں۔ میں تو یہی کہتا ہوں کہ جو شخص رو نہیں سکتا، کھل کر ہنس نہیں سکتا، بلکہ غصّہ بھی نہیں کر سکتا، سچّا شاعر اور ادیب نہیں ہو سکتا۔ اور میری جذباتیت کا تو یہ عالم ہے کہ بہت سی تحریریں ہی رلا دیتی ہیں۔ ابھی پرسوں ٹرین میں ہی صبح جب اخبار والے اخبار بانٹنے لگے اور ہر انگریزی ہندی اخبار کی سرخی بسم اللہ خاں کے انتقال کی خبر تھی، ہندی اخباروں میں ایک کی سرخی تھی۔" اب شہنائ چُپ رہے گی"، اور اگرچہ اس خبر کا کئ دن سے ڈر تھا، لیکن اس سرخی نے ہی آنکھوں میں نمی پیدا کر دی۔ ایک دوسرے ہندی اخبار کی سرخی تھی "استاد الوداع"۔ حالاں کہ میں نہ شہنائ نوازی کا ایسا جانکار ہوں نا موسیقی کا ماہر ہی۔
ہ آپ کے نزدیک محبت کیا ہے؟
ایک ایسا جذبہ جس سے انسان کی تکمیل ہوتی ہے۔ وہ چاہے جنسِ مخالف سے ہو، چاہے اپنے فن سے یا کسی بھی مرئ یا غیر مرئ شے سے۔

ہ آپ کا پسندیدہ رنگ؟
عرصے تک تو غور تو نہیں کیا تھا۔ لیکن شادی کے چار پانچ سال بعد صابرہ نے ہی اس طرف توجہ دلائ کہ میں جو بھی ساریاں یو ملبوسات ان کے لئے خود خریدتا تھا، ان میں بیشتر سبز رنگ کے تھے۔ شاید یہی میرا پسندیدہ رنگ ہے۔ خاص کر پستئ۔

ہ آپ کی پسندیدہ خوشبو؟

جوہی، موگرا چمیلی یاسمن جو ایک ہی خاندان کی خوشبوئیں ہیں، مگر زیادہ تیز نہ ہو۔
ہ پسندیدہ موسم؟
موسمِ سرما۔ اگرچہ شاعروں کو پسند نہیں آنا چاہئے،
پھر جاڑوں کی رُت آئ
چھوٹا دن اور لمبی رات

ہ دن میں کون سا پہر سب سے اچھا لگتا ہے؟
صبح سویرے فجر کے بعد کا۔
محبت کے تعلق سے آپ نے جو کچھ بھی لکھا سیدھا دل میں جاکر چھا گیا اسے کل اپنا سٹیٹس ضرور رکھوں گا
معذرت:lol::rolleyes:
 

سیما علی

لائبریرین
استادِ محترم نہایت شفیق اور مہربان ہیں۔

میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو لمبی زندگی عطا کرے۔ آمین
اس میں بال برابر شک نہیں اُستادِ محترم انتہائی مشفق و مہربان ہیں !!!!
ہماری دعا ہے کہ پروردگار انھیں اپنی امان میں رکھے آمیں
 

سیما علی

لائبریرین
اُستادِ محترم
آپکے گرویدہ تو ہم اس محفل میں روزِ اوّل سے ہیں پر آج آپکے انڑویو کو ابھی تک جتنا پڑھا ہے آپکے بارے میں جان کر بے حد اپنائیت کا احساس ہوتا ہے ۔۔ایک ایک لفظ محسوس کیا جاسکتا ہے ۔۔نہ کوئی تصنع و بناوٹ کھلے دل سے ہر بات کا جواب انتہائی خوبصورت انداز میں ابھی پورا نہیں پڑھا آرام آرام سے پڑھیں گے کیونکہ آپکی باتیں پڑھنے سے زیادہ محسوس کرنا ہے امن ایمان نے بڑی خوبصورتی سے آپکی شخصیت کے ایک ایک پہلو کو اجاگر کیا ہے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ۔۔۔
جیتے رہیے پروردگار آپکو صابرہ بھابھی کو بچوں کو اپنی امان میں رکھے
آمین الہی آمین
 

سیما علی

لائبریرین
پاکستان کے لئے میرے جذبات وہی ہیں جو شاید زیادہ تر ہندوستانی مسلمانوں کے ہوں گے۔ کہ آخر اپنے ہی لوگ اجنبی کیوں ہو گئے۔ میں تقسیم کو بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک غلط قدم مانتا رہا ہوں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ مجھے فکشن میں بھی اتفاق سے وہی ناول افسانے بے حد پسند ہیں جو تقسیم کے پس منظر میں تھے۔ گڈریا، ٹوبہ ٹیک سنگھ، آنگن، آگ کا دریا، اداس نسلیں۔ وغیرہ
بے حد قابلِ احترام سوچ ہے آپکی ۔۔۔پتہ نہیں کیوں ہمیں بھی فکشن میں وہی ناول اور افسانے پسند ہیں جو تقسیم کے پس منظر میں لکھے گئیے ہیں !!!آگ کا دریا ،
ٹوبہ ٹیک سنگھ !اداس نسلیں ،گڈریا، رومانہ ،
ہاؤسنگ سوسائٹی ناولٹ جسےقرۃالعین حیدر صاحبہ کے شاہکار میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور جو 1966میں شائع ہو کر مقبول ہو ا۔ در اصل یہ ناولٹ بھی آگ کے دریا کی طرح بٹوارے کے حالات پر ہی ہے۔ہند و پاک پر جس واقعہ کا سب سے بڑا اور گہرا اثر پڑا ہے وہ بٹوارہ ہے۔ عینی آپانے اس تمام واقعے، حادثے اور سانحے کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے۔۔۔جسے پڑھ کر اس طرح محسوس ہوتا ہے گویا ہم اس دور میں ہیں اور اپنی آنکھوں سے سب دیکھ رہے ہیں۔۔
ہاؤسنگ سوسائٹی میں عینی آپا نے جہاں ایک طرف بٹوارے کے پہلے کے ہندوستان کا خوبصورتی سے نقشہ کھینچا ہے وہیں بٹوارے کے بعد ان افراد کی تبدیلی ذہن کو بھی بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔۔۔۔۔
پریوں جیسی لگنے والی لڑکی جسے سارے علاقے کے لوگ چھوٹی بٹیا کے نام سے جانتے ہیں کراچی میں آکر ایک بوسیدہ مکان میں اپنی ماں میم صاحب کے ساتھ مقیم ہوتی ہے اور پھر اپنے علاقے کے ایک معمولی کارندے کے بیٹے جمشید علی کے یہاں جو یہاں ایک بڑا کاروباری ہے نوکری کرتی ہے۔۔۔۔۔۔انقلابِ زمانہ کو جس خوبصورتی سے پیش کیا ہے یہ صرف وہی کر سکتیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
 
Top